سوال: بچپن میں کہیں پڑھا تھا کہ جب کعبہ پہ پہلی نظر پڑے تو اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے قبول ہوتی۔ میرا اس پہ اعتقاد بیٹھ گیا اور میں اپنے جاننے والوں کو جو حج و عمرہ پہ جاتے کہتا کہ پہلی نظر اپنی مغفرت کی دعا مانگنا (خود ابھی تک حاضری سے محروم ہوں)۔ اس روایت کی کیا حقیقت ہے؟ کیا یہ درست ہے؟ شہزاد افسر ملک
جواب: اس میں کچھ روایات ہیں جن کی بنیاد پر لوگوں نے سمجھا ہے۔ اس کے لیے ان روایات کو چیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ یہ میں نے کچھ یہ ڈھونڈی ہیں تو اس طرح رزلٹ آیا ہے۔
تُفْتَحُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيُسْتَجَابُ الدُّعَاءُ فِي أَرْبَعَةِ مَوَاطِنَ: عِنْدَ الْتِقَاءِ الصُّفُوفِ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَعِنْدَ نُزُولِ الْغَيْثِ، وَعِنْدَ إِقَامَةِ الصَّلَاةِ، وَعِنْدَ رُؤْيَةِ الْكَعْبَةِ۔
آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور چار مقامات میں دعا قبول ہوتی ہے: جب صفیں اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) مل کر کھڑی ہوں، بارش برستے وقت، نماز قائم ہوتے وقت اور دیدارِ کعبہ کے وقت۔
طبراني، المعجم الكبير، 8: 169، رقم: 7713، الموصل: مكتبة الزهرا
بيهقي، السنن الكبرى، كتاب صلاة الاستسقاء، باب طلب الإجابة عند نزول الغيث، 3: 360، رقم:6252
اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ ایک راوی قابل اعتماد نہیں ہے۔
اب اس کے متن کو آپ لاجیکل طریقے سے سوچ لیجیے۔ بات کسی حد تک لاجیکل لگتی ہے کہ اللہ تعالی کسی وقت بھی دعا قبول کر سکتا ہے۔ اس ٹائم پر ذرا انسان اللہ تعالی کے ساتھ فوکس کر لیتا ہے تو امید ہے کہ کافی چانس ہے کہ اللہ تعالی اس دعا کو قبول فرما لے۔ اب حدیث ضعیف ہے لیکن لاجیکل ہی خود سوچ لیں کہ کافی چانس بن سکتا ہے۔
سوال: دوسرا جو کچھ حضرات نے مشہور کر رکھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ولادت کعبہ میں ہوئی تھی۔ یہ تاریخی لحاظ سے درست ہے؟ طبیعت اس لیے نہیں مانتی کہ بیت اللہ ہر دور میں مقدس جگہ رہی تو ایسی مقدس ترین جگہ پہ بچہ جنم دینے کی کیسے اجازت ہوگی؟ اس روایت کی کیا حقیقت ہے؟ شہزاد افسر ملک
جواب: اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بارے میں روایت کو چیک کر لیجیے۔ مجھے یہ ملی ہے۔
وقد تواترت الاخبار ان فاطمه بن اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن طالب کرم الله وجه فی جوف الکعبه
یعنی یہ تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علیؓ کو کعبہ کے اندر جناـ مستدرك حاكم: 483/3
اب عربی میں اسے ڈھوندنے کی کوشش کی ہے تو مشکل یہ ملی ہیں لیکن کعبہ کی بات نہیں ہے۔
ان روایات میں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ولادت کا ذکر ہے لیکن کعبہ کی کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ اب اس تاریخی روایت پر لاجیکل سوچ لیجیے۔ ایک خاتون پریگننٹ سے کچھ گھنٹہ پہلے حرم شریف میں آ سکتی ہیں اور اگر طاقت ہو تو عمرہ بھی کر سکتی ہیں۔ اس زمانے میں خاتون کی صحت اچھی تھی تو اگر مشکل بھی ہو تو خاتون طواف پر کسی اونٹ یا گھوڑے میں کر سکتی ہیں۔ اب ایسا کرتے ہوئے پریگننٹ ہونے لگے تو اس زمانے میں دایہ خاتون کو پلایا جاتا تھا۔ اب اس کی ضرورت ہی کیا تھی؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا گھر بھی حرم شریف کے پاس ہی تھا جو آج کل آپ کچھ منٹ کے لیے پہنچ سکتے ہیں۔ پریگننٹ کی حالت میں فوراً گھر تک پہنچ سکتی تھیں اور دایہ خاتون بھی آ سکتی تھیں۔ پیدل مشکل بھی ہو تو خاتون کو کسی بھی بیڈ میں لوگ لیجا سکتے ہیں۔ لوکیشن اس طرح دیکھ لیجیے اور یہ صرف 5-10 منٹ میں ہی ہو سکتا ہے۔
اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض غلو اور ایکسٹریم ازم کی کہانی ہی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں بالفرض اگر وہیں حرم شریف کے سامنے ہی یا کعبہ کے اندر بچہ پیدا ہو بھی جائے تو اس بچے کو کیا فائدہ ہے؟ اس میں یہی معلوم ہو سکتا ہے کہ خاتون میں صحت اور طاقت بڑی اچھی تھی لیکن اس خاتون یا بچے کے لیے عقیدت تب بھی ثابت نہیں ہوتی ہے۔ لگتا یہی ہے کہ غلو کے لیے لوگوں کو متاثر کرنے کے لیے کسی نے کہانی گھڑی ہو گی۔ بہت سے ان پڑھ لوگوں میں توہم پرستی تو موجود تھی، اس لیے جنہوں نے کہانیاں ایجاد کر دیں، وہ متاثر ہو گئے اور عقیدت زیادہ کرنے لگے۔
حالانکہ مکہ مکرمہ پورے شہر میں ہی حرم شریف کی باؤنڈری ہے اور اہل مکہ کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسی حرم شریف میں پیدا ہوئے۔ لیکن ان کی پرفارمنس دینی خدمت پر عقیدت بنتی ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ہی ہے کہ انہوں نے دینی خدمت کیا کرتے رہے۔ ان کی پیدائش سے ان پر محبت پیدا نہیں ہوسکتی ہے بلکہ ان کے ایمان اور نیک عمل پر محبت پیدا ہوتی ہے۔
ایک یہ کہانی بھی پڑھی ہے۔
مستدرک ،ج۳،ص483 پر اس حدیث کو باسندو متواتر لکھا ہے۔
وَقَد تَوَاتِرَتِ الاَخبٰارُ اَنَّ فَاطِمَۃَ بِنتِ اَسَد (ع) وَلَدَت اَمِیرَ المُومِنِینَ عَلِی ابنُ اَبِی طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجہَہُ فِی جَوفِ الکَعبَۃ۔
امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ ،فاطمہ ابنت اسد کے بطن مبارک سے خانہ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے۔
اسے آپ لاجیکل اپنی فیملی یا کسی ڈاکٹر سے ہی پوچھ لیں کہ خاتون کی صحت بہت عمدہ ہو تو پھر پریگننٹ میں کتنا ٹائم لگتا ہے؟ اگر یہ سلسلہ کعبہ ہی میں شروع ہو جائے تو کتنے ٹائم میں ڈیلوری ہو سکتی ہے اور اس پراسس میں کن دایہ کی ضرورت ہو گی جو مدد کر سکیں؟ پھر قدیم زمانے میں صحت اور اچھی ہو تو اس میں کتنی آسانی ہو گی؟ پھر آپ لاجیکل سوچیں۔
اب میں کوشش کر رہا ہوں کہ حاکم صاحب نے جو کہانی لکھی ہے، اس میں راوی کون ہیں جنہوں نے یہ روایت ایجاد کی ہے۔ کہنے کو تو لوگ تواتر کہہ دیتے ہیں لیکن تواتر کا مطلب یہ ہے کہ عین پیدائش کے ٹائم سینکڑوں لوگوں نے واقعہ دیکھا اور انہوں نے اگلی جنریشن کو بتایا اور پھر ہر پیریڈ میں ہزاروں لوگوں کو بیان کرنا چاہیے۔ تب جا کر حاکم صاحب کے زمانے میں ہزاروں لوگ بیان کرتے تو پھر سینکڑوں کتابوں میں آ جاتا۔ تو پھر صرف حاکم صاحب ہی کو معلوم ہوا اور باقی تمام محدثین کو معلوم ہی نہیں ہوا؟
چلیے یہ تو لاجیکل ڈسکشن ہے۔ اب اس میں مجھے دلچسپی ہے کہ راوی کون صاحب تھے جنہوں نے کہانی ایجاد کی؟ اس سے یہ فائدہ ہے کہ پھر اس راوی کے بارے میں دیکھ سکیں۔ میں نے حاکم نیشاپوری صاحب کی کتاب ڈھونڈی ہے۔ اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں کتاب ہے جو اس لنک پر موجود ہے۔
https://ia800304.us.archive.org/3/items/waq66017/03_66019.pdf
اب اس میں صفحہ 116 میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ساری روایات ہیں۔ پلیز آپ جوف کعبہ کے الفاظ کو اس میں ڈھونڈ کر مجھے بتا دیجیے۔ پھر ان کے راویوں کی ببلیو گرافی کو چیک کر لیں گے۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ اس راوی سے ہم جان چھڑا لیں جس نے کہانی ایجاد کی ہے۔
میں نے بھی جب ڈھونڈ لیا تھا تو وہی رزلٹ سامنے آیا جو آپ نے بیان فرمایا ہے۔ حاکم صاحب ہی نہیں بلکہ دیگر کتابوں میں بھی تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی ایجنڈا کے لیے عقیدت اور شخصیت پرستی کو ایک سیاسی ٹول کے طور پر استعمال پہلے بھی کیا گیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ میں نے حاکم صاحب کے راویوں کو ڈھونڈا تو یہ شکل سامنے آئی ہے۔
حاکم نیشاپوری صاحب کی زندگی 321-405 ہجری میں ہے۔ اب تواتر اگر فرمائیں تو پھر ہر ٹائم یعنی 1-405 ہجری میں ہزاروں افراد بیان کر رہے ہوں تو تب جا کر تواتر بن سکتا ہے۔ ایک لنک میں راویوں کے نام مل گئے ہیں لیکن محدثین نے ضعیف ہی فرمایا ہے۔
https://www.banuri.edu.pk/readquestion/kaba-ky-andar-peda-hony-waly-ashkhas-144412100536/25-06-2023
"أخبرنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه، ثنا إبراهيم بن إسحاق الحربي، ثنا مصعب بن عبد الله، فذكر نسب حكيم بن حزام وزاد فيه، «وأمه فاختة بنت زهير بن أسد بن عبد العزى، وكانت ولدت حكيما في الكعبة وهي حامل، فضربها المخاض، وهي في جوف الكعبة، فولدت فيها فحملت في نطع، وغسل ما كان تحتها من الثياب عند حوض زمزم، ولم يولد قبله، ولا بعده في الكعبة أحد» قال الحاكم: «وهم مصعب في الحرف الأخير، فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة»".
(ذكر مناقب حكيم بن حزام القرشي رضي الله عنه، ج:3، ص:550، ط:دارالکتب العلمیۃ)
اب راویوں کو دیکھا تو پہلے راوی ابوبکر محمد بن احمد کے بارے میں معلوم نہیں ہوا کہ وہ کون صاحب تھے اور کیا وہ قابل اعتماد تھے یا نہیں۔ ابراہیم اور مصعب صاحبان کا معلوم ہوا کہ قابل اعتماد تھے۔ فاختہ صاحبہ کا کچھ معلوم نہیں ہوا۔ اس سے یہی معلوم ہوا کہ پھر یہ ابوبکر محمد صاحب ہی کوئی مجہول ہیں یعنی ان کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کون صاحب تھے اور کیسے آدمی تھے۔
اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ کہانی ایجاد کی ہو گی۔ اگر ان سے پہلے کئی صدیوں میں کسی نے ایجاد کی ہوتی تو دیگر کتابوں میں کچھ مل جاتا لیکن سب کچھ غائب ہے۔ اس سے سبق یہی ملا ہے کہ عقیدت پسندی والی کہانیوں پر اچھی طرح جانچ پڑتال کر کے ہی غور کرنا چاہیے۔ پھر کہنے کو کسی نے تواتر کہہ دیا ہے تو اسے بھی ریچک کر لیا کریں کہ احادیث کی کن کن کتابوں میں موجود ہے تاکہ معلوم ہو کہ یہ سچ مچ تواتر ہے یا محض کہانی ہی ہے۔
کنکلوین یہی ہے کہ حضرت علی اور حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما کے ایمان، اعلی نیک عمل اور دینی خدمت کی بنیاد پر ہی ہمیں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنی چاہیے لیکن معجزانہ کہانیوں کی بنیاد پر محبت لاجیکل نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کے صرف اور صرف دینی خدمت کی بنیاد پر محبت کرتے رہنا چاہیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com