سوال: کیا اسلامی دور میں کبھی متعہ پر حد نافذ نہیں کی گئی؟ تو کیا یہ زنا کے زمرے میں نہیں آتا؟ اور کیا ہم اسے گناہ صغیرہ سمجھیں؟
جواب: اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ہے۔ آپ کی نبوی جدوجہد میں 23 سال لگے اور اس میں سے 19 سال میں صرف 1500 فیملی ہی ایمان لا سکی تھیں۔ ان کی تربیت تو اچھی طرح کر دی گئی تھی کہ قرآن مجید کے مطابق ہمیشہ کی شادی کے ساتھ ہی ازدواجی تعلق جائز ہے ورنہ اس کے علاوہ حرام ہے۔ اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سمجھ آ گیا اور ان میں کوئی مسئلہ نہیں تھا اور کوئی صحابی بھی متعہ نہیں کرتے تھے۔
اس کے لیے زنا اور متعہ کا معنی ضرور دیکھ لیجیے۔ زنا یہ ہے کہ کوئی مرد اور عورت میں شادی نہ ہو اور وہ ازدواجی تعلق قائم کریں۔ متعہ یہ ہے کہ مرد و عورت عوام میں اعلان کیے بغیر آپس میں کچھ ٹائم کے لیے شادی کر لیں۔ ٹائم خواہ سال، مہینہ، دن بلکہ ایک گھنٹے کا ہو اور آٹومیٹک نکاح ختم ہو جاتا ہے۔ اس ایک گھنٹے میں وہ سیکس کی خواہش پورے کرکے فارغ ہو جاتے ہیں۔ اب اگر اس گھنٹے میں عورت میں بچہ پیدا ہونے کا سلسلہ ہو جائے تو اس 9 مہینے میں بچہ سامنے آئے گا اور اس بچے کو اپنے باپ کو کچھ معلوم نہیں ہو گا۔ اس لیے آپ خود کنفرم کر سکتے ہیں کہ زنا اور متعہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف اتنا ہی فرق ہے کہ بدکاری کو جائز ایجاد کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا سلسلہ 23 سال چلا اور آپ کے آخر میں آخری سالوں میں لاکھوں لوگ ایمان لائے تھے اور ان کی طویل تربیت کی ضرورت تھی جو مختلف قبائل اور مختلف شہروں اور دیہات میں رہتے تھے۔ سورۃ التوبہ آخری سورت نازل ہوئی اور اس میں اس کا حل یہی فرمایا کہ ہر قبیلے کے کچھ لوگ مدینہ آ جائیں اور وہ اپنی تربیت کر کے اپنی قوم یعنی اپنے قبیلے کے لوگوں کی تربیت کریں۔ ان میں کچھ لوگ مخلص تھے اور اکثریت تربیت یافتہ نہیں تھے۔ ان کے ایمان لانے کے اعلان کے بعد ایک دو سال یا چند مہینوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔
ابھی مختلف قبیلوں کی تربیت کی ضرورت تھی جو عرب امارات، عمان، کویت ، اردن جیسے علاقوں میں کرنی تھی اور ان کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکومت میں زیادہ مسئلہ بغاوتوں کو حل کرنا تھا جو کہ بہت بڑا مشکل کام تھا۔ ان لوگوں میں جاہلیت کی عادتیں جو موجود تھیں، انہیں ایک منٹ میں ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت میں زیادہ فوکس رومن اور پرشین ایمپائر کی فوجوں سے جنگیں جاری رہیں۔ تاہم اب عمر رضی اللہ عنہ نے قانونی طور پر مختلف قبیلوں میں یہ قانون سمجھا دیا کہ متعہ پر اب سزا ملے گی۔ لیکن تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگوں میں مصروف رہے اور جو تربیت یافتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مختلف علاقوں میں پڑھاتے رہے تھے وہ لوگوں کی تربیت کرتے رہے۔ وہ اپنی وفات تک یہی کچھ کر سکے ،جسے آپ تقریباً 70 سال کی تربیت کہہ سکتے ہیں۔ اس میں جہاں متعہ کا کیس آیا تو اسلامی پولیس نے ایکشن بھی کیا لیکن ایسے کیس اسٹڈیز کم ہیں کیونکہ جنہوں نے متعہ کیا تو اسے سیکرٹ رکھا۔
بعد میں مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے جنگوں میں مصروف رہے تو پھر پولیس کے پاس اتنا ٹائم کم ہی رہا کہ وہ متعہ پر قانون کو اپلائی کریں کیونکہ ان کے پاسں ٹائم کم تھا۔ بہرحال حکومت کسی حد تک کر سکتی تھی اور وہ کرتے رہے۔ بغاوتوں کا سلسلہ ہمیشہ رہا اور باغی تحریکوں نے پھر متعہ کو جائز قرار دے کر جاری رکھا اور آج تک ان میں جاری ہے۔ مخلص علماء جو تابعین، تبع تابعین اور اگلی نسلوں میں تھے، وہ لوگوں کی تربیت کرتے رہے۔ اکثر لوگوں کو اس گناہ کی سمجھ آ گئی اور انہوں نے متعہ کو چھوڑ دیا لیکن باغی تحریکوں میں یہ جاری رہا ، وہ لوگوں کو جعلی کہانیاں سناتے رہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مخلص لوگ بہرحال متعہ نہیں کرتے ہیں اور اس سے اجتناب کرتے ہیں۔
اس میں یہ بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ باغیوں ہی کو ضرورت پڑتی ہے کہ وہ متعہ استعمال کریں۔ باغی لوگ عام طور پر نارمل لائف نہیں گزارتے ، بلکہ وہ زندگی کا بڑا حصہ غاروں اور کیمپ میں چھپے رہتے ہیں، اس لیے وہ بیوی بچوں کی ذمہ داری ادا نہیں کرتے ہیں۔ جسم میں سیکس کی خواہش تو ہوتی ہے لیکن نفس لوامہ کے ذریعے گناہ میں دکھ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے باغی پارٹیوں کے لیے ان کے لیڈرز نے یہ طریقہ ایجاد کیا کہ متعہ کر کے کچھ منٹ گھنٹے میں اپنی ضرورت پوری کر لیں۔ طوائف خواتین کو سکھا دیا کہ وہ متعہ کر لیا کریں تو پھر گناہ نہیں ہو گا، چنانچہ انہوں نے اس طریقے سے گناہ کے دکھ سے جان چھڑا لی ہے۔
موجودہ زمانے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ باغی لوگ پھر متعہ کے ذریعے ہی اپنی ضرورت پوری کر لیتے ہیں۔ اگر طوائف نہ ملیں تو پھر خوبصورت لڑکوں کے ذریعے خواہش پوری کر لیتے ہیں اور انہیں متعہ کو جہاد کا حصہ قرار دے کر اس گناہ کو ثواب کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ قدیم زمانے میں تو باغیوں نے جاہلیت کے طریقہ متعہ کو استعمال کیا اور اس ٹائم سے لے کر آج تک باغی حضرات اسی طرح اپنے معاملے کو استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com