سوال: سلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خضر علیہ السلام کون ہیں نبی ولی فرشتہ یا جن؟ اور کیا وہ ابھی تک زندہ ہیں تصوف میں ان سے۔ ملاقات کے بہت سے واقعات منسوب کیے جاتے ہیں انکی حقیقت کیا ہے؟
محمد جعفر، گوکک، کارناٹک، انڈیا
سوال: السلام و علیکم، آپکی تحریریں اور بکس پڑھ کر ہمیشہ علم کے نئے نئے گوشوں تک رسائی پائی۔اللہ کریم آپکے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔
جناب خضر، جو روایتی مسلم فکر میں حضرت خضر علیہ السلام کی حیثیت سے معروف ہیں، انکی شخصیت کا ایسا ہیولیٰ تیار کیا گیا ہے جس سے ہر زمانے میں اہل تصوف کی رہنمائی کا کام لیا جاتا رہا ہے. ان کے بارے بعض واقعات پڑھ کے ایسے لگتا ہے کہ جناب خضر کی شخصیت ایک زندہ کراماتی شیخ کی ہے جو اسرارِ الٰہی میں انبیاء پر بھی فائق ہے۔ان سے منسوب قصے اور کرامات پڑھ کے ان کے بارے ذہن میں سوال پیدا ہوتا کہ کیا واقعی حضرت خضر اس دنیا میں موجود ہیں؟ جیسا کہ پڑھنے میں آتا کیا واقعی صوفیا سے انکی ملاقاتیں ہوتی ہیں؟ وہ بعض کو نظر آتے ہیں؟قرآن و حدیث میں کوئی انکے بارے ذکر ہے؟ ان سے منسوب واقعات کس قدر سچے ہیں؟
شہزاد افسر ملک، چکوال، پاکستان
جواب: حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام کے معاملے میں جتنے سوالات ہیں، ان کا جواب صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ احادیث کی تمام کتابیں پڑھ لیں اور ان کی جانچ پڑتال بھی کر لیں کہ وہ قابل اعتماد احادیث ہیں یا کوئی جعلی حدیث ہے؟ ایسا کریں گے تو آپ معلوم حاصل کریں گے۔ رہے صوفیا تو ان کے بارے میں صحیح مسلم کے مصنف امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ نے بیان کر دیا ہے کہ وہ نیکی تو بہت کرتے ہیں لیکن ان کی زبان سے جعلی احادیث بہت زیادہ ملتی ہیں۔ اس کے لیے آپ نے جعلی احادیث ڈھونڈنی ہوں تو آپ کو صوفیا کے سب سے بڑے عالم امام غزالی صاحب کی کتاب میں مل جاتا ہے۔
اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور انسان کی کوئی بات ہے تو یہ درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ اس میں کبھی بھی عقیدہ نہیں بن سکتا کیونکہ عقائد تو صرف اور صرف قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کی بنیاد پر مل سکتا ہے۔
اس میں آپ سے مشورہ کروں گا کہ آپ علوم الحدیث کی کتابیں پڑھ لیجیے اور لیکچرز ضرور سن لیجیے گا تاکہ آپ خود حدیث کو چیک کر سکیں۔
Hadith
Books: https://drive.google.com/file/d/0B5mRw5mEUHv9bHhfenVvTW1KeVZjUnhSaUdZVTEwRE9SMk80/view?usp=drive_web
https://drive.google.com/drive/folders/0B5mRw5mEUHv9UFlHOHg3M0NOZXc
Lectures
کہانیوں میں لوگوں نے حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ملاقات بھی کروا دی تھی۔ کہانیوں کی حیثیت یہی ہے کہ وہ حقیقت نہیں ہوتی ہے بلکہ محض گپ شپ اور قصے کہانیاں ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
خاص کر جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت خضر کا واقعہ مشہور ہے جس میں انکو حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے میں زیادہ علم والا بیان کیا جاتا ہے؟ اگر وہ خیالی شخصیت نہیں ہیں واقعی وجود رکھتے تو انکی کیا سٹیٹس ہے۔
قرآن مجید میں ان کا ذکر آیا ہے جس میں ان کا جو عمل ہوا ہے، اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام ایک فرشتے تھے ۔ انہوں نے ایک لڑکے کو قتل کیا تھا جس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ اگر حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام انسان ہوتے تو ان کے لیے تو کبھی جائز ہی نہیں تھا کہ وہ ایک لڑکے کو قتل کر لیتے کیونکہ قرآن اور تورات کے مطابق ی بہت بڑا گناہ اور جرم تھا۔ اسی بنیاد پر حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے اعتراض بھی کر دیا کیونکہ آپ تورات کو اچھی طرح جانتے تھے۔ کچھ ٹائم کے بعد خضر علیہ الصلوۃ والسلام نے وجہ بتا دی کہ مستقبل میں وہ والدین کو تکلیف پہنچائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مستقبل کا خضر علیہ الصلوۃ والسلام کو کیسے علم ہوتا اور مستقبل کی بنیاد پر وہ کسی کو قتل تو نہیں کر سکتے تھے۔ اس سے یہ کنفرم ہوتا ہے کہ وہ فرشتے تھے اور اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا تھا ورنہ وہ خود کچھ نہ کر سکتے تھے۔
