اسلام و علیکم سر۔
میں آپ سے ایک مسئلہ پر وضاحت چاہتی ہوں۔ آپ نے اپنے انٹراڈکشن میں لکھا ہے کہ آپ نے کئی ماڈرن پرسنیلٹیس کا مطالعہ کیا ہے ان میں احمد غامدی صاحب بھی ایک ہے۔ ہمارے یہاں علماء انھیں آتھینٹک نہیں قرار دیتے۔ آپ اس پر کیا کہیں گے تھوڑی وضاحت کر دیجے۔
آپ کس موقف کو فالو کرتے ہیں؟؟
مصباح انصاری، انڈیا
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بیٹی
تمام اسکالرز ہماری طرح انسان ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نبی نہیں ہے۔ اس لیے ان تمام اسکالرز کا پوائنٹ آف ویو صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ اس لیے طریقہ کار میں یہ استعمال کرتا ہوں کہ ہر اسکالر کی بات کو چیک کر لیتا ہوں۔ اگر تو تمام اسکالرز کا پوائنٹ آف ویو ایک ہی ہے تو پھر کوئی ایشو نہیں ہوتا ہے لیکن اگر اختلاف ہے تو پھر ہر اسکالر کی کتاب یا آرٹیکلز یا لیکچرز کے ذریعے نوٹ کر لیتا ہوں کہ ان کی دلیل کیا ہے؟ اس کے بعد پھر میں فیصلہ کرتا ہوں کہ اس میں جس کی دلیل بھی قرآن وسنت اور عقل کے ساتھ میچ کر رہی ہو، اسے اختیار کر لیتا ہوں۔
کسی بھی انسان کو فالو نہیں کرنا چاہیے کہ ان میں سے کوئی شخص بھی نبی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک ایشو میں اسکالر A کی دلیل درست ہو اور دوسرے ایشو میں اسکالر B کی دلیل درست ہو۔ جب بھی آپ ایڈوانسڈ اسٹڈیز کریں گی تو اسی میں آپ وہی طریقہ دیکھیں گی جس میں تمام اسکالرز کا اتفاق ہے جسے علم الفقہ کے طریقہ کار کی پہلی کتاب “الرسالہ” امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ میں یہی طریقہ لکھا ہوا ہے اور دیگر اسکول آف تھاٹ کے سکالرز کا طریقہ بھی یہی ہے۔ ان کی کتاب الرسالہ کا میں نے ترجمہ کیا ہوا ہے جو یہاں موجود ہے۔
دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز
قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز
(Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب ۔۔۔ سیاست
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر
Methodology of Religious Thought & Law اصول الفقہ
قدیم زمانے میں اصول الفقہ کی پہلی کتاب ۔۔۔ الرسالہ از امام شافعی
اسی کو کہتے ہیں تقابلی مطالعہ۔ جس کی کچھ مثالیں آپ میرے لیکچرز میں سن سکتی ہیں۔ ان میں پہلے FQ1-16 میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن پھر FQ17-78 لیکچرز میں اختلاف ہے اور میں نے سب ہی کے دلائل کو اکٹھا کردیا ہے۔ فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ کس ایشو میں کس کی دلیل مضبوط ہے۔ بعد میں جب آپ کی تاریخ مکمل ہو جائے تو پھر اس تقابلی مطالعہ کی کتابیں پڑھ لیجیے گا جس میں دور جدید کے بڑے ایشوز میں بہت سارے اسکول آف تھاٹس کے بڑے اسکالرز کے دلائل کو میں نے اکٹھا کر دیا ہے۔
سوال: لیکن سر جو لوگ اس مطالعہ سے قاصر رہ جاتے ہیں وہ کس طرح ااس بات کا فیصلہ کرے کہ کون درست ہے اور کون نہیں
