ممتاز امریکی ماہر سیاسیات جان ایل ایسپوزیٹو نے عام مغربی نقطہ نظر کے برعکس اس بات پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں اور اہل مغرب میں افہام و تفہیم کے دروازے کھلنے چاہئیں اور تعصبات کو چھوڑ کر ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ مضمون ان کی کتاب پر ایک تبصرہ ہے۔ مصنف نے اسلامی تاریخ اور مسلم ممالک میں اسلامی تحریکوں کا گہرا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام مغرب کے لئے خطرہ نہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو مثبت انداز میں لینا چاہیے۔
The Islamic Threat: Myth or Reality
تعارف
L0012-Islamic-Threat-Downloadاس کتاب کے مصنف جان ایل ایسپوزیٹو کا تعلق امریکہ سے ہے۔ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں مذہب اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کے والش سکول آف فارن سروس اور سینٹر آف مسلم کرسچن انڈرسٹینڈنگ کے بانی اور ڈائریکٹر بھی ہیں۔ ایسپوزیٹو اسلام سے متعلق موضوعات پر ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ آکسفورڈ ہسٹری آف اسلام اور چار جلدوں پر مشتمل آکسفورڈ انسائکلوپیڈیا آف ماڈرن اسلام کے ایڈیٹر انچیف ہیں۔ ان کی کتابوں کا عربی، فارسی ، ترکی، جاپانی ، چینی اور کئی یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔
ایسپوزیٹو نے 1993 میں مسلم کرسچن انڈر سٹینڈنگ سنٹر قائم کیا تاکہ اسلام اور مسلم عیسائی تعلقات کو سمجھنے میں مدد ملے۔ وہ امریکی حکومت کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے کنسلٹنٹ کے طور پر بھی خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس کے علاوہ دنیا بھر میں کمپنیاں، یونیوسٹیاں اور میڈیا کو بھی اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ انہیں امریکی میڈیا میں غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے انٹرویو وال اسٹریٹ جرنل، نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ جیسے اداروں سے شائع یا نشر ہوتے ہیں۔ ان کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں۔
- The Islamic Threat: Myth or Reality
- Makers of Contemporary Islam
- The Oxford Encyclopedia of Modern Islamic World
- Islam & Democracy
- Islam: A Closer Look
- The Oxford History of Islam
- Islam: The Straight Path
- Unholy War: Terror in the Name of Islam
- Muslims & Politics in Islam
- Shattered Illusions: Analyzing the War on Terrorism
عام مغربی مصنفین کے برعکس، ایسپوزیٹو مسلم دنیا کے لئے مثبت نقطہ نظر کے حامل ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب امریکی میڈیا میں مسلمانوں کے خلاف مہم چلائی گئی تو ایسپوزیٹو نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ مسلمانوں کی تاریخ پر ان کی نظر گہری ہے اور وہ اس معاملے میں بہت سے مسلم دانشوروں اور اسکالرز سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ زیر نظر کتاب لوئیس برنارڈ کے مضمون دی روٹ آف مسلم ریج اور سیموئیل ہننگٹن کی کتاب دی کلیش آف سیویلائزیشن کی تردید میں لکھی گئی ہے اور اس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ مسلمان مغرب کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ یہ مسلمانوں کی ایک اقلیت ہے جو دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے اسلام کو بدنام کر رہی ہے۔ ان کی اکثریت، امن پسند شہریوں پر مشتمل ہیں جن سے اہل مغرب کو کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ کتاب ان ابواب پر مشتمل ہے۔
باب 1: عصر حاضر کی اسلامی تحریک : انقلاب یا اصلاح
۔۔۔۔۔ اسلام کا احیا اور جدت پسندی کا نظریہ
۔۔۔۔۔ احیائے اسلام کی تحریک
۔۔۔۔۔ مسلمانوں کی ناکامی اور مسلم شناخت کے تحفظ کا مسئلہ
۔۔۔۔۔ شکست سے کامیابی تک
۔۔۔۔۔ اسلامی احیائی تحریکوں کی نظریاتی اساسات
۔۔۔۔۔ انقلاب ایران کی توسیع
۔۔۔۔۔ احیائے اسلام کی تحریکوں کا معاشرے میں ثانوی سے مرکزی اہمیت حاصل کرنا
باب 2: اسلام اور مغرب: تعاون، تصادم اور محاذ آرائی کی تاریخی اساسات
۔۔۔۔۔ اسلام کا آغاز اور اس کی حقیقت
۔۔۔۔۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۔۔۔۔۔ اسلامی کمیونٹی کا قیام
۔۔۔۔۔ اسلامی حکومت اور معاشرہ
۔۔۔۔۔ اسلام کی اشاعت اور اس کی فتوحات
۔۔۔۔۔ جہاد
۔۔۔۔۔ اسلامی تہذیب
۔۔۔۔۔ اسلامی قانون
۔۔۔۔۔ مسلمانوں کا تصوف اور روحانیت
۔۔۔۔۔ اسلام اور مغرب
۔۔۔۔۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کا اسٹیٹس
(Crusades) ۔۔۔۔۔ صلیبی جنگیں
۔۔۔۔۔ سلطنت عثمانیہ: یورپ کا مرد بیمار
۔۔۔۔۔ اسلام کے بارے میں اہل یورپ کا نقطہ نظر
باب 3: مغرب کی مسلمانوں پر فتح اور مسلمانوں کا رد عمل
۔۔۔۔۔ اسلام کی تجدیدی تحریکیں
۔۔۔۔۔ یورپی کالونیل ازم اور مسلمانوں کا رد عمل
(Rejection & Withdrawal) ۔۔۔۔۔ مغربیت کا استرداد اور علیحدگی
(Secularism & Westernization) ۔۔۔۔۔ سیکولر ازم اور مغرب کی تقلید
۔۔۔۔۔ اسلامی ماڈرنزم
۔۔۔۔۔ نیشنلسٹ تحریکیں اور آزادی کی جدوجہد
۔۔۔۔۔ مشرق وسطیٰ
۔۔۔۔۔ شمالی افریقہ
۔۔۔۔۔ ایران
۔۔۔۔۔ جنوبی ایشیا
۔۔۔۔۔ نئی ریاستیں اور مغرب
۔۔۔۔۔ اسلامی احیائے نو کی جدید تحریکیں
۔۔۔۔۔ عرب نیشنلزم / سوشلزم اور مغرب
۔۔۔۔۔ فلسطین
۔۔۔۔۔ عرب نیشنلزم اور اسلام
باب 4: اسلام اور ریاست: احیا ء اسلام کی تحریک
۔۔۔۔۔ اسلام اور جدید ریاست
۔۔۔۔۔ لیبیا
۔۔۔۔۔ قذافی کا اسلام کے بارے میں نقطہ نظر
۔۔۔۔۔ قذافی کی خارجہ پالیسی
۔۔۔۔۔ سوڈان
۔۔۔۔۔ اسلام، جمہوریت اور فوجی حکومت
۔۔۔۔۔ مصر
۔۔۔۔۔ سادات کا اسلام سے تعلق
۔۔۔۔۔ حسنی مبارک اور احیائے اسلام کی تحریک کی انسٹی ٹیوشنلائزیشن
۔۔۔۔۔ اسلامی جمہوریہ ایران
۔۔۔۔۔ اسلام، نیشنلزم اور حکومت
۔۔۔۔۔ ایران اور مغرب
۔۔۔۔۔ شاہ کے خلاف عدم اطمینان
۔۔۔۔۔ انقلاب ایران کی نظریاتی اساس
۔۔۔۔۔ ایک یا کئی ایران؟
۔۔۔۔۔ بادشاہت سے اسلامی جمہوریہ تک
۔۔۔۔۔ انقلاب ایران کی توسیع کا خطرہ
۔۔۔۔۔ حکومت کے مابین اختلافات
۔۔۔۔۔ خلاصہ بحث
باب 5: اسلامی جماعتیں : مجاہدین فی سبیل اللہ
۔۔۔۔۔ اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی
۔۔۔۔۔ نیو ریوایول ازم اور مغرب
۔۔۔۔۔ سید قطب
۔۔۔۔۔ اخوان اور جماعت کا سیاسی عمل میں کردار
۔۔۔۔۔ مصر میں سرگرم عمل اسلامی تحریکیں: ارتقاء یا انقلاب
۔۔۔۔۔ مصر کے اسلامی انقلابی گروپ
۔۔۔۔۔ جہاد: بھولی ہوئی ذمہ داری
۔۔۔۔۔ دنیا کے بارے میں مسلم جنگجوؤں کا نقطہ نظر
۔۔۔۔۔ جنگ جو قوتوں کی لیڈر شپ اور تنظیم
۔۔۔۔۔ جنگ جو قوتوں کی رکنیت کا معیار
۔۔۔۔۔ 1990 کے عشرے میں مصر میں اسلامی تحریکیں
۔۔۔۔۔ لبنان کی افواج المقاومۃ اللبنانیۃ اور حزب اللہ
۔۔۔۔۔ افواج المقاومۃ اللبنانیہ اور امام موسیٰ صدر
۔۔۔۔۔ حزب اللہ کا قیام
۔۔۔۔۔ حزب اللہ کی تنظیم اور لیڈر شپ
۔۔۔۔۔ حزب اللہ اور کی کشمکش
۔۔۔۔۔ شمالی افریقہ (مغرب) میں اسلامی سیاست
۔۔۔۔۔ تیونس کی اسلامی تحریک
۔۔۔۔۔ الجیریا میں اسلامی تحریک
۔۔۔۔۔ سیاسی اپوزیشن سے گوریلا جنگ تک
۔۔۔۔۔ خلاصہ بحث اور نتائج
باب 6: اسلام اور مغرب: تہذ یبوں کا تصادم
۔۔۔۔۔ آج کے دور میں اسلام کا خطرہ
۔۔۔۔۔ کیا اسلام مغرب کے خلاف ہے؟
۔۔۔۔۔ پان اسلام ازم کا تصور
۔۔۔۔۔ تہذیبوں کا تصادم
۔۔۔۔۔ مذہب کا احیاء اور معاشرے کی ڈی سیکولرازیشن
۔۔۔۔۔ مغرب میں اسلام کا فروغ
۔۔۔۔۔ اسلام اور جمہوریت
۔۔۔۔۔ اسلام اور خلیج کی 1991 کی جنگ
۔۔۔۔۔ اسلامی خطرہ: قابل تشریح ایشوز
۔۔۔۔۔ سیکولر ازم اور ماڈرنائزیشن: سیکولر بنیاد پرستی کے خطرات
۔۔۔۔۔ انڈر اسٹیمیشن کی سیاست
۔۔۔۔۔ تنوع اور تبدیلی
۔۔۔۔۔ چیلنج یا خطرہ
۔۔۔۔۔ اسلام اور امریکی پالیسی
۔۔۔۔۔ اسلام : چیلنج یا خطرہ
ابتدائیہ
کتاب کی ابتدا میں مصنف بعض اہل مغرب کا یہ نقطہ نظر بیان کرتے ہیں کہ کمیونزم اور اہل مغرب کے درمیان جنگ اب مسلمانوں اور مغرب کے درمیان جنگ میں تبدیل ہونے والی ہے۔ کمیونزم کی موت کے بعد بہت سے اہل مغرب یہ تصور کرتے ہیں کہ ان کا اگلا دشمن اسلام ہے۔ ان لوگوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کا تصور یہ ہے کہ مسلمان عرب صحرا کے خانہ بدوش ہوتے ہیں جن کے وسیع حرم ہوتے ہیں، یہ لوگ انتہائی جذباتی اور غیر منطقی ہوتے ہیں اور معمولی باتوں پر لڑنے مرنے کے لئے تیاررہتے ہیں۔اسلام کا مطلب عموماً جنگ، نفرت، انتہا پسندی، تشدد، عدم برداشت اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد مصنف اس کتاب کا دائرہ کار بیان کرتے ہوئے چند سوالات اٹھاتے ہیں جن کا جواب دینا اس کتاب میں مقصود ہے۔
Islamic Threat: Myth or Reality
یہ کتاب اسلام کے چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے ، اسلام کی عظیم بین الاقوامی قوت کو بیان کرتی ہے اور اسلام اور مغرب کے باہمی تعلقات کا جائزہ لیتی ہے۔ اس کتاب میں مختلف مسلم ممالک اور ان اسلامی تحریکوں کی کیس اسٹڈی بھی شامل ہے جو علاقائی، سیاسی،نظریاتی اور قومی اعتبارات سے مختلف پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں۔آخر میں ان اہم ایشوز کا جائزہ لیا گیا ہے اسلام اور مغرب کو 1990 کی دہائی میں پیش آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی بحث کی گئی ہے کہ آیا اسلام اہل مغرب کے لئے ایک خطرے کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں؟ کیا اسلام اور مغرب کے مفادات مشترک ہیں یا ان میں باہم تناقض پایا جاتا ہے؟ کیا اسلامی جماعتوں کی آزادی اور جمہوریت کی تحریکیں اصل مقصد (اسلامی انقلاب) تک پہنچنے کا محض ایک ذریعہ ہیں یانہیں؟مسلم معاشروں میں انسانی حقوق، جمہوریت ، خواتین اور اقلیتوں کا کیا مستقبل ہے؟ امریکی پالیسیاں کس طرح سے اسلامی خطرے کے وہم کو ایک مشترک مستقبل کے نظریے میں تبدیل کر سکتی ہیں؟
باب اول: عصر حاضر کی اسلامی تحریک : انقلاب یا اصلاح
باب کے شروع میں مصنف یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلامی بنیاد پرستی کی اصطلاح درست نہیں کیوں کہ جن لوگوں کو ہم اسلامی بنیاد پرست قرار دیتے ہیں وہ آپس میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ لیبیا کے قذافی اور سعودی حکمرانوں کے نظریات میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اسی طرح انقلاب ایران کے پیشوا خمینی اور پاکستان کے ضیاء الحق میں بھی بہت فرق ہے۔ اس کی بجائے اسلامی ایکٹوزم کی اصطلاح زیادہ مناسب ہے۔
