داڑھی، عمامہ، ٹوپی اور اونچی شلوار کیے بغیر نیکی نہیں ہو سکتی ہے؟

السلام علیکم سر

میں نے پہلی پارہ کی آیت 1:39 پڑھی ہے۔ اور میرے پاس آپ سے کچھ سوالات ہیں۔

آپ کو اس طرح لکھنا چاہیے تھا کہ آپ نے سورۃ البقرۃ  کی آیات 1-39 پڑھ چکا ہوں۔  ان سوالات کا جواب دیجیے۔ محمد وکیل، کروڑ پکہ

سوال: داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب: داڑھی ایک بہت عمدہ اچھا عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم داڑھی رکھتے تھے، اس لیے ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ ہاں کسی حدیث میں بھی یہ حکم نہیں ہے کہ داڑھی کٹوانا یا منڈوانے میں کوئی پابندی نظر نہیں آئی ہے۔ فقہاء نے بس پچھلی صدی میں ہی زمانے میں اس  میں بحث کی ہے کیونکہ لوگ اب لوگوں نے شیو کرنا  شروع کیا ہے، ورنہ اس سے پہلے مسلمان اور غیر مسلم سب ہی داڑھی رکھا کرتے تھے۔  انڈیا میں مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی سب ہی داڑھے رکھتے تھے۔ 

اس میں آپ علوم الفقہ کی میری کتابوں میں آپ تمام فقہاء  کی بحث کا مطالعہ کر سکتے ہیں اور جب دل چاہا تو اس میں خود  عقلی دلائل کو پڑھ کر فیصلہ کر لیجیے گا۔ اس میں بہرحال تمام علماء متفق ہیں کہ داڑھی ایک اچھا اور عمدہ عمل ہے۔ 

بہت معذرت کہ داڑھی کی ڈسکشن میں نے اس میں نہیں لکھے ہیں۔ اس میں سادہ بات ہے کہ فقہاء میں داڑھی کے ہونے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بلکہ اس زمانے میں غیر مسلم بھی داڑھی رکھتے تھے۔ اس لیے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ داڑھی رکھنی چاہیے۔ 

اختلاف تو ماڈرن ٹائم میں پیدا ہوا ہے کیونکہ جب انسانوں نے داڑھی منڈوانی شروع کی ہے تو اکثر فقہاء کے نزدیک داڑھی رکھنی چاہیے اور داڑھی منڈوانا گناہ ہے جبکہ جدید فقہاء کے نزدیک منڈوانا گناہ نہیں ہے بلکہ جائز ہے۔ اس میں ڈسکشن میں نے سوال جواب کی شکل میں کر دی ہے تو فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ داڑھی رکھنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ پاکستان انڈیا میں فقہاء کی اکثریت یہی سمجھتے ہیں کہ داڑھی منڈوانا یا کٹوانے کو گناہ سمجھتے ہیں۔ مصر اور دیگر عرب ممالک میں گناہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہ ڈسکشن سوال جواب کی شکل میں اس لنک پر موجود ہے۔ 

سوال: عمامہ پہنتا ہے۔ اس کی پتلون اس کے ٹخنوں سے اوپر ہے۔ وہ دن میں 5 نمازیں پڑھتا ہے۔ لیکن وہ ایمانداری سے بات نہیں کرتا، جھوٹ بولتا ہے۔ وہ لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے.دوسری طرف، ایک اور آدمی، جس کی داڑھی نہیں ہے، پینٹ شرٹ پہنتا ہے۔ وہ نماز بھی پڑھتا ہے۔ اور وہ لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتا، سچ بولتا ہے اور وعدوں کی پاسداری کرتا ہے۔ اللہ کے سامنے کون بہتر ہوگا اور کیوں؟اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا اور پینٹ شرٹ بھی پہنتا ہے تو کیا اس کی نماز اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگی؟ کیا وہ اللہ کا دوست نہیں؟ کیا بغیر داڑھی والا اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا؟

جواب: آپ نے جس طرح دو انسانوں کی عادتوں کے بارے میں کہا ہے۔ اس میں داڑھی اور ٹخنوں سے کم پینٹ یا شلوار کے بارے میں فقہاء کی بحث کا مطالعہ انہی فقہی کتابوں میں مل جائے گا، اس میں آپ خود دونوں طرح کے فقہاء کے اختلاف میں دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کر لیجیے گا۔ 

اب دوسری بات کہ سچ بولنا، وعدہ اور معاہدہ  پر عمل کرنا اور جھوٹ اور فراڈ سے بچنا کا تعلق ہے تو اس میں قرآن مجید میں اس کے احکامات موجود ہیں۔ اس میں اللہ تعالی نے سچ بولنا اور معاہدوں کو پورا کرنا لازمی فرض حکم ہے۔ اسی طرح جھوٹ اور فراڈ کو بڑا گناہ بتا دیا گیا ہے۔ اس کا مطالعہ آپ کو خود سورۃ البقرۃ ہی میں نظر آ جائے گا۔ ابھی آپ سورۃ البقرۃ کی آیت 177 ہی کا مطالعہ کر لیجیے جس میں اللہ تعالی نے نیکی کی ڈیفی نیشن کر دی ہے۔

جب یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بحث کی اور کہاں کہ آپ مسجد اقصی کی مغربی دیوار کی طرف منہ کر کے نماز کیوں نہیں پڑھتے کہ یہ نیکی ہے۔ عیسائیوں نے پوچھا کہ آپ مسجد اقصی کی مشرقی دیوار کی طرف منہ کیوں نہیں کر رہے ہیں کہ یہی تو نیکی ہے تو یہ نیکی پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالی نے جواب دیا۔ 

لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ. 177

(یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا حق مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ) اللہ کے ساتھ وفا داری صرف یہ نہیں کہ تم نے (نماز میں) اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا ، بلکہ وفاداری تو اُن کی وفاداری ہے جو

پورے دل سے اللہ پر ایمان لائیں۔

قیامت کے دن پر یقین کر لیں۔

اللہ کے فرشتوں کو مانیں، اُس کی کتابوں اور اُس کے نبیوں پر یقین مان لیں۔

مال کی محبت کے باوجوداُسے رشتے داروں،  یتیموں،   مسکینوں ، مسافروں اور مانگنے والوں  پر  اور  لوگوں کی گردنیں چھڑانے [یعنی غلاموں کی آزادی] میں خرچ کریں۔

نماز کا اہتمام کریں۔

اور زکوٰۃ ادا کریں۔

اور وفاداری تو اُن کی وفاداری ہے کہ

جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے اِس عہد کو پورا کرنے والے ہوں ۔

اور خاص کر اُن کی جو تنگی، بیماری میں اور جنگ کے موقع پر  ثابت قدم رہنے والے ہوں۔

یہی ہیں جو (اللہ کے ساتھ اپنے عہدِ وفا میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو فی الواقع پرہیز گار ہیں ۔ (سورۃ البقرۃ 2:177) 

اس میں یہی مشورہ دوں گا کہ آپ دوسرے لڑکوں پر بالکل غور نہ کریں بلکہ صرف اور صرف اپنا ہی عمل کو چیک کر لیجیے۔ اگر آپ قرآن مجید اور سنت نبوی کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں تو آپ ولی بن گئے ہیں۔ رہے دوسرے لڑکے تو ان پر کبھی غور نہیں کرنا چاہیے۔ وہ جانیں اور اللہ تعالی کا فیصلہ۔ داڑھی اور لباس کے بارے میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جس میں ولی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ احادیث میں دوسروں کی برائیوں کو منع کیا ہے۔ جو بھی برائی کرتا ہے تو وہ جانے اور اللہ تعالی۔ ہمیں اس میں غور ہی نہیں کرنا چاہیے۔   آپ اس آیت کے لحاظ سے عمل کریں تو آپ ولی بن جائیں گے اور جنت میں ہی ولی اللہ پہنچیں گے۔ 

