سوال: نماز میں امام صاحب کچھ نمازوں میں بلند آواز میں قرآت کرتے ہیں اور کچھ میں آہستہ آواز میں قرآت کرتے ہیں، یہ فرق کیوں رکھا گیا ہے؟
جواب:آپ کا سوال دلچسپ ہے جس کا کنفرم جواب کسی بھی عالم کو نہیں معلوم۔ سب علماء نے اپنے اپنے اندازے سے جواب دیا ہے کیونکہ وہ علماء اس زمانے میں موجود نہیں تھے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ تھا۔ یہ سب علماء کئی صدیوں بعدمیں پیدا ہوئے۔ اس لیے انہوں نے اپنا اندازہ ہی بیان کیا ہے جس میں مختلف فرق آپ کو کتابوں میں نظر آئے گا۔
اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی تاریخی اور نفسیاتی اعتبار کی بنیاد پر اندازہ کر سکتا ہوں۔ اس کے لیے یہ بہتر ہے کہ عہد رسالت کے زمانے کے ماحول کو دیکھ لیجیے۔ اس زمانے میں بجلی نہیں تھی بلکہ مسجد میں رات کو روشنی کے لیےچراغ ہی استعمال ہوتا تھا۔ صرف دن ہی میں انسان کو روشنی نظر آتی تھی۔ دن میں لوگ یا تو کھیت یا باغ میں کام کرتے اور کچھ لوگ باہر صحرائی پہاڑیوں میں چٹانوں پر شکار کرتے تھے تاکہ گوشت حاصل کریں۔ اس پورے کلچر میں سکون کا ٹائم مغرب سے ہی شروع ہوتا تھا ورنہ پورے دن میں بھاگ دوڑ ہی تھی۔ سفر بھی اکثر دن ہی میں کرتے تھے اور مغرب میں قافلہ رک جاتا تھا۔
اسی وجہ سے اس پورے ماحول کی بنیاد پر اجازت دے دی کہ ظہر اور عصر میں آہستہ سے آواز کر لیں تاکہ انسان اپنے بھاگ دوڑ کی بجائے اپنے ذہن میں اللہ تعالی کی طرف تعلق قائم کرسکیں۔ ظہر میں تو پھر کھیت اور باغ کے لوگ آرام بھی کر لیتے تھے۔ اس میں ظہر کی نماز میں زیادہ نفل نمازیں بھی پڑھ لیتے تھے۔ سب سے مشکل ٹائم عصر کا ہوتا تھا کہ پورے دن کے کام کو ختم کر کے بھاگ کر گھر کی طرف ہی جانا ہوتا تھا چنانچہ آپا دھاپی جیسی حالت ہوتی تھی۔ اس لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں عصر کی نماز کے متعلق احتیاط کا حکم دیا ہے۔
مغرب کی نماز میں لوگوں کو سکون حاصل ہوتا تھا۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مغرب کی نماز کے بعد خطبہ بھی ارشاد فرماتے تھے اور لوگوں کی تربیت بھی کرتے تھے۔ یہی سلسلہ عشا تک جاری رہتا اور بعد میں بھی ہوتا۔ سب سے زیادہ آسان سے سکون کے ساتھ اللہ تعالی سے تعلق قائم کرنے کا ٹائم تو انسان کو تہجد کے ٹائم پر ہی ملتا تھا۔ اللہ تعالی نے تہجد کی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرض کر دیا جبکہ امت کے لیے اسے نفل قرا ردیا۔ فجر کی نماز امت کے لیے فرض کر دی کہ انسان اسی وقت اٹھتے تھے۔
ہمارے زمانے میں شہروں میں ماحول تبدیل ہو گیا ہے لیکن یہ بھی دیکھیے کہ آفس یا فیکٹری میں ظہر اور عصر ہی میں بھاگ دوڑ کا ٹائم ہوتا ہے۔ظہر میں پھر بھی زیادہ ٹائم مل جاتا ہے کہ لنچ میں زیادہ منٹ مل جاتے ہیں لیکن عصر میں آپا دھاپی والی حالت ہو جاتی ہے۔ باقی فجر، مغرب اور عشا ءمیں انسان کو سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے ہر ٹائم پر نمازوں کا وہی اصول قائم رکھا ہے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ اگلی نسلوں میں بھی وہی ماحول باقی رہے اور وہ اللہ تعالی کے حضور سکون کے ساتھ فوکس کر سکیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com