اہل مغرب کا عام تصور یہ ہے کہ مذہب سے وابستہ مسلمان محض ان پڑھ قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم ممالک میں مغربیت پسند طبقہ وہاں کی اشرافیہ ایلیٹ پر مشتمل ہے لیکن ان ممالک کی اکثریت اب بھی اسلام ہی کے روایتی عقائد و اعمال سے وابستہ ہے۔ اس اکثریت میں بہت سے اعلی تعلیم یافتہ افراد بھی شامل ہیں جو جدید ترین وسائل کو اپنی دعوت کے فروغ میں استعمال کرتے ہیں۔
چونکہ اسلامی تحریکوں کو مغرب کے پسندیدہ نظریات اور ان کے مفادات کے لئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے، اس لئے اسلامی ایکٹوازم کو غیر منطقی، خطرناک اور غیر ثقافتی تحریک سمجھاجاتاہے۔ اس سب کے باوجود، اسلامی تحریکیں بہت سے جدید تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد (اساتذہ، انجنئیرز، وکلاء، سائنس دانوں، بیوروکریٹس اور فوجی افسران) کے لئے بڑی کشش رکھتی ہیں۔اسلامی تحریکوں کے بڑے بڑے لیڈر بالعموم طب، سائنس اور انجنئیرنگ میں بڑی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں۔
جبکہ 1970-1980 کی دہائیوں میں اسلام مسلمانوں کی سیاست میں ایک عظیم گلوبل قوت کے طور پر ابھرا ہے۔احیائے اسلام کی یہ تحریک انڈونیشیا سے لے کر سوڈان تک تمام مسلم ممالک میں پھیلی ہے۔مسلم حکومتوں کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پارٹیاں بھی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اسلام کی اپیل کو استعمال کر رہی ہیں۔ اسلام کی اہمیت مسلم سیاست میں بڑھتی جا رہی ہے اور اس کا واضح اثر اب مغرب کی سیاسی پالیسیوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ اسلامی ایکٹوسٹ گروپوں نے اردن، سوڈان، ایران ، ملائشیا اور پاکستان میں وزارتی سطح کی پوزیشنیں حاصل کی ہیں۔مصر، تیونس، الجیریا، مراکش ، فلسطین اور انڈونیشیا میں اسلامی تنظیمیں اپوزیشن میں قائدانہ حیثیت کی حامل ہیں۔ اسلام کی طرف مائل حکومتوں میں امریکہ کے حلیف جیسے پاکستان اور سعودی عرب اور اس کے بدترین مخالف جیسے لیبیا اور ایران شامل ہیں۔
اسی طرح 1967 کی عرب اسرائیل جنگ، جس میں مسلمانوں کے ہاتھ سے یروشلم نکل گیا، کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر مغرب کے خلاف نظریات پیدا ہوئے۔ اگرچہ اہل مغرب میں مسلمان، مشرق وسطی کے رہنے والوں کو تصور کیا جاتا ہے، لیکن یہ درست نہیں۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادیاں تو جنوبی ایشیا (پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش) اور جنوب مشرقی ایشیا (انڈونیشیا، ملائشیا) میں پائی جاتی ہیں۔
کی دہائی اسلامی سیاست کے عروج کی دہائی ہے۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ، 1973 میں OPEC اسی طرح 1970 کا قیام اور تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا جانا اور 1978-79 میں ایرانی انقلاب نے ذہنوں کو جھنجوڑا کہ ایک عظیم قوت مغربی مفادات کو چیلنج کر رہی ہے۔مسلم لیڈر اسلام کی اپیل کرنے لگے۔ اسلامی تنظیمیں اور ادارے پھیلنے لگے۔ 1973 میں مصر کے صدر انور سادات نے اسرائیل کے خلاف اعلان جہاد کر دیا۔ 1967 کی جنگ کے برعکس، جو جمال عبد الناصر نے عرب نیشنل ازم کے تحت لڑی تھی، 1973 کی یہ جنگ اسلام کے پرچم کے تحت لڑی گئی۔اس جنگ میں مصری فوجوں کی جزوی کامیابی نے مسلمانوں کو اس بات کا یقین دلایا کہ یہ اخلاقی فتح ہے کیونکہ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ امریکہ کے پروردہ اسرائیل کو شکست نہیں دی جاسکتی۔
ان تمام احیائے اسلام کی تحریکوں کی بنیاد یہ ہے کہ جدید دنیا میں مسلم معاشرے کو مکمل طور پر قرآن اور محمد ﷺ کی عملی سیرت (سنت) کے مطابق ڈھالا جائے۔اس کے لئے تمام مسلم حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی قوانین کو اپنائیں۔ مغربیت پسندی اور سیکولرازم قابل قبول نہیں مگر جدیدیت میں کوئی حرج نہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی قابل قبول ہیں مگر تبدیلی کی رفتار کو کنٹرول کرنا چاہیئے تاکہ مغربی اقدار مسلم معاشروں میں سرایت نہ کرنے پائیں۔
اگلا 1980عشرہ خلیج کی عرب سنی ریاستوں اور شیعہ ایران میں چپقلش کا دور رہا ہے۔ انقلاب ایران کے بعد، حکومت ایران کی جانب سے انقلاب کی توسیع کے ارادے ظاہر کئے گئے اور عرب حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے جواب میں ایران عراق جنگ شروع ہوئی جس میں عرب ریاستوں نے عراق کا ساتھ دیا۔ ایران نے لبنان میں شیعہ مسلح گروپوں کو منظم کرنا شروع کر دیا۔
اگرچہ مسلم حکومتوں اور انتہا پسندوں کے اسلام کا نام استعمال کرنے کی وجہ سے بہت سے مسلمانوں اور مغرب میں بداعتمادی پیدا ہو گئی ہے۔مگر اس دوران مسلم دنیا میں ایک نہایت اہم تبدیلی واقع ہو گئی ہے جو بظاہر اتنی واضح نہیں مگر اس کے اثرات نہایت دور رس ہیں۔مسلم معاشروں میں ایک نئی جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ پیدا ہو چکی ہے جو اسلام سے اپنا واضح تعلق رکھتی ہے۔ یہ اشرافیہ، سیکولر اشرافیہ کے ساتھ ساتھ معاشرے میں سرایت کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ اسلامی ایکٹوسٹ اب سوڈان، اردن، پاکستان اور ملائشیا میں وزارتیں بھی حاصل کر چکے ہیں۔
ان موضوعات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے مصنف باب کے آخر میں خلاصہ پیش کرتے ہوئے چند سوال اٹھاتے ہیں۔
ان لوگوں کے لئے جو اسلامی ایکٹو ازم کی حقیقی قوت محض دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو ہی خیال کرتے ہیں، یہ قابل حیرت ہے کہ اسلام سیاست اور معاشرت میں فعال کردار ادا کررہا ہے۔کیا اسلامی بنیاد پرستی محض چند مذہبی لوگوں کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کا نام ہے؟ اگر ہے تو اسے اتنی وسیع حمایت کیسے حاصل ہوئی؟ اسلام مسلمانوں کی سیاست میں اتنا اہم عنصر کیوں ہے؟ اسلام سیاست اور معاشرت میں فعال کس طرح ہوا؟ احیائے اسلام کی تحریکیں ان ممالک میں کیوں اتنی مضبوط ہیں جو سب سے زیادہ مغرب زدہ سمجھے جاتے تھے جیسے مصر، لبنان، ایران اور تیونس۔صدام حسین، جو سب سے زیادہ سیکولر اور لیڈروں میں غیر اسلامی تھا، نے اسلام کی اپیل کیوں کی؟ اور آخرمیں ، اسلامی خطرہ کس حد تک دنیا میں موجود ہے؟
باب دوم: اسلام اور مغرب۔۔۔۔ تعاون، تصادم اور محاذ آرائی کی تاریخی اساسات
دوسرے باب میں مصنف نے مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے تعلقات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک اسلام الگ سے کوئی نیا مذہب نہیں بلکہ یہ اسی دین کا آخری ورژن ہے جو تمام انبیا کرام نے پیش کیا۔ اسلام، عیسائیت اور یہودیت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے دین کی روایت مشترک ہے۔ مصنف اپنا تجزیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع کرتے ہیں۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا منصفانہ خلاصہ پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مغرب میں پھیلائے گئے عام تصور کے برعکس، اسلام کوئی شرکیہ مذہب نہیں بلکہ یہ تو شرک کا شدید مخالف اور توحید کا علمبردار ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی قوم کی تشکیل کی جس نے ان کی دنیا ہی بدل دی۔
ان کے الفاظ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محض مذہبی عقائد و اعمال کا ایک نیا مجموعہ ہی نہ لائے تھے۔ انہوں نے ایک نئی قوم اور نظام کی تشکیل کی جو کہ ایک ریلیجیو پولیکل کمیونٹی تھی جو کہ ایک مذہبی بانڈ سے جڑی ہوئی تھی۔پرانے خیالات اور اداروں کو اسلامی احکامات کے تحت ایک نئی شکل دی گئی اور شناخت، اخوت، قومیت اور اتھارٹی کا ایک نیا آرڈر وجود میں آیا۔اس تحریک کا قلب ایک نیا دین تھا،جو کہ اسلام کے توحیدی وژن اور لائف اسٹائل پر مبنی تھا۔ایک خدا پر ایمان، اس کے احکامات پر اپنی پبلک اور پرائیویٹ زندگیوں میں عمل،اللہ کی رضا کا حصول، ایک صالح معاشرے کا قیام اور اس کی توسیع، قرآن کی ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر اطاعت اور محمد ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان۔یہ وہ وژن تھا جس نے عرب کے قبائل کی دنیا بدل دی جو کہ دنیا کی تاریخ میں ایک بہت بڑی ثقافتی ٹرانسفارمیشن ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلیفہ کے انتخاب کے مسئلے پر مسلمان قوم دو حصوں یعنی سنی اور شیعہ میں تقسیم ہو گئی لیکن خلیفہ کا انتخاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلی تعلق کی بنیاد پر نہیں بلکہ امت کی اکثریتی رائے کے مطابق کیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان دنیا کے متمدن حصے پر چھا گئے اور انہوں نے چند ہی برس میں دنیا کی دو سپر پاورز یعنی روم و ایران کو شکست دے کر اپنی سلطنت کی توسیع کی۔ بعد کی صدیوں میں اسلام دنیا میں مزید پھیلتا رہا۔ اسی دوران مرکزی خلافت ختم ہو گئی اور الگ الگ ریاستیں بن گئیں جو افریقہ سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا اور ٹمبکٹو سے لیکر جنوبی فلپائن تک پھیلی ہوئی تھیں ۔بڑے بڑے مسلم شہر ان علاقوں میں موجود تھے جو آج وسطی ایشیائی ریاستوں، چین، مشرقی یورپ، سپین، جنوبی اٹلی اور سسلی کی شکل میں دنیامیں موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسلم دنیا میں علم سے غیر معمولی شغف پیدا ہو گیا۔ مصنف کے الفاظ میں کہا۔
جیسے جیسے مسلمانوں کا اقتدار پھیلتا گیا، یہ لوگ علم کے اچھے سیکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ثابت ہوئے۔مسلمان حکمرانوں نے مفتوحہ علاقوں کی ترقی یافتہ تہذیب کے مقابلے میں اپنی محدودیت کو محسوس کرتے ہوئے مقامی اداروں، خیالات، نظریات اور ثقافت کو اسلامی سانچے میں ڈھال لیا ۔ انہوں نے اپنے سے زیادہ ترقی یافتہ مفتوحین سے سیکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کی۔عظیم لائبریریاں اور دار التراجم قائم ہوئے۔ سائنس، طب اور فلسفہ کی بڑی بڑی کتابوں کو مشرق و مغرب سے اکٹھا کرکے ان کے ترجمے کئے گئے۔یونانی، لاطینی، فارسی، شامی اور سنسکرت زبانوں سے ترجمہ کرنے کا کام عام طور پر یہودی اور عیسائی مفتوحین نے سر انجام دیا۔اس طرح ادب، سائنس اور طب کی دنیا بھر کی بہترین کتابیں عوام الناس کے لئے میسر ہو گئیں۔ترجمے کے دور کے بعد تخلیقی کام کا دور شروع ہوا۔تعلیم یافتہ مسلمان مفکرین اور سائنس دانوں نے حاصل شدہ علم میں قابل قدر علمی اضافے کئے۔
