سوال: استادِ محترم جناب مبشر نذیر صاحب
امید ہے بخیریت ہوں گے۔
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے،مختلف واقعات کی زمانۂ وقوع یعنی دن، مہینہ اور سال کے بارے میں اہل سیر و تاریخ اکثر غیر متفق ہوتے آئے ہیں۔ جس ایک کنفیوژن ذھن میں پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً آپ ﷺ پر وحی کی شروعات کس مہینے ہوئی، واقعۂ معراج کب پیش آیا وغیرہ وغیرہ ۔۔
اس کی وجوہات کیا ہیں ۔۔؟
اور تطبیق کا طریقہ کار کیا ہوگا ۔۔۔؟
شاہ فیصل، باجوڑ ایجنسی
جواب: اس زمانے میں عربوں میں کیلنڈر ہی استعمال نہیں ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بس اتنا ہی لوگ یاد کر لیتے تھے کہ کسی خاص واقعے کو یاد کر لیتے تھے اور پھر اس سے حساب نکالتے تھے۔ مثلاً اہم واقعہ ہوا کہ قریش قبیلے کی دوسرے قبیلوں کے ساتھ جنگ ہوئی جسے حسب فجار کہتے ہیں۔ اس میں چار فضل حضرات نے جنگ کو ختم کیا تو مشہور ہو گیا کہ یہ معاہدہ چار فضل حضرات کا ہے اور اس کا نام حلف الفضول بن گیا۔ اب اگلے سالوں کے لیے اسی طرح بات کرتے کہ حلف الفضول سے لے کر 11 سال یہ واقعہ ہوا ہے۔ ہاں قمری مہینے انہوں نے یاد کر لیے تھے جیسے رمضان 11 سال از حلف الفضول وغیرہ۔
کئی عرب لوگ بزنس کے لیے فلسطین میں رومن ایمپائر جاتے تھے تو وہاں شمسی کیلنڈر چلتا تھا جو آج تک 2023 تک چل رہا ہے۔ اسی حساب سے اپنے دو تین سال تک یاد رکھتے کہ اگر کوئی کریڈٹ کا حساب کرنا ہے تو کر لیتے تھے۔
اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ عربوں کے ہاں کاغذ بہت کم تھے۔ امیر لوگ ہی سفر میں چین کے کاغذ خریدتے اور ڈائری جیسی شکل بنا لیتے تھے اور جتنی ضرورت ہوتی تو لکھ لیتے۔ اس میں کلینڈر کی خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ہاں بڑی شخصیت کے لیے مہینہ اور سال نوٹ کر لیتے تھے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سال نوٹ ہوئے کہ آپ کی عمر 63 قمری سال گزرے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں حکومت بنی لیکن ابھی کیلنڈر کی ضرورت نہیں ہوئی۔ جب فتوحات ہوئیں اور بڑی رقموں کو حساب کرنا پڑا تو خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے ہجری کلینڈر ایجاد کیا جو ہجرت نبوی پر حکومت بنی تھی، اس لیے اس ٹائم سے لے کر ہم حساب کرتے ہیں۔ بعد میں اس کی پھر مسلمانوں میں عادت ہو گئی۔
جب مسلمانوں نے کتابیں لکھنی شروع کیں تو پھر انہوں نے حساب لگایا۔ جن اہم واقعات کے مہینے اگر یاد نہ رہے تو پھر اسکالرز نے اندازہ کیا ہے۔ جیسا کہ وحی کی شروعات کو اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتا دیا کہ یہ رمضان میں قرآن نازل ہونا شروع ہوا۔
معراج کا واقعہ سیرت اسکالرز نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ عام الحزن میں ہوا ہے۔ اس لیے کہ جب نبوت کا سلسلہ ہوا تو دس سال بعد عام الحزن ہوا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر شدید دکھ اور غم کا سال تھا۔ اسی میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا اور آپ کے فیملی کے ہیڈ ابو طالب صاحب کا انتقال ہوا اور وہی سیکورٹی کرتے تھے۔ اب فیملی کا ہیڈ ابولہب بن گیا۔ اس کے ساتھ آپ کی نبوت کے خلاف شدید سخت پراپیگنڈا جاری ہوا۔ اس وقت دعوت کے لیے طائف تشریف لائے تو وہاں لوگوں نے تشدد بھی کیا۔ اس وقت ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دکھ کو اللہ تعالی حل کرے تو پھر آپ پر معراج کا واقعہ ہوا اور اس میں دکھ بھی ختم ہوا اور ساتھ پراپیگنڈا کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہن بھی کلیئر ہو گئے۔
