سوال: شیطان جن تھا یا فرشتہ؟
جواب: اس کا جواب قرآن مجید میں ہے کہ شیطان جن ہی تھا۔ وہ نیک جن تھا اور اس کا فرشتوں سے تعلق تھا اور گپ شپ کرتا تھا۔ سورۃ الکہف ہی میں ارشاد ہے۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا. 50
یاد کیجیے جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم پر سرنڈر کر لیجیے تو وہ جھک گئے، مگر ابلیس نہیں مانا کیونکہ وہ جنات میں سے تھا۔ چنانچہ اپنے رب کے حکم سے نکل بھاگا۔ اب کیا تم مجھے چھوڑ کر اُس ابلیس اور اُس کی اولاد کو اپنا مددگار بنا رہے ہو حالانکہ وہ آپ کے دشمن ہیں؟ بڑی ہی بری انوسٹمنٹ ہے جسے یہ ظالم اختیار کر رہے ہیں۔ (سورۃ الکہف)
سوال: قرآن و سنت میں یہ چیز زیرِ بحث ہی نہیں ہے کہ شیطان کی حیثیت جن یا فرشتے کی مقرر کی جائے۔ شیطان اور آدم علیہ السلام کا واقعہ ہمیں جو سبق دیتا ہے وہ لینا چاہیے تاکہ اس طرح کے سوالات میں الجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر اصحابِ کہف کے واقعے میں الله پاک نے اُنکی تعداد مقرر کرنے کے حوالے سے ہمیں روک دیا اور کہا کہ اس کا علم اللہ کے پاس ہے۔تا کہ اصل چیز کہیں چھپ نہ جائے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: اصحاب کہف کی تعداد اس لیے نہیں بتائی گئی تاکہ اہل ایمان پر امتحان ہو سکے۔ جو نیک لوگ تھے، ان میں تو کوئی ایشو ہی نہیں ہوا کہ جتنے بھی اصحاب کہف ہوں، ہمیں کیا لینا دینا۔ تعصب میں جو لوگ تھے، انہوں نے نمبرز کو مسئلہ بنا دیا اور اس میں آپس میں فرقے بنانے لگے۔ ایسی مثالیں ہمارے ہاں بھی ہیں کہ دین میں کوئی ایشو ہی نہیں ہوتا ہے لیکن لوگ اسی پر فرقے بنا لیتے ہیں۔ اس امتحان میں کامیابی ہے کہ ہم ان معاملات میں نہ الجھیں۔
ہمارے ہاں ایسے ایشوز پیدا کر دیے گئے کہ جس میں نہ ہمارا کوئی معاملہ ہے اور نہ ہمیں کوئی فائدہ یا نقصان ہے۔ اس میں پھر بھی لوگ بحثیں خوامخواہ کر دیتے ہیں اور پھر زیادہ شدت اختیار ہو جائے تو اس میں فرقے بھی بنا لیتے ہیں۔ قدیم زمانے میں اسی کو علم الکلام کہا جاتا ہے جس میں آپس میں بے وقوف بحثیں ہوتی تھیں۔ آج لوگ لوگ فیس بک اور یو ٹیوب میں ایسی بے وقوف بحثیں کرتے رہتے ہیں جس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔
سوال: آپ سے درخواست ہے کہ اگر اس بارے میں آپ کو معلوم ہے کچھ تو ضرور عرض کر دیجیے- تا کہ میرا دوست جس علمِ کلام کی بحث میں اُلجھا ہے اسے کچھ تسلی ہو؟
جواب: دوست کو یہی مشورہ کر لیجیے کہ انہی ایشوز پر غور کریں، جس کا ہماری زندگی سے کوئی تعلق ہے۔ جس معاملے میں ہمیں نہ نقصان ہے نہ فائدہ تو اس علم کلام میں اپنا ٹائم کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ شریعت سے متعلق معاملات میں غور کرنا اہم ہے، باقی کسی اور چیز میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تیسری چوتھی ہجری میں مسلمانوں کے ہاں بھی جب علم کلام کا شوق پیدا ہوا تو آپس میں بحثیں اور فرقے کرنے لگے۔ جو نان ایشوز تھے، انہیں ایشو بنا لیا اور جس میں واقعی ایشو تھا، اسے اگنور کرنے لگے۔
اس کی مثال وہی ہے کہ جب ہلاکو خان نے 656 ہجری یعنی 1258 عیسوی میں عراق پر حملہ کیا اور بغداد تک اس کا لشکر پہنچ گیا۔ اس زمانے کے جو اینکرز اور علماء تھے، وہ اس پر بحث کر رہے تھے کہ سوئی کے اندر سے اونٹ نکل سکتا ہے یا نہیں۔ جو اصل ایشو تھا کہ اپنی طاقت کو جنگ میں لگانا تو بھول گئے تھے چنانچہ بغداد کس طرح تباہ ہو گیا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com