سوال: بغیر سر پے ٹوپی کے نماز ہو جاتی ہے؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث شروع سے آخر تک ساری کتابوں کا مطالعہ کر لیجیے تو ایک حدیث بھی نہیں ملے گی جس میں نماز کے وقت ٹوپی کا کوئی حکم ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں یہ نارمل کلچر یہ تھا کہ لوگ پگڑی، ٹوپی وغیرہ پہن لیتے تھے، لیکن پھر بھی اس کا نماز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔  اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی عمامہ پہنتے تھے اور غیر مسلم بھی عمامہ پہنتے تھے۔ بلکہ عرب سے باہر دیگر ممالک میں یہ لازمی کلچر تھا اور سب غیر مسلم بھی عمامہ یا ٹوپی پہنتے تھے۔ ابھی آپ گوگل میں پرانے انگریزوں کی تصویریں دیکھ لیجیے تو وہی نظر آئے گا۔ 

ہمارے ہاں ٹوپی کو لازمی سمجھ لیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیا کے کلچر میں یہ لازمی تھا کہ پگڑی یا ٹوپی کے ساتھ ہی بڑے آدمیوں کے پاس جا سکتے تھے۔ مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو، انگریز ، سکھ سب ہی عمامہ یا ٹوپی پہنچتے تھے۔ اگر کوئی ننگے سر جا رہا ہوتا تو وہ اسے بدتمیزی سمجھتے تھے۔ اس وجہ سے انڈیا کے علماء نے یہ فتوی دیا کہ نماز کے وقت بھی یہ بدتمیزی نہیں کرنی چاہیے، اس لیے لازمی طور پر ٹوپی یا عمامہ پہنا کرو۔ پرانے بزرگ تو یہ کہتے تھے کہ اگر تم نے ٹوپی یا عمامہ نہیں پہنا تو شیطان تم پر بیٹھ جاتا ہے۔ 

یہ کلچر ختم ہو گیا اور اب نہ پاکستان اور نہ ہی انڈیا میں یہ لازمی ہے۔  اب آپ کسی بھی بڑے انسان جیسے اپنے بزرگ، ٹیچر یا وزیر اعظم سے بھی ملتے ہیں تو اس میں کوئی ٹوپی نہیں پہنتے ہیں۔ اس لیے نماز میں بھی جو پابندی انڈین علماء نے کی تھی، اب وہ ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب آپ کی اپنی مرضی ہے کہ چاہیں تو عمامہ باندھیں یا ٹوپی پہنیں، اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ آپ کا اپنا شوق ہی ہے کہ جیسا کرنا چاہیں کر لیں۔ 

کل آپ نے ٹائم کے بارے میں پوچھا تھا۔ اس میں یہ طریقہ بھی یاد آیا کہ جب بھی آپ سفر میں ہوں تو اس ٹائم کو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس وقت کوئی کتاب یا  موبائل میں لیکچرز سن سکتے ہیں ۔  میں بھی ساری زندگی یہی استعمال کرتا رہا ہوں۔ ابھی ورچوئل یونیورسٹی کے لیکچرز کو میں یو ٹیوب سے آڈیو ڈاؤن لوڈ کر لیتا ہوں۔ پھر اسے اپنے UPS میں کاپی کر لیتا ہوں۔ پھر اسی UPS کو گاڑی میں لگا دیتا ہوں تو آفس آتے اور گھر واپس جاتے وقت لیکچرز سن لیتا ہوں۔ اس میں مجھے تقریباً 100 منٹ مل جاتے ہیں۔ آفس میں جب کوئی کام نہ ہو، تو اس دوران میں اپنی کتابیں لکھتا ہوں۔ آپ نے میری ڈھیروں کتابیں جو دیکھی ہیں، انہیں آفس ہی میں لکھتا رہا ہوں اور اب ویب سائٹ میں جو کام کرنا ہوتا ہے، وہ کر بھی لیتا ہوں۔ 

سوال: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات کو تلاش کرنے کی پوری کوشش کی کہ وہ اجنبیوں سے کیسے بات کرتے تھے اور جب وہ پہلی بار کسی سے ملتے تھے تو وہ کیسے بات چیت کرتے تھے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات چیت اور قائل کرنے کی صلاحیتوں کو جاننا چاہتا ہوں۔ اس پر کچھ تجویز کریں۔ اور کس طرح انہوں نے لوگوں کو وہ کام کرنے کی طرف راغب کیا جو وہ چاہتے تھے کہ لوگ کریں۔

جواب: دوسروں کی گفتگو میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے گفتگو کرتے رہے تھے۔ ہمیشہ محبت اور پیار کے ساتھ ہی گفتگو کرتے تھے۔ ان سے ہمیشہ سچائی کے گفتگو فرماتے اور تربیت کرتے رہتے تھے۔ کبھی جھوٹ، بری باتیں ، الزام، نفرت کی کسی سے گفتگو نہیں فرمائی۔ بلکہ کسی نے بدتمیزی بھی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔ اس میں ایک مثال حدیث نیچے پیش کرتا ہوں، اس سے آپ خود دیکھ لیجیے۔

یہ خاتون سیدہ ہند رضی اللہ عنہا تھیں۔ ایمان لانے سے پہلے انہوں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کو جنگ احد میں شہید کروا دیا تھا۔ پھر انہوں نے حمزہ رضی اللہ عنہ کے دل کو خود کاٹ کے کھانے کی کوشش بھی کی تھی۔ بعد میں جب وہ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی دلچسپ گفتگو کرتی رہیں کیونکہ ساس اور داماد سے گفتگو ہوتی ہے۔ اس کی مثال آپ دیکھ لیجیے۔  

حدّثنا أبو نعيْمٍ، حدّثنا سفْيان، عنْ هشامٍ، عنْ عرْوة، عنْ عائشةـ رضى الله عنهاـ قالتْ هنْدأمّ معاوية لرسول اللّه صلى الله عليه وسلم إنّ أبا سفْيان رجلشحيحٌ، فهلْ علىّ جناحأنْ آخذ منْ ماله سرًّا قال ‏خذي أنْت وبنوك ما يكْفيك بالْمعْروف۔‏‏

عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی والدہ ہند رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ابوسفیان اخراجات میں بہت احتیاط کرنے والے ہیں۔  تو کیا اگر میں ان کے مال سے چھپا کر کچھ لے سکتی ہوں یا اس میں کوئی حرج ہے ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  آپ اپنے لیے اور اپنے بیٹوں کے لیے نیک نیتی کے ساتھ اتنا  ہی لے سکتی ہیں جو آپ سب کے لیے کافی ہو جا سکے۔ (بخاری،کتاب البیع 2211۔ مسلم، کتاب الاقضیہ، 447)

یہ  ایک دلچسپ حدیث ہے جس میں فیملی کے معاملات ہیں۔ ہند رضی اللہ عنہا جب ایمان نہیں لائی تھیں تو اس وقت اپنے شوہر ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ احد میں آئی تھیں۔ اس سے پہلے جنگ بدر میں ان کے والد اور بھائی   مکہ ملٹری میں شامل تھے اور یہی دونوں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اگلے سال ہند ابھی ایمان نہیں لائی تھیں اور انہوں نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ اگر تم حمزہ کو قتل کریں تو اتنی رقم دوں گی۔ چنانچہ انہی کے غلام حبشی ابھی ایمان نہیں لائے تھے اور انہوں نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو تیر کے ہاتھوں شہید کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی وجہ سے ہند خاتون کو دیکھنا نہیں چاہتے تھے کہ انہیں اپنے چچا حمزہ یاد آ جاتے تھے۔