یہ وہ دور تھا جس میں سائنس اور فلسفہ کے عظیم امام ابن سینا، ابن رشد اور الفارابی پیدا ہوئے۔بڑے بڑے شہروں قرطبہ، نیشاپور، قاہرہ، بغداد، دمشق اور بخارا میں بڑی بڑی لائبریریاں قائم ہوئیں جبکہ یورپ اس وقت دور تاریک سے گزر رہا تھا۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کی سیاسی اور ثقافتی زندگیوں کو، ان کے قبائلی اور مذہبی پس منظر کی رعایت سے اسلام کے فریم ورک میں لایا گیا۔نئے نظریات اور طور طریقوں کو اسلامائز کیا گیا۔اسلامی تہذیب ایک متحرک اور تبدیلی کے تخلیقی عمل کا نتیجہ تھی جس میں مسلمانوں نے دوسری تہذیبوں سے آزادانہ طریقے سے اچھی چیزوں کو لیا۔یہ خود اعتمادی اور کھلے پن کا مظہر تھا جو اس خیال سے پیدا ہوا کہ ہم آقا ہیں غلام نہیں ہیں، فاتح ہیں مفتوح نہیں ہیں۔ بیسویں صدی کے مسلمانوں کے برعکس، وہ مسلمان تحفظ اور اعتماد کے احساسات سے بھرپور تھے۔ان کو مغرب سے کچھ لینے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوتی تھی کیونکہ مغرب اس وقت ان پر سیاسی یا ثقافتی غلبہ نہ رکھتا تھا۔ کلچر کا یہ بہاؤ اس وقت الٹی سمت میں بہنے لگا، جب یورپ تاریک ادوار سے نکل کر مسلم مراکز میں اپنا کھویا ہوا ورثہ سیکھنے کے لئے آیا جس میں مسلمانوں کی ریاضی، طب اور سائنس کے اضافے بھی شامل تھے۔
مسلم دنیا میں قانون سازی سے غیر معمولی شغف پیدا ہو گیا۔ قرآن و سنت کو بنیاد بنا کراور عرف و عادت اور عقل عام کی رعایت رکھتے ہوئے، انفرادی فقہا کے مکاتب فکر کام کرنے لگے اور اسلام کے بڑے شہروں مدینہ، مکہ، دمشق، بغداد اور کوفہ میں پھیل گئے۔اگرچہ ان کا مقصد اور بنیادی ذرائع مشترک تھے مگر مختلف جغرافیائی پس منظر، رسم و رواج انٹیلیکچوول اورنٹیشن اور کی وجہ سے ان کی آراء میں اختلاف بھی پیدا ہوا۔ ان بہت سے فقہی مکاتب فکرمیں چند ایک یعنی حنفی، مالکی ، شافعی، حنبلی اور جعفری ہی باقی رہ سکے۔
مصنف کی رائے کے مطابق درحقیقت اسلامی قانون کوئی جامد نظام نہیں تھا بلکہ یہ اپنے اندر حرکت، لچک اور بوقلمونیوں کو سموئے ہوئے تھا۔نئے نئے مسائل کے حل کے لئے قانونی ماہرین (مفتی) تحقیق کرتے اور عدالتوں کو اپنی کنسلٹنسی فراہم کرتے ۔دسویں صدی عیسوی کے بعد، اسلامی قانون جامد ہو گیا کیونکہ فقہا نے یہ محسوس کیا کہ خدا کے قانون کے مطابق اب تک جو فقہی کام ہوا ہے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے کافی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اجتہاد کو محدود کر دیا اور تقلید کی روش اختیار کر لی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا قانون اور فقہا کی کاوشوں کو تقدیس کا درجہ دے دیا گیا۔ اسلامی قانون کی ریکنسٹرکشن کا سوال انیسویں اور بیسویں صدی میں زیادہ اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ نئی جدیدیت اور ترقی نے بہت سے مسائل پیدا کر دیے تھے۔
قانونی نظام کے علاوہ مسلمانوں کے ہاں روحانیت اور تصوف کا نظام بھی ترقی کرنے لگا جسے اہل مغرب اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تصوف کا آغاز اسلام میں ایک اصلاحی تحریک کے طور پر ہوا۔فتوحات کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرے میں دولت کی فراوانی ہوئی، عرب کی سادہ زندگی دمشق کی پر آسائش زندگی میں تبدیل ہوگئی۔ یہ اسلام کے ایمانی اور روحانی پہلو اور اخلاق کے لئے ایک خطرہ تھا۔ خدا کی بادشاہت جو اسلام کا اصل ہدف تھا، انسان کی بادشاہت میں گم ہونے لگی۔صوفیا کی نظر میں مسلمانوں کی کامیابی ان کے لئے ایک خطرہ بن گئی۔ چنانچہ انہوں نے اس دنیا کی لذتوں کو چھوڑ کر آخرت کی زندگی کو اپنا مطمح نظر بنانے کی دعوت دی۔ انہوں نے اللہ کی محبت پر زور دیا اور اپنی ذات کی نفی کرکے سب کچھ اللہ کی ذات کو قرار دیا۔
مصنف اسلام کے قانونی (فقہی) اور روحانی (صوفیانہ) تعبیرات کے درمیان چپقلش کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ قانونی اسلام اس بات پر زور دیتا کہ شریعت کی حرف بہ حرف پابندی کی جائے لیکن تصوف نے دوسرے مذاہب کی تعلیمات کو اسلام کے ساتھ ملانے میں لچک دار رویہ رکھا۔عیسائیت، نو افلاطونیت، ہندو مت اور بدھ مت کے اثرات کو اہل تصوف نے خاصی حد تک اپنالیا۔ تصوف چونکہ ایک عوامی تحریک بن گیا تھا، اس لئے اس کی علماء کے قانونی اسلام کے ساتھ چپقلش شروع ہو گئی جوکہ آج بھی جاری ہے۔
اسلام کی تاریخ کو مختصر بیان کرنے کے بعد مصنف اسلام اور عیسائیت کے تعلقات کا ذکر کرتے ہیں۔ مسلمان اور عیسائی دونوں یہ سمجھتے تھے کہ وہ خدا کا میثاق پورا کرنے کے لئے دنیا میں موجود ہیں۔چونکہ عیسائی خود کو یہود کے بعد دنیا کی امامت کے منصب پر فائز سمجھتے تھے، اس لئے جب مسلمانوں نے ان کے مقابلے پر دنیا کی امامت کے حقدار ہونے کا دعویٰ کیا تو یہ عیسائیوں کے لئے ناقابل برداشت ثابت ہوا۔ ان کے لئے یہ بہت بڑا خطرہ تھا کہ دنیا میں خدا کی نمائندگی کا حق ان کی بجائے کسی اور کو مل جائے۔ ان کے اسلام کے بارے میں بہترین رائے یہ تھی کہ یہ ایک بدعتی مذہب ہے اور بدترین رائے یہ تھی کہ یہ عیسائی مشن کے لئے ایک چیلنج ہے۔
اسلام کا چیلنج محض ایک نظریاتی چیلنج ہی نہ تھا۔ مسلمان افواج کی فتوحات اور مبلغین کی تبلیغی کامیابیوں نے عیسائیت کے لئے ایک عملی خطرہ بھی پیدا کر دیا تھا۔اگر چہ شروع میں مسلمان ان ممالک میں اقلیت میں تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ اقلیت، اکثریت میں تبدیل ہوگئی کیونکہ عیسائی عوام کی کثیر تعداد نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے علاوہ جو عیسائی رہ گئے انہوں نے بھی عرب کلچر اور زبان کو اپنا لیا۔ مغربی عیسائیت کا رد عمل دفاعی تھا۔ اسلام کو ایک بڑا خطرہ محسوس کیا گیا۔ ساتویں اور آٹھویں صدی میں ناقابل تسخیر بازنطینی سلطنت کا بڑا حصہ اس کے قبضے سے نکل گیا۔
مسلمانوں نے عیسائی حکمرانوں کی نسبت رواداری کا ثبوت دیا اور اپنے مفتوحین کو مکمل مذہبی آزادی عطا کی۔ اگرچہ مسلمان حکمران حکومتی ادارے چلاتے تھے مگر مذہبی کمیٹیوں کو یہ اجازت تھی کہ وہ اپنے اندرونی معاملات اپنے ہی مذہبی قانون کے مطابق چلائیں۔
اس کے کچھ صدیاں بعد عیسائیوں نے اسلام کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے صلیبی جنگیں لڑیں، جن میں انہیں جزوی کامیابی بھی ہوئی لیکن بالآخر انہیں اس میں ناکامی ہوئی۔ صلیبی جنگوں کے کچھ ہی عرصے بعد یورپ کو ایک بار پھر مسلمانوں کے خطرے کا سامنا کرنا پڑا جو سلطنت عثمانیہ کی صورت میں سامنے آیا۔ 1453 میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد، عثمانیوں نے ایک انتہائی منظم حکومت قائم کی جس کا دارلحکومت استنبول تھا جس کی آبادی اس دور میں سات لاکھ تک پہنچ گئی جو یورپی دارلحکومتوں کے مقابلے میں دوگنا تھی۔
عثمانی خطرہ اہل یورپ کو متحد کرنے اور ان کی ایک شناخت کے قیام کا باعث بنا۔ سلطنت عثمانیہ کی عظمت کا راز اس کی انتہائی ترقی یافتہ اور تربیت یافتہ آرمی اور سول بیورو کریسی تھی۔ دو تین صدیوں میں انحطاط کے عمل کے باعث یہ سلطنت یورپ کا مرد بیمار بن گئی۔
اس پوری تاریخ کے تناظر میں مصنف نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ نظریاتی یکسانیت کے باوجود عیسائیت اور اسلام مذہبی اور سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کے مد مقابل ہی رہے ہیں۔ اس مقابلے میں کرسچن یورپ مسلم افواج کے سامنے دفاع کی کوشش حتیٰ کہ بعض اوقات اپنی بقا کی جنگ لڑتا رہا ہے۔ دور قدیم سے ہی اہل مغرب کے ہاں اسلام کا نہایت بھیانک تصور پیش کیا گیا۔ اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلط اور تباہ کن تصاویر تیار کی گئیں۔بہت سے عقائد و اعمال جن میں شرک کرنا، سور کھانا، شراب پینا اور زنا کرنا شامل ہیں، کا تعلق اسلام سے جوڑا کیا حالانکہ یہ اسلام کی بنیادی تعلیمات میں ممنوع ہیں۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسیٰ علیہ السلام کا مخالف بتایا گیا جو جادو ٹونے کے ذریعے چرچ کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہاں تک کہا گیا کہ بت پرست مسلمان اپنے عظیم دیوتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے ہیں۔
باب سوم: مغرب کی مسلمانوں پر فتح اور مسلمانوں کا رد عمل
اس باب میں مصنف اہل مغرب کی فتح کے نتیجے میں مسلمانوں کے رد عمل پر بحث کرتے ہیں۔ اس باب میں اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی کی مسلم تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے ان عوامل پر بحث کی گئی ہے جن کے نتیجے میں مسلمانوں کے ہاں اسلامی تحریک نے جنم لیا۔
اہل مغرب کے ہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ اور ان کی توسیع پسندی کے نتیجے میں مسلم دنیا کے بیشتر حصے ان کے زیر اقتدار آئے۔ کالونیل ازم نے مشرق وسطی میں جغرافیہ ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اس نے نئی سرحدیں تشکیل دیں اور جدید مسلم لیڈر پیدا کئے۔ اس نے مقامی سیاسی، عمرانی، معاشی، قانونی اور تعلیمی اداروں کی نوعیت ہی تبدیل کرکے مسلمانوں کے ایمان اور ثقافت کو چیلنج کر دیا۔ وہ ممالک جنہوں نے سولہویں اور سترہویں صدی میں اہل یورپ کے تجارتی مشنوں کو خوش آمدید کہا تھا، انیسویں صدی میں یورپی کالونیاں بن چکے تھے۔ کالونیل افسران اور عیسائی مبلغین نے یورپی امپیریل ازم کے لئے شانہ بہ شانہ کام کیا۔
یورپی کالونیل ازم نے مسلمانوں کے لئے ایک سیاسی اور مذہبی چیلنج پیدا کر دیا۔ اس سے پہلے مسلمان اپنی اندرونی بغاوتوں کے باوجود مسلم حکمرانوں کے تحت رہنے کے عادی تھے۔ خود پر غیر مسلم حکمرانوں کی موجودگی نے ان میں اصلاح و تجدید کی تحریکوں نے جنم دیا۔ اگرچہ اسلام کی جدید اصلاحی تحریکیں مغرب کے چیلنج کی وجہ سے پیدا ہوئیں لیکن اس کا بنیادی سبب خود اسلام میں تجدیدی روایت کا موجود ہونا تھا۔اسلام تجدید و اصلاح کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ ہر عہد میں افراد اور تنظیمیں ، جن میں متکلمین، فقہا، صوفیا اور مبلغین شامل ہیں۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلم دنیا میں بہت سی اصلاحی تحریکیں اٹھیں جن میں سوڈان میں مہدی (1848-1885) ، لیبیا میں سنوسی(1787-1859)، سعودی عرب میں وہابی(1703-1792)، نائجیریا میں فولانی(1754-1817)، بنگال میں فرائضی(1764-1840)، انڈونیشیامیں پدری (1803-1837)اور ہندوستان میں سید احمد بریلوی کی مسلح تحریک (1786-1831)شامل ہے۔