پروپیگنڈا پر یہ دلچسپ واقعہ ہوا کہ معراج کے اعلان پر ایک منکر نے اعلان کیا کہ یہ دین جعلی ہے اور یہ ختم ہو جائے گا۔ اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے چند سال کے لیے شرط بھی قبول کر لی۔ اس کے چند سال ہی میں جنگ بدر ہو گئی اور فتح کے بعد پھر اس منکر سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شرط بھی جیت لی۔
وجوہات تو آپ کو واضح ہو گئی ہوں گی۔ رہے تطبیق کا معاملہ تو اس میں چیک اس طرح کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔ اگر اس واقعہ کا ٹائم اسی وقت لکھا گیا ہو تو پھر یہی کنفرم ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے رمضان کا بتا دیا کہ اس میں قرآن نازل ہوا۔
۔۔۔۔۔ دوسرا اسٹیپ یہ ہے کہ اگر اسی ٹائم کا وقت لکھا ہوا نہ ہو تو پھر روایات کو دیکھنا پڑے گا۔ اگر سب صحیح روایات میں اتفاق ہے تو پھر کنفرم ہو گیا۔ اگر اختلاف ہوا تو پھر دیکھ لیجیے کہ کس اہم واقعہ کے ساتھ ہوا ہے۔ مثلاً روایات میں یہ کنفرم ہے کہ یثرب میں اوس اور خزرج قبیلوں میں 100 سال تک جنگیں جاری رہیں اور یہ ختم 1 ہجری میں ہوئیں۔ اس سے اندازہ کر لیجیے کہ یہ 622 عیسوی کیلنڈر میں ہجرت نبوی ہوئی اور اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اوس و خزرج کی جنگیں 525 عیسوی کیلنڈر سے ہوئی ہو گی۔
۔۔۔۔۔ اگر روایات بھی نہ ہوں تو پھر ہم خود ہی اندازہ کریں گے جو کسی اہم کنفرم واقعہ کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ مثلاً یہ کنفرم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی 63 سال گزری ہے اور آپ کا انتقال 11 ہجری میں ہوا ہے۔ اس سے پیدائش کا سال ہم نکال سکتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں ریسرچرز نے ہجری اور عیسوی کلینڈر کا فارمولا بنا لیا ہے اور میں نے اپنی کتابوں میں اسی کو استعمال کیا ہے۔ فارمولا یہ ہے جس میں سے مراد ہجری اور سے مراد گریگورین کیلنڈر کنورٹ کر سکتے ہیں۔
CE = Common ERA عیسوی کیلنڈر
H = Hijri Calender
CE = H – (H/33) + 622
H = (CE – 622) + (CE – 622)/32
اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس فارمولا کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش 571 میں ہوئی کیونکہ آپ کی نبوت 609 میں ہوئی تھی۔ اس میں قدیم عربی تاریخ میں یہی اندازے کر سکتے ہیں۔ آپ کے نبوت سے 300 سال پہلے ہی قریش میں شرک پیدا ہوا تھا۔ اس میں خود حساب کر لیجیے کہ یہ 300 عیسوی کیلنڈر کا زمانہ ہو گا۔
رومن ایمپائر میں چونکہ کتابیں لکھتی رہیں تو اس میں عیسوی کیلنڈر کے حساب سے ٹائم صحیح مل جاتا ہے ۔ اسی طرح ایران، انڈیا اور دیگر ممالک کا اپنا کلینڈر تھا، تو ان کی کتابوں سے وہیں لے سکتے ہیں۔
تاریخ لکھتے ہوئے اگر فرق بھی ہوا تو اس میں بڑا ایشو پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ہاں کوئی اہم واقعہ میں اختلاف ہو تو تب ایشو ہو سکتا ہے لیکن ایسا بہت کم ہی ایسا ہوا ہو۔ مشہور واقعہ جیسے سانحہ کربلا 61 ہجری میں ہی ہوا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چھوٹے موٹے واقعے پر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس میں کوئی ایشو پیدا نہیں ہوتا ہے۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com