نکاح میں ولی کی ضرورت کیوں ہے؟

سوال: السلام علیکم ! سر امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آج کل دعا زہرہ نامی لڑکی کا ایک کیس عدالت میں چل رہا ہے ۔اُس لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے گھر سے بھاگ کر۔ اس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔

کیونکہ لڑکی کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر ہوا ہے اِس لیے یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح ہوتا ہے یا نہیں ؟ اِس بارے میں آئمہ اربعہ کا کیا مؤقف ہے؟ نیز اِس معاملے میں ولی کی اجازت کے حوالے سے صحیح ترین نقطۂ نظر کیا ہے؟ کیا آج کے دور میں بھی ولی کی اجازت کے بغیر لڑکی کو  نکاح کرنے کی اجازت ہے؟

جواب: اس حوالےسےدین  میں قرآن و سنت کا جو قانون ہے، پہلے اسے دیکھ لیجیے۔ قرآن مجید میں تو واضح ہے کہ شادی کا فیصلہ اس لڑکے  اور لڑکی ہی نے کرنا ہے اور ان کا اتفاق ہو جائےاور ان کا  اعلانیہ فیصلہ سامنے آ جائے تو شادی ہو جاتی ہے۔  فیصلہ ان دونوں ہی کا ہے کسی اور کوئی قانونی اتھارٹی نہیں ہے۔ 

اب آپ کے سوال کے بارے میں آتا ہے کہ ولی کا ہونا کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، بلکہ ایک لاجیکل سلسلہ ہے۔ قدیم زمانے میں انسانوں میں اچھا طور طریقہ گزرا ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں اپنے والدین کو بھیجتے رہے ہیں اور وہ  اعلان کر دیتے تھے۔ انسانوں نے تجربے میں یہ دیکھا ہے کہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اکثر فیصلہ تو کر لیتے ہیں لیکن کچھ مہینوں بعد ان کی  غلطی سامنے آ جاتی ہے اور کچھ عرصے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہر مذاہب کے انسانوں نے یہی طریقہ نکالا ہے کہ والدین اور نہ ہوں تو ولی (قبائلی علاقے میں) اپنے تجربے کی بنیاد پر ان کا فیصلہ کر دیں۔ مسلمانوں میں بھی یہی طریقہ گزرا ہے لیکن اچھے والدین یہی کرتے رہے ہیں کہ وہ پورا تجزیہ کر کے اپنے بچوں کو صورتحال بتا دیتے ہیں اور پھر فیصلہ تو انہی لڑکے اور لڑکی نے کرنا ہے۔ 

شریعت میں ولی کی اجازت کی نکاح  میں کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن بس پریکٹس کے طو رپر اسے جاری رکھا ہے۔ ہاں اگر والدین یا ولی نے غلطی کر دی ہے تو پھر حکومت ان کی  غلطی کو ٹھیک کر سکتی ہے۔ اس کے لیے ایک حدیث یاد ہے کہ ایک والد نے اپنی بیٹی کا نکاح کروا دیا اور بیٹی کو وہ لڑکا پسند نہیں تھا۔ وہی لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئی اور انہوں  نے درخواست کی کہ میرے والد نے نکاح کر دیا لیکن مجھے وہ لڑکا پسند ہی نہیں ہے۔ چنانچہ اسی وقت ہی چند منٹ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نکاح کو کینسل کر دیا۔ 

اب ائمہ اربعہ کے فتاوی کو آپ خود سرچ کر لیجیے تو آپ کو یہی اصول اپلائی نظر آئے گا۔ اس میں بعد کی  صدیوں میں جو فتوے لوگوں نے اپنے کلچر کے لحاظ سے دئے ہیں، انہیں بالکل چھوڑ دیجیے اور صرف ائمہ اربعہ ہی کے فتاوی کو سرچ کریں اور ان کی دلیل ضرور ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی اپنی کتابیں تو موجود نہیں ہیں، لیکن ان کا نقطہ نظر امام یوسف اور امام محمد رحمتہ اللہ علیہما کی کتابوں میں مل جاتا ہے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے اجتہادی فتاوی کو ان کے شاگردوں نے لکھا ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں ان کی اپنی کتابیں آپ کو مل جائیں گی۔ اب میں  بھی یہ کام کر دیتا، لیکن یہ  لمبا کام ہے اور کے لیے ایک  کتاب کااچھا خاصا چیپٹر بن جائے گا۔ اس کے لیے آپ خود کوشش کر لیجیے اور جہاں غلطی نظر آئے تو ضرور پوچھ لیجیے۔    

