سوال : السلام علیکم! بھائی میرے سوالات عدت کی علت کے متعلق ہیں۔ برائے مہربانی ترتیب اور تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرمایئے۔
طلاق کی صورت میں تین حیض یا تین ماہ عدت کی مدت کی عِلت کیا فقط حمل کی موجودگی کو معلوم کرناہے؟ اگر آج کے دور میں کسی نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ کنفرم ہو جائے کہ حمل کا کوئی چانس نہیں تو کیا پھر بھی تین حیض تک انتظار کرنا ہو گا یا اُسی وقت عدت ختم ہو جائیگی ؟
جواب: عدت کی حیثیت پر پہلے غور فرما لیجیے کہ عدت صرف یہ ہے کہ جب بھی طلاق ہوجائے یا شوہر فوت ہو جائے تو بیگم پر یہ ہے کہ عدت کے پیریڈ میں وہ اگلی شادی نہیں کر سکتی ۔ بس اتنی ہی لمٹ ہے اور یہ الگ بات ہے کہ انڈیا کے کلچر میں فقہاء نے عدت میں مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں ورنہ ان کی دین میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔
عدت کا مقصد صرف یہی ہے کہ خاتون کے پیٹ میں اگر کوئی بچہ موجود ہو تو وہ سامنے آ جائے اور بس۔ دین ہر ٹائم کے لیے ہے اور عہد رسالت میں انسان کو کوئی اور طریقہ معلوم نہیں تھا، اس لیے ہرمرحلے کے لیے ایک خاص ٹائم قرآن مجید میں واضح کر دیا گیا ہےکہ طلاق کی صور ت میں تین پیریڈ تک کا ٹائم اور بیوہ خاتون کے لیے چار ماہ دس دن کی عدت ہے۔
اب جدید زمانے میں ٹیکنالوجی میں الٹراساؤنڈ اور دیگر طریقوں سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بچے کے ہونے یا نہ ہونے کی صورت حال سامنے آ جاتی ہے، اس لیے عدت تو پہلے ہی معلوم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ایک حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ ایک بیوہ خاتون کا بچہ پہلے ہی پیدا ہو گیا تو پھر ان کی عدت ختم ہو گئی تھی۔ طلاق میں البتہ ایسی کوئی حدیث موجود نہیں ہے۔
اس لیے یہی کرنا چاہیے کہ الٹرا ساؤنڈ میں صورت حال معلوم بھی ہو جائے تب بھی خاتون کو چاہیے کہ وہ صرف 80-90 دن تک انتظار کر لیں۔ اس لیے کہ عدت میں دیگر فوائد بھی ہیں۔ مثلاً محض غصے میں شوہر یا بیگم کی طلاق ہو رہی ہو، تو تب بھی فائدہ ہے کہ اگلے 80-90 دن تک دونوں میں غصہ ختم ہو کر عقل کے ساتھ فیصلہ بھی کر سکیں گے۔ اسی طرح فنانشل معاملات بھی واضح ہو جائیں گے۔
عین ممکن ہے کہ پہلے بھی بچے موجود ہوں اور طلاق کے بعد ان کی پرورش صحیح طرح نہ ہو سکے۔ مثلاً ایسے کیس آپ نے سنے ہوں گے کہ رومانس کے وقت شوہر نے بیگم کو بڑی رقم جیسے بڑا گھر، گاڑی، زیورات دے دئے ہوتے ہیں، بعد میں غصہ آ گیا اور طلاق بول بیٹھے، پھر جب عقل آئی تو معلوم ہوا کہ وہ کتنا خرچ کر بیٹھے ہیں؟ ایسے کیس بھی ہوئے کہ خاتون صرف اس بڑی پراپرٹی پر قبضہ کر نے کے لئے طلاق ہی لینا چاہتی تھیں، تو اس طرح وہ فراڈ ہی کی شکل تھی۔ اس لیے عدت میں یہ فوائد بھی ہیں کہ فیملی کورٹ صحیح شکل دیکھ کر ہی طلاق کا اطلاق کر سکتی ہے۔
سوال: ایک روایت ہے جس میں ایک سبیعہ نامی خاتون نے شوہر کی وفات کے 15 دن بعد بچے کو جنم دیا اور اُسی وقت اُن کی عدت ختم ہوگئی اور دو اشخاص نے اُن کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا۔ کیا خاوند کی وفات کی صورت ميں بھی عدت کی علت وضعِ حمل ہی ٹھہرے گی یا 4 ماہ 10 دن پورے کرنا ہونگے؟
جواب: بیوہ خاتون کے لیے تو بڑا یشو بھی نہیں ہے۔ اس لیے اس روایت میں یہ ہے کہ بچہ ہو گیا تو بیوہ خاتون کی صورت حال واضح ہو چکی تھی، اس لیے معاملہ ختم ہو گیا۔ موجودہ زمانے میں البتہ یہ ضرور دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اب اس بچے کی پرورش کیسے ہو سکے گی؟ اگر یہ خاتون، ان کے رشتے دار سب اچھی طرح سوچ لیں کہ بیوہ خاتون اب جن صاحب سے شادی کر رہی ہیں تو وہ اگلا شوہر مخلص آدمی ہے اور وہ بچے کی اچھی طرح پرورش کرے گا تو پھر ٹھیک ہے۔ اگر وہ مخلص نہیں ہوا تو پھر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، اس لیے فیملی کورٹ یا سب رشتے داروں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔
اس کے لیے ایک سچا کیس شیئر کرتا ہوں جس میں میرا تعلق رہا ہے اور میں ان کی خدمت کرتا رہا۔ ایک خاتون بیوہ تھیں اور ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ شوہر فوت ہوئے تو ان کے والد زندہ تھے اور وہ اپنی پوتیوں کی پرورش کرتے رہے اور بہو کی بھی معاشی خدمت کرتے رہے۔ اس میں 5-6 سال گزرے اور پوتیوں کی اچھی طرح پرورش ہوتی رہی۔ پھر سسر صاحب فوت ہو گئے ۔لیکن انہوں نے وفات سے پہلے ہی اپنا گھر اپنے بیٹوں کی بجائے، اپنی بیوہ بہو کو دے دیا تھا تاکہ یتیم پوتیوں کی باقی زندگی گزر سکے۔
اب بیوہ خاتون کو معاشی مشکلات پھر بھی پیدا ہوئیں، تو انہوں نے دوسری شادی کر لی لیکن وہ شخص مخلص نہیں نکلا۔ وہ سوتیلی بیٹیوں پر تشدد کرتا رہا اور کچھ سال میں اسی خاتون کے مزید بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے۔ اس عرصے میں اس شخص نے اپنی بیگم سے زبردستی اس گھر پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اب سوتیلے بھائی بہنوں میں آپس کی لڑائیاں بھی شروع ہو گئیں۔
اس گاؤں کے رہنے والوں کو ان کی حالت معلوم تھی چنانچہ اس خاتون کے وفات شدہ شوہر کے مخلص دوست نے بیٹیاں لے لیں اور ان کی پرورش کرتے رہے اور جب وہ جوان ہو گئیں تو ان کی شادیاں بھی کروا دیں، تب ان کی زندگی اچھی حالت میں آ گئی۔ لیکن ان کے دادا کے گھر پر قبضہ تو سوتیلے باپ ہی نے کیے رکھا اور اس نے بعد میں وہ گھراپنے سگے بیٹے کو دے دیا اور اس کے بعد بیگم کو طلاق بھی دے دی۔ اب وہ بیچاری خاتون زندگی کے آخری ایام تک اپنی پہلی بیٹی اور داماد کے گھر میں رہیں اور کافی عرصے بعد 2010 میں ان کا انتقال ہوا ۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com