تو کیا پھر انہیں چاہیے کہ وہ اس بات کو فالو کرے جو میجوریٹی میں ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔ اس صورت میں آپ کیا کہنا چاہونگے۔
اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کافی مطالعہ کی ضرورت ہے۔ کیا آپ مجھے یہ فقہ کے ماڈیول پرووائڈ کر سکتے ہیں؟
جزاک اللہ۔
جواب: اس کے لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کو زیادہ پڑھا کریں۔ کچھ ہی عرصے میں چند مہینے کی اسٹڈیز کے بعد وہ اس قابل ہو جاتا تھا کہ وہ غلطی اور صحیح کا فرق دیکھ سکتا ہے۔ اگر کیوں کنفیوژن ہو تو پھر اہل علم سے سمجھنا چاہیے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے میڈیسن کا ہمیں علم نہیں ہوتا ہے تو ہم ڈاکٹرز سے بات کر لیتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر کی بات میں ہمیں پھر بھی شک محسوس ہو تو دوسرے ڈاکٹر کے جاتے ہیں۔ اسی طرح ٹیکنیکل معاملات میں پھر اپنے قریب عالم سے پوچھیں، اگر ان کی بات صحیح لگے تو اس پر عمل کر یں۔ اگر ان کی بات میں وہ مطمئن نہیں ہو رہے تو دوسرے اہل علم کے پاس چلے جائیں۔
دین کے بنیادی احکامات تو اتنے کلیئر ہے کہ اس میں قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں اتنا کلیئر ہے کہ اس میں علماء میں اختلاف بھی نہیں ہے۔ میں نے اس لیے پہلے 16 لیکچرز میں وہی بیان کیا ہے جس میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ گرے ایریا کے لیے پھر دیگر اہل علم سے فائدہ حاصل کریں لیکن ایک ہی عالم کی تقلید نہ کریں کیونکہ عالم سے غلطی ہوئی تو ہم اسی مکھی پر مکھی مارتے جائیں گے۔ بس جب کٹھک پیدا ہو تو دوسرے اہل علم سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہیے۔ جتنا بھی انہوں نے سیکھ لیا تو اس پر عمل کریں۔
قرآن مجید میں اس کی مثال بیان ہوا ہے۔ عربوں نے یہود ونصاری کی وجہ سے یہ سمجھنے لگے تھے کہ روزہ میں جو معاملات لازمی ہیں، وہی رات میں بھی لازم ہیں۔ پھر ایک صحابی میں اس رات کے خلاف عمل کر دیا لیکن پھر افسوس کرنے لگے۔ اللہ تعالی نے اسی پر فرمایا ہے کہ آپ نے اپنے علم کی خیانت کر دی ہے۔ پھر انہیں بتا دیا کہ رات میں آپ پر یہ سب جائز ہے۔
سوال: درست فرمایا آپ نے علم بےحد ضروری ہے اور اس پر عمل بھی۔
کیا آپ مجھے وہ ماڈیول پرووائڈ کر سکتے ہیں علم الفقہ سے متعلق؟؟
جزاک اللہ۔ امید ہے میرے سوالات آپ سے آپ کو زیادہ پریشانی نہ ہو رہی ہو مجھے لگتا ہے کہ میں بہت سوالات کر رہی ہوں۔
جواب: آپ کو علم الفقہ سے متعلق یہ کتابیں پڑھنی ہوں گی۔
علم الفقہ
FQ01: بنیادی اسلامی شریعت
FQ02: فقہی مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ اور فروعی مسائل
FQ03: فقہی مکاتب فکر کا تقابلی مطالعہ ۔۔۔ اصول فقہ اور تاریخ فقہ
FQ04: دور جدید فقہی مسائل ۔۔۔ عبادت ۔۔۔ طہارت، نماز، روزہ، زکوۃ، حج، عمرہ اور قربانی