اس کے چند سال بعد مکہ اور مدینہ کی جنگیں ختم ہوئیں اور انہی کی بیٹی سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی ہو گئی۔ اب مزید چند سال بعد آپ کے سسر  او رساس ایمان لائے۔ جب ایمان آیا توانہوں نے اپنے داماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دین سیکھنے لگے اور اس وقت ساس صاحبہ نے پوچھا کہ آپ کے سسر تو اخراجات میں بڑی احتیاط کرتے ہیں تو میں ان کی جیب سے رقم لی سکتی ہوں۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لمٹ بتا دی کہ آپ اور آپ کے بچوں کے اخراجات جتنے میں پورے ہوں تو اتنا آپ لے سکتی ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔

آپ احادیث کا مطالعہ کر سکتے ہیں جس میں آپ گفتگو کو دیکھ سکتے ہیں۔ 

https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1VXuUWeZ-p4Lukd1Y12T-GNT58h8cnMi-

داڑھی، عمامہ، لباس سے متعلق آپ کو فقہاء نے اپنی  اپنی دلائل کو جو کچھ فرمایا ہے، اسے آپ کتاب میں مل جائے گا۔ پھر آپ ان کی بحث میں خود فیصلہ کر لیجیے گا۔ 

اختلاف بھی ہو، تب بھی ہمارا رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں دوسرے کو لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ اسے آپ اس حدیث میں بہت عمدہ اختلافی ڈسکشن کو دیکھ سکتے ہیں۔ 

اس کے لیے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رویہ کا مطالعہ مزید کرتے ہیں جس میں آپ 1500 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچ رہے تھے لیکن صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تھا۔ اس سے پہلے تین جنگیں بدر، احد اور خندق ہو چکی تھیں جن میں اہل مکہ نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا تھا لیکن انہیں ناکامی ہی ہوئی تھی۔  اس میں ایمبسیڈر طریقے سے معاہدہ کرتے ہوئے کیا رویہ اختیار فرمایا تھا۔ اس طویل حدیث کا ترجمہ ہی عرض کرتا ہوں۔

مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان نے ‘ دونوں کے بیان سے ایک دوسرے کی حدیث کی تصدیق بھی ہوتی ہے۔  انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر (عمرہ کے لیے مکہ  مکرمہ ) جا رہے تھے۔   ابھی آپ راستے ہی میں تھے تو  فرمایا: خالد بن ولید (ابھی ایمان نہیں لائے تھے اور وہ) قریش کے لشکر کے ساتھ ہماری نقل و حرکت کا اندازہ لگانے کے لئے مقام غمیم میں مقیم ہے۔  اس لئے آپ لوگ دائیں طرف سے جائیے۔

چنانچہ اللہ تعالی کی قسم  کہ خالد کو ان کے متعلق کچھ بھی علم نہ ہو سکا اور جب انہوں نے اس لشکر کا غبار اٹھتا ہوا دیکھا تو قریش کو جلدی جلدی خبر دینے گئے۔  ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ آپ اس گھاٹی پر پہنچے جس سے مکہ میں اترتے ہیں۔ اس وقت آپ کی سواری بیٹھ گئی۔   صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اونٹنی کو اٹھانے کیلئے کہنے لگے لیکن وہ اپنی جگہ سے نہ اٹھی۔  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ اونٹنی کی طاقت گر گئی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اونٹنی کی طاقت  نہیں گری اور نہ یہ اس کی عادت ہے۔   اسے تو اس ذات نے روک لیا جس نے ہاتھیوں (کے لشکر  کو  مکہ  مکرمہ ) میں داخل ہونے سے روک لیا تھا۔  اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! قریش جو بھی ایسا مطالبہ رکھیں گے،  جس میں اللہ تعالی کی شریعت کی عزت ہو گی تو میں اس کا مطالبہ منظور کر لوں گا۔

آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اٹھ گئی۔  راوی نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام سے آگے نکل گئے اور حدیبیہ کے آخری کنارے ثمد (ایک چشمہ یا گڑھا ) پر جہاں پانی کم تھا،  آپ رک گئے۔ لوگ تھوڑا تھوڑا پانی استعمال کرنے لگے،  انہوں نے پانی کو ٹھہرنے ہی نہیں دیا  بکلہ  سب کھینچ ڈالا۔  اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیاس کی بات کہی گئی تو آپ نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر دیا کہ اس گڑھے میں ڈال دیجیے۔ بخدا تیر گاڑتے ہی پانی انہیں سیراب کرنے کے لئے ابلنے لگا اور وہ لوگ پوری طرح سیراب ہو گئے۔  

لوگ اسی حال میں تھے کہ بدیل بن ورقاء خزاعی رضی اللہ عنہ اپنی قوم خزاعہ کے کئی آدمیوں کو لے کر حاضر ہوا۔  یہ لوگ تہامہ کے رہنے والے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیکرٹ انفارمیشن میں بڑے خیرخواہ تھے۔  انہوں نے خبر دی: میں کعب بن لوئی اور عامر بن لوئی کو پیچھے چھوڑ کر آ رہا ہوں۔  جنہوں نے حدیبیہ کے پانی کے ذخیروں پر اپنا پڑاؤ ڈال دیا ہے،   ان کے ساتھ بکثرت دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے نئے نئے بچوں کے ساتھ ہیں۔  وہ آپ سے جنگ کریں گے اور آپ کے بیت اللہ پہنچنے میں رکاوٹ بنیں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم کسی سے جنگ کرنے نہیں آئے ہیں بلکہ صرف عمرہ کے ارادے سے آئے ہیں۔  حقیقتاً واقعہ تو یہ ہے کہ  مسلسل جنگوں نے قریش کو بھی کمزور کر دیا ہے اور انہیں بڑا نقصان اٹھانا پڑا ہے،  اب اگر وہ چاہیں تو میں ایک خاص ٹائم کے لیے ان سے صلح کا معاہدہ کر لوں گا۔   اس عرصہ میں وہ میرے اور عوام (دیگر تمام قبائل) کے درمیان نہ پڑیں پھر اگر میں کامیاب ہو جاؤں اور (اس کے بعد ) وہ چاہیں تو اس دین (اسلام ) میں وہ بھی داخل ہو سکتے ہیں (جس میں اور تمام لوگ داخل ہو چکے ہوں گے۔  ) لیکن اگر مجھے کامیابی نہیں ہوئی تو انہیں بھی آرام مل جائے گا اور اگر انہیں میری پیش کش سے انکار ہے تو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!  جب تک میرا سر تن سے جدا نہیں ہو جاتا ‘ میں اس دین کے لئے برابر جدوجہد کرتا رہوں گا یا پھر اللہ تعالیٰ اسے نافذ ہی فرما دے گا۔

 بدیل رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: قریش تک آپ کی گفتگو میں پہنچا دوں گا۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور قریش کے یہاں پہنچے اور کہا۔ ہم آپ کے پاس اس شخص (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے یہاں سے آ رہے ہیں اور ہم نے اسے ایک بات کہتے سنا ہے،  اگر آپ چاہیں تو آپ کے سامنے اسے بیان کر سکتے ہیں۔

 قریش کے بے وقوفوں نے کہا: ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اس شخص کی کوئی بات ہمیں سنائیں۔

