لکھ کر سوچنے والے

پچھلے دنوں ایک بہت دلچسپ واقعہ میرے علم میں آیا۔ ایک صاحب کو ایک کتاب دی گئی۔ ان کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے تھا۔ کتاب دینے والے صاحب نے، اِن صاحب کو کتاب دیتے وقت یہ بھی بتا دیا کہ مصنف کی رائے بعض معاملات میں تبدیل ہوئی ہے۔ اس پر انہوں نے فوراً دریافت کیا کہ کیا یہ مصنف سوچ کر نہیں لکھتے؟

کسی دینی مدرسے سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک طالب علم کو عملی زندگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جدید ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے والا کوئی شخص اگر دین کی طرف مائل ہو جائے تو اس پر کیا گزرتی ہے؟ دین دار افراد کو اپنے معاشی مسائل کے لئے کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے؟ پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

    جب میرے علم میں یہ بات آئی تو میں نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ یہ مصنف ان لوگوں میں سے ہیں جو لکھنے کے بعد بھی سوچتے رہتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو آج ہمارے ہاں ناپید ہوچکی ہے۔اس لیے ایک مذہبی آدمی کو یہ بات انتہائی عجیب معلوم ہوئی کہ کوئی عالم اپنی کسی رائے سے رجوع کرسکتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ عقل انسانیت کا سب سے بڑا شرف ہے۔اسی کی بنیاد پر انسان سچائی تک پہنچتا ہے۔ قرآن کریم اسی پس منظر میں بار بار لوگوں کو سوچنے اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ مگر یہ عین ممکن ہے کہ انسان غورو فکر کے بعد ایک بات کو ٹھیک سمجھے، لیکن وہ بات اصلاً غلط ہو۔ اب ایسے میں انسان سوچنا بند کردے تو کیا ہوگا؟ وہی جو داغ نے فرمایا۔

حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے

    غلطی کے باجود اپنی جگہ بیٹھے رہنے کا کام حضرتِ داغ تو کرسکتے ہیں، مگر کسی مذہبی عالم کو یہ ہر گز زیب نہیں دیتا کہ اس کی کوئی غلطی اس پر واضح ہوجائے یا کوئی بہتر بات سامنے آجائے اور وہ پھر بھی اپنی جگہ براجمان رہے۔

آپ لوگ اپنے گھروں کو واپس جائیے اور انہیں (دین کی) تعلیم دیجیے۔ انہیں (نیک اعمال) کی تلقین کیجیے۔ اپنی نمازوں کو اس طرح ادا کیجیے جیسا کہ آپ مجھے دیکھ چکے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم (بخاری)

    پہلے دن سے حق بات اس دنیا میں صرف اللہ کے نبیوں اور رسولوں کو معلوم ہوتی ہے۔ علما کاکام یہ ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کوشش میں اگر کسی لمحے انہیں یہ کھٹکا ہوجائے کہ بات ٹھیک طرح نہیں سمجھی گئی اور تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آجائے کہ اللہ اور رسول کی منشا کچھ اور ہے تو ان پر لازمی ہے کہ وہ اپنی رائے کو بدل دیں۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشیے۔ اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات اور تاثرات بلا تکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ کیا انسان کو ہر وقت اپنے خیالات، نظریات اور اعمال کا احتساب کرتے رہنا چاہیے؟ ایسا کرنے کے تین فوائد بیان کیجیے۔ کیا اس عمل کی کوئی حد بھی ہے یا ساری عمر ایسا کرتے رہنا چاہیے؟

۔۔۔۔۔۔ بعض افراد ‘حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے’ کے مقولے پر عمل کیوں کرتے ہیں؟ خود احتسابی کے عمل میں موجود نفسیاتی رکاوٹوں کی نشاندہی کیجیے۔

قرآن مجید کے مطالعہ میں تعمیر شخصیت

لکھ کر سوچنے والے
Scroll to top