ان میں زیادہ تر تحریکیں اسلامی معاشروں کی کمزوریوں کے رد عمل میں وجود میں آئیں جن میں معاشی بدحالی، اخلاقی کمزوریاں، فوجی شکستیں اور سیاسی چپقلشیں شامل ہیں۔انہوں نے بیماری کی تشخیص یہ کی کہ مسلمان اصل اسلامی اقدار سے ہٹ کر مقامی غیر اسلامی عقائد و اعمال اور رسم و رواج کو اپنا چکے ہیں اور نسخہ یہ تجویز کیا کہ اصل اسلام کی طرف واپس آیا جائے۔ان میں سے ہر تحریک نے منظم سچے مسلمانوں ایک گروہ تیا ر کیا اور جس نے مسلح سیاسی جدوجہد کے ذریعے حالات کو درست کرنے کی کوشش کی۔اسلامی تجدید و احیا کے اس عمل سے کئی نئی ریاستیں معرض وجود میں آئیں جیسا کہ سوڈان، لیبیا، نائجیریا اور سعودی عرب۔
مسلمانوں نے مغرب کی سیاسی و ثقافتی یلغار کے جواب مین جو رد عمل ظاہر کئے وہ بنیادی طور پر تین تھے۔
- سیکولر ازم اور مغرب کی تقلید (Secularism & Westernization)
- مغربیت کا استرداد اور اس سے مکمل علیحدگی (Rejection & Withdrawal)
- اسلامی ماڈرنزم
روایتی مذہبی علماء نے پہلا رد عمل ظاہر کیا۔ مسلمانوں کی اشرافیہ اور حکمرانوں نے بالعموم دوسرا رد عمل اور ان کے جدید تعلیم یافتہ طبقے نے تیسرے رد عمل کو اختیار کیا۔ اسلامی ماڈرنزم کے معماروں میں مصنف، سید جمال الدین افغانی، محمد عبدہ، سر سید احمد خان، علامہ محمد اقبال اور طہ حسین کے افکار کا ذکر کرتے ہیں۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان کے عرصے میں بنیادی طور پر دو چیزیں مسلمانوں میں پیدا ہوئیں: ایک آزادی کی خواہش اور دوسری قومی شناخت یا قوم پرستی کا تصور۔ اس کے نتیجے میں ان ممالک میں آزادی کی تحریکوں نے جنم لیا جس کے نتیجے میں یہ ممالک آزاد ہوئے۔ دوسری طرف مشرق وسطی میں عرب نیشنلزم کی تحریک نے جنم لیا جو بنیادی طور پر ترکوں کے خلاف تھی۔ اس تحریک کے نتیجے میں عرب ممالک پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ سے آزاد ہوئے۔ اس کے بعد مصنف شمالی افریقہ، ایران اور جنوبی ایشیا میں مختلف تحریکوں کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ان کی قومی حکومتوں کی تشکیل کے مختلف ادوار کو بیان کرتے ہیں۔
آزادی کے بعد مسلم دنیا اور مغرب کا تعلق ایک دوسرے سے تصادم کی بجائے تعاون پر مبنی تھا۔ نئی ابھرتی ہوئی مسلم ریاستوں کو اپنے آپ کو مستحکم کرنے کی ضرورت تھی اور مغرب اس کے لئے ایک بہترین ماڈل تھا۔اگرچہ آزادی کی جدوجہد سے آپس میں نفرت اور ناراضی کے جذبات بھڑکے لیکن مسلمان حکمرانوں اور مغرب پسند ایلیٹس نے مغربی اداروں اور تعلقات کو اپنے نظام میں قائم کیا۔ یورپی زبانیں ان ممالک میں اہمیت اختیار کر گئیں بلکہ اکثر اوقات اشرافیہ میں انہی زبانوں کو اپنی زبانوں پر فوقیت دی جانے لگی۔
افراد، ممالک، شہر اور اداروں کو اس بنیاد پر ماڈرن سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی زبان، لباس، عادات، علم، تنظیمی ڈھانچے، اقدار اور انفرا اسٹرکچر میں کس حد تک مغرب کی پیروی کرتے ہیں۔اس معاملے میں امریکہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی کیونکہ اس کا تاثر یورپی کالونیل حکومتوں کی طرح منفی نہ تھا۔ ان سب کے رد عمل میں عرب دنیا میں دو عوامی تحریکیں وجود میں آئیں۔ ایک اخوان المسلمون کی اسلامی تحریک اور دوسرے جمال عبد الناصر کی عرب نیشنلزم یا عرب سوشلزم۔
اس کے بعد مصنف عالم اسلام کی دو احیائی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ اسلامی ریفارم اور یورپی کالونیل ازم کے مقابلے میں مسلمانوں کے رد عمل نے 1930 اور 1940 کی دہائیوں میں ایک اہم ترین نظریاتی موڑ کا سامنا کیا جب دو جدید اسلامی تنظیمیں وجود میں آئیں: ان میں سے ایک مصر کی اخوان المسلمون اور دوسری برصغیر کی جماعت اسلامی۔
یہ دونوں تحریکیں مغربی کلچر کے اثر و نفوذ، سیکولر نیشنلزم کے خطرے اور مغربی امپیریل ازم کی موجودگی کے خلاف رد عمل کے طور پر وجود میں آئیں۔اخوان اور جماعت دونوں ہی نے اسلام کی نظریاتی خود کفالت پر زور دیا۔ یہ دونوں مغرب کی شدید مخالف جماعتیں تھیں۔انہوں نے مغرب اور مشرق کے کیپٹلزم اور سوشلزم کو مسلم دنیا کے لئے ماڈل ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے مسلم سوسائٹیز کی ویسٹرنازیشن اور سیکولر ائزیشن، نیشنلزم کی تقسیم امہ، کیپٹلزم کے معاشی تفاوت اور مارکسزم کی مادیت پرستی اور خدا کے انکار کو یکسر مسترد کر دیا۔مسلمانوں کو بتایا گیا کہ وہ یاد رکھیں کہ ان سب سے ہٹ کر ان کے پاس اسلام موجود ہے جو غیر ملکی ماڈلز اور سسٹمز کا بہترین متبادل ہے۔
چونکہ وہ معاشرے کی اصلاح کا شدید جذبہ رکھتے تھے، اس لئے انہوں نے سیاست اور حکومتوں سے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر لیا۔اسلامی اور قوم پرست تحریکوں نے ایک دوسرے پر تشدد اور ہنگامہ آرائی کے الزامات لگائے۔ کئی مواقع پر ان تحریکوں پر پابندی لگائی گئی اور ان کے لیڈروں کو قید کیا گیا۔ اخوان کے لیڈر حسن البنا کو 1949 میں پھانسی دی گئی ۔ 1960 کی دہائی کے اواخر میں اخوان المسلمون پر پابندی عائد کر دی گئی ۔(اور اس کے بڑے لیڈروں جیسے سید قطب کو موت کی سزا سنائی گئی۔) دوسری طرف جماعت اسلامی کے مولانا مودودی اور دوسرے کئی لیڈروں کو گرفتار کیا گیا اور ایک مرتبہ تو مولانا مودودی کو موت کی سزا بھی سنائی گئی (اگرچہ وہ بعد میں منسوخ کر دی گئی) لیکن پھر بھی اخوان کے برعکس جماعت کو سیاست میں حصہ لینے کی زیادہ آزادی حاصل رہی۔
ان تحریکوں کے اثرات اپنے ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی پھیلے۔ اخوان کی تحریک سوڈان، شام، اردن ، خلیج اور افریقہ کے کئی ممالک میں قائم ہوئی۔ جماعت سے متعلقہ تنظیمیں بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور کشمیر میں قائم ہوئیں۔ حسن البنا، سید قطب اور مولانا مودودی کی کتابوں کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اور انہیں پوری دنیا میں پھیلایا گیا۔ان کا پیغام نئی نسلوں کے لئے ایک ماڈل بن گیا۔ بہت سوں کے خیال میں انہوں نے روایتی مذہبی ورثے اور جدید زندگی کی حقیقتوں کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔
دوسری طرف عرب نیشنلزم کی تحریک مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے شروع کی جس نے پورے عالم عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یہ تحریک بھی اینٹی مغرب تھی۔ اس کا آئیڈیل ایک ایسی عرب قوم تھی جو سیاسی اور معاشی طور پر متحد ہو اور جس کی بنیاد عرب ورثے، تاریخ، علاقے اور زبان پر ہو۔ عرب نیشنلزم نے ایک نئے سوشل آرڈر کا وعدہ کیا جس میں بڑی صنعتوں اور مالیاتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا جائے گا اور جوکہ کیپیٹل ازم کے معاشی تفاوت اور کمیونزم کے الحاد سے پاک ہو گا۔ مزدوروں اور کسانوں کی مشکلات کا ذمہ دار پرانی حکومتوں ، جاگیر دارانہ نظام اور مغرب پرست اشرافیہ کو ٹھہرایا گیا اور یہ وعدہ کیا گیا کہ عرب سوشلزم ایک ایسا انصاف پسند معاشرہ قائم کرے گا جس میں قومی وسائل پیداوار حکومت کی ملکیت ہوں گے اور دولت کی تقسیم منصفانہ ہوگی۔
اسی طرح 1958میں مصر اور شام نے مل کر ایک متحدہ عرب ریپبلکن حکومت تشکیل دی اور ناصر کو اس کا پہلا صدر چن لیا گیا۔ 1963 میں عراق میں ایک بغاوت کے نتیجے میں بعث پارٹی کی حکومت آجانے کے بعد یہ خیال کیا جارہا تھا کہ تین ممالک پر مشتمل ایک نیا عرب آرڈر معرض وجود میں آئے گا لیکن ناصر اور بعث پارٹیاں متحدہ مملکت میں حکمرانی اپنے اختلافات کو ختم نہ کرسکیں۔اگرچہ عرب سوشلزم ایک بین الاقوامی قوت بننے میں ناکام رہا لیکن اسرائیل کی مخالفت میں یہ انتہائی موثر رہا۔
اسرائیل کے قیام 1948 کو عرب دنیا میں یورپی کالونیل ازم اور اس کی عربوں کو کمزور رکھنے کی خواہش کے طور پر دیکھا گیا۔اسرائیل کو بھی عرب قوم کے دل میں ایک یورپی امریکی کالونی قرار دیا گیا۔ 1948 اور 1956 کی جنگوں میں ان شکستوں نے اس تاثر میں مزید اضافہ کیا۔ عرب دنیامیں فوجی حکومتیں ہوں یا بادشاہتیں، تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ، زمیندار ہوں یا مزارع، سیکولر ہوں یا اسلام پسند سب نے فلسطین کے قضیے اور اسرائیل کے قیام کو ایک ہی نظر سے دیکھا۔عرب نیشنلسٹوں اور اسلام پسندوں دونوں ہی نے فلسطین کی آزادی کو مغربی امپیریل ازم کے خلاف ایک عظیم جہاد قرار دیا۔
اگرچہ عرب نیشنلزم یا سوشلزم نے بہت سے وعدے کئے تھے لیکن ان کا پول 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں کھل گیا۔ یہ عرب اتحاد اور اخوت کو قائم کرنے میں ناکام رہا۔یہ مختلف عرب لیڈروں اور معاشروں کے آپس میں متضاد مفادات کو یکجا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپنی نیشنلائزیشن اور اراضیوں کی نئی تقسیم کے باوجود یہ معاشی خوشحالی لانے میں ناکام ثابت ہوا اور فوجی اور سفارتی اعتبارات سے عربوں کو یہ احساس ہو اکہ ان کی قوت بہت کمزور ہے۔ ان تمام عوامل نے عرب دنیا کو احیائے اسلام کی تحریک کی طرف دیکھنے کے لئے مجبور کردیا۔
باب چہارم: اسلام اور ریاست: احیا ء اسلام کی تحریک
بیسویں صدی کے درمیان میں تقریباً تمام مسلم ممالک نے آزادی حاصل کر لی۔آزادی کے بعد زیادہ ترحکومتوں، یہاں تک کہ ایسے ممالک نے بھی جہاں اسلام ان کی جدوجہد آزادی کا محور و مرکز رہا تھا، نے سیکولر ازم کا راستہ اختیار کیا۔جب ہم مسلم دنیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں تین طرح کی حکومتیں نظر آتی ہیں: اسلامی، سیکولر اور ان دونوں کے درمیان۔ پہلی طرز کی مثال میں مصنف نے سعودی عرب کا ذکر کیا ہے، دوسری قسم میں ترکی اور تیسری طرز کے ممالک میں مسلم ممالک کی اکثریت شامل ہے۔
اس کے بعد مصنف نے بطور کیس اسٹڈی لیبیا، سوڈان، مصر اور ایران کے سیاسی حالات کا ذکر کیا ہے۔ ان کے تجزیے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ان ممالک میں اسلام نے سیاست میں کیا کردار ادا کیا؟
لیبیا
لیبیا نے معمر قذافی کے انقلاب کے بعد اسلام اور سوشلزم کا ایک ملغوبہ تیار کیا اور اسے نافذ کر دیا۔ مصنف نے قذافی کی سبز کتاب کا تذکرہ کیا ہے جو جدید لیبیا کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ لیبیا کا انقلاب اسلام کی لفظ بہ لفظ پیروی پر مشتمل نہ تھا بلکہ بہت سے مسلمانوں کے نزدیک یہ ایک نیا بدعتی فرقہ بنانے کے مترادف تھا۔ قذافی کی مخالفت میں دینی تنظیمیں جیسے اخوان المسلمون اور اسلامک لبریشن آرگنازیشن بھی شامل تھیں۔