 جو فیصلہ کرنے والے لوگ تھے،  انہوں نے کہا: ٹھیک ہے جو کچھ  آپ نے سنا ہے،  ہمیں بتا دیجیے۔

بدیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کو یہ کہتے سنا ہے اور پھر جو کچھ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا ‘ سب بیان کر دیا۔  

اس پر عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (جو اس وقت تک کفار کے ساتھ تھے ) کھڑے ہوئے اور کہا: اے قوم! کیا آپ مجھ پر باپ کی طرح شفقت نہیں رکھتے۔ سب نے کہا کہ  کیوں نہیں  ہم  ضرور رکھتے ہیں۔  

عروہ نے پھر کہا: کیا میں بیٹے کی طرح آپ کا خیرخواہ نہیں ہوں۔  انہوں نے کہا  کہ کیوں نہیں۔  

عروہ نے پھر کہا: آپ لوگ مجھ پر کسی قسم کی تہمت لگا سکتے ہیں؟انہوں نے کہا کہ جی نہیں۔  

اب انہوں نے پوچھا:کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں کو آپ کی مدد کے لئے کہا تھا اور جب انہوں نے انکار کیا تو میں نے اپنے گھرانے ‘ اولاد اور ان تمام لوگوں کو آپ کے پاس لا کر کھڑا کر دیا تھا جنہوں نے میرا کہنا مانا تھا ؟ قریش نے کہا  کہ کیوں نہیں (آپ کی باتیں درست ہیں۔ )

 اس کے بعد عروہ نے کہا:دیکھیے۔  اب اس شخص (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے آپ کے سامنے ایک اچھی تجویز رکھی ہے ‘ اسے آپ قبول کر لیں اور مجھے اس کے پاس (گفتگو ) کے لئے جانے دیجیے۔  سب نے کہا  کہ آپ ضرور جائیے۔  چنانچہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے گفتگو شروع کی۔  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے بھی وہی باتیں کہیں جو آپ نے بدیل سے کہہ چکے تھے۔  

 عروہ نے اس وقت کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! بتائیے اگر آپ نے اپنی قوم کو تباہ کر دیا تو کیا اپنے سے پہلے کسی بھی عرب کے متعلق سنا بھی ہے کہ اس نے اپنے خاندان کا نام و نشان مٹا دیا ہو لیکن اگر دوسری بات واقع ہوئی  ہے۔(یعنی ہم آپ پر غالب ہوئے ) تو میں خدا کی قسم آپ کے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف قسم کے لوگ یہی کریں گے۔  اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔

 اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ  نے غصے سے فرمایا:ارے میاں جاؤ! لات بت کی شرمگاہ پر پوجا کرتے رہو۔) کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔

 عروہ نے پوچھا  کہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔  عروہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا اب تک میں بدلہ نہیں دے سکا ہوں تو تمہیں ضرور جواب دیتا۔

بیان کیا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر گفتگو کرنے لگے اور گفتگو کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک پکڑ لیا کرتے تھے۔   مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے  جبکہ وہ  تلوار لٹکائے ہوئے اور سر پر ہیلمٹ پہنے  ہوئے تھے۔  عروہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک کی طرف اپنا ہاتھ لے جاتے تو مغیرہ رضی اللہ عنہ تلوار کی  بیک سائٹ پر ان کے ہاتھ پر مارتے اور ان سے کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی سے اپنا ہاتھ الگ رکھو۔

عروہ رضی اللہ عنہ نے اپنا سر اٹھایا اور پوچھا  کہ یہ کون صاحب ہیں ؟ لوگوں نے بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ۔  

عروہ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے دغاباز ! کیا میں نے تمہاری دغابازی کی سزا سے تمہیں کو نہیں بچایا  تھا؟

  اصل میں مغیرہ رضی اللہ عنہ (اسلام لانے سے پہلے ) جاہلیت میں ایک قوم کے ساتھ رہے تھے، پھر ان سب کو قتل کر کے ان کا مال لے لیا تھا۔  اس کے بعد (مدینہ ) آئے اور اسلام کے حلقہ بگوش ہو گئے  تھے (تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کا مال بھی رکھ دیا کہ جو چاہیں اس کے متعلق حکم فرمائیں۔ ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا: آپ کا اسلام تو میں قبول کرتا ہوں،  رہا یہ مال تو میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔  کیونکہ وہ دغابازی سے ہاتھ آیا ہے جسے میں لے نہیں سکتا۔

 پھر عروہ رضی اللہ عنہ گھور گھور کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام کی نقل و حرکت دیکھتے رہے۔  کسی کام کا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اس کی بجاآوری میں ایک دوسرے پر لوگ سبقت لے جانے کی کوشش کرتے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرنے لگے تو ایسا معلوم ہوا کہ آپ کے وضو کے پانی پر بحث ہو جائے گی  (یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا۔ )  جب آپ گفتگو کرنے لگے تو سب پر خاموشی چھا جاتی۔  آپ کی تعظیم کا یہ حال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی نظر بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔  

خیر عروہ جب اپنے ساتھیوں سے جا کر ملے تو ان سے کہا: اے لوگو ! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں،  قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں،  لیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ عزت کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔  آپ نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ کے وضو پر بحث ہو جائے گی۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔  ان کے دلوں میں آپ کی عزت کا یہ عالم تھا کہ آپ کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔  انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہئے کہ اسے قبول کر لیجیے۔

 اس پر بنو کنانہ کا ایک شخص بولا: اچھا مجھے بھی ان کے یہاں جانے دیجیے۔  لوگوں نے کہا تم بھی جا سکتے ہو۔  

جب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قریب پہنچے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ فلاں صاحب ہیں جو ایک ایسی قوم کا فرد جو بیت اللہ کی قربانی کے جانوروں کی تعظیم کرتے ہیں۔  اس لئے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیجیے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قربانی کے جانور اس کے سامنے کر دیئے اور لبیک کہتے ہوئے اس کا استقبال کیا۔ جب اس نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگا: سبحان اللہ قطعاً مناسب نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کو کعبہ سے روکا جائے۔

 اس کے بعد قریش میں سے ایک دوسرا شخص مکرز بن حفص نامی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی ان کے یہاں جانے دیجیے۔ سب نے کہا کہ تم بھی جا سکتے ہو۔  جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مکرز ہے اور ایک بدترین شخص ہے۔

 پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرنے لگا۔  ابھی وہ گفتگو کر ہی رہا تھا کہ سہیل بن عمرو  (مکہ کے ایمبسیڈر اور ابھی ایمان نہیں لائے تھے اور اس وقت ) آ گئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نیک فالی کے طور پر ) فرمایا: آپ کا معاملہ آسان ہو گیا  ہے۔

 جب سہیل بن عمرو پہنچے تو کہنے لگے:ہمارے اور اپنے درمیان (صلح ) کی ایک تحریر لکھ لیجیے۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لکھنے والے کاتب کو بلوایا اور فرمایا کہ آپ لکھیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

 سہیل کہنے لگا: اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ وہ رحمن کیاہے۔  البتہ آپ یوں لکھ سکتے ہیں باسمک اللھم  (اللہ کے نام پر) جیسے پہلے لکھا کرتے تھے۔

 مسلمانوں نے کہا: قسم اللہ کی ہمیں بسم اللہ الرحمان الرحیم کے سوا اور کوئی دوسرا جملہ نہ لکھنا چاہئے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باسمک اللھم ہی لکھنے دیجیے۔

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھوانے لگے:یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے صلح نامہ کا ڈاکومنٹ ہے۔

