سوال: زمین کا ٹھیکہ یا کرائے پر دینا کیسا ہے؟ ایک حدیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس فالتو زمین ہے وہ اسے اپنے بھائی کو کاشت کے لئے دے دے۔ ڈاکٹر اسرار صاحب زمین کے اس کرائے یا ٹھیکہ کو زمین کا سود قرار دیتے ہیں۔ برائے مہربانی اس پر تفصیلی وضاحت فرمائیں۔
جواب: زمین کا ٹھیکہ بنیادی طور پر کرائے کے طور پر ہوتا ہے۔ حدیث میں اس زمین کا تعلق ہے جس میں اس زمین کا کوئی مالک نہ ہو بلکہ وہ آزاد زمین ہو۔ اسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا تھا کہ جو آزاد زمین ہے تو اسے اپنے بھائیوں کو دینے دیں۔ اگر اس زمین کا مالک ہے لیکن یہ زمین بیکار ہے تو پھر اس کے لیے تلقین فرمائی کہ اپنے بھائیوں کو زمین دے دیجیے تاکہ وہ کاشت کر سکے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ زمین کا مالک ہے اور وہ خود کاشت کر رہا ہے تو اس میں کوئی پابندی نہیں فرمائی کہ آپ دوسروں کو دیں۔ ہاں اگر بہت بڑی زمین پر ایک آدمی یا فیملی ہی مالک ہے تو پھر تلقین ہے کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی دیں تاکہ وہ کاشت کر سکیں۔
اب آپ دیکھیے کہ آپ کے پاس زیادہ زمین ہے اور اس سے کرائے پر دینا جائز ہے لیکن یہ ضرور دیکھ لیجیے کہ زمین کو استعمال کس چیز پر کرنا چاہتا ہے؟ مثلاً وہ شخص زمین سے مسلسل آمدنی لے رہا ہے جیسے مثلاً پارکنگ کے طور پر بنایا ہے تو پھر مالک کرایہ ضرور لے سکتا ہے۔
ایگریکلچر کے لیے یہ ایشو ہے کہ وہ آمدنی آ بھی سکتی ہے اور نہیں بھی کیونکہ کھیت بارش یا سیلاب وغیرہ کی صورت میں نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیے فقہاء نے عموماً یہی اجتہاد کیا کہ کرائے کے لیے کھیت کو نہ دیں بلکہ جتنی ہی آمدنی بنے تو مالک اور کاشتکار کو آدھا آدھا حصہ مل جائے۔ ظاہر ہے کہ کسی کو بھی نقصان نہ ہو بلکہ دونوں کو فائدہ ملے۔
اب پاکستان کے ماحول میں یہ ایشو ہے کہ کاشتکار بھی فراڈ کرنے کا چانس ہوتا ہے کہ مالک کو کم آمدنی دکھا کر تھوڑی رقم دے دیتے ہیں۔ اس وجہ سے مالک کرائے پر ہی زمین دے دیتے ہیں تاکہ کاشتکار فراڈ نہ کر سکیں۔ میری ریسرچ میں اس حد تک تو کرایہ درست ہے لیکن اس معاہدے میں دونوں کو یہ طے کر لینا چاہیے کہ اگر سچ مچ نقصان جیسے سیلاب وغیرہ یا بارش سے سارے پودے تباہ ہو گئے تو پھر مالک، اس کرایے کو کاشتکار کو واپس دے دے تاکہ کسی کو نقصان نہ ہو۔
ڈاکٹر اسرار صاحب نے جو فرمایا تھا تو ان کی ریسرچ یہ تھی کہ پنجاب اور سندھ کی ساری زمین مسلمانوں کی فتوحات کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ یہ عرض کر دیتا ہوں کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس طرح فتح کرتے تھے تو وہ عوام کی زمین پر قبضہ ہرگز نہیں کرتے تھے کیونکہ قرآن مجید میں حکم یہی ہے کہ دوسروں کی پراپرٹی اور مال پر قبضہ حرام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے مطابق یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب حکومت کی زمین جو مل جاتی تھی تو اسے عوام کی خدمت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ مشہور ڈسکشن تھی جو پارلیمنٹ کے دوران ہوئی تھی۔
جاہلیت میں مشرکین طریقہ کار یہ تھا کہ جب کوئی قبیلہ دوسرے قبیلہ سے جنگ کر کے فتح کر دیتے تو پھر فوجی اس زمین پر قبضہ کر لیتے تھے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فتح کے نتیجے میں احکامات نازل کیے۔ یہ حکم سورۃ الحشر 59 میں ہے۔
مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ. (7)
(اِس لیے) اللہ تعالی جو کچھ اپنے رسول کی طرف اِن شہروں کے لوگوں سے اٹھا کر فتح میں رسول کو دے دے تو پھر (اس کے اخراجات)اس طرح ہوں گےکہ اللہ، رسول اور ان کی فیملی، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے۔ رسول جو تمہیں دے دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے روکیں، اُس سے رک جاؤ۔ اللہ تعالی سے وارننگ لیے رکھو کیونکہ یقیناً اللہ بڑی سخت سزا دینے والا ہے۔ (الحشر 59)
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتوحات کیں تو اس وقت اس زمانے کی دونوں سپر پاورز رومن ایمپائر اور پرشین ایمپائر کی زمین خدمت میں آ گئی۔ اس زمانے میں زرخیز زمینوں پر قبضہ بادشاہوں نے کی ہوئی تھی اور وہ اپنی عیاشی میں استعمال کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پارلیمنٹ میں یہ ڈسکشن ہوئی کہ اس زمین کا کیا کیا جائے؟ اس میں کئی دن تک ڈسکشن جاری رہی اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کی اس آیت پر فیصلہ کر دیا جس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اتفاق کر دیا۔
یہ پوری تفصیلات امام ابویوسف رحمتہ اللہ علیہ نے حکومت کے فنڈ پر ’’کتاب المال‘‘ لکھ دی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکومت فنڈز کا استعمال ۔۔۔ سورۃ الحشر کے ارشادات