قذافی نے یورپی کالونیل ازم، امریکی نیو کالونیل ازم اور اسرائیل کی شدید مخالفت شروع کر دی۔ اگرچہ انہوں نے کمیونزم کو بطور ایک نظام مسترد کر دیا لیکن سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ کی۔لیبیا نے دنیا کے کئی ممالک میں کئی اسلامی تنظیمیں اور انتہا پسند تحریکیں پیدا کیں جن کو اقتصادی سپورٹ لیبیا فراہم کرتا تھا۔ انہوں نے ایک طرف سکولوں، مساجد، ہسپتالوں اور معاشی ترقی کے پروگراموں اور دوسری طرف اغوا، بم دھماکوں اور قتل کے ذریعے اپنے مشن کی تکمیل کی کوشش کی۔ لیبیا کے یہ ہتھکنڈے اس وقت ٹھنڈے پڑ گئے جب اس کے تیل کے ذخائر ختم ہو گئے اور سوویت یونین سے اس کے تعلقات سرد ہو گئے۔
امریکہ کے صدر ریگن کی جانب سے لیبیا پر پابندیوں اور میڈیا کی کوریج نے افریقہ کی ایک چھوٹی سی ریاست لیبیا کوبین الاقوامی حیثیت دے دی جو کہ اس کے وسائل اور صلاحیتوں سے بہت بڑھ کر تھی۔لیبیا کی اسلامی بنیاد پرست ہونے کی شہرت نے قذافی اور دہشت گردی کا تعلق اسلام سے قائم کر دیا۔اسلام کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مترادف سمجھا جانے لگا۔
سوڈان
لیبیا کی طرح سوڈان میں بھی فوجی انقلاب آیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سوڈان کے فوجی صدر، نمیری کا اسلام کے ساتھ تعلق بھی بڑھتا چلا گیا۔ انہوں نے ایک کتاب اسلامی راستے کا انتخاب کیوں؟ بھی لکھی جس میں اپنے اسلام کی طرف مائل ہونے اور سوڈان میں اسلامی قانون کے نفاذ کے بارے میں تفصیل سے لکھا۔نمیری کا خیال تھا کہ اسلام ہی وہ قوت ہے جو 70% مسلمانوں کو اکٹھا کر سکے اگرچہ اس کے نتیجے میں ملک کے جنوبی حصے میں عیسائی آبادی کی طرف سے مخالفت ہو۔ ستمبر 1983 میں نمیری نے اسلامی قوانین کا نفاذ کیا۔ اسلامی سزائیں جیسے شراب پینے پر کوڑے، چوری پر ہاتھ کاٹنا اور ارتداد پر موت کی سزا ،نافذ کی گئیں۔
نمیری کے اسلامائزیشن پروگرام نے سوڈان کو اکٹھا کرنے کی بجائے انتشار میں مبتلا کرنا شروع کردیا۔ معاشرے کے بہت سے طبقات نے انہیں اسلامی ڈکٹیٹر قرار دیا۔ شروع شروع میں، شمال کے مسلم اکثریتی علاقے نے اسلامائزیشن کا خیر مقدم کیا کیونکہ جرائم اور کرپشن واقعی کم ہو رہی تھی۔ کوڑوں اور ہاتھ کاٹنے کی سزا دیکھنے کے لئے لوگ بہت زیادہ تعداد میں آتے۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، نمیری کے ان اقدامات جن کے ذریعے انہوں نے اسلام کا نام اپنی طاقت کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا تھا، ان کی اسپیشل عدالتوں کے عجیب و غریب فیصلوں اور اسلامی قانون کے غیر مسلموں پر اطلاق نے ملک سے باہر اور اندر ان کا امیج تباہ کر دیا۔ سابق وزیر اعظم اور مہدی سوڈانی کے پوتے صادق المہدی جو کہ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے نے نمیری کے اسلامی قوانین کو موقع پرستی قرار دیا۔
پانچ اپریل 1985 کو نمیری کا تختہ الٹ کر ایک فوجی حکومت برسر اقتدار آئی۔ اس نے انتخابات منعقد کروائے اور 1986 میں نئی سول حکومت بنی جس کے وزیر اعظم صادق المہدی تھے۔ صادق اگرچہ نمیری کے انتہا پسند پروگرام سے دور رہے تاہم وہ بھی شمال اور جنوب کے مختلف نظریات رکھنے والے گروپوں کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے ایران اور لیبیا کے ساتھ بھی تعلقات قائم کئے۔ تین سالہ جمہوریت کے بعد ان کی ناکام حکومت کا خاتمہ جنرل عمر البشیر کے ہاتھوں 1989 میں ہوا۔
مصر
ایران کی طرح مصر بھی ایک عرصے تک مسلم دنیا کا سب سے زیادہ ماڈرن اور سیکولر ملک سمجھا جاتا رہا۔ مصر جمال عبد الناصر، انور سادات اور حسنی مبارک تینوں کے ادوار میں عرب نیشنلزم اور اسلامی احیائی تحریک دونوں کا مرکز بنا رہا۔ ناصر کی سوشلسٹ اور نیشنلسٹ تحریک کے برعکس سادات نے خود کو اسلام پسند کے طور پر پیش کیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد اسلام پسند گروپوں نے سادات پر شدید تنقید شروع کردی اور انہیں منافق کا خطاب دیا۔ 1979 میں سادات نے مذہب اور سیاست کی تفریق کا اعلان کیا۔یونیورسٹی کی اسلامی تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی۔سادات نے مساجد میں مذہبی سرگرمیوں اور خطبات پر کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔اسی دوران انہوں نے ان مساجد کو بھی حکومتی تحویل میں لینا شروع کر دیا جو کہ ابھی تک اس سے آزاد تھیں۔ 6 اکتوبر 1981 کو انہیں جماعت الجہاد کے رکن لیفٹیننٹ خالد نے اس وقت قتل کردیا جب وہ افواج کا معائنہ کر رہے تھے۔
سادات کی وفات کے بعد مصر میں حالات تبدیل ہوگئے۔ احیائے اسلام کی تحریک جو ستر کے عشرے میں محاذ آرائی اور پرتشدد اقدامات پر اتر آئی تھی، اسّی کی دہائی میں خاموش انقلاب کے لئے کام کرتی رہی۔اپنے پیش رو کے برعکس، حسنی مبارک نے ایک طرف تو سیاسی آزادی اور رواداری کا مظاہرہ کیا او ر دوسری طرف انتہا پسند گروپوں کے تشدد کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔انہوں نے اسلامی ملی ٹینٹس کے ہنگاموں کو سرد کیا اور سادات کے قاتلوں کو سزا دی۔انہوں نے مذہبی ناقدین کو تنقید کرنے، اخبار نکالنے اور الیکشن میں حصہ لینے کی آزادی دی۔حکومت نے اسلامی ملی ٹینٹس اور الازہر یونیورسٹی کے علماء کے مابین ٹی وی پر مکالموں کوفروغ دیا۔حکومتی ٹی وی اور اخبارات پر مذہبی پروگرام اور کالم پیش کئے جاتے جو کہ اپنے لب و لہجے اور خیالات میں آزاد ہوتے۔
مذہبی انتہا پسندوں کو سائیڈ لائن کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں ان کے غیض و غضب میں اضافہ ہوا اور انہوں نے عیسائی گرجوں اور ان کی دکانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔بڑے شہروں میں نائٹ کلبوں، باروں، سینماؤں، ویڈیو سنٹروں اور جو بھی چیز مغربی اثر و نفوذ کو ظاہر کرتی تھی، کو آگ لگا دی گئی یا بم سے اڑا دیا گیا۔اسلامی قانون کے نفاذ کے لئے مظاہرے کئے گئے۔ مبارک حکومت نے انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے لئے تمام مساجد کو وزارت مذہبی امور کے تحت دینے کا اعلان کیا۔ 1990 کا عشرہ مصر میں ایک نئی تبدیلی لے کر آیا۔ اسلام جو پہلے غریبوں یا لوئر مڈل کلا س تک ہی محدود تھا، اب مڈل اور اپر کلاس میں بھی مقبولیت حاصل کرنے لگا۔تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ، کسان اور پروفیشنلز، بوڑھے اور جوان اور مرد و عورت سب قرآن کے مطالعے کے گروپس میں آنے لگے۔اب اسلامی شناخت کا اظہار محض مذہبی رسوم و رواج ہی سے نہیں بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی ہونے لگا۔
ایران
شاہ ایران، محمد رضا پہلوی جن کا دور (1941-1979) مغرب میں ایک روشن دور سمجھا جاتا ہے۔ شاہ کے دور میں تیل کی دریافت نے ایران کو ماڈرنائزیشن اور ویسٹرنازیشن کے راستے پر ڈال دیا۔ایران امریکہ اور یورپ کا قریبی حلیف تھا او راس کی فوج مشرق وسطیٰ کی بہترین فوج تھی۔ پہلوی خاندان کے دور حکومت میں علماء کی طاقت کو کم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔ جدید تعلیم یافتہ ججوں، وکلا اور سول سرونٹس نے علماء کی جگہ لے کر ان کے سٹیٹس اور آمدنی کے وسائل پر قبضہ کرلیا۔
محمد رضا شاہ کی تعلیمی اور قانونی اصلاحات جو کہ مغرب کے زیر اثر تھیں کا فائدہ بھی عوام الناس کی بجائے شہروں میں اشرافیہ کے ایک محدود طبقے ہی کو پہنچا۔ تیل کی دریافت نے دیہات اور شہروں کے غریب علاقوں میں رہنے والوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا نہ کیا۔ رضا شاہ کے ویسٹرنازیشن پروگرام نے علماء کے علاوہ روایتی تاجروں (بازاری)کے طبقوں میں بھی بے چینی پیدا کردی۔ انہوں نے مغربی لباس پہننے کو تمام مردوں کے لئے لازم قرار دیا ، پردے اور مذہبی لباس پر پابندی لگا دی۔ مغربی بینکوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آمد نے علماء اور تاجر دونوں کے دل میں حکومت کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا کئے۔
امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے ایران کو خوب اسلحہ فروخت کیا جس کی مدد سے اس نے اپنی فوج اور سیکرٹ سروس ساوک کو منظم کیا۔اس وقت جب امریکہ ویت نام میں بری طرح پھنسا ہوا تھا اور برطانیہ خلیج فارس سے اپنی افواج ہٹا رہا تھا، شاہ مغربی پالیسیوں کے پاسبان بن کر ایران پر حکومت کرتے رہے۔ شاہ نے جمال عبد الناصر کے نظریے کو رد کرکے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات قائم کئے۔امریکی بینکر، سفارت کار اور پروفیشنل ایران میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔1970 کی دہائی میں شاہ کی پالیسیوں کے خلاف عدم اطمینان بڑھنے لگا جس میں روائتی علماء اور تاجروں کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ بھی غیر ملکی اثرات کے نقصانات کو محسوس کرنے لگا۔ دولت کا ارتکاز، کرپشن، سیاسی دباؤ اور مغرب پر انحصار اس کی بنیادی وجوھات تھیں۔
اکتوبر 1971 میں شاہ نے ایرانی بادشاہت کا جشن منایا جس پر بیس کروڑ ڈالر سے زیادہ خرچ کئے گئے۔شاہ نے انتہائی غرور و تکبر کے ساتھ خود کو شاہوں کا شاہ یا شہنشاہ کہا اور خود کو سائرس اعظم کا ہم پلہ حکمران قرار دیا۔ انہوں نے اپنا تعلق اسلام سے پہلے کی ایرانی بادشاہت سے قائم کیا۔ایک ہفتے کی تقریبات جن میں پیرس کے بہترین باورچیوں نے کھانا پکایا اور شراب کی پچیس ہزار بوتلیں استعمال کی گئیں، شاہ کے اسلامی روایات اور اپنے مخالفین سے اعراض کو ظاہر کرتی تھیں۔
ان تمام عوامل نے مل کر شاہ کے خلاف احتجاجی تحریک پیدا کی جس میں جلال احمد، مہدی بزرگان، ڈاکٹر علی شریعتی اور آیت اللہ خمینی پیش پیش تھے۔ان کے خیالات پرانی اور نئی نسل کے لوگوں میں یکساں مقبول ہوئے۔جدید تعلیم یافتہ پروفیشنلز، طلباء، علماء اور تاجروں نے شاہ کے خلاف ایک حزب اختلاف کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
آہستہ آہستہ حزب اختلاف کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا اور اس نے ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کر لی۔ اس انقلابی تحریک میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ ایک طرف تو سیکولر جمہوریت پسند اور سوشلسٹ اور دوسری طرف خالص اسلام پسند۔ اسلام پسند بھی کئی گروہوں میں تقسیم تھے۔ ان میں علی شریعتی جیسے جدید تعلیم یافتہ بھی تھے اور خمینی جیسے روایتی عالم بھی۔ 1979 تک شاہ کو اس بات کا اعتبار بھی نہ رہا کہ ان کی فوج اور امریکی سرپرست ان کی حفاظت کر سکیں گے چنانچہ وہ ایران کو چھوڑ کر نکل گئے۔