سہیل نے کہا: اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ آپ رسول اللہ ہیں تو نہ ہم آپ کو کعبہ سے روکتے اور نہ آپ سے کبھی جنگ کرتے۔ آپ تو صرف اتنا ہی لکھیں کہ محمد بن عبداللہ۔

اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ گواہ ہے کہ میں اس کا سچا رسول ہوں خواہ آپ میرا انکار ہی ہی کرتے رہے ہیں۔ چلیں آپ میرا نام ہی لکھ دیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کا نتیجہ تھا (جو پہلے بدیل رضی اللہ عنہ سے کہہ چکے تھے ) کہ قریش مجھ سے جو بھی ایسا مطالبہ کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم مقصود ہو گی تو میں ان کے مطالبے کو ضرور مان لوں گا۔   اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل سے فرمایا: لیکن صلح کے لئے پہلی شرط یہ ہو گی کہ آپ لوگ ہمیں بیت اللہ کے طواف کرنے کے لئے جانے دیں گے۔

سہیل نے کہا: قسم اللہ کی ہم (اس سال ) ایسا نہیں ہونے دیں گے ورنہ عرب کہیں گے ہم مغلوب ہو گئے تھے۔ (اس لئے ہم نے اجازت دے دی ) آئندہ سال کے لئے اجازت ہے۔ چنانچہ یہ بھی لکھوا لیا۔  

پھر سہیل نے لکھا: یہ شرط بھی  لکھ لیجئے  کہ ہماری طرف کا جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں جائے گا خواہ وہ آپ کے دین ہی پر کیوں نہ ہو،  آپ اسے ہمیں واپس کر دیں گے۔

مسلمانوں نے (یہ شرط سن کر کہا:  ) سبحان اللہ ! ایک شخص کو  مشرکوں کے حوالے کس طرح کیا جا سکتا ہے جو مسلمان ہو کر آیا ہو۔  ابھی یہی باتیں ہو رہی تھیں کہ ابو جندل بن سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہما  اپنی بیڑیوں کو گھسیٹتے ہوئے آ پہنچے۔   وہ مکہ کے نشیبی علاقے کی طرف سے بھاگے تھے اور اب خود کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا تھا۔  

سہیل نے کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ پہلا شخص ہے جس کے لئے (معاہدہ کے مطابق ) میں مطالبہ کرتا ہوں کہ آپ ہمیں  (میرے بیٹے ) ابوجندل کو واپس کر دیجیے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تو ہم نے معاہدہ میں ابھی لکھا بھی نہیں ہے، (اس لئے جب معاہدہ طے پا جائے گا،  اس کے بعد اس کا نفاذ ہونا چاہئے۔)

 سہیل کہنے لگا: کہ اللہ کی قسم پھر میں کسی بنیاد پر بھی آپ سے معاہدہ نہیں کروں گا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا مجھ پر اس ایک بندے پر احسان کر دیجیے۔

سہیل نے کہا:جی نہیں  کہ میں اس سلسلے میں احسان بھی نہیں کر سکتا  ہوں۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ  ہمیں ہی احسان کر دینا چاہئے۔  لیکن سہیل نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔  البتہ مکرز نے کہا کہ چلئے ہم اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان کر یتے ہیں مگر (اس کی بات نہیں چلی۔ )

 ابو جندل رضی اللہ عنہ نے کہا: اہل ایمان! میں مسلمان ابھی ہو کر آیا ہوں۔  کیا مجھے مشرکوں کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ؟ کیا میرے ساتھ جو اذیتیں پہنچائی گئیں تھیں۔

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آخر میں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: کیا یہ واقعہ اور حقیقت نہیں کہ آپ اللہ تعالی کے نبی ہیں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ کیوں نہیں ؟

عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ کیوں نہیں ؟

عمر نے کہا: پھر اپنے دین کے معاملے میں کیوں ہم دب کر معاہدہ کریں؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالی کا رسول ہوں،  اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا  ہوں اور وہی میرا مددگار  اللہ تعالی ہی ہے۔

عمر نے کہا: کیا آپ ہم سے یہ نہیں فرماتے تھے کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: بالکل درست ہے لیکن کیا میں نے آپ سے یہ کہا تھا کہ اسی سال ہم بیت اللہ پہنچ جائیں گے ؟

 عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: میں نے یہ تو نہیں کہا (کہ اسی سال بیت اللہ پر پہنچ جائیں گے۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بیت اللہ تک ضرور پہنچیں گے اور ایک دن اس کا طواف بھی کریں گے۔

عمر بن خطاب پھر ابوبکر رضی اللہ عنہما کے یہاں گئے اور ان سے بھی یہی پوچھا: ابوبکر ! کیا یہ حقیقت نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نبی ہیں ؟

انہوں نے بھی کہا کہ کیوں نہیں۔  

عمر نے پوچھا  کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟

انہوں نے کہا  کہ کیوں نہیں؟

عمر نے کہا کہ پھر اپنے دین کو کیوں ذلیل کریں۔

 ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جناب ! بلا شک و شبہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور اپنے رب کی حکم عدولی نہیں کر سکتے۔  رب ہی ان کا مددگار ہے۔ چنانچہ ان کی رسی مضبوطی سے پکڑ لیجیے کیونکہ اللہ تعالی گواہ ہے کہ وہ حق پر ہیں۔

عمر نے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے یہ نہیں کہتے تھے کہ عنقریب ہم بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔

 انہوں نے فرمایا کہ یہ بھی صحیح ہے لیکن کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ اسی سال آپ بیت اللہ پہنچ جائیں گے ؟

عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں  یہ اسی سال کی بات نہیں ہوئی تھی۔

پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ آپ ایک نہ ایک دن بیت اللہ پہنچیں گے اور اس کا طواف کریں گے۔  

عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بعد میں میں نے اپنی عجلت پسندی کی مکافات کے لئے نیک اعمال کئے۔

پھر جب معاہدہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فارغ ہو چکے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم سے فرمایا: اب  آپ اٹھیے اور (جن جانوروں کو ساتھ لائے ہو ان کی ) قربانی کر لیجیےاور سر بھی ابھی منڈوا لیجیے۔

جب کوئی نہ اٹھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم،  ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے خیمہ میں گئے اور ان سے لوگوں کے طرز عمل کا ذکر کیا۔  سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے نبی ! کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ باہر تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنا قربانی کا جانور ذبح کر لیں اور اپنے حجام کو بلا لیں جو آپ کے بال مونڈ دے۔

 چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔  کسی سے کچھ نہیں کہا اور سب کچھ کیا ‘ اپنے جانور کی قربانی کر لی اور اپنے حجام کو بلوایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مونڈے۔  جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دیکھا تو وہ بھی ایک دوسرے کے بال مونڈنے لگے،  ایسا معلوم ہوتا تھا کہ رنج و غم میں ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے۔  

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (مکہ سے ) چند مومن خواتین آئیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: اے عوام! جو ایمان لا چکے ہو جب آپ کے پاس مومن خواتین ہجرت کر کے آئیں تو ان کا امتحان لے لیجیے گا۔

 اس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہنے والی اپنی دو بیویوں کو طلاق دے دی جو اب تک مسلمان نہ ہوئی تھیں۔  ان میں سے ایک خاتون نے تو معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہ  جو ابھی ایمان نہیں لائے تھے) سے نکاح کر لیا تھا اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔  

