السلام علیکم ارحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک حدیث میں آیا ہے جسے اثر ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جس کا مفہوم اسطرح ہے کہ ہماری زمین کی طرح اور سات زمینیں ہیں اور ان میں بھی ہمارے انبیاء کی طرح انبیاء ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ زمینیں ہیں؟ کیا یہ زمین کے نیچے تہہ بہ تہہ ہیں؟
محمد جعفر، گوکک، کرناٹک، انڈیا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ جعفر بھائی
آپ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت جو ملی ہے، اس کی حدیث یا آثار کی کتاب کا حوالہ دیجیے گا۔ اگر آپ کو اس کا عربی ورژن مل گیا تو پلیز بتا دیجیے گا۔ اسے میں محدثین کے طریقے سے چیک کر لوں گا تاکہ یہ کنفرم ہو جائے کہ یہ روایت قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ محدثین اپنی ریسرچ میں دو پہلو دیکھتے ہیں، ایک روایت یعنی راوی قابل اعتماد ہیں یا نہیں۔ دوسری ریسرچ درایت کہلاتی ہے یعنی متن کا تجزیہ کہ جو بات ہے، وہ قرآن و سنت اور عقل کے ساتھ میچ ہوتی ہے یا نہیں۔
علوم الحدیث کا تعارف ۔۔۔ جعلی احادیث کا فتنہ اور لوگوں پر معاشی اور نفسیاتی فراڈ۔۔۔ سند راویوں کی شخصیت پر ریسرچ
ابھی ہمیں یہ معلوم نہیں ہوا کہ راوی کون حضرات تھے تاکہ ہم چیک کریں کہ وہ قابل اعتماد تھے یا نہیں؟ ویسے اس بات کو ہم درایت یعنی روایت کی گفتگو کا تجزیہ تو ابھی کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالی نے جتنے ستارے اور سیارے بنا دیے ہیں تو عین ممکن ہے کہ اس میں سے کوئی ایسے سیارے ہوں جہاں زندگی موجود ہو اور وہاں کوئی مخلوق رہتی ہو۔ اب جو مخلوق ایسی ہو جو خود فیصلہ کر سکتی ہو جیسا کہ ہم انسان ہیں کہ تب ہی نیکی یا برائی کا وہ فیصلہ کر سکتے ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے جیسے شیر، گھوڑے وغیرہ کو کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی کی پراگرامنگ کے مطابق عمل کر رہے ہوتے ہیں۔
صرف انسان اور جنات ہیں جو نیکی یا برائی کا انتخاب کر سکتے ہیں اور ان میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ان میں موجود رہے جو ہدایت یاد کرواتے رہے۔ اس لیے ممکن تو ہے کہ کسی بھی سیارے میں کوئی مخلوق ہو سکتی ہے۔ لیکن اس میں قرآن و حدیث میں کوئی تفصیل ہمیں معلوم نہیں ہے۔
یہ تو بات زمین کے نیچے تہہ بر تہہ زمین کی بات ہے تو سائنس کے مطابق غلط بات ہے۔ یہ یونانی فلسفیوں کا خیال تھا کہ زمین کے اندر نیچے میں رہنے کی جگہ ہے اور وہاں زندگی ہے۔ ان کے اسی فلسفے کو سائنس نے ہی کنفرم کر دیا ہے کہ نیچے کچھ نہیں ہے بلکہ اس میں بہت بڑی انرجی موجود ہے۔ جب کبھی یہ انرجی باہر نکل آتی ہے تو پھر آتش فشاں آ جاتا ہے اور اس کے قریب انسان ، جانور اور پودے سب کچھ مر جاتے ہیں۔
اس سے یہی کنفرم ہے کہ نیچے اندر انرجی میں زندگی ممکن ہی نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے فلسفیوں کا نقطہ نظر ہی غلط ہے۔ بس یہی ہوا کہ مسلمانوں نے فلسفیوں کی کتابیں پڑھیں تو بغیر ریسرچ کیے اس پر یقین کر بیٹھے اور اسے ایمان کی طرح کا عقیدہ بنا بیٹھے۔ پھر تقلید کی عادت پڑی تو ان احمقانہ آئیڈیاز کو ایمان کا حصہ بنا کر فرقے ایجاد کرتے رہے۔
اگر کسی روایت میں یہ لکھا ہوا ہے تو پھر کسی ایسے راوی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی روایت میں اپنا آئیڈیا پھنسا دیا ہے۔ اس میں اس راوی کی غلطی ہو گی کیونکہ مسلمانوں نے 150 ہجری کے بعد ہی یونانی علوم کو عربی میں ترجمہ کر کے اسے سمجھنے لگے۔
اس سے پہلے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ان یونانیوں کے فلسفے کا معلوم ہی نہیں تھا۔ اتنا ہی ممکن ہو سکتا تھا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یونان یا فلسطین میں سفر میں گئے ہوں تو کسی فلسفی نے اپنا آئیڈیا سنایا ہوتا لیکن آپ نے سفرنامہ تو لکھا نہیں تھا۔ اگر اپنے شاگردوں کو بتا دیتے تو معلوم ہوتا کہ یہ فلسفیوں کا آئیڈیا ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس سے یہی واضح ہے کہ یہ فلسفہ محض انسانوں کا آئیڈیا ہی ہے، اس میں دین کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com