لکھ لیا کرو۔۔۔

انسانوں میں حرص اور لالچ کی اخلاقی خرابی عام پائی جاتی ہے۔ لین دین، خرید و فروخت اور روپے پیسے کے دیگر معاملات کے وقت اس کا اظہار عام طور پر ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کی طبیعت میں بھول اور نسیان کا مادہ بھی خِلقی طور پر موجود ہے۔ ہم نئی چیزیں یاد رکھتے ہیں اور پرانی چیزیں فراموش کرتے جاتے ہیں۔

ایسا شخص اللہ تعالی کی جانب سے سزا پا رہا تھا جو جھوٹی بات کو لیتا تھا اور پھر اسے پوری دنیا میں پھیلا دیا کرتا تھا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

انسانوں کے درمیان جب کبھی زر اور زمین کے معاملات پیش آتے ہیں تو طمع اورنسیان کے عناصر بارہا جھگڑے فساد کا سبب بن جاتے ہیں۔ وراثت، قرض اور خرید و فروخت کے معاملات میں تو اکثر اس کی نوبت آجاتی ہے۔ عام طور پر لوگ خرید و فروخت میں تو کچھ محتاط رہتے ہیں، مگر قرض اور وراثت کے معاملات چونکہ فوری نہیں ہوتے اور ان میں اکثر معاملہ اپنے قریبی لوگوں ہی سے پڑتا ہے، ا س لیے لوگ محتاط نہیں رہتے اور کچھ عرصہ بعد باہمی اختلاف پیدا ہوجاتا ہے۔

    دین نے اس معاملے میں ہماری یہ رہنمائی کی ہے کہ جب کبھی قرض کا معاملہ ہوتو پوری بات کو لکھ کر دو گواہ بنا لینے چاہییں۔ اسی طرح وراثت کے مسئلے کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک پورا قانون دے کر خود حل کیا ہے۔ جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے اسے جہنم کی وعید دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ وصیت کا ایک حکم دے کر امکانی طور پر پیدا ہونے والے جھگڑوں کا راستہ روک دیا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں نہ قرض کے وقت گواہ اور تحریر کا اہتمام کیا جاتا ہے، نہ دین کے مطابق وراثت کی تقسیم کا۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنی وصیت لکھ کر رکھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔

    حالانکہ ان چیزوں کا اہتمام کرلیا جائے تو بہت سے اختلافات، دل شکنیوں اور تعلقات کی خرابی کی نوبت نہیں آتی۔ مثلاً قرض کے معاملات میں رقم کی مقدار، اس کی ادائیگی کی شکل اور مدت پر بارہا اختلاف ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ قرض کی رقم کے ساتھ تحریری طور پر یہ بھی لکھ لیا جائے کہ یہ رقم کب واجب الادا ہوگی۔ مقروض کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ قرض بہرحال اسے ادا کرنا ہے۔ اس دنیا میں اگر وہ ادا نہیں کرے گا تو آخرت میں اسے اپنی نیکیوں کی کرنسی میں اس قرض کی ادائیگی کرنی ہوگی جو یقینا بہت نقصان کا سودا ہوگا۔

زندگی کی ناکامیاں، رشتوں کی تلخیاں،  انسانوں کے رویے ہمیں مایوس کر دیتے ہیں۔ بسا اوقات یہ مایوسی انسان کے ذہن پر اس حد تک دباؤ پیدا کر دیتی ہے کہ انسان دنیا کی جدوجہد کے مقابلے میں اس دنیا سے فرار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس حد تک پہنچنے سے پہلے اس تحریر کا مطالعہ کر لیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ تحریر آپ کے کام آ جائے۔