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے تو قریش کے ایک فرد ابوبصیر رضی اللہ عنہ (مکہ سے فرار ہو کر ) حاضر ہوئے۔  وہ ایمان لا چکے تھے۔  قریش نے انہیں واپس لینے کے لئے دو آدمیوں کو بھیجا اور انہوں نے آ کر کہا کہ ہمارے ساتھ آپ کا معاہدہ ہو چکا ہے۔  چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دیا۔  قریش کے دونوں افراد جب انہیں واپس لے کر لوٹے اور ذوالحلیفہ پہنچے تو کھجور کھانے کے لئے اترے جو ان کے ساتھ تھی۔  ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک سے فرمایا: قسم اللہ کی تمہاری تلوار بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ دوسرے ساتھی نے تلوار نیام سے نکال دی۔  اس شخص نے کہا ہاں اللہ کی قسم نہایت عمدہ تلوار ہے ‘ میں اس کا بارہا تجربہ کر چکا ہوں۔  

ابو بصیر رضی اللہ عنہ اس پر بولے کہ ذرا مجھے بھی تو دکھاؤ اور اس طرح اپنے قبضہ میں کر لیا۔  پھر انہوں نے تلوار کے مالک کو ایسی ضرب لگائی کہ وہ وہیں ٹھنڈا ہو گیا۔  اس کا دوسرا ساتھی بھاگ کر مدینہ آیا اور مسجد میں دوڑتا ہوا۔  داخل ہوا  تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا: یہ شخص کچھ خوف زدہ معلوم ہوتا ہے۔

جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو کہنے لگا: اللہ کی قسم میرا ساتھی تو مارا گیا اور (اگر آپ لوگوں نے ابو بصیر کو نہ روکا  )  تو میں بھی مارا جاؤں گا۔

اتنے میں ابو بصیر رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور عرض کیا: اے اللہ کے نبی ! اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کر دی  ہے۔  آپ مجھے ان کے حوالے کر چکے تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے نجات دلائی  ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اس کا کوئی ایک اور بھی مددگار ہوتا تو پھر لڑائی کے شعلے بھڑک اٹھتے۔

 جب ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے یہ الفاظ سنے تو سمجھ گئے کہ آپ پھر کفار کے حوالے کر دیں گے۔  اس لئے وہاں سے نکل گئے اور سمندر کے کنارے پر جا پہنچے۔ دوسری طرف ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ بھی مکہ مکرمہ میں اپنے گھر والوں سے چھوٹ کر  ابو بصیر رضی اللہ عنہ سے جا ملے۔  اب یہ حال تھا کہ قریش کا جو شخص بھی اسلام لاتا،  (وہ بجائے مدینہ آنے کے ) ابو بصیر رضی اللہ عنہ کے یہاں ساحل سمندر پر  چلا جاتا۔  اس طرح سے ایک پارٹی بن گئی اور اللہ گواہ ہے یہ لوگ قریش کے جس قافلے کے متعلق بھی سن لیتے کہ وہ شام جا رہا ہے تو اسے راستے ہی میں روک کر لوٹ لیتے اور قافلہ والوں کو قتل کر دیتے۔  

اب قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں اللہ اور رحم کا واسطہ دے کر درخواست بھیجی: آپ کسی کو بھیجیں (تاکہ ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں رضی اللہ عنہم سے قریش کو بچا دیں۔)  اس کے بعد جو شخص بھی آپ کے یہاں جائے گا  تو اسے امن ہے  (یعنی اسے واپس مکہ میں نہیں لیجانا پڑے گا۔)

 چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے یہاں اپنا آدمی بھیجا اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہوہ ذات رب جس نے آپ کے ہاتھوں کو روک دیا تھا،  ان سے اور ان کے ہاتھوں کو آپ سے وادی مکہ (حدیبیہ میں ) بعد میں اس کے کہ آپ کو غالب کر دیا تھا۔  (ان پر یہاں تک کہ بات جاہلیت کے دور کی بے جا حمایت تک پہنچ گئی تھی۔ )

ان کی حمیت (جاہلیت ) یہ تھی کہ انہوں نے  معاہدے میں بھی  آپ کے لئے اللہ تعالی کے نبی ہونے کا اقرار نہیں کیا  تھا۔  اسی طرح انہوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں لکھنے دیا اور آپ بیت اللہ جانے سے روک لیا تھا۔ (بخاری، کتاب الشروط،54:2731)

اس حدیث میں  ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح جذبات چھوڑ کر عقل کے ساتھ فیصلہ کرنا چاہیے۔ اب صورتحال یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے 1,500 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے جانوروں کے ساتھ 6 ہجری میں عمرے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچے تھے جبکہ ابھی تین جنگیں ہو چکی تھیں۔ اس لیے اہل مکہ نے آپ سب کو مکہ میں داخل ہونے نہیں دیا۔  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت جذباتی ہو گئے تھے اور وہ جنگ کر کے عمرہ کرنا چاہتے تھے۔  اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کس طرح محبت کے ساتھ اہل مکہ کے ساتھ آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیا۔  

موجودہ زمانے میں امبی سیڈر کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے بہت ہی نرم لہجے اختیار کرتے ہیں۔ اس زمانے میں یہ مذاکرات   قبائلی کلچر میں گفتگو چل رہی تھی، اس لیے ہمیں سخت الفاظ نظر آتے ہیں  کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو شدید دکھ تھا کہ وہ 8 دن کا سفر کر کے عمرہ کرنے آئے ہیں اور کوئی جنگ بھی نہیں ہے تو تب بھی وہ حرم شریف میں جانے نہیں دے رہے ہیں۔

اس معاہدے میں اگرچہ سخت شرائط کرنی پڑیں  جس میں کریٹیکل صورتحال مکہ مکرمہ کے اندر رہنے والے لوگ ایمان لائے تھے لیکن اب وہ ہجرت نہیں کر سکتے تھے اور اگر کی تو انہیں واپس کر دینا تھا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کے حکم پر یہ معاہدہ کر لیا اور اس کے مطابق عمل کیا کیونکہ چھوٹے فائدے کی بجائے بڑا فائدہ حاصل کیا۔ جب یہ معاہدہ ہو گیا تو مکہ مکرمہ کے ساتھ معاہدے پر سارے عرب ممالک میں قبائل نے مدینہ منورہ پر حملہ چھوڑ دیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پہنچتی رہی اور صرف ڈیڑھ سال میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد 1,500 سے بڑھ کر 10,000 ہو گئی۔

رہے مکہ مکرمہ میں رہنے والے اہل ایمان کے لیے صبر کا امتحان کچھ ماہ کے لیے ہوا کہ اس شرط کو خود اہل مکہ نے کینسل کر لیا۔ نئے اہل ایمان ابوجندل اور ابوبصیر رضی اللہ عنہما جب  مکہ مکرمہ سے خاموشی سے نکلے تھے،  تب بھی معاہدے کی بنیاد پر  مدینہ منورہ میں نہیں رہ سکتے تھے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں واپس کر دیا تھا۔  ان تمام نئے اہل ایمان نے کوسٹل ہائے وی پر رہنا شروع کیا تو اہل مکہ نے معذرت کر کے اس شرط کو ختم کر دیا اور کہا کہ جو بھی ایمان لائے تو اسے مدینہ منورہ میں ہی جانے دیں۔ خواتین جب ہجرت کرنا چاہتیں تو اس معاہدے میں ان کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، اس لیے اہل ایمان خواتین ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچنے لگیں۔  