FQ05: دور جدید فقہی مسائل ۔۔۔ سوشل سائنسز ۔۔۔ حجاب و لباس، خواتین کا گھر سے باہر عمل، جیون ساتھی، طلاق اور تین طلاقیں، خواتین کی وراثت، دیت اور گواہی، خواتین کی سربراہی، آزادانہ جنسی تعلق، فیملی پلاننگ، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ، مسلم اقلیتوں کے حقوق، کفر کا فتوی، رسوم و رواج اور میت سے متعلق احکامات
FQ06: دور جدید فقہی مسائل ۔۔۔ اکنامکس ۔۔۔ اسلامی بینکنگ، انٹیلیکچوئل رائٹس، انعامی بانڈز، مزارعت، حیلہ شرعی، الکوحل، حق شفعہ، اسمگلنگ، مردار کا جسم ، ربا الفضل، بیعانہ، کرنٹ اکاؤنٹ، ہیجنگ، غرر، بینک، فلم انڈسٹری، جاسوسی اور غیر مسلم ممالک میں ملازمت سے متعلق احکامات اور قانون وراثت
کتابیں اس لنک پر موجود ہیں۔ پہلے ایک کورس مکمل کر لیجیے، پھر اس کے بعد پھر علم الفقہ شروع کیجیے گا۔ اگر اس میں زیادہ دلچسپی ہے تو پھر آپ پہلے یہ پڑھ لیں، اس کے بعد تاریخ شروع کیجیے گا۔
Fiqh
https://drive.google.com/drive/folders/0B5mRw5mEUHv9VEFnQV94aFpLR0k
سوال: اسلام علیکم سر۔
آپ نے جو رسالہ بتایا تھا امام شافعی کا۔ اگر ہم تمام علماء کے نظریات کی تقابلی مطالعہ کرنا چاہے تو ہمیں چاروں امام کا طریقہ کا مطالعہ کرنا ہوگا صرف ایک ہی امام کے طریقہ کار سے ہم دیگر کا اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں۔
جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ بیٹی
اس کے لیے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ سوال کیا ہے جس کی کومپیریٹو اسٹڈیز کرنی ہے؟ اس کے لیے پھر چاروں امام بلکہ دیگر مزید اسکول آف تھاٹ کی اسٹڈیز کرنی چاہیے۔ اس میں کئی فیکٹرز دیکھنے کے ہیں:
۔۔۔۔۔۔ سوال کا جواب اگر قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت ارشاد فرمائی ہے جسے سینکڑوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں تو پھر دین کا یہ حکم ہے اور اس میں پوری امت کے کسی بھی اسکول آف تھاٹ کا کوئی اختلا ف نہیں ہے۔ اس میں کسی بھی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔ اگر اجتہاد کا معاملہ ہے یعنی قرآن و سنت میں سوال کا جواب نہیں ہے بلکہ انسان اپنی عقل سے سوچ رہا ہے تو پھر اختلاف ہو سکتا ہے اور یہاں تقابلی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی تو یہ دین کا ایشو ہی نہیں ہوتا ہے بلکہ دنیاوی معاملہ ہوتا ہے مثلاً حکومت بجلی کا ٹیرف کتنا بنائیں یا روڈ کہاں بنائیں اور ٹریفک کیسے چلائی جائے؟ اس میں دین کا ایشو ہی نہیں ہے۔ اگر آپ کو دلچسپی ہو تو پڑھ لیجیے ورنہ نہ پڑھیں۔
کریٹکل سوال وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں دین کا حکم ہے، اس کی امپلی کیشن میں اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ مثلاً پوری امت کا اتفاق ہے کہ قرآن مجید میں ہمیں بتا دیا ہے کہ سود اور جوا حرام ہے۔ اب دور جدید میں سوال پیدا ہوا کہ بینکنگ کی کونسی ٹرانزیکشنز میں سود یا جوا ہے یا نہیں؟ اس میں پھر مختلف ممالک کے فقہاء نے ریسرچ کی اور انہوں نے اپنی دلیل بیان کر دی ہے۔ آپ اسے پڑھ سکتی ہیں اور جس کی ریسرچ درست محسوس ہو، اس پر آپ عمل کر سکتی ہیں اور ساتھ ہی دوسرے اسکالر کی غلطی بھی سامنے آ جاتی ہے۔
