محبت اور نفرت

محبت و نفرت بھی انسان کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں۔ ہم بہت سی چیزوں کو پسند یا ناپسند کرتے ہیں۔ یہی جذبے کچھ شدت اختیار کرکے محبت اور نفرت اور پھر اس سے بھی بڑھ کر عشق اور شدید نفرت کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ اگر تو یہ جذبے اپنی فطری حدود میں رہیں تب تو ٹھیک ہے لیکن ان میں حدود سے تجاوز انسان کی شخصیت کو بری طرح مسخ کردیتا ہے۔ آپ نے یقینا ایسے کئی لوگ دیکھے ہوں گے جو عشق یا نفرت کی شدت کا شکار ہو کر اپنی پوری زندگی تباہ کربیٹھے یا پھر اس سے ہاتھ ہی دھو بیٹھے۔

جنت رائی کے دانے کے مشابہ ہے۔ یہ دانہ سب سے چھوٹا ہوتا ہے مگر سب سے زیادہ تناور درخت بنتا ہے۔ سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام

ان جذبوں کو اپنی حدود میں رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا رخ موڑ کر صحیح سمت میں لگا دیا جائے۔ انسان کی محبت کا محور و مرکز اللہ تعالیٰ کی ہستی ہونا چاہئے جس نے اسے پیدا فرمایا اور اس کی ہر ہر ضرورت کا ایسا خیال رکھتا ہے جو اور کوئی نہیں رکھ سکتا۔ بعض انسان بڑے ناشکرے ہوتے ہیں اور وہ اپنے رب کے ساتھ شریک بنا کر ان سے محبت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  

و من الناس من یتخذ من دون اللّٰہ اندادا یحبونھم کحب اللہ، والذین اٰمنوا اشد حبا للہ۔  (البقرہ 2:165)  ’’انسانوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اللہ کے ساتھ کچھ شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے ایسے محبت کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے کرنا چاہئے، (ان کے برعکس) اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرتے ہیں۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ سے محبت ہی کی اہم ترین شکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے بندے اور آخری رسول ہیں۔ آپ کی محبت کے بغیر ایمان کامل نہیں ہو سکتا اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی محبت ہے۔ اس محبت کے بارے میں ہمارے ہاں افراط و تفریط کے رویے پائے جاتے ہیں۔

    بعض لوگ اپنی حماقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے الگ سمجھتے ہیں اور پھر رسول کا مقابلہ اللہ تعالیٰ سے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ ایک طرف تو آپ کو اپنی محبت کے غلو میں خدا کا شریک دیتے ہیں اور دوسری طرف شخصی محبت کا دعویٰ کرنے کے باوجود آپ کی تعلیمات کی پیروی بھی نہیں کرتے حالانکہ محبت بغیر اتباع کے محض دکھاوا اور فریب ہے۔

ہمارے میڈیا میں اربوں روپیہ ایڈورٹائزنگ پر صرف کیا جاتا ہے۔ کیا اس ایڈورٹائزنگ سے معاشرے کو حقیقی فوائد حاصل ہوتے ہیں؟ موجودہ ایڈورٹائزنگ کے ہماری اصل زندگی یعنی آخرت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ان سوالات کا جواب حاصل کرنے کے لئے اس تحریر کا مطالعہ کیجیے۔

اسی طرح کچھ دوسرے لوگ آپ کی محبت کو محض اتباع سنت ہی قرار دیتے ہیں اور آپ کے ساتھ محبت کے ذاتی تعلق کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ یہ دونوں راستے غلط ہیں۔ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے ساتھ محبت و عقیدت ایک عظیم نعمت ہے وہاں اس کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنے ہر معاملے میں آپ کی اتباع اور پیروی کی جائے۔

    اسی محبت کی ایک اور شاخ آپ کے اہل بیت اور آپ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی محبت ہے جس کا کوئی مسلمان انکار نہیں کر سکتا لیکن اس معاملے میں بھی ہر قسم کے غلو سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ یہ عظیم نعمت ہمارے لئے شرک کی مصیبت نہ بن جائے۔   

    جب انسان اپنی محبت کا رخ اللہ اور اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور آپ کی آل و اصحاب کی طرف موڑ دے تو پھر اسے دنیاوی محبتوں سے نجات مل جاتی ہے۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ والدین اور بیوی بچوں سے محبت نہیں کرنی چاہئے۔ یہ محبتیں بھی انسان کی فطرت میں داخل ہیں۔ لیکن ان سب محبتوں کو خدا و رسول کی محبت کے تابع ہونا چاہئے۔ 

    یہی حال نفرت کے جذبے کا ہے۔ جب نفرت کے جذبے کو غلط استعمال کیا جائے تو انسان تخریب کار اور دہشت گرد بن جاتا ہے اور اپنے جیسے انسانوں کے خون میں ہاتھ رنگنے لگتا ہے۔ اس کا صحیح استعمال یہ ہے کہ اسے برائیوں کے خلاف نفرت میں تبدیل کر دیا جائے۔ ایک بندہ مومن کے نزدیک کفر اور فسق و فجور کی طرف جانا آگ میں جل جانے سے زیادہ قابل نفرت ہونا چاہئے۔ اسی چیز کا ہمارے دین میں تقاضا کیا گیا ہے۔ اس جذبے کو بھی بعض اوقات غلط رنگ دے دیا جاتا ہے۔ برائی سے نفرت کو انسانوں تک پھیلا دیا جاتا ہے۔ نفرت برائی سے ہونی چاہئے برے انسان سے نہیں۔

    ایک مسلمان کو دین اور اخلاقیات کا داعی ہونا چاہئے اور اسے برائیوں میں مبتلا شخص کو اپنا بھائی سمجھ کر اس کی اصلاح کی کوشش کرنا چاہئے نہ کہ اسے برا قرار دے کر دھتکار دے اور وہ اپنی برائیوں میں اور شدت اختیار کر جائے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم سے بھی بہت سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو کیا خوب نصیحت فرمائی کہ اس گناہ گار کو وہ سزا دے جس نے خود کبھی یہ گناہ نہ کیا ہو۔

    اس اصول سے استثنا صرف ان لوگوں کا ہے جو بہت ہی زیادہ گھناؤنے قسم کے جرائم میں مبتلا ہوں اور اس سے توبہ بھی نہ کرنا چاہتے ہوں اور انہی میں مبتلا رہنا اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہوں۔

    اپنی زندگی میں ان دوستوں کا انتخاب کیجئے جو محبتیں پھیلانے والے اور نفرت سے دور بھاگنے والے ہوں۔ اگر آپ کے قریب ایسے منفی ذہنیت کے حامل لوگ موجود ہیں جو ہر وقت دوسروں کی نفرت کی آگ میں جلتے رہتے ہیں اور دوسروں تک بھی یہ آگ منتقل کرنا چاہتے ہیں تو ان سے مکمل طور پر اجتناب کیجئے ورنہ آپ کی شخصیت کو بھی یہ لوگ تباہ کرنے میں کسر نہیں چھوڑیں گے۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

 اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔ محبت و نفرت کے جذبات جب ضرورت سے زیادہ شدت اختیار کر جائیں تو ان کے کیا نتائج انسانی شخصیت پر وقوع پذیر ہوتے ہیں؟

۔۔۔۔۔ نفرت کے شدید جذبات رکھنے والے منفی افراد کو کس طریقے سے مثبت کیا جا سکتا ہے؟

علوم القرآن اور تعمیر شخصیت لیکچرز

محبت اور نفرت
Scroll to top