فروری 1979 سے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کا اقتدار حاصل کرنے کے لئے اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں میں کشمکش شروع ہو گئی جس نے ایک نئی آمریت کو جنم دیا۔اس موقع پر شاہ پرستوں کے ساتھ ساتھ جس مذہبی یا سیکولر لیڈر نے ذرا سا بھی اختلاف کیا ، اسے پاسداران انقلاب کے ہاتھ موت کی سزا سہنی پڑی۔جیلیں بھر گئیں اور موت کی سزا سنائی جانے لگی یہاں تک کہ ان زیادتیوں کو روکنے کے لئے خمینی کو خود مداخلت کرنا پڑی۔ایران کے پہلے وزیر اعظم مہدی بزرگان کو مجبوراً استعفیٰ دینا پڑا۔
بالآخر علماء اور ان کے حمایتیوں نے حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا اور تعلیم پر اپنا کنٹرول مستحکم کر لیا۔انقلاب ایران کو کامیابی سے ہمکنار کر لیا گیا۔اس کے بعد ثقافتی انقلاب کی طرف توجہ دی گئی۔مخالف نظریات کو سختی سے کچل دیا گیا۔ جیسا کہ شاہ نے مغربی لباس کو لازمی کیا تھا، اسی طرح اسلامی لباس کو سڑکوں، دفاتر اور یونیورسٹیوں میں لازمی قرار دیا گیا۔
انقلاب ایران کی توسیع کے خطرے کو خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں محسوس کیا گیا۔غیر روادار اسلامائزیشن کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ایک سلسلہ شروع ہونے کی امید کی جارہی تھی۔اس کا آغاز اس وقت ہوا جب خمینی نے امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا۔انہوں نے مسلم ریاستوں پر شدید تنقید کی اور عوام الناس کو اپنے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے لئے تیار کرنا شروع کیا۔انہوں نے خلیج کی بادشاہتوں کو مسترد کرکے وہاں شیعہ ایکٹوسٹ گروپوں کو منظم کرنا شروع کر دیا۔ایران کے انقلابی اثرات مختلف ممالک میں مختلف نوعیت کے تھے۔ لبنان اور بحرین جہاں شیعہ حضرات کی اکثریت ہے ، وہاں یہ اثرات بہت واضح تھے۔
خلاصہ بحث
ان ممالک کی اسلامی تحریکوں کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد مصنف نے یہ بیان کیا ہے کہ اسلام کے نعرے کا استعمال آمریت پسند حکمرانوں سے لے کر جمہوری تحریکوں نے کیا ہے۔ مسلم ممالک میں اسلام کے حوالے سے موجود اس بحث کی تفصیلات بیان کی ہیں کہ ان ممالک میں کون سا اسلام نافذ کیا جائے۔ بعض مسلمانوں کے خیال میں حکومت کو قرون وسطیٰ کے قوانین کو جوں کا توں نافذ کردینا چاہیئے۔ دوسروں کے نزدیک، قرون وسطیٰ کی فقہ اس دور کی ضروریات اور حالات کو سامنے رکھ کر مرتب کی گئی تھی لہذا جدید دور میں نئے سرے سے اجتہاد ہونا چاہیے۔
باب پنجم: اسلامی جماعتیں : مجاہدین فی سبیل اللہ
اس باب میں مصنف نے تفصیل سے عالم اسلام کی بڑی تحریکوں، ان کے نظریات، ان کی عملی جدوجہد اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ مصر کی اخوان المسلمون، برصغیر کی جماعت اسلامی، مصر کے انتہا پسند گروپوں، لبنان کی افواج المقاومۃ اللباننیۃ اور حزب اللہ، تیونس کی جماعت الاسلامیہ، اور الجیریا کی اسلامک سالویشن فرنٹ، وہ تحریکیں ہیں جن پر مصنف نے سیر حاصل بحث کی ہے۔
اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی
مصنف نے نظریاتی مماثلت کی بنا پر ان جماعتوں کا ذکر اکٹھا کیا ہے۔ بیسویں صدی میں دو تحریکیں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی مسلم دنیا میں احیائے اسلام کی تحریک میں سب سے واضح نظر آتی ہیں۔ان جماعتوں کے بانی اور نظریاتی رہنماؤں، جن میں حسن البناء، سید قطب اور سید ابوالاعلیٰ مودودی شامل ہیں، کے اثرات مسلم دنیا پر واضح طور پر محسوس کئے جاسکتے ہیں۔یہ لوگ درحقیقت احیائے اسلام کے آرکیٹکٹ ہیں جن کے نظریات کو سوڈان سے لے کر انڈونیشیا تک پڑھا گیا اور ان پر عمل درآمد کیا گیا۔
حسن البنا نے 1928 میں مصر میں اخوان المسلمون کی بنیاد رکھی۔سید ابوالاعلیٰ مودودی (1903-1979)جو ایک صحافی تھے نے ہندوستان میں 1941 میں جماعت اسلامی قائم کی۔دونوں تحریکیں انیس سو تیس اور چالیس کے عشروں میں پروان چڑھیں جو کہ ان کی اقوام کے لئے بحران کا دور تھا۔ ان دونوں نے یورپی امپیریل ازم اور مغرب پرست مسلم لیڈر شپ کو تمام مسائل کی جڑ قرار دیا۔مصر میں اخوان کے پیغام کو اسلام کی طرف مائل لوگوں کے ساتھ ساتھ مغرب پرست ایلیٹ طبقے کی بڑی تعداد نے بھی قبول کیا۔ مصنف کے الفاظ میں:
حسن البنا اور مودودی دونوں ہی نے اسلام کی تجدیدی روایت کا اطلاق بیسویں صدی کے حالات پر کیا۔انہوں نے دور جدید کے حالات کا گہرا مطالعہ اسلام کے اصل منابع کی روشنی میں کر کے امت کو راہ عمل تجویز کی۔ ان کی یہ کوشش ماضی کی اندھی تقلید نہ تھی۔ایک طرف اسلامی ماڈرنسٹ رہنماؤں نے مغربی افکار اور اداروں کو جوں کا توں قبول کر لیا تھا تو دوسری طرف حسن البنا اور مودودی نے ان کے اسلامی متبادل دیے یا انہی اداروں کو مناسب تبدیلیوں کے ساتھ قبول کر لیا۔ یہ دونوں رہنما مغرب کو مسلمانوں کے لئے ایک عظیم سیاسی و معاشی خطرہ سمجھتے تھے۔انہوں نے مغرب کے ثقافتی حملے کو سیاسی مداخلت سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا۔انہوں نے ایسی تنظیموں کی بنیاد رکھی جو سیاسی و سماجی ایکٹوزم میں حصہ لیں۔
ایک طرف اگر وہ ویسٹرنازیشن کے خلاف تھے تو دوسری طرف وہ ماڈرنازیشن کے حامی تھے۔ انہوںنے جدید تعلیمی اور سوشل ویلفیئر کے ادارے قائم کئے اور اپنی دعوت پھیلانے کے لئے جدید وسائل کو استعمال کیا۔ان کا پیغام صحیح معنوں میں بیسویں صدی کے ذہن کو مخاطب کرتا تھا۔انہوں نے جدت پسندی کے مسائل، اسلام اور نیشنلزم، جمہوریت، کیپٹل ازم، مارکسزم، جدید بینکاری، تعلیم، قانون ، خواتین کے کام کرنے، صیہونیت اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوعات پر کام کیا۔
حسن البنا کی نسبت مودودی نے زیادہ منظم انداز میں ان مسائل پر لکھا اور اسلام کی زندگی کے ہر معاملے میں جامعیت کو اجاگر کیا۔ان کے موضوعات اسلام اور ریاست، اسلامی معاشیات ، اسلامی تعلیمی نظام، انقلاب اور عورت ان کے ایک جامع وژن کو ظاہر کرتے ہیں۔حسن البنا اور مودودی نے معمولی سے اختلاف کے ساتھ تاریخ کو احیائے اسلام کے تناظر میں دیکھا اور اس کی تشریح نو کی۔ان کے نقطہ نظر نے ان کی اپنی تحریکوں کے ساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کو بھی عمل کی راہ دکھائی۔
حسن البنا اپنی تحریک کو عوامی بنانے میں کامیاب ہوگئے جبکہ جماعت اسلامی صرف ایک طبقے تک محدود رہی جس کا مقصد حکومت میں آنے کے لئے لیڈرز تیار کرنا تھا۔ اخوان اور جماعت کا مقصد مسلمانوں کو مغرب کے خلاف لڑانا نہیں بلکہ ایک مکمل طور پر جدید اور اسلامی معاشرے کا قیام تھا۔ مغرب پرستی سے دوری کا مطلب سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید سیاسی و معاشرتی اداروں سے دوری نہیں بلکہ ان جدید اداروں کو احتیاط سے اور اسلام کے خلاف مغربی اقدار سے علیحدہ کرکے اختیارکرنے کی ترغیب دی گئی۔
اخوان کے بڑے لیڈروں میں سید قطب بھی تھے۔ قطب نے معاشرے کو دو طبقات میں تقسیم کیا، ایک حزب اللہ اور دوسرا حزب الشیطان۔ ان کے نزدیک مسلم حکومتیں حزب الشیطان اور جاہلی حکومتیں تھیں جن کے خلاف جہاد مسلمانوں پر فرض تھا۔ ان کے نزدیک ان حکومتوں کو گرا کر اسلامی نظام قائم کر نا محض ایک اخلاقی ضرورت ہی نہیں بلکہ مسلمانوں پر فرض عین تھا۔ قطب کا یہ نظریہ بہت سے انتہا پسند گروپوں کا نقطہ آغاز بن گیا۔انہوں نے معاشرے کی اصلاح کا عمل نیچے (عوام)سے کرنے کی بجائے اوپر (حکومت) سے کرنے پر زور دیا۔ مسلم تنظیموں پر لازم قرار پایا کہ وہ غیر اسلامی اور طاغوتی نظاموں کو ہٹا کر اللہ کے دین کو غالب کریں۔ 1965 میں اخوان کے ہزاروں کارکنوں کو جمال عبد الناصر کی حکومت نے گرفتار کر لیا اور سید قطب سمیت کئی لیڈروں کو موت کی سزا سنائی گئی۔
دوسری طرف مولانا مودودی کی جماعت کا کردار کچھ مختلف تھا۔ اگرچہ شروع میں انہوں نے پاکستان کے مطالبے کی مخالفت کی لیکن پاکستان بننے کے بعد انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے طور پر اپنے کام کا آغاز کیا اور اسلامی حکومت قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اگرچہ کئی مرتبہ جماعت کے لیڈروں کو قید کیا گیا لیکن مجموعی طور پر یہ پاکستان میں ایک سیاسی قوت کے طور پر موجود رہی۔ اگرچہ جماعت کبھی بھی پارلیمنٹ میں بہت زیادہ سیٹیں حاصل نہیں کر سکی لیکن اس کے اثرات ہمیشہ ہمہ گیر رہے بالخصوص جنرل ضیاء الحق کے دور (1977-1988) میں اس کا اثر نہایت واضح ہے۔
بین الاقوامی سطح پر جماعت اسلامی پاکستان کے علاوہ بھارت، کشمیر، افغانستان اور بنگلہ دیش میں بھی موجود رہی۔ مودودی کی تحریروں کاکئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیااور ان کے اثرات سید قطب اور موجودہ اسلامی تحریکوں کے رہنماؤں پر بڑے واضح ہیں۔ موجودہ دور کی اسلامی تحریکیں اعتدال سے لے کر انتہا پسندی اور انقلابی نظریات تک ہر درجے پر موجود ہیں۔ ان میں مغرب پر تنقید سے لے کر اس پر حملہ کر دینے کے قائل لوگ بھی موجود ہیں۔
مصر کے شدت پسند انقلابی گروپ
سادات اور مبارک کے دور میں خفیہ اسلامی انقلابی گروپ وجود میں آئے جنہوں نے حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کیا ۔انہوں نے ہتھیاروں، بم دھماکوں، اغوا اور قاتلانہ حملوں جیسے اقدامات شروع کر دیے۔ ان میں اسلامک لبریشن آرگنازیشن یا شباب محمد، جماعت المسلمین یا تکفیر و الھجرۃ، جماعت الجہاد اور نجاۃ من الجہنم شامل تھیں۔
دنیاکے بارے میں ان جنگجوؤں کا وہی نقطہ نظر تھا جو سید قطب نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں پیش کیا۔ مسلم سوسائٹی کی کرپشن، معاشی زوال، سماجی ناانصافی اور روحانی کمزوری کی بنیادی وجہ مغرب زدگی کو قرار دیا گیا۔ انہوں نے موجودہ مصری معاشرے کو قبل از اسلام جاہلیت ، شرک اور بربریت کے دور کے مساوی قرار دیا۔ انہوں نے مغرب کی صلیبی جنگوں کی ذہنیت اور نیوکالونیل ازم اور صیہونیت کے گٹھ جوڑ کو اسلامی دنیا کے لئے خطرہ قرار دیا گیا۔ ان کے نزدیک چونکہ مصری حکومت نے اسلامی نظام کا نفاذ نہیں کیا ہے اس لئے یہ ایک کافر حکومت ہے جس کے خلاف جہاد مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور جو اس میں شریک نہ ہو کافر ہے۔
انہوں نے حکومت کے حامی علماء کو محض پتلیاں قرار دیا جو حکومت کے اشارے پر ناچ رہی ہوں۔ انہوں نے حکومت کے زیر انتظام مساجد کو کفر کی جگہیں قرار دے کر اپنے ممبرز کو وہاں عبادت سے روکا۔ انہوں نے اخوان المسلمون کو بھی مسترد کردیا کیونکہ وہ مصری معاشرے میں تدریج کے ساتھ اسلام لانا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک کسی قسم کا کمپرومائز خدا کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کے مترادف تھا۔