جہاں تک چار امام حضرات کا تعلق ہے، تو ان کے زمانے میں جو سوالات تھے، ان میں اختلاف پیدا ہو اور انہوں نے اپنے اجتہاد کے طریقہ کار میں اختلاف پیدا ہوا۔ اس سے پھر اسکول آف تھاٹ پیدا ہوئے ۔ یوں کہہ لیجیے کہ جسے آپ اپروچ کہتے ہیں۔ مثلاً امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہما کی اپروچ یہ تھی کہ وہ اجتہاد میں لاجیکل فیصلہ کرتے تھے کیونکہ وہ ملک کا قانون بنا رہے تھے۔ امام مالک رحمتہ اللہ علیہ نے پریکٹیکل عمل میں یہ فوکس کر دیا کہ مدینہ منورہ میں جو طریقہ کار جاری ہے، اسی کو انہوں نے استعمال کیا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ ان سے اختلاف کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ مدینہ منورہ کے طریقہ کار پر ہی فوکس کیوں کریں کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیگر ممالک میں سیٹل ہو گئے تھے اور وہ عراق میں پڑھاتے تھے۔
امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے فوکس اس پر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام احادیث کی بنیاد پر ہی فیصلہ کریں۔ اس کے لیے انہوں نے 55,000 سے زیادہ احادیث اکٹھی کیں اور اسی کے مطابق ان کی اپروچ چلی ہے لیکن ان کا انتقال جب ہوا تو وہ یہ چیک نہیں کر سکے تھے یہ احادیث آتھنٹک ہیں یا جعلی ہیں؟ اس لیے بعد میں محدثین نے ان کی کتاب پر ریسرچ کی ہے۔
اسی طرح شیعہ علماء نے یہ فوکس کیا کہ انہوں نے عقائد میں یہ عقیدہ اختیار کیا کہ امام وہ شخص ہوتا ہے جسے اللہ تعالی کا ڈائرکٹ تعلق ہوتا ہے۔ یہ امام وہی انسان ہو سکتے ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسل سے ہوں۔ اس لیے جنہیں وہ امام سمجھتے ہیں، وہ امام کی بات کو بھی حدیث سمجھتے ہیں اور وہ اسی پر عمل کرتے ہیں۔
دور جدید میں ان سوالات کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ وہ ایگریکلچر ایج تھی جبکہ ہم انڈرسٹریل اور انفارمیشن ایج سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایگریکلچر ایج کی مثال یہ ہے کہ اکثر لوگوں کے پاس جانور ہوتے تھے۔ جب وہ کسی جانور کو زبح کرتے تو اس کی کھال کو سنبھال کر اس میں استعمال کرتے تھے۔ اس میں سوال پیدا ہوا کہ یہ کھال کس طرح کنفرم ہو کہ یہ پاک ہے یا ناپاک؟ اس پر اس زمانے میں بڑا ایشو تھا، چنانچہ تمام اسکالرز نے ریسرچ کی۔ دور جدید میں یہ بڑا ایشو نہیں رہا بلکہ اس کھال کو صاف کرنے کے لیے ٹیکنیکل طریقے ایجاد ہو گئے تو ساری کمپنیاں اسی طرح صاف کر لیتی ہیں اور اس سے پھر لیدر کی جیکٹ یا جوتے بنا دیتے ہیں۔ اس میں کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔
اب ہم انڈسٹریل اور انفارمیشن ایج میں ایسے سوالات پیدا ہوئے ہیں، جس کا امام شافعی، امام ابوحنیفہ، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہم کو معلوم ہی نہیں تھا۔ اس کے لیے پھر سارے اسکول آف تھاٹ کے اسکالرز اپنی ریسرچ کرتے ہیں اور جواب اور دلیل اپنی کتاب میں لکھ دیتے ہیں۔ میں نے یہی کوشش کی ہے کہ دور جدید میں جو بڑے بڑے ایشوز اور اختلافات ہیں، انہی کی تقابلی مطالعہ کر کے ایک ہی کتاب میں اکٹھا کر دوں تاکہ آپ پڑھ کر خود فیصلہ کر سکیں۔ اس کی مثال میں نے سود کی عرض کی تھی۔ ایک اور مثال یہ دیکھ لیجیے کہ ہم انٹرنیٹ پر کریڈیٹ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے رقم ادا کر دیتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ ا س میں کوئی سود یا جوا تو نہیں ہے؟ اس پر پھر فقہاء کام کرتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی اسکول آف تھاٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جو اسکالر ریسرچ کرتے ہیں تو وہ اپنی دلیل کے ساتھ بتا دیتے ہیں کہ یہ سود ہے اور یہ نہیں ہے۔
انڈیا میں 1920 کے زمانے میں ایک ایشو پیدا ہوا جو دلچسپ ہے۔ ایک نئی چیز ایجاد ہوئی جسے لاؤڈ اسپیکر کہتے ہیں۔ یوپی کے بڑے اسکالرز نے یہ سوچا کہ لاؤڈ اسپیکر تو بس کھیل یا ڈھول قسم کی چیز ہے، اس لیے یہ جائز نہیں ہے کہ لاؤڈ اسپیکر مسجد میں داخل ہو۔ اسے تو مسجد میں آنا ہی نہیں چاہیے۔ اب آپ دیکھ سکتی ہیں کہ انڈیا اور پاکستان میں تمام مسجدوں میں یہ لاؤڈ اسپیکر موجود ہے۔ اب الٹا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے کہ آذان میں تو لاؤڈ اسپیکر ٹھیک ہے، لیکن پوری رات بیٹھ کر تقریریں کرنے میں لوگوں کو ڈسٹرب کرتے ہیں اور کئی لوگوں کو نیند نہیں آتی ہے۔ اس لیے اس میں حکومت کو ایکشن لینا چاہیے کہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز محلے میں نہ پھیلے بلکہ مسجد کے اندر تک رہے۔
میں نے کوشش کی ہے کہ 2010 کے زمانے میں جتنے بڑے مشہور ایشو ہیں، ان پر کتابیں اور لیکچرز کر دیے ہیں تاکہ آپ کو یہ صلاحیتیں حاصل ہوں کہ آپ اگلے سوالات کا جواب آپ خود ریسرچ کر سکیں۔ اب آپ کو ایسا ایشو سامنے آیا تو اسے بھی میں اضافہ کر دوں گا انشاء اللہ جب تک زندہ ہوں۔ اس کے بعد آپ ریسرچ کر لیجیے گا۔
سوال: کافی بہتر وضاحت کی آپنے۔ شکریہ۔
جہاں تک میرا خیال ہے کسی بھی مسلہ کو ۴ طرح سے دیکھا جاتا ہے۔ ۱.قرآن ۲۔حدیث ۳۔ اجماع ۴۔ قیاس
کیا آپ نے اپنے ماڈیول میں ان سب سے متعلق ذکر کیا ہےاور اگر آپ ہی مختصر وضاحت کر دے تو مشکور رہوں گی میں آپ کی۔