اسی طرح وراثت کے دینی حکم کو نظر انداز کرکے اپنے مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کرنا، اللہ تعالیٰ سے سرکشی اور بغاوت کے ہم معنی ہے، جس کا انجام سوائے جہنم کی آگ کے اورکچھ نہیں۔ وراثت کے حکم کی طرح وصیت کاحکم بھی بہت سے اختلافات کو پیدا نہیں ہونے دیتا۔ وصیت کے حکم کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے مال میں ہر چیز اس طرح نہیں ہوتی جس طرح کاغذات میں نظر آرہی ہوتی ہے۔ مثلاً بہت سی زمین اور مال ایسا ہوتا ہے جو ہماری ملکیت ہوتا ہے، مگر ہم نے بعض مصالح کی بنا پر اسے کسی اور کے نام کر رکھا ہوتا ہے۔

    بعض اوقات بہت سے وارثوں میں سے کسی ایک وارث کے نام کچھ زمین جائداد کررکھی ہوتی ہے۔ بارہا اس بات کا کسی اور کو علم نہیں ہوتا اور جس کے نام جائداد ہوتی ہے وہ خاموشی سے اسے دبا لیتا ہے حالانکہ اس پر سب وارثوں کا حق ہوتا ہے۔ اگر دوسروں کو اس کا علم ہوتا ہے تو عموماً یہ ایک زبانی بات ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں اختلافات اور جھگڑوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ عدالتوں کے چکر لگتے ہیں اور خاندانی تعلقات ختم ہوجاتے ہیں۔

    ہمارے ہاں وصیت نہ لکھنے کا ایک اور سبب لوگوں کا یہ سمجھنا ہے کہ سب وارثوں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے۔ حالانکہ اپنے مال کے ایک تہائی پر وصیت کا حق ہمیں بہرحال حاصل ہے۔

    ہمارے ہاں عام دینی رائے یہ ہے کہ کسی وارث کو اپنی طرف سے کچھ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بات عام حالات میں بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن ایک بہت اہم دینی رائے یہ بھی ہے کہ کسی وارث کو اس کے حقِ قرابت کی بنا پر تو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے حصے سے زیادہ کچھ نہیں دیا جاسکتا، مگر ضرورت یا خدمت کی بنیاد پر یقیناً دیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی شخص نے اپنے پانچ بچوں میں سے چارکی شادیاں کرکے انہیں سیٹ کرادیا۔ اب اس کا آخری بچہ یا بچی کم سن ہے تو اس کے بارے میں یہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ اگر میں اس کی شادی سے قبل مرجاؤں تو وراثت کی تقسیم سے قبل اس کی شادی کا خرچہ الگ کیا جائے گا، پھر جائیداد تقسیم ہوگی۔

    یہ بات عین عدل پر مبنی ہے۔ شریعت کے کسی اصول کی روشنی میں اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اخلاقی طور پر اس بات میں کوئی خرابی ہے۔ اس لیے کہ باپ نے اگر چار بچوں کی شادی کا اہتمام کیا ہے تو پانچویں کو اس سے محروم رکھنا ایک ظلم ہوگا۔ شریعت کبھی ظلم گوارا نہیں کرسکتی۔ اس لیے یہ ہدایت کی جاسکتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ وصیت کے بغیر ممکن نہیں۔

    ہم میں سے ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی وصیت تحریرکرے۔ جس طرح بہت سے لوگ ہر رمضان میں زکوٰۃ کی ادائیگی کو معمول بناتے ہیں، اسی طرح ہر سال اپنی وصیت پر حالات کے مطابق نظر ثانی کرتے رہنا چاہیے۔ اس سے بہت سے مسائل، ناانصافیوں، حق تلفیوں اوراختلافات کا خاتمہ ہوجائے گا۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ مالی معاملات کو لکھنا کیوں ضروری ہے؟

۔۔۔۔۔۔ ہمارے ہاں مالی معاملات کو لکھنے کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسے برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے اور اس کے کیا اثرات ہمارے معاشرے اور خاندان پر مرتب ہو رہے ہیں؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

لکھ لیا کرو۔۔۔
Scroll to top