سوال: السلام علیکم سر۔ سورۃ ابراہیم آیت ۱۱ میں ہے کہ رسول اپنی امت کو فرما رہے تھے کہ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ اجازت کے بغیر آپ کو کوئی ثبوت دکھائیں۔ لیکن ہمارے ہاں پیروں اور اولیاء ککے بارے میں ایسا ایسا واقیات سناتے ہیں کہ وہ پانی میں چل لیتے تھے، سورج کو قریب بلا کے اس سے بوٹی بھون سکتے تھے، ایک دھاگے پے لٹک سکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ تو کیا یہ ان کے بارے میں صرف کہانیاں بنائی ہوئی ہٰن یا حقیقت تھی۔ کیوں کہ اگر دیکھا جائے تو اس آیات میں نبی فرما رہے تھے کہ انہیں اللہ تعالی کے اذن کے بغیر کچھ ثبوت نہیں دیکھ سکتے؟ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: آپ نے بہت ہی شاندار تجزیہ کر دیا ہے۔ اللہ تعالی نے یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا معاملہ کرتے ہوئے تمام رسولوں علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں فرما دیا ہے کہ انہوں نے بھی اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کوئی ثبوت جیسے معجزہ بھی دکھا سکیں۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بڑے حضرات ہی رسل تھے ۔ بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام تو دعوت میں شہید بھی ہوئے لیکن رسول کے معاملے میں تو اللہ تعالی نے مداخلت کر کے انہیں کوئی شہید نہیں کر سکے۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے منتخب رسول تھے۔ اس کے بعد آخری رسول اور نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے کہ ان کے بعد کوئی نبی پیدا ہی نہیں ہو سکتا ہے۔ آپ ایک بار پھر دونوں آیات کا مطالعہ کر لیجیے۔
قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ. (10)
اُن کے رسولوں نے فرمایا: کیا اللہ تعالی کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے؟ وہ آپ کو اس لیے دعوت دے رہا ہے تاکہ آپ کے گناہوں میں آپ کو معاف فرما دے (جو اِس سے پہلے آپ سے ہوئے ہیں) اور آپ کو ایک مقرر ٹائم تک مہلت دے۔
انہوں نے جواب دیا: آپ ہماری طرح کے ایک آدمی ہی ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ ہمیں اُن اشیا کی عبادت سے روک دیں جنہیں ہمارے باپ دادا (لیڈرز) پوجتے آئے تھے۔ (یہی بات ہے) تو ہمارے سامنے کوئی کلیئر ثبوت لے آئیے۔‘‘
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ. (11)
اُن کے رسولوں نے اُن سے فرمایا: یقیناً ہم آپ کی ہی طرح کے آدمی ہیں، مگر اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، فضل فرماتا ہے۔ یہ ہمارے اختیار میں نہیں ہے کہ اذن الٰہی کے بغیر ہم آپ کو کوئی ثبوت لا دکھائیں۔ (چنانچہ آپ کا یہ مطالبہ اللہ تعالی کے حوالے ہے) جبکہ اہل ایمان ہیں جو (اِس طرح کے معاملات میں) اللہ تعالی ہی پر بھروسا رکھیں۔ (سورۃ ابراہیم)
آپ دیکھیے کہ قدیم زمانے میں منکرین انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے مطالبہ کرتے تھے کہ اگر آپ سچ مچ نبی ہیں تو پھر ثبوت کے طور پر معجزہ دکھائیں۔ یہاں عربی میں لفظ سلطان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے کہ وہ ثبوت دکھا دیں۔ اس سے یہی کنفرم ہو گیا کہ جب رسول بھی اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے تو پھر غیر نبی کی کرامت یا معجزہ کون دکھا سکتا ہے؟
آپ نے بالکل صحیح فرمایا ہے کہ یہ کہانیوں کے سوا اور کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آج کسی زندہ پیر صاحب کے مرید جب کہیں کہ انہوں نے یہ کرامت دکھائی ہےتو آپ انہیں کہہ دیں کہ جناب آپ پیر صاحب کی کرامت کو مجھے سامنے دکھا دیں۔ میں آج یا کل آپ کے پیر صاحب کو ملوں گا تو ان کی کرامت دیکھ لوں گا۔ یہاں پر ان کے مرید یا تو بھاگ جائیں گے یا پھر آپ کے دشمن بن جائیں گے اور وہ بھی یہی بہانہ نکال دیں گے۔
