سوال: اصحاب کہف کہاں کے رہنے والے تھے اور کیا وہ جس غارمیں تھے وہ اب بھی موجود ہے؟
جواب: حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر کافی عرصے بعد لوگ ایمان لائے۔ آپ کی دعوت فلسطین یروشلم سے شروع ہوئی تھی لیکن پھر آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پورے روم ایمپائر میں لبنان، اردن، سیریا، ترکی، اٹلی، مصر، لیبیا ہر طرف دعوت پہنچاتے رہے۔ آپ پر جو لوگ ایمان لائے، ان میں سے اصحاب کہف تھے۔ عیسائی حضرات نے جو تاریخ لکھی ہے، اس میں ان کے ہاں اختلاف ہے۔ بعض کے خیال میں یہ اردن کی غار ہے جبکہ اکثر حضرات کے نزدیک لبنان کی غار ہے۔ لبنان میں ہی اصحاب کہف کا چرچ بھی بنا ہوا ہے۔
سوال: خضر کون تھے؟ کیا وہ نبی ہیں؟ کچھ لوگ ان سے اب بھی ملاقات کا دعوی کرتے ہیں ،کیا قرآن وحدیث سے ایسا کچھ ثابت ہوتا ہے؟
جواب: اس میں قرآن اور حدیث میں خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی نوعیت پر ذکر نہیں ہے۔ سورۃ الکہف میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، اس سے خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے جو عمل کیا ہے، وہ نبی نہیں کر سکتے۔ مثلاً بچے کو قتل کرنا انسانوں پر حرام ہے اور کبھی نبی نہیں کر سکتے۔ حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام اس سفر میں ساتھ ہی تھے، وہ تو پھر خضر علیہ الصلوۃ والسلام کو پکڑ لیتے اور عدالت میں ان کا مقدمہ چلا کر انہی کو قتل کر دیتے۔ اس سفر میں یہ معلوم ہے کہ اس کا مقصد حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی کے زمین پر عمل کرتے ہوئےدکھایا گیا تھا جس کا مقصد حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کی تربیت تھی۔ اب چونکہ کوئی نبی، کسی بچے کو قتل نہیں کر سکتے تھے۔ اس سے یہی صحیح تجزیہ لگتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے فرشتے ہی خضر علیہ الصلوۃ والسلام تھے۔ فرشتے ہی یہ عمل کر سکتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی کے حکم سے موت پہنچا دیتے ہیں۔
آپ میرے سفرنامے میں ہی اس لوکیشن کو بھی دیکھ سکتے ہیں جہاں میرا اندازہ ہے کہ یہاں پر حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کا خضر علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات ہوئی تھی۔ آپ چونکہ سینا میں تربیت کر رہے تھے، اس لیے اس زمانے میں آپ کی تربیت بھی ہوئی تاکہ آپ بنی اسرائیل کو سمجھا سکیں۔ یہاں پر ہی میں نے اس چیپٹر جزیرہ نما سینا میں لکھا ہے جو مجمع البحرین کا ذکر ہے۔ لوگوں نے اسی سفر کو اپنا نفسیاتی غلامی کا طریقہ ایجاد کر دیا ہے تاکہ لوگوں کو قابو کیا جا سکیں۔
سوال: ذوالقرنین کون تھے؟ان کے بارے میں کیا معلومات مہیا ہو سکی ہیں؟
جواب: ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ ایران کے بادشاہ تھے۔ وہ نیک انسان تھے اور انہوں نے بنی اسرائیل کو عراق میں غلامی سے بچا دیا تھا۔ ان کا اصل نام سائرس ہے لیکن عرب لوگ انہیں ذو القرنین کہتے رہے کیونکہ ان کا تاج سینگ جیسی شکل میں تھا۔ اس لیے عربوں نے اپنی زبان میں انہیں ذو القرنین یعنی دو سینگ والا کہنا شروع کر دیا۔ ان کی تصویر آپ دیکھ سکتے ہیں جو اس زمانے میں تصویروں کو پتھر کی شکل میں مجسمہ بناتے تھے۔
https://en.wikipedia.org/wiki/Cyrus_the_Great
سوال: سورج غروب ہونے کی جگہ اور سورج طلوع ہونے کی جگہ سے کیا مراد ہے؟