ان تنظیموں کے زیادہ تر کارکنوں کو مساجد، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تیار کیا جاتا۔ یہ کارکن بالعموم اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوتے اور ان کا تعلق لوئر مڈل یا مڈل کلاس سے ہوتا۔ ان میں زیادہ تر کے پاس مذہبی سندوں کی بجائے سائنس، ٹیکنالوجی ، فارمیسی یا قانون کی ڈگریاں ہوتیں۔ ان میں زیادہ تر دیہات سے قاہرہ، اسکندریہ اور اسیوط جیسے بڑے شہروں میں منتقل ہوئے تھے۔
ان انتہا پسندوں کا مذہبی اور تعلیمی بیک گراؤنڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ غیر معقول لوگ نہ تھے۔ انہیں بہت سی وجوہات نے انتہا پسندی پر مجبور کیا۔ ان میں جنوری 1977 میں قاہرہ میں خوراک کے لئے کے ہنگامے، بے روزگاری، گھروں کی قلت، سادات کا اوپن ڈور معاشی پروگرام اور اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ کا معاہدہ شامل ہیں۔ سادات کی اوپن ڈور پالیسی نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مصر میں آنے اور کاروبار پر قبضہ جمانے کا موقع دیا جبکہ یہ مصریوں کے حقیقی مسائل کے حل میں ناکام رہا۔ کیمپ ڈیوڈ کے معاہدے کے تحت، جس میں مصر نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، مصر پوری اسلامی دنیا میں تنہا رہ گیا۔
مصری معاشرے میں ستر او راسّی کی دہائیوں میں حکومت اور اسلام پسندوں کے مابین محاذ آرائی کے باوجود ایک خاموش انقلاب برپا ہوا۔ احیائے اسلام کی لہر پوری سوسائٹی میں پھیل گئی اور اسلام پسند جماعتیں، سوشل ویلفیئر کی تنظیمیں اور صوفی سلسلے کثرت سے پھیلنے لگے۔ مڈل اور اپر کلاس، غریب اور امیر، کسان اور پروفیشنلز، بوڑھے اور جوان، مرد و عورت سب میں اسلام کو اپنی زندگی کا مقصد بنانے کی خواہش تیزی سے پھیلنے لگی۔
حکومتی اور انفرادی سطح پر بہت سی مساجد کی تعمیر کی گئی جن میں عبادت کی جگہ کے علاوہ ہوسٹل، ہسپتال اور سماجی سرگرمیوں کی جگہ بھی شامل تھی۔ مذہبی پروگرام اور لٹریچر حکومتی میڈیا کے علاوہ سیکولر ٹی وی چینلز اور اخبارات و جرائد کے ذریعے عوام تک پہنچنے لگا۔ بہت سے علماء بھی مقبول عام میڈیا سٹار بن گئے۔ دوسری طرف مصر کے انتہا پسند گروپ معاشرے کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
لبنان کی افواج المقاومۃ اللبنانیۃ اور حزب اللہ
سلطنت عثمانیہ کے دور میں لبنان ، شام کا حصہ تھا۔ اسے فرانس نے شام سے الگ کرکے ایک عیسائی ریاست بنایا۔ یہاں امریکی، فرانسیسی اور برطانوی تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والے ہر لبنانی کو خواہ وہ عیسائی ہوتا یا مسلمان، ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنا پڑتی۔ عیسائی اس ملک میں فرانس کی سرپرستی میں غالب قوت تھے۔
مردم شماری کی 1932 بنیاد پر 1943 میں ایک قومی معاہدہ ہوا جس کے تحت عیسائی، سنی، شیعہ اور ڈروز (لبنان کا ایک مقامی مذہب) مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد میں ان کی آبادی کے تناسب سے سیاسی نمائندگی دی گئی۔ ملک کا صدر عیسائی ہوتا، وزیر اعظم سنی ہوتا اور اسمبلی کا سپیکر شیعہ ہوتا۔ ان سب میں شیعہ سب سے کمزور اور معاشی بدحالی کا شکار تھے۔ اہل تشیع کے دو اماموں، امام خمینی اور موسیٰ صدر اور ان کی دو تنظیموں ۔۔ اے ایم اے ٹی اور حزب اللہ نے صورت حال کو تبدیل کر دیا۔
کچھ عرصے میں لبنان کی آبادی کے تناسب میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ سنی اور شیعہ مسلمان مل کر عیسائی آبادی سے زیادہ تعداد میں ہوگئے جب کہ ملک میں ابھی غالب قوت عیسائی ہی تھے۔ ان مظاہروں کے باوجود عیسائی حکومت نے نئی تبدیلیوں کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس نے شیعہ کمیونٹی کی انتہا پسندی میں اضافہ کیا۔ 1978 میں معمر قذافی سے ملاقات کے لئے لیبیا جانے کے دوران موسیٰ صدر پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ ان کی اس گمشدگی کو شیعہ حضرات کے امام غائب کے عقیدے کے ساتھ متعلق کیا گیا۔انقلاب ایران نے شیعہ کمیونٹی میں مزید تحریک پیدا کر دی۔ نبیہ بیری اے ایم اے ٹی کے نئے لیڈر بن گئے۔ بیری نے اے ایم اے ٹی کو ایک نیشنلسٹ تحریک بنا دیا جس کی پہچان شیعہ نیشنلزم تھی۔ اس کا مقصد انقلاب کی بجائے اصلاح بن گیا جس میں شیعہ کمیونٹی کے حقوق سر فہرست تھے۔ اس نے اسلامی حکومت کے قیام پر زیادہ زور نہیں دیا۔
انقلاب ایران، لبنان میں اسرائیلی مداخلت (1982)، اسرائیل کا جنوبی لبنان کے علاقوں پر قبضہ(1982-1985) ، شتیلہ اور صابرہ کے مہاجر کیمپوں پر اسرائیلی بمباری اور عیسائی حکمرانوں کی طرف سے اسرائیل کی حمایت نے انتہا پسند اسلامی گروپوں کو تقویت دی۔ ان میں حزب اللہ اور الجہاد شامل ہیں۔ انہوں نے ایران کی پیروی میں لبنانی حکومت کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کی حمایت کی۔ انہوں نے آیت اللہ خمینی کو اپنا سپریم لیڈر ماننے اور صیہونیت کے خلاف جدوجہد کا اعلان کیا۔
افواج المقاومۃ اللبنانیۃ کے برعکس حزب اللہ کے لیڈر زیادہ تر علماء تھے۔ یہ علماء نجف کے تعلیم یافتہ تھے جو کہ شیعہ حضرات میں انقلاب کی روح پھونکنے والاسب سے بڑا مرکز تھا۔ یہ لبنانی علماء زیادہ تر آیت اللہ خمینی کے شاگرد تھے۔ان کے گھروں اور مساجد میں خمینی کی تصاویر آویزاں ہوتیں اور انہیں ان کی ریلیوں میں ان تصاویر کو آگے رکھا جاتا۔ دمشق میں ایرانی سفارت خانہ اس تنظیم کی مالی، عسکری اور سیاسی امداد کا مرکز بن گیا۔ ایران نے انہیں عسکری تربیت ، اسلحہ اور رقم فراہم کی۔ موجودہ دور تک حزب اللہ لبنان کی سب سے بڑی عسکری و سیاسی قوت ہے۔
تیونس کی اسلامی تحریک
تیونس کی آزادی کے بعد 1987 تک وہاں صرف ایک حکمران حبیب بورغبیہ کی حکومت رہی۔ کسی اور مسلمان حکمران کے برخلاف، بورغبیہ نے ملک کو ایک مکمل سیکولر سٹیٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ عربی کی بجائے فرانسیسی کو سرکاری زبان قرار دیاگیا اور یہی اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ طبقے کی زبان بنی۔ بورغبیہ نے ترکی کی حکومت کی طرح تعدد ازدواج پر پابندی لگائی، خواتین کے حجاب کو خلاف قانون قرار دیا اور ورکرز کو رمضان کا روزہ چھوڑنے کی ترغیب دی۔ اسلامی علوم کے مرکز زیتونہ کو بند کر دیا گیا۔ بورغبیہ کے نزدیک اسلام ایک ماضی کی چیز تھا۔ ان تمام پابندیوں کے نتیجے میں ایک طاقتور اسلامی تحریک پیدا ہوئی جس کے لیڈر رشید غنوسی تھے۔
غنوسی ایک اعتدال پسند لیڈر تھے۔ وہ سید مودودی، حسن البنا، سید قطب اور ان کے بھائی محمد قطب، مالک بنابی اور علامہ محمد اقبال سے متاثر تھے۔ 1979 میں انہوں نے جماعت الاسلامیہ کے نام سے تنظیم قائم کی اور یہ ایک مصری اور سوڈانی اخوان کی طرز پر ایک متحرک جماعت بن گئی ۔ اس کے نتیجے میں یہ تحریک عوام میں تو مقبول ہوئی لیکن اسے حکومت کے پریشر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ غنوسی نے جدید دور کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے پر زور دیا۔
غنوسی کی تحریک مساجد کے ذریعے پورے ملک میں پھیل گئی۔ انہوں نے دور جدید کے زندہ مسائل کے حل پر زور دیا جن میں مزدوروں کے حقوق، ملازمتیں، تنخواہیں، غربت، مغرب زدگی اور سیاسی آزادی شامل ہیں۔ انہوں نے میوزیم اسلام کی بجائے زندہ اسلام کا تصور پیش کیا۔ نومبر 1987 میں بورغبیہ کے وزیر اعظم زین العابدین بن علی نے حکومت چھین کر حبیب بورغبیہ کے 31 سالہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
بن علی نے اپنی حکومت کو مستحکم بنانے کے لئے سیاسی آزادی، جمہوریت اور ملٹی پارٹی نظام کا وعدہ کیا۔ انہوں نے انور سادات، غفار نمیری اور ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اسلامی ورثے کے احیاء کا وعدہ کیا۔ وہ حج کرنے مکہ بھی گئے جس کی بھرپور انداز میں کوریج کی گئی۔ ان کی تقاریر میں اسلامی اثرات نمایاں ہوتے، انہوں نے زیتونہ مسجد کے مدرسے کو بھی کھول دیا۔ رمضان کے روزے رکھے جانے لگے اور ریڈیو اور ٹی وی پر اذان نشر ہونے لگی۔ انہوں نے رشید غنوسی کی جماعت ایم ٹی آئی کو اپنا رسالہ نکالنے کی اجازت دینے کا بھی وعدہ کیا۔ ایم ٹی آئی نے ان حکومتی وعدوں پر اعتبار کرکے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا لیکن 1989میں بن علی تمام وعدوں سے مکر گئے۔ اس کے بعد ایم ٹی آئی جس کا نام نشاۃ ثانیہ پارٹی رکھ دیا گیا تھا، کو بری طرح کچلنے کی کوشش کی گئی۔ رشید غنوسی کو لندن میں سیاسی پناہ لینا پڑی۔ پارٹی کے بہت سے رہنماؤں کو فرانس میں جلا وطن کر دیا گیا۔ 1993 کے الیکشن میں 99.91% ووٹوں کے ساتھ بن علی کامیاب ہوئے جسے پہلے سے طے شدہ کامیابی قرار دیا گیا۔
الجیریا میں اسلامی تحریک
میں آزادی کے بعد الجیریا پر ایک پارٹی فرنٹ ڈی لیبریشن نینشل ان کا 1962 میں اقتدار قائم ہو گیا۔اگرچہ اس مملکت کا نام ڈیموکریٹک اینڈ پاپولر ری پبلکس آف الجیریا رکھا گیا لیکن الجیریا ایک آمریت زدہ ریاست بن گیا۔ اس کے پہلے تینوں حکمران فوج سے تعلق رکھتے تھے۔ ان حکمرانوں نے اگرچہ اسلام کا نام رسمی طور پر لیا لیکن ان کی حکومتیں اسلامی نہ تھیں۔ اسلام کے پردے میں سیکولر ازم کی ترغیب دی گئی۔ پورے معاشرے کو فرانسیسی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش جاری رہی۔
اس کلچرل تصادم کے نتیجے میں اسلامی تحریک پہلے طلبا میں پیدا ہوئی۔ اس تحریک میں جو لوگ شامل تھے وہ دوسرے مسلم لیڈروں جیسے اقبال، مودودی اور حسن البنا سے متاثر تھے۔ یہ لوگ روایتی علماء کے برعکس جدید علوم سے واقف اور فرانسیسی زبان پر عبور رکھنے والے تھے۔ اس لحاظ سے مغرب پر ان کی تنقید زیادہ پاور فل تھی۔ ان کے فرانسیسی تعلیم یافتہ لیڈر مالک بنابی تھے جو جدید سائنس اور انجینئرنگ پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے اقبال کی طرح اسلامی افکار کی تشکیل نو کا تصور پیش کیا۔
اسلام پسند آہستہ آہستہ معاشرے میں زور پکڑتے گئے اور بالآخرٍ1990-1991 کے انتخابات میں انہوں نے کلین سویپ کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ 12 جنوری 1992 کو فوج نے مداخلت کرکے الیکشن کو کالعدم قرار دے کر جمہوری عمل کو معطل کر دیا اور ملک میں ایمر جنسی نافذ کر دی۔ اس کے بعد کئی اخبارات کو بند کر دیا، اسلامی فرنٹ پر پابندی لگا دی گئی اور دس ہزار سے زائد اسلام پسندوں کو صحرائی کیمپوں میں قید کر دیا گیا۔ ان مظالم کے خلاف سیکولر سیاست دانوں نے بھی آواز بلند کی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس کی شدید مخالفت کی۔ اسلامی فرنٹ کو اس کا جمہوری حق نہ دینے اور اس پر ظلم و جبر نے اسے ایک قانونی سیاسی جماعت کی بجائے ایک انقلابی تحریک بنادیا اسلامی فرنٹ کے کئی گروپ بن گئے جن میں سے کئی سیاسی عمل کو چھوڑ کر گوریلا جنگ کی طرف چل نکلے۔