ایک عام مسلمان کو انکے بارے کیا عقیدہ رکھنا چاہیے؟ قرآن و حدیث و مستند حوالہ جات سے جواب درکار ہے۔
اس کا عقیدہ وہی ہو سکتا ہے جو قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ایک واقعہ ہی بیان کیا ہے اور بس وہ اتنا ہی یقین ہے کہ خضر اور موسی علیہم الصلوۃ والسلام سے ملاقات ہوئی تھی جس میں تین عمل کیے گئے تھے۔
جہاں تک احادیث کا تعلق ہے تو اس میں میں نے صرف لفظ خضر ہی لکھ کر سرچ کی ہے تو اس میں یہ بات آئی ہے۔ سرچ کرنے کے لیے یہ ویب سائٹ اچھی ہے کہ اس میں تمام روایات کو اکٹھا کر لیا گیا ہے اور اس میں جانچ پڑتال بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ویب سائٹس بھی ہیں جن میں آپ سرچ کر سکتے ہیں۔
اس حدیث میں خضر کا ذکر ہے لیکن یہاں تو جنت کے سبز پرندوں کا ذکر ہے۔ اس میں حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام کی بات ہی نہیں ہے بلکہ سبز پرندوں کی بات ہے۔ لفظ خضر کا معنی بھی سبز رنگ ہے۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی بات نہیں ہے بلکہ کوئی عبدالرحمان صاحب نے بات کی ہے جس میں انہوں نے محض سبز کپڑوں کی بات کی ہے۔
اس حدیث میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہیں ہے بلکہ کوئی سلیمان صاحب نے بات کی ہے جو ملازموں کے رویے پر خضر کہہ دیا ہے۔
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات ہے لیکن یہ حدیث ضعیف (کمزور اور ناقابل اعتماد) ہے۔ اس میں بھی خضر سے مراد سبز پرندوں کی بات ہے۔
یہ حدیث بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہیں ہے بلکہ محمد جہادہ صاحب کی بات ہے جس میں انہوں نے قرآن مجید کی آیات بیان کی ہے جن میں سبز کلر کا ذکر ہے۔ مجھے تو بس یہی روایات ملی ہیں جن سے کوئی عقیدہ نہیں بن سکتا ہے۔ آپ خود مزید ڈھونڈ لیجیے تو پھر آپ فیصلہ کر سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر یہی دیکھ لیجیے کہ حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام کا جو عمل قرآن مجید میں بیان ہوا ہے، اس سے یہی کنفرم ہوتا ہے کہ وہ فرشتے ہی تھے۔ وہ انسان یا جن نہیں تھے ورنہ وہ بچے کو قتل نہیں کر سکتے تھے۔ اگر وہ انسان ہوتے تو پھر حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام انہی کو پکڑ کر ان پر مقدمہ کر لیتے۔ فرشتے خود کوئی عمل نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالی انہیں حکم دیتا ہے تو وہ عمل کر سکتے ہیں۔ ان کی حیثیت بالکل ربورٹ کی طرح ہوتی ہے کہ وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے ہیں۔
اس لوکیشن کا اندازہ بھی ہے جو میں نے اس لیکچر اور سفرنامے میں لکھا ہے۔
بہت سی کہانیوں میں صوفیا نے یہ ایجاد کر دیا کہ ان میں وہی طاقتیں موجود ہیں جو حضرت خضر علیہ الصلوۃ والسلام پر حاصل ہیں۔ اس کی تفصیل آپ میری اس کتاب صوفیا کے ارشادات اور دلائل دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقتاً یہی ہوتا ہے کہ صوفیا یہی فرماتے ہیں کہ آپ میرے حکم پر سوال یا اعتراض نہ کیجیے گا۔ میں نے انہی کی اوریجنل کتابوں سے ان کے ارشادات بیان کر دیے ہیں۔
Comparative Studies
Urdu: https://drive.google.com/drive/folders/0B5mRw5mEUHv9OWdvT0hDTGhmclU
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com