جواب: یہ دونوں سفر میں غروب اور طلوع کی جو جگہ تھی، وہ پانی کی جگہ تھی۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ اس جگہ پہنچے جہاں کوئی بڑی جھیل تھی، اس جھیل میں پانی سے سورج طلوع کرتے دیکھا۔ اب ایران اور عراق سے آپ دیکھ لیجیے کہ بڑی جھیل آپ کو کیسپئن سی ہو سکتی ہے جس میں آپ کو سورج طلوع کرتے دیکھا۔ دوسری یہ بھی بات ہے کہ یہی علاقہ ہی یاجوج ماجوج کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔
مغرب کی طرف دو صورتیں ہو سکتی ہیں جہاں سورج غروب ہوتے دیکھا ہو۔ ایک تو بلیک سی بھی ہو سکتا ہے اور دوسری طرف ترکی کے مغرب میں سمندر ہو سکتا ہے۔ آپ کبھی کراچی گئے ہوئے ہوں تو آپ وہی شکل دیکھ سکتے ہیں کہ سورج کو سمندر میں غروب ہوتے دیکھا ہو۔ اب ظاہر ہے کہ سورج طلوع اور غروب نہیں ہوتا ہے بلکہ انسانوں کو یہ نظر آتا ہے کیونکہ زمین مشرق کی طرف گھومتی ہے تو سورج طلوع ہوتا ہے اور جب زمین کا ہمارا حصہ ختم ہوتا ہے تو ہمیں سورج غروب ہوتا نظر آتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے انسانوں کو سمجھانا تھا، اس لیے انسانوں کی زبان میں وہی الفاظ استعمال کیے جنہیں انسان سمجھ سکتا تھا۔ اب انسانوں کو کئی صدیوں بعد ہی سمجھ آیا کہ سورج زمین کے گردنہیں گھومتا ، بلکہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔
سوال: یاجوج ماجوج کون ہیں اور یہ اس وقت کہاں ہیں؟
جواب: اس کی تاریخ بائبل کی پہلی کتاب میں ہے۔ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے تین بیٹے ایمان لائے تھے اور تینوں سے ہی انسانوں کی نسل پیدا ہوتی رہی۔ اس کی تفصیل آپ میرے ترکی سفرنامہ میں دیکھ سکتے ہیں جس میں میں نے چیپٹر لکھا ہے “یاجوج ماجوج کی راہ۔
تین بھائیوں سے انسانوں کی شاخیں ہیں۔ سام رحمۃ اللہ علیہ کی نسل کو حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام نے دریائے دجلہ و فرات کی وادی کی جگہ دی تھی جو ترکی اور عراق میں ہے۔ حام رحمۃ اللہ علیہ کی نسل دریائے نیل کی وادی میں سیٹل ہوئی جن سے افریقہ میں انسان پیدا ہوتے رہے۔ تیسرے بیٹے یافث رحمۃ اللہ علیہ کی نسل کو ترکی کی وادی کی جگہ ملی جو آج کل ترکی، آرمینیا، آزر بائجان، تاجکستان، ازبکستان وغیرہ کا علاقہ ہے۔ یافث رحمتہ اللہ علیہ کی نسل زیادہ بڑی پیدا ہوتی رہی کیونکہ وہی پھر روس، چین، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا میں پھیلنے لگے۔ انہی کے بڑے بادشاہ کا نام تھا یاجوج اور پھر اگلے بادشاہ ماجوج تھے۔ دونوں بادشاہوں کے نام سے اس پوری نسل کو ہی یاجوج ماجوج کہا جاتا ہے۔ انگلش میں انہی کو گاگ میگاگ کہا جاتا ہے۔
Gog Magog
انڈیا کی تاریخ میں آپ پڑھ چکے ہوں گے کہ اسی درمیانی ایشیا کے علاقے کے لوگ آکر پاکستان اور انڈیا میں پھیل گئے اور انہی کی حکومت رہی۔ خاص طور پر راجپوت حضرات ہی جنگجو ہیں، اس لیے وہی پاکستان اور انڈیا کی ملٹری کی اچھی پوزیشن انہی کو حاصل ہے۔ اس میں آپ پاکستان انڈیا کے لوگوں کی نسلوں کو دیکھ لیجیے تو اکثر نسلیں وہی ہیں جو یاجوج ماجوج کی نسل سے ہیں۔
یاجوج ماجوج مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔ ان کی تاریخ میں زیادہ تر قبائلی طور پر رہتے رہے۔ اس لیے وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں تھے، اس لیے قبیلے آپس میں بہت زیادہ لڑتے رہے۔ جارجیا کے علاقےکو ذو القرنین رحمۃ اللہ علیہ نے فتح کیا تو وہاں کے شہری لوگوں نے درخواست کی کہ یاجوج ماجوج سے بچا دیں۔ اس لیے ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ نے اس شہر کو بچانے کے لیے دو پہاڑوں کے بیچ میں دیوار بنا دی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آرمینیا فتح کیا تو اس وقت انہوں نے اس دیوار کے آثار دیکھے تھے۔ موجودہ زمانے میں بھی اس دیوار کے آثار موجود ہیں۔