صوفیاء کے ہاں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ بڑے صوفی عبدالقادر جیلانی صاحب نے یہ فرما دیا تھا کہ کسی انسان کو تم نے اگر کسی کو پانی پر چلتے بھی دیکھا تو تب بھی اسے چیک ضرور کر لو کہ وہ شریعت پر عمل کرتا ہے یا نہیں؟ تب تک یقین مت کرو کہ وہ ولی ہے جب تک کنفرم نہ ہو کہ وہ شریعت پر عمل کرتا ہے۔
یہاں کہانیاں صرف نفسیاتی غلامی کا طریقہ ہے جسے برین واشنگ کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیلات میں اپنی اس کتاب میں تجربے کے ساتھ لکھ چکا ہوں اور لیکچر بھی ہیں۔ ایک آدمی اگر مخلص ہے تو پھر اسے کسی کرامت یا معجزہ کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ تعالی کا پیغام دعوت کے ساتھ پہنچا دیں اور معاملہ ختم۔ پھر یہ دعوی کرنا کہ ہمارے پیر صاحب کی کرامت ہے تو اس کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لفظ کرامت اور معجزہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
ایک ذاتی تجربہ شیئر کرتا ہوں۔ ایک بار 1989 میں لڑکا تھا اور ایک بڑے نگران کے ساتھ کراچی پیر صاحب سے ملنے اور بیعت کرنے کے لیے گیا ہوا تھا۔ سارے سفر میں نگران صاحب اپنے پیر صاحب کی کہانیاں سناتے رہے جس میں انہیں کرامتوں کا ذکر تھا۔ واپسی پر ہم ٹرین پر واپس آئے ۔ راستے میں آپ کے شہر کے قریب ہی غالباً لودھراں یا بہاولپور ہی میں ٹرین رکی اور میں نماز کے لیے سٹیشن میں اترا۔ وضو کیا اور نماز پڑھنے سے پہلے ہی ٹرین چل پڑی۔ نگران صاحب نے مجھے جو طریقہ بتایا ہوا تھا ، اس کے مطابق میں تیزی سے بھاگ کر قریب ہی بوگی میں چڑھ گیا۔ ہماری پارٹی والی بوگی کافی دور تھی۔ میں ٹرین کے اندر ہی آہستہ آہستہ پھلانگ کر پارٹی والی بوگی میں پہنچ ہی گیا۔
اس نگران صاحب نے سارے ساتھیوں کو فرمایا : میں بہت پریشان تھا کہ مبشر کی والدہ سے معاہدہ کر کے مبشر کو کراچی گیا تھا اور وہ غائب ہو گئے تھے۔ میں نے اپنے کراچی کے پیر صاحب کو ذہن کے راستے میں درخواست کی کہ یہ معجزہ دکھا دیں کہ مبشر کو بچا کر میرے پاس پہنچا دیں تاکہ ان کی والدہ کو دکھ نہ ہو۔ یہ دیکھیں کہ پیر صاحب نے کراچی میں بیٹھے ہوئے ہی معجزہ دکھایا کہ مبشر کو واپس میرے پاس لے آئے ہیں۔
اب ان کے ارشاد پر سارے ساتھیوں پر معجزہ نظر آ گیا اور پھر سب نے اپنے شہر پہنچ کر سب مریدوں کو سناتے رہے اور برین واشنگ کرتے رہے۔ ان حضرات نے لفظ معجزہ کو کرامت کہہ دیتے ہیں کہ معجزہ انبیاء کرام کا ہوتا ہے اور پیروں کی کرامت ہوتی ہے۔ لیکن چیز ایک ہی ہوتی ہے۔ اس سے آپ دیکھیے کہ کیسے برین واشنگ کے ذریعے ہی اپنے مریدوں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتے ہیں۔ جب ہم نے قرآن مجید پڑھ لیا تو پھر میں نے بھی اس بیعت کو کینسل کر دیا اور صوفی ازم سے دور ہو گیا کیونکہ محض دعوت اور تربیت کے لیے کسی کرامت کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن برین واشنگ کے لیے ضرورت آتی ہے۔
سوال: آیت 26 میں خبیث کلمہ کی مثال خبیث درخت کی سی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب: یہاں پر وہ مثال بیان فرمائی ہے۔ مثال کا مقصد صرف وضاحت کے طور پر ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کلمہ سے مراد وہ تصور یعنی کانسپٹ ہے۔ اب اس کی وضاحت کے لیے درخت کی مثال دی ہے۔ موجودہ زمانے میں تو ہم نفسیاتی تصورات اور ٹیکنیکل معاملات کو انگلش میں سمجھاتے ہیں۔ سٹوڈنٹس کو تو سمجھ آ جاتا ہے لیکن عام آدمی کو نہیں آتا ہے تو پھر تمثیل یا مثال کے طور پر انہیں بتایا جاتا ہے۔
اللہ تعالی نے اچھے اور حقیقی تصورات جیسے توحید کو اچھے درخت کی مثال بیان فرمائی۔ پھر فراڈ کو خبیث درخت کی مثال دی۔ خبیث درخت کو آپ کسی بھی باغ یا کھیت میں دیکھ لیجیے کہ جس میں ایسا درخت بویا جاتا ہے لیکن پھر بھی چند دنوں یا مہینوں میں ہی وہ فنا ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی انفیکشن ہوتا ہے اور بیمار ہوتا ہے۔ یہ خبیث درخت ہویا جو شرک کی مثال ہے۔ جو درخت بیمار نہ ہو بلکہ درست ہو تو پھر کئی سالوں تک مضبوط رہتا ہے اور پھل نکلتا رہتا ہے۔ یہ اچھا درخت ہے جو توحید کی مثال ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com