 کہ اگر کوئی چاہے تو ہجرت کر کے مدینہ منورہ  آ سکتا ہے جبکہ خواتین سے متعلق کوئی شرط نہیں تھی۔ اگلے سال جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمرہ بھی کر لیا۔ اس کے کچھ  ماہ کے بعد قریش نے اس معاہدے کو کینسل کر دیا کیونکہ انہوں نے ایک دیگر قبیلے پر جنگ کر دی تھی اور وہ قبیلہ ایمان لا چکا تھا۔ پھر قریش لیڈرشپ کو خیال آیا کہ غلطی ہو گئی ہے۔ اس کے لیے مکہ مکرمہ کے حکمران ابو سفیان مدینہ منورہ آئے اور معذرت کرنے لگے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول نہیں کیا اور پھر 8 ہجری میں بغیر جنگ کے مکہ مکرمہ فتح ہو گیا اور پوری آبادی میں ایمان آ گیا۔ اس کے بعد مزید ایک سال کے اندر تمام عرب ممالک کے قبائل ایمان لائے۔  اس وقت دو بڑی شخصیتیں ایمان لائی تھیں اور ان میں ایسی تبدیلیاں ہوئی تو دلچسپ ہے۔

 مکہ مکرمہ کے حکمران ابو سفیان  رضی اللہ عنہ ایمان لائے  جو پہلے جنگ احد اور جنگ خندق  میں مشرکین کے چیف کمانڈر تھے۔ جب طائف کے قبائل نے مکہ مکرمہ پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جنگ   حنین میں لشکر کو لے گئے۔  اس وقت یہ محبت ہو گئی تھی ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گارڈ کے طور پر سامنے کھڑے جہاد کرتے رہے اور ان کی آنکھ بھی  تیر کی وجہ سے ضائع ہو گئی۔ ان  میں سیاسی بصیرت بہت عمدہ تھی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو یمن کے بارڈر نجران کا گورنر بنا دیا۔  

انہی کے دو  بیٹے یزید بن ابو سفیان اور معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما ایمان لائے اور نہایت عمدہ دینی تربیت حاصل کرتے رہے۔ جب رومن امپائر کے ساتھ،  اردن، فلسطین اور سیریا میں جنگیں  ہوئی تو تینوں نے جہاد کیا۔  ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی دوسری آنکھ بھی ضائع ہو گئی اور یزید رضی اللہ عنہ وہیں  رومن ایمپائر کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے۔

معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح کے بعد اردن، فلسطین، سیریا اور لبنان کو سنبھال کر پورا امن پیدا کیا۔ پھر انہی کی کاوش سے یہاں کی اکثریت ایمان لائی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ روزانہ  کیس اسٹڈیز کا مطالعہ کرتے تھے کہ رومن اور پرشین ایمپائر نے کس سیاسی فیصلے پر غلطی ہوئی یا کامیابی ہوئی۔ اس کے لیے انہی رومن اور پرشین امپائر کے ملازمین  انہی ڈیسین میکنگ کے ڈاکومنٹس کو عربی میں ٹرانسلیٹ کر کے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سناتے رہے۔ ان کی کیس اسٹڈیز سے معاویہ رضی اللہ عنہ 40 سال کی حکومت کو کامیابی کے ساتھ چلاتے رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہی عراق اور مصر کی بغاوتوں کو جنگ کے بغیر ہی کامیابی سے ختم کر دیا تھا جس میں سابقون الاولون صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ختم نہیں کر سکے تھے۔

دوسری بڑی شخصیت سہیل رضی اللہ عنہ ایمان لائے جو دو سال پہلے ہی صلح حدیبیہ کے معاہدے میں مشرکین کے امبیسیڈر تھے اور اپنے بیٹے ابوجندل  رضی اللہ عنہ کو روک رہے تھے۔ اب انہوں نے بڑا کارنامہ مزید دو سال بعد کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو مکہ میں کچھ لوگوں نے گینگ بنا کر بغاوت کی پلاننگ کرنے لگے تھے۔ اب وہ بظاہر تو ایمان لا چکے تھے لیکن  سیاست کی وجہ سے حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس وقت سہیل رضی اللہ عنہ نے ایک ایک باغی لڑکوں کو سمجھاتے رہے  کہ وہ بغاوت نہ کریں۔  ان کی مذاکرات کی طاقت سے اس گینگ وار کی طاقت ختم کر دیا تھا اور پھر اہل مکہ نے کبھی بغاوت نہیں کی۔

اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کا مشن صرف 4 سال میں مکمل ہو گیا۔  یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے  جنگی ماحول کو ختم کرنے کو فتح قرار دی۔  قرآن مجید میں اسی سورۃ الفتح 48 کا مطالعہ کر لیجیے اور حدیث میں جس طرح معاہدہ ہوا اور اس کا رزلٹ دیکھ لیجیے کہ اس سے شاندار اسٹریٹجی کونسی ہو سکتی تھی؟

إنّا فتحْنا لك فتْحًا مبينًا. ليغْفر لك اللّه ما تقدّم منْ ذنْبك وما تأخّر ويتمّ نعْمته عليْك ويهْديك صراطًا مسْتقيمًا. وينْصرك اللّه نصْرًا عزيزًا. ‏‏

(اے رسول!)   اس میں کچھ  بھی شک نہیں ہے ہم نے آپ کو کھلی فتح عطا کر دی ہےتا کہ (آپ کامیابی کے ساتھ ) اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائیے۔  اس کے صلے میں) اللہ   تعالی  آپ کو اگلے اور پچھلے سب  (کفار اور منافقین کے جھوٹے پراپیگنڈا والی)  کوتاہیوں کو پاک کر دے تاکہ آپ پر اپنی نعمت مکمل  کردے اور آپ کے لیے ایک سیدھی راہ کھول دے۔ اللہ تعالی  آپ کو ایسی مدد کرے جو ناقابل شکست ہو۔ (سورۃ الفتح 48:1-3)

وهو الّذي كفّ أيْديهمْ عنْكمْ وأيْديكمْ عنْهمْ ببطْن مكّة منْ بعْد أنْ أظْفركمْ عليْهمْ ۚ وكان اللّه بما تعْملون بصيرًا. هم الّذين كفروا وصدّوكمْ عن الْمسْجد الْحرام والْهدْي معْكوفًا أنْ يبْلغ محلّه ۚ ولوْلا رجالمؤْمنون ونساءمؤْمناتلمْ تعْلموهمْ أنْ تطئوهمْ فتصيبكمْ منْهمْ معرّةبغيْر علْمٍ ۖ ليدْخل اللّه في رحْمته منْ يشاء ۚ لوْ تزيّلوا لعذّبْنا الّذين كفروا منْهمْ عذابًا أليمًا۔  

إذْ جعل الّذين كفروا في قلوبهم الْحميّة حميّة الْجاهليّة فأنْزل اللّه سكينته علىٰ رسوله وعلى الْمؤْمنين وألْزمهمْ كلمة التّقْوىٰ وكانوا أحقّ بها وأهْلها ۚ وكان اللّه بكلّ شيْءٍ عليمًا.  لقدْ صدق اللّه رسوله الرّؤْيا بالْحقّ ۖ لتدْخلنّ الْمسْجد الْحرام إنْ شاء اللّه آمنين محلّقين رءوسكمْ ومقصّرين لا تخافون ۖ فعلم ما لمْ تعْلموا فجعل منْ دون ذٰلك فتْحًا قريبًا۔

هو الّذي أرْسل رسوله بالْهدىٰ ودين الْحقّ ليظْهره على الدّين كلّه ۚ وكفىٰ باللّه شهيدًا.  محمّدرسول اللّه ۚ والّذين معه أشدّاء على الْكفّار رحماء بيْنهمْ ۖ تراهمْ ركّعًا سجّدًا يبْتغون فضْلًا من اللّه ورضْوانًا ۖ سيماهمْ في وجوههمْ منْ أثر السّجود ۚ ذٰلك مثلهمْ في التّوْراة ۚ ومثلهمْ في الْإنْجيل كزرْعٍ أخْرج شطْأه فآزره فاسْتغْلظ فاسْتوىٰ علىٰ سوقه يعْجب الزّرّاع ليغيظ بهم الْكفّار ۗ وعد اللّه الّذين آمنوا وعملوا الصّالحات منْهمْ مغْفرةً وأجْرًا عظيمًا۔