لوگوں نے غلط فہمی اختیار کی کہ جب یہ دیوار ٹوٹے گی تو پھر یاجوج ماجوج کی یلغار ہو جائے گی۔ حالانکہ یہ دیوار تو چند صدیوں میں ختم ہو گئی تھی۔ اس دیوار کی سیکورٹی بس ایک شہر کو بچانے کے لیے تھی۔ ورنہ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ یاجوج ماجوج کی اتنی بڑی تعداد کو ایک ہی دیوار سنبھال سکتی ہو۔ تورات اور قرآن مجید میں مسلمانوں کو یہی حکم دیا گہا ہےکہ وہ ان سب انسانوں تک اللہ تعالی کا پیغام پہنچا دیں۔ چنانچہ پہلے بنی اسرائیل دعوت پہنچاتے رہے اور پھر بنی اسماعیل یعنی مسلمان بھی اس دعوت پہنچاتے رہے۔
قرآن مجید میں یہ بتا دیا ہے کہ قیامت سے پہلے یوجوج ماجوج کو سپر پاور بنا دیا جائے گا ورنہ اس سے پہلے حام او رسام رحمتہ اللہ علیہما کی نسل ہی سپر پاور گزری ہے۔ پہلے حام کی نسل سپر پاور بنی جس کے لیے آپ مصر میں آثار قدیمہ دیکھ سکتے ہیں۔ پھر سام رحمتہ اللہ علیہ کی نسل سپر پاور بنی جن کی نسل میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل ہیں۔ اس کے بعد تیسری نسل یافث رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد کو بھی موقع ملا۔ تاریخ میں اسی وجہ سے مختلف قوموں کو مختلف ٹائم میں سپر پاور بننے کا موقع دیا تاکہ ان سب کے عمل کے مطابق آخرت میں ان کا فیصلہ ہو جائے۔
ان کی یلغار کو آپ تاریخ میں دیکھ سکتے ہیں حالانکہ لوگ یاجوج ماجوج کی یلغار کا انتظار کر رہے ہیں ،جو ہماری غلط فہمی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔ جب بنو عباس کی خلافت بنی تو ان کی طاقت یاجوج ماجوج کے ہاتھوں ہی بنی اور انہیں تاجکستان، ازبکستان، افغانستان سے 800 قبل مسیح میں سپر پاور بنے اور یہ مسلمان یاجوج ماجوج تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔ دوسری یلغار 600-656 عیسوی کلینڈر میں ہوئی جب منگول سپر پاور بنے اور یہ بھی یاجوج ماجوج کی نسل میں تھے۔ پھر ان کی اکثریت بھی ایمان لے آئے اور پھر انہوں نے انڈیا میں مغل بادشاہت پیدا کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔ تیسری یلغار 1500میں ہوئی جب ترکی حضرات نے سارے عرب ممالک فتح کر دیے اور یہ مسلمان تھے، اس لیے انہوں نے 1522 میں اپنا ٹائٹل خلیفہ بنا دیا اور یہ سلطنت عثمانیہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔ چوتھی یلغار 1750 میں یورپ نے کر دی اور پھر اکثر مسلم ممالک فتح کر دیے۔ یورپ کی اکثریت عیسائیوں کی تھی اور ان میں مخلص لوگ اسلام پر ایمان لے آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔ پانچویں یلغار 1940-1945میں خود یاجوج ماجوج نے آپس میں دوسری جنگ عظیم کر دی اور آپس میں مارنے لگے۔ اس میں یورپ کمزور ہو گیا اور اس کے بعد امریکہ اور روس ہی سپر پاور بنے اور اب تک امریکہ جاری ہے۔ ان میں بھی مخلص لوگ قرآن مجید کا مطالعہ کرکے ایمان لائے جس میں روس، چین ، امریکہ اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔ چھٹی یلغار کا سلسلہ ابھی 2021 میں شروع ہو گیا ہے کہ امریکہ کی بجائے چین یا روس سپر پاورز بن جائیں۔
اس کے بعد شاید کوئی اور یاجوج ماجوج قوم سپر پاور بنے یا ہو سکتا ہے کہ یہ ہی آخری یلغار ہو۔ اس کے بعد پھر زمین میں تمام انسان ختم ہو جائیں گے اور اس کے بعد قیامت آ جائے گی اور آخرت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
یہ دیکھیے کہ ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ کی دیوار کے کچھ آثار اس لنک پر موجود ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com