جواب: یہ حنفی علماء نے چار سورسز بیان کیے ہیں۔ اس میں قیاس وہ ہے جو میں نے پچھلی ای میل میں کی ہے کہ اگر قرآن و سنت میں کوئی حکم ہے تو اس سے ملتے جلتے معاملات کو بھی دیکھنا ہے۔ مثلاً قرآن میں سود حرام ہے کیونکہ قرض پر جو بھی مطالبہ کیا جائے تو یہ سود ہوتا ہے۔ اب دور جدید میں کئی آمدنی آ جاتی ہے جو قرض پر ہو، تو یہاں قیاس کیا جاتا ہے کہ یہ بھی سود سے ملتی جلتی چیز ہے، اس لیے اس سے ہمیں بچنا چاہیے۔ ایک اور مثال ہے کہ سنت نبوی میں ایگریکلچر پروڈکشن پر زکوۃ ارشاد فرمائی ہے اور اس میں پوری امت کا اتفاق ہے۔ اب ہم انڈسٹریل اور انفارمیشن ایج میں آ گئے ہیں، تو سوال پیدا ہوا کہ یہاں پر پروڈکشن پر زکوۃ ادا کرنی ہو گی یا نہیں؟ جدید فقہاء سمجھتے ہیں کہ یہ بھی آمدنی ہے، اس پر بھی 5% زکوۃ دینی چاہیے۔ ہاں پچھلی صدی کے فقہاء کو سمجھ نہیں آئی تھی، اس لیے وہ اس پر زکوۃ لازمی نہیں سمجھتے تھے بلکہ انہوں نے کیش کی زکوۃ 2.5% پر فتوی کیا تھا۔اس پر آپ میرے لیکچرز میں سن سکتی ہیں۔
اجماع کا معنی ہے کہ تمام فقہاء کا اتفاق ہو جائے۔ قرآن و سنت میں جو کچھ احکامات ہیں، اس میں تو اجماع موجود ہے۔ اجتہاد کرتے ہوئے لوگ کہتے ہیں کہ اس میں اجماع ہو جائے تو یہ بھی دین کا حکم ہے۔ اس میں میں عرض کرتا ہوں کہ یہ پریکٹیکل ممکن ہی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اجماع ہو سکتا تھا کہ جب آپ فرما دیں تو سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متفق ہو جاتے تھے۔ اس کے بعد انڈیا سے لے کر اسپین تک فقہاء اجتہاد کرتے تھے، ان میں کبھی ملاقات ہی نہیں ہو سکتی تھی ، اس لیے اجتہاد میں اجماع کبھی نہیں ہو سکا ہے۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے یہی بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص اجتہاد پر اجماع کا دعوی کرے تو وہ جھوٹ ہی بولتا ہے۔ ہاں اتنا ہی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شہر کے تمام فقہاء پر اجماع ہو جائے لیکن پوری دنیا میں کبھی نہیں ہو سکتا ہے۔
جس طرح آپ نے الشافعی رسالہ کا ترجمہ کیا ہے اس طرح دوسرے فقہ کی کتابیں بھی ہو گی آپ سبھی فقہ کی اچھی کتابیں بتا سکتے ہیں جن میں طریقہ کار دیے ہو۔ جس طرح یہ جو طریقہ تھا یہ حنفی علماء استعمال کرتے ہیں باقی علماء کس طرح کرتے ہیں؟
علم الفقہ کے طریقہ کار پر پہلی کتاب ہی امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھی تھی۔ ان سے پہلے اہل علم نے علوم الفقہ کی کتابیں نہیں لکھی تھیں۔ ہاں بعد میں حنفی علماء نے لکھی تھیں۔ آپ ان میں سے کوئی بھی کتاب پڑھ سکتی ہیں۔ علوم الفقہ پر مالکی اور حنبلی فقہاء نے بعد میں کافی عرصے میں لکھی ہیں لیکن ان کی کتابیں عربی ہی میں ہیں کیونکہ انہیں اردو آتی ہی نہیں ہے۔ ان لنکس میں آپ کو جو کتاب بھی آسانی سے سمجھی جائے تو اسی کو پڑھ لیجیے گا جیسے حمید اللہ صاحب کی کتاب آسان ہے۔
آسان اصول فقہ
اسلامی فقہ کے اصول و مبادی
امام ابو حنیفہ کی تدوین قانون اسلامی ۔۔ حمید اللہ صاحب
https://kitabosunnat.com/kutub-library/fiqh-o-asool-e-fiqh/fiqh/fiqh-e-hanafi
https://kitabosunnat.com/kutub-library/fiqh-o-asool-e-fiqh/usool-e-fiqha/usool-e-fiqh
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com