سوال: عمومی طور پر بعض استشراق زدہ اور بعض الحاد کے علمبردار یہ طعنہ دیتے ہیں کہ اگر اسلام کا نظام اتنا بہترین ہے جتنا مسلمان دعوی کرتے ہیں تو پھر یہ زیادہ عرصہ چل کیوں نہیں پایا ۔اتنی جلدی اپنی افادیت کیوں کھو گیا؟ عبداللہ اسد، بورے والا
جواب: مستشرقین وہ لوگ ہیں جو مشرقی ممالک کے علوم کے ماہر بنتے ہیں۔ ان کی اکثریت ملحدین ہوتے ہیں اور چند ایسے ہوتے ہیں جو کسی مذہب پر قائم ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ملحدین یورپ اور امریکہ میں زیادہ تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور اسے علمی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اسلام بلکہ عیسائیت اور دیگر مذہب کے خلاف تعصب رکھتے ہیں اور پھر مذہب کی افادیت کو ثابت کرنے کے لیے یہ ثبوت پیش کرتے ہیں کہ یہ دیکھیں کہ لوگ اس مذہب پر عمل نہیں کرتے ہیں۔
حقیقت میں یہ معاملہ ہوا کہ اب سے 1500-1700 کے زمانے میں مذہب کے خلاف پراپیگنڈا کا سلسلہ شروع ہوا کیونکہ یورپ میں کنٹرول چرچ کا تھا، اور عوام یہ چاہتے تھے کہ وہ چرچ کے لیڈرز کی طاقت کمزور کر سکیں۔ اس کے لیے انہوں نے پراپیگنڈا کا طریقہ اختیار کیا اور دو صدیوں میں جا کر یورپ میں کامیاب ہوئے۔ اس وقت جب یورپ سپر پاورز بھی بن گئے تو انہوں نے مشرقی ممالک پر قبضہ بھی کیا تو اس کے اثرات ہمارے ہاں بھی آئے ہیں۔ اس کی تفصیل آپ میری اس کتاب اور لیکچرز میں پڑھ سکتے ہیں۔
سوال: اس کے مقابلے میں کیمونزم وغیرہم کا دورانیہ زیادہ ہے “۔ وغیرہ وغیرہ
جواب: کمیونزم کی اکثریت ملحدین ہی تھے، اس لیے انہوں نے تمام مذاہب پر شدید تنقید کرتے رہے۔ پھر جب انہیں روس اور مشرقی یورپ میں قبضہ بھی ہو گیا تو انہوں نے مذہبی طور پر جبرا ختم بھی کر دیا۔
سوال: اس اعتراض کاجواب بعض لوگ جیسے مودودی صاحب وغیرہ
جواب: مودودی صاحب نے اپنی جوانی میں الحاد کے اثرات دیکھ لیے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے میگزین میں بہت تحریر کرتے رہے تاکہ کم از کم مسلمانوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ آپ ان کی کتاب “تنقیحات” پڑھ لیجیے جس میں انہوں نے اپنے آرٹیکلز کو کتاب کی شکل میں اکٹھا کر دیا ہے۔
سوال: حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مورد الزام ٹھہرا دیتےہیں اور اس معاملے میں افراط وتفریط کرجاتے ہیں۔جو کہ اسلاف کا منہج نہیں ہے ۔
جواب: ملحدین کسی نہ کسی طرح جہاں موقع ملے تو وہ پراپیگنڈا کر لیتے ہیں۔ اس کے لیے مسلمانوں کی تنقید کرنے کے لیے موقع جعلی روایات سے مل جاتا ہے۔ 1900 سے پہلے انہیں وہ جعلی احادیث مل گئیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت پر منفی پراپیگنڈا مل گیا۔ اس زمانے میں علمی جواب ہی معقول ہو سکتا تھا چنانچہ مسلم اہل علم جیسے سر سید، ابو الحسن علی ندوی صاحب اور دیگر اہل علم نے تفصیل سے یہ بتایا کہ یہ سب جعلی روایات ہیں جو دوسری تیسری صدی ہجری میں پیدا ہوئے تھے۔
جب یہ تفصیلات سامنے آ گئیں تو مستشرقین کے معقول اہل علم نے سمجھ لیا اور پھر انہوں نے متعصب لوگوں کو بھی سمجھایا کہ تمہاری تنقید معقول نہیں ہے۔ متعصب حضرات کو پھر یہی موقع ملا کہ اور کچھ نہیں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف جتنا جعلی پراپیگنڈا ہے، اس سے استعمال کر لیں۔ چنانچہ 1900-2000 تک یہ سلسلہ جاری کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ یہ جعلی روایات بھی دوسری تیسری صدی ہجری میں ایجاد ہوئی تھیں، اور مسلمان اہل علم نے اس پر تنقید نہیں کی، یا کسی نے کی بھی تو کم کر سکے۔
اس پر مجھے ہی ماٹیویشن ہوئی کہ علوم الحدیث کے محدثین کے طریقہ کار کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق روایات پر ریسرچ کر سکوں چنانچہ پھر یہی خدمت کی جس کا مطالعہ آپ کر چکے ہیں۔
سوال: آپ اس اعتراض کا جائزہ کس تنقیدی پہلو سے لیں گے اور مذکورہ بالا جواب سے دامن ِعظمت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کس تحقیقی معیار پر داغدار ہونےسے بچائیں گے؟
جواب: اس کا حل یہی ہے کہ علمی طور پر اپنا شعور پیدا کر سکیں اور مسلمان بھائی بہنوں کے شعور کی خدمت کر سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تنقید جن حضرات نے کی ہے، انہوں نے علمی اعتبار سے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے اور اب اپنے آرٹیکلز اور لیکچرز میں کر رہے ہیں۔ اس کا جواب بھی ہم اسی طریقہ کار سے کر سکتے ہیں۔ بعض نامعقول مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ ہم احتجاج کے دھرنے کر لیں تو کر لیتے ہیں لیکن اس کے اثرات آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ علمی تنقید پر احتجاجی جلوس میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے۔
شعور کے لیے یہ کاوش میں اور کچھ بھائی جیسے آپ یہ کام کر رہے ہیں کہ ہم کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز کے ذریعے یہ کریں۔ اب جس مسلمان بھائی بہن کو شعور آتا ہے تو وہ پڑھ سن لیتے ہیں اور اس زہریلا پراپیگنڈا سے بچ جاتے ہیں الحمد للہ۔ جو نہیں کرنا چاہتے تو ان کی خدمت ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جو شخص زہر ہی کو پینے کا شوق پیدا ہو جائے اور سننا بھی نہ چاہیں تو ان کی کوئی خدمت نہیں کر سکتا ہے۔ اسی علمی شعور کی خدمت کے لیے پھر میں نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا، اگر آپ کو دلچسپی محسوس ہوئی تو آپ اس کاوش کی تفصیل پڑھ سکتے ہیں جو اٹیچ ہے۔ اگر اس کاوش میں آپ مزید کر سکیں تو آپ کے لیے انتظار کروں گا۔
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com