وہی اللہ ہے جس نے مکہ کی وادی میں ان کے ہاتھ آپ سے اور آپ کے ہاتھ ان سے روک دیے، اس کے بعد کہ اس رب نے آپ کو ان پر غلبہ بھی عطا کر دیا تھا۔  جو کچھ آپ کر رہے تھے، اللہ تعالی  اسے دیکھ رہا تھا۔ ہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے (اللہ  تعالی  کے  رسول  کا) انکار کیا،  آپ کو مسجد الحرام سے روک  دیا ،  قربانی کے جانوروں کو بھی روک دیا کہ وہیں کھڑے رہ جائیں اور اپنی جگہ پر نہ پہنچنے پائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر (مکہ میں اس وقت) ایسے مومن مرد اور خواتین نہ ہوتیں جنہیں آپ نہیں جانتے تھے کہ(حملہ کرتے تو) روند ڈالتے۔ پھر اس کے نتیجے میں آپ پر بے خبری میں الزام آجاتا  تو ہم جنگ کی اجازت دے دیتے، لیکن ہم نے اس لیے اجازت نہیں دی کہ اللہ تعالی  جسے چاہے، (ایمان کی توفیق دے اور) اپنی رحمت میں داخل کرلے۔   یہ حقیقت ہے کہ اگر وہ منکرین  (مخلص  اہل  ایمان  سے) الگ ہو گئے ہوتے تو ہم ان میں سے منکرین کو دردناک عذاب سے دوچار کردیتے۔

اس وقت کو یاد  رکھیے، جب ان منکروں نے اپنے دلوں میں تعصب  پیدا کر لیا تھا۔ زمانۂ جاہلیت کی سی حمایت تو اللہ تعالی  نے اپنے رسول پر اور ان کے اہل ایمان پر اپنا  اطمینان  نازل فرما  دیا  اور انہیں تقویٰ کا حکم پابند رکھا۔   حقیقتا ً وہ اس کے حقدار اور اس کے اہل بھی تھے اور اللہ تعالی  ہر چیز کا جاننے والا ہے۔

(اس لیے مطمئن رہیں، اہل ایمان!) یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالی  نے اپنے رسول کو بالکل (عمرہ  کرنے  کا) سچا خواب دکھایا تھا۔ بے شک، اللہ تعالی  نے چاہا  تو آپ مسجد الحرام میں ضرور داخل ہوں گے،پورے امن کے ساتھ، اس طرح کہ اپنے سر منڈوائیں گے یا بال کترائیں  گے، آپ کو کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔ بس اتنی بات تھی کہ اللہ تعالی  نے جان لیا جو آپ نے نہیں جانا تھا  تو اس سے پہلے اس نے ایک قریبی فتح  (جنگ  خیبر  جو  مدینہ  منورہ  سے  صرف  70  کلومیٹر  دور) آپ کو عطا فرما دی  ہے۔

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اس سرزمین کے تمام مذاہب  پر وہ اس کو غالب کر دے۔ (یہ ہو کر رہنا ہے) اور اس کی گواہی کے لیے اللہ تعالی  کافی ہے۔ محمد، اللہ کے رسول  اور جو ان کے صحابہ ہیں، وہ منکروں پر سخت اور آپس میں مہربان ہیں۔ آپ انہیں اللہ تعالی  کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود میں سرگرم دیکھیں گے۔ ان کی پہچان ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان سے ہے۔

یہ ان کی مثال  تورات میں ہے  اور انجیل میں بھی۔  ان کی مثال  یہ ہے کہ جیسے کھیت    کا  پودا  نکلا، جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اسے سہارا دیا، پھر وہ بڑا  ہونے  لگا، پھر یہ  درخت  اپنے تنے پر کھڑا ہو گیا۔ کاشت کرنے والوں کے دلوں کو خوش کرتا  ہے کہ منکروں کے دل ان سے جلائے۔ اللہ تعالی  نے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے۔  (سورۃ الفتح 48:24-29)

اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کیا اور وقتی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جذباتی ہوئے تھے لیکن پھر وہ سرنڈر کر کے معاہدے پر قائم رہے۔ اس کا رزلٹ یہ ہوا کہ اگلے کچھ سالوں میں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاورز رومن اور پرشین ایمپائرز بھی سرنڈر ہو گئیں اور اللہ تعالی کا پیغام تمام انسانوں تک پہنچ گیا۔

اگلی حدیث میں یہ دیکھیے کہ اللہ تعالی نے ان فتوحات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو موجودہ زندگی میں اجر ملا تو انہوں نے استعمال کس طرح کرتے رہے۔

حدّثنا قتيْبة بْن سعيدٍ، حدّثنا محمّد بْن عبْد اللّه الأنْصاريّ، حدّثنا ابْن عوْنٍ، قال أنْبأني نافعٌ، عن ابْن عمر رضى الله عنهما أنّ عمر بْن الْخطّاب، أصاب أرْضًا بخيْبر، فأتى النّبيّ صلى الله عليه وسلم يسْتأْمره فيها، فقال يا رسول اللّه، إنّي أصبْت أرْضًا بخيْبر، لمْ أصبْ مالاً قطّ أنْفس عنْدي منْه، فما تأْمر به قال ‏‏إنْ شئْت حبسْت أصْلها، وتصدّقْت بها.‏ قال فتصدّق بها عمر أنّه لا يباع ولا يوهب ولا يورث، وتصدّق بها في الْفقراء وفي الْقرْبى، وفي الرّقاب، وفي سبيل اللّه، وابْن السّبيل، والضّيْف، لا جناح على منْ وليها أنْ يأْكل منْها بالْمعْروف، ويطْعم غيْر متموّلٍ‏.‏ قال فحدّثْت به ابْن سيرين فقال غيْر متأثّلٍ مالاً‏.‏‏

ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ  عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین  کا ایک پلاٹ ملا تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مشورہ کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے، اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا،  آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں ؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر جی چاہیں  تو اصل زمین اپنے ملکیت میں باقی رکھیے اور پیداوار صدقہ کرتے جائیے گا۔

عبداللہ  ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا  (اگلی نسلوں کے لیے  وقف کر دیا) کہ نہ اسے بیچا جائے گا،  نہ اسے تحفہ کے طور پر دیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی۔  اسے آپ نے محتاجوں،  رشتہ داروں اور غلام آزاد کرانے کے لئے  استعمال کریں گے۔  اللہ تعالی کے دین کی تربیت  اور تعلیم کے لئے اور مہمانوں کیلئے صدقہ (وقف ) کر دیا۔  یہ کہ اس کا منیجر اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کر لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔

  ابن سیرین نے فرمایا  کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ  اس منیجر کو اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو  (بلکہ محض اپنی تنخواہ یا مشکلات ہی  میں رقم لے سکتا ہے۔) (بخاری، کتاب الشروط،54:2737)

اس حدیث میں صرف ایک صحابی عمر رضی اللہ عنہ کا عمل تھا کہ انہیں جو بڑی پراپرٹی ملی تو اس کا استعمال کیسے کیا؟ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اسی نوعیت کا رویہ ہمیں مل سکتا ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
داڑھی، عمامہ، ٹوپی اور اونچی شلوار کیے بغیر نیکی نہیں ہو سکتی ہے؟
Scroll to top