۔۔۔۔۔ اللہ تعالی کا فنڈ ۔۔۔ تعلیم کے ذریعے عوام اور اگلی نسل کے بچوں کی تعلیم
۔۔۔۔۔ رسول اور ان کی فیملی کی تنخواہیں ۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی فیملی کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ قرآن مجید پڑھاتے ہوئے تمام مردوں اور خواتین کی تربیت کر سکیں۔
۔۔۔۔۔ یتیموں ، مسکینوں ، مسافروں کے لیے خاص فنڈ تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے۔
.4صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حکومتی تنخواہیں ۔۔۔ رسول جو آپ کو دے دیں، وہ لے لیجیے اور جس چیز سے روکیں، اُس سے رک جائیے۔
۔۔۔۔۔ غریب مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں اور جائیدادوں سے نکال باہر کیے گئے ہیں۔ وہ تمام انسان جنہیں مذہبی جبر ہو تو وہ ہجرت کر سکیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتقال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فائنانشل مینجمنٹ معاہدہ
جب حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی حکومتوں میں عراق، ایران، فلسطین، مصر اور یمن فتح ہوئے تو اس زمانے کی سپر پاورز میں بادشاہوں کی زرخیز زمینیں ملیں۔ اس ووقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پارلیمنٹ میں چھ دن تک گفتگو کرتے رہے کہ ان زمینوں سے فنڈز کا استعمال کیسے ہو۔ خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے سورۃ الحشر کی انہی آیات سنا دیں تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اتفاق کر دیا کہ اسی حکومتی فنڈزکا استعمال ہو گا۔ مزید صورتیں سامنے آئیں تو فنڈز کو مزید استعمال یہاں ہوتا رہا۔
۔۔۔۔۔ غیر مسلموں کو کھیتوں پر جاب ۔۔۔ نہروں کا نظام اور کھیت کی مدد
۔۔۔۔۔ نصف غیر مسلموں کا حصہ اور نصف حکومت کا فنڈ ۔۔۔ اس میں غیر مسلم متاثر ہوئے کہ بادشاہ تو انہیں آمدنی کا صرف 5% دیتے تھے لیکن اسلامی حکومت ہمیں 50% حصہ دے رہے ہیں۔ وہ انتہائی متاثر ہوئے اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کالجز میں مطالعہ کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔ حکومت کو تمام انسانوں کی خدمت۔۔۔ جو فنڈز بچ جاتا تو اسے تمام انسانوں کو تحفے کے طور پر دے دیتے۔ غربت اس طرح ختم ہوئی کہ لوگ زکوۃ کو لینا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ جو غلام باقی تھے تو انہیں رقم دے کر آزاد کر دیتے تھے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وفات کے بعد بادشاہت کی کرپشن
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے انتقال کے بعد بادشاہت شروع ہوئی اور انہوں نے کرپشن کے طریقے اختیار کرنے لگے اور پھر وہی جاہلیت پر عمل کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں انہی کے شہزادے ایک دوسرے سے جنگیں کرتے رہے اور فساد کرتے رہے۔ اسی کا نتیجہ یہی ہوا کہ مسلمانوں پر مغلوبیت کی وہی سزا ملی جو بنی اسرائیل کو ہو چکی تھی۔
اس لیے یہ ساری زمین حکومت کی ہے اور اس کے لیے جاگیرداروں کو بہت بڑی زمین دینی ہی نہیں چاہیے۔ تاریخی طور پر یہ حرکت ہوئی کہ مسلمانوں بادشاہوں اور انگریزوں نے بھی جاگیرداروں کو بڑی بڑی زمین دے دی جو کرپشن جیسی شکل تھی جو حرام عمل تھا۔
جب پاکستان آزاد ہوا ہے تو انہیں جاگیردارانہ سلسلے کو ختم کر دینا چاہیے کیونکہ وہ کاشتکاروں پر ظلم اور استحصال کرتے رہتے ہیں۔ان کی یہ ریسرچ بالکل درست ہے اور حکومت ہی کو زمین جاگیرداروں سے لے کر غریب کاشتکاروں کو دینی چاہیے تاکہ کوئی کسی پر ظلم نہ کر سکے ۔ یہ خبر دی گئی تھی کہ انڈیا میں جب آزادی ہوئی تو انہوں نے جاگیردارانہ نظام ختم کر دیا تھا۔ اللہ کرے کہ انہوں نے سچ مچ کیا ہوتا تو پھر انسانیت کے بارے میں ایک عمدہ عمل ہوتا۔
اگر سچ مچ ہوا تھا تو اس وقت سوشل ازم کا نظام قائم ہوا تھا لیکن بعد میں حکومت کی کرپشن سامنے آئی۔ اس کے لیے کئی مرتبہ ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ کاشتکار مسلسل احتجاج کرتے رہے ہیں کہ ان کی کاشت کی اصل رقم نہیں مل رہی اور اخراجات زیادہ موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انڈین پنجاب اور دیگر ریاستوں میں بھی دیہاتی لوگ جدید تعلیم حاصل کر کے امیگریشن کر رہے ہیں۔ بالکل یہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے، اس لیے دونوں ممالک کے نوجوان مرد و خواتین امیگریشن کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کی بنیاد یہی ہے کہ دونوں ممالک کی اکنامکس بری طرح تباہ ہو چکی ہے اور دونوں ممالک ہی مقروض ہو چکے ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ انسانیت کے لیے تمام غریب ممالک پر مدد فرما دے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com