سوال: اگر مخصوص کیس میں اگر دیکھا جائے تو دعا زہرہ کے والدین کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ لڑکی کی عمر 14 سال ہے اس لیے وہ بالغ نہیں ہے۔۔ اور دستورِ پاکستان کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی کم سے کم عمر 16 اور لڑکے کی کم سے کم عمر 18 سال ہونی لازمی ہے۔۔ کیا اسلام میں کوئی عمر کا تعین ہے کہ مخصوص عمر کو پہنچنے پر لڑکی اپنی شادی کر سکتی ہے؟

جواب: اس بارے میں  قرآن و سنت میں کوئی حکم موجودنہیں ہے۔ اتنا  ہے کہ لڑکا لڑکی شعور کی حالت میں ہوں۔  علماء نے اپنے زمانے کے لحاظ سے تجربہ کرتے ہوئے عمر طے کی ہے جس کی حیثیت ان کے اجتہاد کی ہے۔  میں نے بچپن میں حنفی فقہاء کا فتوی پڑھا تھا  کہ لڑکا 12 سال  میں بالغ ہو جاتا ہے اور لڑکی 10 سال میں، پھر نکاح ہو سکتا ہے۔  میں اسی پر عمل کرنے کی خواہش رکھنے لگا اور 8 سال تک ٹنشن میں رہا کہ  اب تک نکاح کیوں نہیں ہو سکا؟ کیوں کہ میری عمر تو بالغ  ہونے کی ہو گئی ہے۔ بالآخر جب میں 20 سال کا ہوا تو تب نکاح ہو گیا کیونکہ میرے استاذ حنفی عالم تھے اور انہوں نے اسی فتوی کی بنیاد پر فیصلہ کر دیا۔ 

ایک بار کراچی میں ایک  لطیفہ یہ ہوا کہ میں نے یہی فتوی کچھ کولیگز میں سنا دیا۔ اس وقت ایک دہلی کے بزرگ سعید صاحب تھے جو ہمارے ساتھ جگت بہت کیا کرتے تھے اور مجھ سے تو پنجابی میں بھی کسی حد تک کر لیتے تھے۔ فرمانے لگے : “ارے میاں جاؤ! دہلی اور کراچی میں میں نے کبھی 12 سال کا بالغ نہیں دیکھا، ہاں تمہارے جہلم میں کوئی ایک آدھ 12 سال کا بالغ ہو گیاہو گا تو اسی پر کسی مولوی نے فتوی دے دیا ہو گا۔” 

 سوال: اگر دیکھا جائے تو بائیولوجیکلی تو لڑکی 11،12 سال کی عمر میں بالغ ہو جاتی ہے لیکن اس میں دنیا داری کے معاملات کی اتنی سمجھ بوجھ نہیں ہوتی ۔ تو ظاہری بات ہے کہ اسلام صرف بائیولوجیکلی تو اجازت نہیں دے گا کہ نکاح صرف جنسی تلذذ کے لیے کیا جائے وہ لازماً دوسری معاشرتی،نفسیاتی ضروریات کو بھی  پیشِ نظر رکھے گا۔ تو اس حوالے سے صحیح اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے کہ کس عمر کی لڑکی کو اپنی شادی کرنے کا مکمل اختیار دیا جا سکتا ہے ؟؟ کیونکہ بلوغت تو وہ 11،12 سال میں ہی حاصل کر لیگی لیکن ذہنی پختگی نہیں ؟

جواب: اس میں دین کا کوئی حکم نہیں ہے۔ اس میں فقہاء نے اپنے علاقے اور اپنے کلچر کے حساب سے فتوے کیے ہیں۔ اس میں آپ اپنے تجربے کی بنیاد پر  خود فتوی دے  لیجیے۔ کراچی کے لوگ زیادہ میچور ہیں، انہوں نے عمر کی بجائے، اس پر فوکس کیا ہے کہ جسمانی بلوغت، ذہنی بلوغت اور معاشی بلوغت یہ تینوں ہوں تو تب شادی ہونی چاہیے۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کراچی میں 30 سال سے کم عمر کا کوئی لڑکا نہ ملے گا  جس کی شادی ہو گئی ہو۔ لڑکیاں 25 سال میں ہی جا کر شادی کرتی ہیں۔ پنجاب کا کلچر مختلف ہے اور اس میں آپ کو کم عمر نظر آئے گی۔  

سوال: کیا آج کے دور میں ریاست یہ قانون سازی کر سکتی ہے کہ لڑکی کو اپنے ولی کی اجازت کے بغیرنکاح کا حق حاصل نہیں ہے، کیونکہ آج کی صورتِ حال کافی گھمبیر ہے؟

جواب: بالکل ایسا ہی ہونا چاہیے۔ پاکستان میں تو کافی حد تک ہو گیا ہے اور فیملی کورٹس کے فیصلے بھی اچھے آ رہے ہیں۔ قانون سازی بھی معقول ہونی چاہیے اور پھر ہر  شخص پر الگ الگ صورتحال دیکھ کر فیملی کورٹ ہی اچھا فیصلہ کر سکتی ہے۔ 

