دو شرابی نشے میں جھومتے ہوئے ایک مسجد کے قریب سے گذرے۔ مسجد پر اس وقت دھوپ آئی ہوئی تھی۔ ایک شرابی نے دوسرے سے کہا ” یار دیکھو کتنی بری بات ہے مسجد اللہ کا گھر ہونے کے باوجود دھوپ میں تپ رہا ہے”۔ دوسرے نے کہا ” تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ آئو ہم دونوں مل کر مسجد کو دھکا لگائیں تاکہ یہ چھائوں میں آجائے “۔ چنانچہ دونوں نے مسجد کو دھکا لگانا شروع کیا ۔دھکا لگاتے لگاتے شام ہوگئی یہاں تک کہ دھوپ چلی گئی۔ دونوں نے ہاتھ جھاڑے اور فخریہ انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ کو مبارک باد دی ۔
اس وقت ہمار ی قوم کے راہنما اور عوام اس ملک کو مشکل سے نکالنے کے لئے کچھ اسی طرح کی کوششیں کررہے ہیں ۔ ان لوگوں میں صرف سیاست دان ہی شامل نہیں بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ اور فردشامل ہے۔ ان میں سے کوئی فرد یا ادارہ ملک پر منڈلاتے خطرات سے نبٹنے کے لئے واضح منصوبہ بندی نہیں رکھتا۔ بس وہ تو اس امید پر باتیں بنا رہا ہے کہ شاید یہ وقت گذر جائے اور مشکلات خود ہی ختم ہوجائیں۔
اس وقت گذاری کے لئے سب نے صرف ایک گر سیکھ لیا ہے اور وہ ہے الزام تراشی۔ اپنی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹانے کے لئے ہر شخص دوسروں کو اس کے فرائض یاد دلا رہا ہے۔ میڈیا سیاست دانوں کو آڑے ہا تھوں لے رہا ہے لیکن یہی میڈیا اپنی بے حیائی ، سنسنی خیزی اور مبالغہ آرائی پر آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔ اساتذہ تربیت کی ذمہ داری والدین پرڈالتے اور ماں باپ استادوں کو مورد الزام ٹہراتے ہیں۔مذہبی راہنما عوام کو نالائق ثابت کرتے اور لوگ مولویوں کو آڑے ہاتھوں لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
چنانچہ بجلی ،پانی ،گیس کی کمی، مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی، سیاسی زبوں حالی، مایوسی ، مذہبی شدت پسندی وغیرہ جیسے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں۔ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا ذمہ ہم میں سے ہر فرد ہے۔ ایک فرد واحد کی خود غرضی، لالچ، لاعلمی، تربیت کی کمی، نفس پرستی اور ناعاقبت اندیشی ہی سیاست ، معیشت، معاشرت، دفاع،اقدار غرض ہر چیز کو متاثر کرتی ہے۔ لہٰذا آج اسی فرد کی اصلاح کا وقت اور ضرورت ہے۔ پچھلے ۶۳ سالوں سے ہم شاخوں کی اصلاح کی ناکام کوشش کرتے رہے، ایک مرتبہ جڑوں اور تنے کوبھی دیکھ لیں۔خواہ اس میں سے مزید پچاس سال لگ جائیں۔ فرد کی اصلا ح کا طریقہ یہ ہے کہ اسے ایمان اور اخلاق کی آفاقی اور غیر متنازعہ صفات سے متصف کیا جائے۔ ایک طرف تو اس کا ایمان توحید، آخرت اور متفقہ شریعت پر ہو تو دوسری جانب وہ سچائی، دیانت داری، معاونت، انفاق،اخوت، ہمدردی اور خدا خوفی جیسی اچھائیوں سے مزین ہو۔ پھر یہ ممکن نہیں کہ یہ فرد سیاست میں جاکر عوام کا استحصال کرے ، پولیس کا اہل کار ہوکر فرائض سے غفلت برتے، افسر بن کر اختیارات کو ناجائز استعمال کرے، وکیل بن کر چور کی وکالت کرے ۔
فرد کی اصلاح کا لائحہ عمل بہت سادہ ہے۔ پہلے مرحلے میں ہم میں سے ہر شخص پنی اصلاح کو نصب العین بنائے اور مشکل کی صورت میں اہل علم لوگوں سے رجوع کرے۔ دوسرے مرحلے میں اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں بنیادی اخلاقیات کو شامل کیا جائے اور اسکی تربیت دی جائے۔ تیسرے مرحلے میں ایسے ادارے اور تربیت گاہیں بنائی جائیں جہاں ہر عمر کے افراد مخصوص مدت کے لئے ایمان اور اخلاق کی ٹریننگ حاصل کریں۔
اگر ہم فرد کی اصلاح میں ناکام ہوگئے تو ادارے کبھی نہیں پنپیں گے، ریاست کبھی ترقی نہیں کرے گی، معیشت کبھی نہیں سدھرے گی، فرقہ واریت کبھی فنا نہیں ہوگی۔ اگر ہم خود کو ایمان و اخلاق سے مزین نہیں کرسکتے تو آئیں اور ان شرابیوں کی طرح سب مل کر ملک کومشکلات سے نکالنے کے لئےدھکا لگائیں ، شاید آسمان سے فرشتے اتریں اور سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے۔
(مصنف: پروفیسر محمد عقیل)
اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔۔ کیا الزام تراشی سے اصلاح ممکن ہے؟
۔۔۔۔۔۔ اگر نہیں، تو پھر اصلاح کا طریق کار کیا ہے؟
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز