سوال: قرآن مجید میں آدم علیہ السلام کی نبوت کی دلیل کہاں بیان ہوئی ہے؟
جواب: قرآن مجید میں دلیل کیا بلکہ ثبوت کے طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے جس میں نبوت کے آغاز کا ذکر ہے۔ اس کے لیے آپ سورۃ البقرۃ اور سورۃ الاعراف کا مطالعہ کر سکتے ہیں تو اس میں دلیل سامنے نظر آ جائے گی۔ اس میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالی حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے گفتگو فرما رہے ہیں جس سے یہ دلیل ہے کہ صرف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ہی سے اللہ تعالی کی گفتگو ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی تمام انسان مانتے ہیں کہ پہلے انسان حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالی کے نبی تھے۔
سوال: اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ کا آدم علیہ السلام سے کلام کرنا ان کے بنی ہونے کی دلیل ہے تو ایسا مکالمہ تو ذو القرنین سے بھی ہوا ہے جس کا ذکر سورۃ الکہف میں موجود ہے۔ اس لحاظ سےذوالقرنین بھی نبی ہونے چاہئیں،لیکن انہیں کوئی نبی تسلیم نہیں کرتا۔ نیز فرشتوں کا سیدہ مریم صدیقہ علیہا السلام سے بھی مکالمہ سورۃ آلِ عمران میں موجود ہےلیکن انہیں بھی نبیہ تسلیم نہیں کیا جاتا، کیوں ؟
طلحہ خضر
جواب: ذوالقرنین رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق نبی ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن اتنا ضرور بتایا گیا ہے کہ وہ نیک بادشاہ تھے۔ ان کے سفر کا جو ذکر ہے، اسے پھر میں نے تاریخ میں پڑھا اور لوکیشنز کو بھی چیک کیا تو یہی معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام سائرس تھا اور عرب لوگ انہیں ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ کہنے لگے کیونکہ ان کے بادشاہی تاج میں دو سینگ بنے ہوئے تھے اور آثار قدیمہ میں ان کے مجسمے اس طرح ہی بنے ہوئے ہیں چنانچہ عربوں نے انہیں ذوالقرنین یعنی دو سینگ والے بادشاہ کہنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالی نے ان کی زبان میں قرآن مجید نازل کیا تاکہ عربوں کو معلوم سکے۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Cyrus_the_Great
سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کا قرآن مجید میں ذکر ہے اور انہیں نبی بالکل نہیں کہا گیا۔ ہاں فرشتوں سے ان کی گفتگو کا ذکر ہے۔ اب نارمل حالات میں عام انسان فرشتوں سے گفتگو نہیں کر سکتا ہے لیکن سیدہ مریم رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک مخصوص معاملہ کرنا تھا کہ شادی اور ازدواجی تعلق کے بغیر بچہ پیدا ہو۔ اللہ تعالی کو پہلے ہی معلوم تھا کہ بنی اسرائیل کے مذہبی لوگ تو ان پر الزام لگائیں گے اور تورات میں بھی حکم تھا جس کے مطابق بدکاری کی سزا ہونی تھی۔ سیدہ مریم رضی اللہ عنہا بھی تورات کے قانون کو جانتی تھیں۔ اب ایک مخصوص طریقے سے پیدائش ہونی ہے تو سیدہ بہت پریشان تھیں ۔اس وجہ سے انہیں فرشتے سے گفتگو کروا دی تاکہ وہ مطمئن رہیں اور ساتھ ان کے لیے فروٹس کا اہتمام بھی کر دیا۔
سوال: اس کے علاوہ اگر کوئی لفظ اصطفی سے نبوت ِ آدم علیہ السلام کی دلیل لیتا ہے تو یہی لفظ سیدہ مریم صدیقہ سلام اللہ علیہا کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ۔ انہیں بھی نبیہ مانا جاناچاہیے لیکن کوئی نہیں مانتا، کیوں؟
جواب: اسی آیت کے ساتھ آپ دوسری آیت بھی دیکھ لیجیے تو اس کا معنی نکل آتا ہے۔ اصطفی کا معنی تو انتخاب ہے لیکن نبوت کا ذکر دوسری آیت میں ہے۔
إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ۔
اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالی نے آدم ، نوح، ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب فرمایا۔ (آل عمران 3:33)
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا ۚ إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا۔
یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انبیاء کرام میں سے اپنا فضل فرمایا ، آدم کی اولاد میں سے اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ جہاز پرسوار کیا تھا۔ اور ابراہیم اور اسرائیل کی نسل سے اور اُن لوگوں میں سے جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور انتخاب کیا تھا۔ اُن کو جب خدائے رحمن کی آیات سنائی جاتی تھیں تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے جاتے تھے۔ .(سورۃ مریم19:58ٌ)
سوال: جس روایت سے نبوت آدم علیہ السلام کی دلیل لی جاتی ہے کیاوہ ضعیف ہے؟
جواب: یہ روایت بالکل درست ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ میچ کر رہی ہے۔ پھر یہاں کسی روایت کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ تمام انسان ہر دورمیں اتفاق رکھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام ، اللہ تعالی کے نبی تھے۔ بنی اسرائیل کی تاریخی کتاب بائبل میں بھی یہی بات ہے اور ہندو، بدھ اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی یہی مانتے ہیں۔ تاریخ میں اس سے بڑھ کر تواتر کے بعد روایت کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ایک روایت میں راوی قابل اعتماد نہ بھی ہوں لیکن اس کا تواتر ایسا ہے جیسے انسان سورج کو دیکھ کر یقین کرتا ہے۔
سوال: اگر کوئی شخص نبوت آدم علیہ السلام کا منکر ہو ، تو کیا وہ کافرکہلائے گا؟
جواب: اس آیت میں دلیل اتنی کافی ہے کہ اسے پڑھ سمجھ کر انسان انکار کرے گا تو وہ کفر ہی کرے گا۔ کوئی انسان اگر غلط فہمی سے اور قرآن مجید کو سمجھے بغیر ایسا کہہ بیٹھا ہے تو پھر اس کی اصلاح کی ضرورت ہی ہے تاکہ وہ قرآن مجید کا مطالعہ کر لیں۔
سوال: کیا نماز ،زکوٰۃ اور حج وغیرہ مکہ میں بھی فرض تھے؟
جواب: جہاں تک نماز، زکوۃ، روزہ کے متعلق دین کے بنیادی احکامات ہیں۔ قرآن مجید کے نزول وقت سے دینی احکامات شروع نہیں ہوئے ، بلکہ مکمل ہو کر ختم ہوئے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوۃ، اخلاقیات یہ سب دین کے ایسے احکامات ہیں جو حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر آج تک ہیں۔ اس لیے مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان پر عمل کرتے تھے بلکہ نبوت سے پہلے بھی اسی طرح نماز، روزہ، زکوۃ اور حج سب پر عمل کرتے رہتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں قریش قبیلہ جو رہتا تھا، ان میں حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام نے دینی احکامات جو قبل مسیح 2000 میں سمجھائے تھے، انہیں یاد تھا۔ اس لیے نیک لوگ اس پر عمل کرتے رہتے تھے۔
آپ جب بھی تورات کا مطالعہ کریں گے، تو اس میں آپ کو یہی دینی احکامات نظر آئیں گے۔ اس سے پہلے بائبل میں تاریخ کی پہلی کتاب پیدائش کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو وہاں پر بھی نظر آئے گا کہ دینی احکامات اسی طرح انسانیت شروع ہونے سے جاری تھے۔
300CE
مکہ مکرمہ میں یہ ہو گیا تھا کہ قریش اور دیگر عرب قبائل میں شرک کا سلسلہ بعد مسیح 300 میں ہوا تھا، چنانچہ ان کے برے لوگ انحراف کرنے لگے اور پھر کافی لوگ ایسی حرکتیں کرتے رہے۔ لیکن زکوۃ، نماز، روزہ اور حج تب بھی جاری رہا۔ اس میں ایک دلچسپ واقعہ ہے جو حدیث میں ملتا ہے۔ قریش کے لوگوں نے حج میں یہ انحراف کیا تھا کہ انہوں نے عرفات جانا چھوڑ دیا تھا بلکہ انہوں نے بدعت ایجاد کی کہ ہم حرم شریف کے رہنے والے ہیں، اس لیے ہم عرفات نہیں جائیں گے۔ ایک بار ایک قریش کے ایک آدمی کا اونٹ بھاگ گیا۔ اب وہ اونٹ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے عرفات پہنچ گیا تو وہاں اسے اپنا اونٹ مل گیا۔ اس موقع پر وہ حیران ہوئے کہ قریش کے لڑکے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)عرفات میں بیٹھے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ آپ کیسے یہاں آ گئے ہیں ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتا دیا کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے حج کا یہی طریقہ بتایا تھا۔ اس لیے عرفات میں پہنچنا سب حاجیوں پر لازم ہے۔
یہ واقعہ نبوت سے بہت پہلے ہوا تھا۔ کافی عرصے بعد وہ صاحب ایمان لائے تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا صحیح طریقہ بتا دیا۔ اس میں وہی صحابی رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ حج کا یہی طریقہ نبوت سے پہلے بھی ایسے ہی تھا۔
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جب تک ایمان نہیں لائے تھے، اس وقت بھی وہ نماز، روزہ، زکوۃ اور حج پر عمل کرتے تھے کیونکہ انہیں بچپن میں عادت بن گئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور ان تک دعوت پہنچی تو وہ خود ایمان لائے تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ پہلے بھی جاری تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے پہلے ہی آپ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان کردہ شریعت پر عمل کرتے تھے۔
جس واقعے کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یہ ہے؛
سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَمِنَ الْحُمْسِ، فَمَا شَأْنُهُ هَاهُنَا وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُعَدُّ مِنَ الْحُمْسِ۔
جبیر بن مطعم نے کہا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا اور اس کی تلاش کو نکلا عرفہ کے دن تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں عرفات میں، تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تو حمس کے لوگ ہیں ان کو کیا ہوا جو یہاں تک آ گئے (یعنی قریش تو مزدلفہ سے آگے نہیں آتے تھے) اور قریش حمس میں شمار کیے جاتے تھے (جو لوگ مزدلفہ سے باہر نہ جاتے تھے۔ (صحيح مسلم/كِتَاب الْحَجِّ/حدیث: 2956)
اصل میں وجہ یہی تھی کہ قریش نے جب گمراہی اختیار کی تو انہوں نے یہ بدعت ایجاد کر دی کہ ہم تو حج میں حرم شریف کے باہر نہیں نکل سکتے۔ اس لیے انہوں نے مزدلفہ تک ہی رہتے تھے کیونکہ مزدلفہ میں حرم شریف ختم ہو جاتا ہے اور عرفات اس باؤنڈری سے باہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بدعت سے جان چھڑا لی اور نبوت سے پہلے بھی شریعت پر عمل کرتے رہے کیونکہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام نے شریعت کا حکم بتا دیا تھا کہ حج کے لیے آپ کو عرفات تک جانا ہے۔

Your questions should sent at mubashirnazir100@gmail.com.
تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس
علوم القرآن کا دور جدید اردو زبان میں مطالعہ ۔۔۔ ترجمہ اور تفسیر
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com