سوال: مختلف گینگز لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر نکاح کر لیتے ہیں اور پھر بیرونِ ملک ہیومن ٹریفکنگ کی صورت میں فروخت کر دیتے ہیں۔۔ ظاہری سی بات ہے کہ ایسی قانون سازی کرنے سے لڑکی کا بنیادی حق تو سلب ہو گا لیکن ایک بڑی قباحت سے بچانے کے لیے اسلامی نقطۂ نظر سے  کیا ایسی قانون سازی کو سندِ جواز فراہم کیا جا سکتا ہے؟

 جواب: اس کا وہی کیس ہے جو میں نے حدیث میں عرض کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لڑکی کی بات سن کر ہی فیصلہ کر کے نکاح کو کینسل فرما دیا تھا۔ پھر ان کے والدین کو بلا کر انہیں بھی صورت حال بتا دی۔ اس سے ہمیں ہدایت مل سکتی ہے۔ اس میں یہ عرض کروں گا کہ اجتہادی فتاوی کو انسانی عمل ہی سمجھیں۔ قرآن و سنت میں جو کچھ ہے، بس وہی دین ہے اور باقی اجتہادی فتوے انسانی عمل ہے۔ اسی پر تو میں نے جدوجہد کی ہے علم الفقہ کی خدمت میں تاکہ لوگوں کے ذہن کھلے ہو جائیں اور تقلید سے جان چھوٹ جائے۔ ایسے اہم کیسز کو میں نے اکٹھا بھی کر دیا ہے۔ اس کے لئے اس لنک سے استفادہ کیا جاسکتا ہے

سوال: آپ کی بات سے میں جو سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر بھی نکاح کر سکتی ہے؟

 جواب: قانونی طور پر نکاح تو ہو جائے گا۔ لیکن ولی کے بغیر آپ عین ممکن ہے کہ دونوں افرادکی فیملیز میں آپس میں دشمنی پیدا ہو جائے۔ اسی لیے  فقہاء مصلحت کو اہم اصول بیان کرتے ہیں جس میں قانون سازی ہو۔ فیملی کورٹ میں بھی ایسی صورتحال دیکھ کر ہی جج فیصلہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں فقہاء بھی تمام مصلحتوں کو دیکھ کر ہی اپنے زمانے میں فتوی دیتے تھے۔ موجودہ زمانے کے بہت سے فقہاء نے میتھس کی طرح فتوے بنانے شروع کیے، جس میں یہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ 

سوال: کیا نکاح کے لیے ولی کی موجودگی اور عدم موجودگی والی احادیث و آثار کی حیثیت وقتی ہے؟

جواب: احادیث اور آثار میں اوور آل اصول  کی بنیادپر ارشادات ہوئے ہیں، کہ لڑکا لڑکی کی شادی ہی نہیں ہوتی ہے بلکہ دو فیملی اور دو قبائل میں آپس میں رشتہ پیدا ہوتا ہے۔ شادی سے دو فیملز یا دو قبائل میں دوستی بھی بن سکتی ہے اور دشمنی بھی۔ ا س لیے یہ تمام مصلحتوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔  اس لیے آپ کو ان احادیث اور آثار میں وقتی فیصلے ہی نہیں ملتے بلکہ پوری صورتحال کو دیکھ کر  اورمصلحتوں کو سامنے رکھ کر فیصلے ملتے ہیں۔ ہمارے ہاں غلطی یہی ہوتی ہے کہ حدیث میں پوری صورت حال نہیں لکھی گئی ہوتی، تو پھر  فقہاء آپس میں اختلاف کرنے لگتے ہیں اور پھر مناظرے شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی حدیث کو دیگر کتابوں میں دیکھ لیں تو تب پوری صورت حال اور مصلحتیں سامنےآ جاتی ہیں۔  

سوال: کیا لڑکی کا نکاح کے لیے مخصوص عمر کو پہنچنا بھی ایک اجتہادی معاملہ ہے؟

جواب: جی ہاں۔ یہ اجتہاد ہی ہے کہ فقہاء نے اپنے علاقے، کلچر ، ماحول اور اس زمانے کی صورتحال کو دیکھ کر ہی فتوے دیے ہیں۔  آپ کو انڈیا اور پاکستانی پنجاب کے  کلچر کے اثرات،آپ کو فقہاء کے فتاوی میں ملیں گے۔ جیسے پیدائش کے وقت ہی ماں باپ اپنے دوست فیملی کے ساتھ نکاح کرتے رہے ہیں۔ فقہاء بھی اسی کلچر سے پیدا ہوئے اور ان کی پرورش اور تربیت ایسی ہی گزری تو لہذا آپ کو ایسے فتاوی بھی نظر آئیں گے۔

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”

نکاح میں ولی کی ضرورت کیوں ہے؟
Scroll to top