خلاصہ بحث
ان تمام تحریکوں کا تفصیلی تذکرہ کرنے کے بعد مصنف بحث کو سمیٹتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ اسلامی تحریکوں کی ایک خامی یہ ہے کہ ان کے پاس حکومت چلانے کے لئے کوئی مضبوط ایجنڈا نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ اپوزیشن میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
اگرچہ یہ غیر ملکی اقدار کے خلاف ہیں لیکن جدت پسندی کے خلاف نہیں۔ انہوں نے مسلم دنیا کے ذہنوں میں جدید اور قدیم کا خلا پر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے اثرات ان کے حقیقی سائز اور تعداد سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کی کچھ ایسی خصوصیات ہیں جو عام سیاسی جماعتوں میں نہیں ہوتیں مثلاً یہ بہت منظم، ڈسپلن کے پابند اور نہایت متحرک ہوتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے چند تشدد اور دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں لیکن زیادہ تر سیاسی نظام کے اندر رہ کر اپنی جدوجہد جاری رکھنے کے حامی ہیں۔
یہ تحریکیں ان ممالک میں زیادہ کامیاب ہوئیں جہاں ناکام معیشت، بے روزگار نوجوان اور ظلم و جبر کی مرتکب حکومتیں موجود تھیں۔ ان کی اکثریت دور جدید کے مسائل سے پوری طرح باخبر ہے۔ یہ ماضی کو محض دوھرانا نہیں چاہتے بلکہ یہ اسلامی اصولو ں پر قائم ایک جدید معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک اسلامی ریاست کا قیام چاہتا ہے کیونکہ یہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے ہیں۔
جہاں حکومت نے انہیں تشدد اور سزاؤں کے ذریعے انہیں دبانے کی کوشش کی گئی وہاں یہ بھی پر تشدد کاروائیوں میں ملوث ہو گئے۔ ان کے درمیان کچھ نظریاتی اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ بعض تحریکوں کے اندر مختلف تنظیمیں شامل ہیں جو مختلف نظریات رکھتی ہیں جیسے الجیریا کا اسلامی فرنٹ یا تیونس کی نشاۃ ثانیہ پارٹی۔ ان تنظیموں میں ماڈرنائزیشن، مسلح جدوجہد، مغرب ، جمہوریت، عورت کے کردار اور طاقت کے استعمال کے بارے میں رویوں کا اختلاف موجود ہے جو ان تحریکوں میں تنوع ڈائیورسٹی کو ظاہر کرتا ہے۔
باب ششم: اسلام اور مغرب: تہذ یبوں کا تصادم
پچھلی چار دہائیوں کے دوران مغرب کے بڑے بڑے لیڈروں نے اسلامی خطرے کو ہوا بنا کر پیش کیا ہے۔ بالخصوص سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسلام کو اگلا دشمن قرار دینے کی مہم مغرب میں چل رہی ہے۔ مصنف اس نقطہ نظر سے شدید اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
ہمارے لئے چیلنج یہ ہے کہ ہم اسلامی تحریکوں اور عوامل میں تنوع کو قبول کر لیں۔ یہ سب مغرب مخالف نہیں ہیں۔ جہاں جہاں محاذ آرائی اور تصادم کی کیفیت ہو وہاں اس کی وجہ تلاش کریں اور ان واقعات پر اپنا رد عمل پہلے سے قائم کئے ہوئے مفروضات کی بجائے صحیح معلومات کی روشنی میں ظاہر کریں۔ خلیج کی جنگ کے بعد کے عرصے میں مشرقی یورپ میں جمہوریت قائم ہونے پر بہت خوشی منائی گئی لیکن مشرق وسطیٰ میں جب اسلامی تحریکوں نے جب جمہوری کامیابی حاصل کی اور ان کی حکومتوں نے انہیں دبانے کی کوشش کی تو ہم نے یا تو ان حکومتوں کی حمایت کی یا پھر ہم خاموش رہے۔ کیا ہمارا یہ رویہ ہماری جمہوریت ، سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کی اقدار کے خلاف نہیں ہے؟
اس کے بعد وہ مسلم دنیا کا ذکر کرتے ہوئے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ مسلم دنیا میں بھی مغرب کو خطرے کی علامت ہی سمجھا جا رہا ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے اس نظریے کو ہننگٹن اور لوئیس برنارڈ کی تحریروں نے فروغ دیا ہے۔ مصنف ان دونوں کی تحریروں پر کڑی تنقید کرتے ہیں اور ان لوگوں کی تردید بھی کرتے ہیں جو مغرب میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں۔
میری رائے میں یورپ اور شمالی امریکہ میں مسلمانوں کی موجودگی کسی خطرے کی نشان دہی نہیں کرتی۔ ہمیں مسلمانوں کی امن پسند اکثریت اور تشدد پسند انقلابی اقلیت میں فرق کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کی اکثریت مغربی ممالک میں اپنے ملکوں کے آمرانہ اقتدار سے تنگ آ کر یا تعلیم و معاش کے بہتر وسائل کی تلاش میں آئی ہے۔ یہ لوگ وفادار شہری ہیں۔ ہاں ایسا ضرور ہے کہ انہیں مغربی معاشرے میں جذب ہونے کا مسئلہ درپیش ہے جیساکہ ان سے پہلے یہودیوں اور رومن کیتھولک عیسائیوں کو درپیش رہا۔ اپنے ایمان پر قائم رہتے ہوئے کیا ایک اچھا امریکی یا برطانوی بنا جاسکتا ہے؟ یہ بات ان اقلیتوں کے لئے زیادہ لائق توجہ ہے۔
بیسویں صدی سے پہلے یہودیت اور عیسائیت کو دو بالکل مختلف مذاہب سمجھا جاتا تھا۔ لیکن بیسویں صدی میں ان دونوں نے ایک دوسرے کو اکاموڈیٹ کرہی لیا۔ اسی طرح کیتھولک عیسائیوں کا معاملہ ہوا۔ لیکن مسلمانوں کے کیس میں معاملہ کچھ مختلف ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو ایک ہی دین ابراہیمی کا پیروکار سمجھا جاتا ہے لیکن اسلام کو یہودی -عیسائی -اسلامی روایت کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ اسلام کے توحید و رسالت کے تصورات کے باوجود ہمارے لٹریچر اور یونیورسٹی کے نصاب میں اسے غیر مذاہب (ہندو مت، بدھ مت ، تاؤ ازم وغیرہ) کے ساتھ گروپ کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ان تینوں مذاہب میں بہت سے اہم اختلافات ہیں لیکن یہ تینوں توحید کا مشترک عقیدہ رکھتے ہیں جس سے محاذ آرائی کی بجائے تعاون و احترام کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔
اس طرح کے سوالات کہ کیا وہ قابل اعتبار اور وفادار شہری ہیں؟ تمام مسلمانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے مترادف ہیں۔اس کی بجائے مسلمانوں کے عمومی رویے اور ان انتہا پسندوں کے کردار میں فرق کرنا چاہئے جو اپنے افعال کو جائز ثابت کرنے کے لئے اسلام کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسا ہم دوسرے مذاہب کے معاملے میں بھی تو کرتے ہیں جب جیوش ڈیفنس لیگ، آئرش ری پبلکن آرمی، مافیا، یا ان عیسائی انتہا پسندوں کی بات ہوتی ہے جو خود کو آرمی آف گاڈ قرار دے کر اسقاط حمل کرنے والے ہسپتالوں کو بم سے اڑانے کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم مسلم انتہا پسندی کی بات کرتے ہوئے آزادی کی تحریکوں اور دہشت گردی میں فرق نہیں کرتے۔ یہ صورتحال اس وقت اور گھمبیر ہو جاتی ہے جب امن ، تشدد اور مقدس جنگ کے معاملے میں یہودیت اور عیسائیت کا مقابلہ اسلام سے کیا جاتا ہے اور ان کے اختلافات پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ رجحان دونوں طرف سوائے علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے کچھ پیدا نہیں کر سکتا۔
اس کے بعد مصنف اسلام کے نفاذ سے متعلق کچھ اہم مسائل جیسے جمہوریت، خواتین کے بارے میں مسلمانوں کے رویے اور مسلم ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت کے مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ ان معاملات میں مسلم دنیا کے نظریات کی توجیہ کرتے ہوئے وہ مغربی معاشروں پر زور دیتے ہیں کہ انہیں مسلمانوں کا نقطہ نظر سمجھنا چاہیے نہ کہ ان پر اپنا نقطہ نظر مسلط کیا جائے۔ وہ مغربی مفکرین پر تنقید کرتے ہوئے یہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے اہل علم یک رخی طور پر صرف انتہا پسند مسلم تنظیموں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن تبلیغی جماعت اور صوفی سلسلوں جیسے اعتدال پسندوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں حالانکہ ان کا اثر و نفوذ انتہا پسندوں سے زیادہ ہے۔
مصنف اپنے ماہرین کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس مشرق کے بارے میں علم کی کمی ہے اور ہمارے ماہرین تعصب میں مبتلا ہیں۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں مسلمانوں کے اندر تنوع کو محسوس کرنا چاہیے۔ وہ امریکی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
عصر حاضر کا اسلام خطرے سے زیادہ چیلنج ہے۔ یہ مغربی حکومتوں کو اپنے متنوع مسائل کو سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔ مسلم حکومتوں کے لئے بھی یہ چیلنج ہے کہ وہ تشدد پر یقین نہ رکھنے والی تحریکوں کو دبانے کی بجائے سیاسی رواداری اور برداشت کا مظاہرہ کریں۔ اسی طرح یہ مغربی طاقتوں کے لئے بھی چیلنج ہے کہ وہ اپنی جمہوری اقدار کے مطابق عوامی تحریکوں اور پرتشدد انقلابیوں میں فرق کریں اور لوگوں کے اس حق کو تسلیم کریں کہ وہ اپنی حکومتوں اور لیڈر شپ کا انتخاب خود کریں۔
جابرانہ حکومتوں کے لئے امریکی حمایت سے اینٹی امریکی اور اینٹی مغربی جذبات مزید بھڑکیں گے جیسا کہ ایران، لبنان، مصر، الجیریا اور اسرائیل کی حکومتوں کے لئے امریکی حمایت سے ہوا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ امریکی پالیسیوں کی وجہ سے اس کے خلاف نفرت کے جذبات صرف اسلام پسندوں ہی میں نہیں بلکہ سیکولر لوگوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
اسلام کوخمینی ازم کے مترادف سمجھنے سے یہ تصور پھیلتا ہے کہ تمام اسلامی تحریکیں امریکہ کی مخالف ہیں جس سے ان کو سمجھنے اور ان کے بارے میں صحیح پالیسی اختیار کرنے میں مشکل ہوتی ہے۔ مغربی اور مسلم حکومتوں کے مابین اختلافات کو تہذیبوں کے تصادم کی بجائے زیادہ سے زیادہ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مفادات کا اختلاف قرار دیا جاسکتا ہے۔امریکی افواج کی موجودگی اور اس کی پالیسیاں مسلمانوں میں نفرت پھیلنے کی بڑی وجوہات ہیں۔ میرے خیال میں مسلم حکومتوں سے دوستانہ تعلقات اور ان کے شہریوں کو اپنے مستقبل کے انتخاب کا حق دینا ہی امریکی مفادات کی بہترین نگہبانی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب لائق مطالعہ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اسے شائع کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر امریکی پالیسی ساز ایسپوزیٹو اور اس طرز فکر کے دوسرے امریکی ماہرین کی رائے کو اہمیت دیں تو مسلمانوں اور مغرب کے درمیان تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے اور ایک پر امن دنیا کا خواب پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز