اپنا چراغ جلا لیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگرقیامت آجائے اورکسی کے ہاتھ درخت کی ایک قلم ہو اور اسے مہلت ہو تو وہ ضرور یہ قلم لگادے (مسند احمد 83:3)۔ یہ روایت ہمیں ایک تعمیری سوچ دیتی ہے۔ اس سوچ کا حامل انسان بدترین حالات میں بھی مایوسی اور بے عملی کا شکار نہیں ہوتا۔

دوسروں کے واقعات سے نصیحت حاصل کرو ورنہ کوئی تمہارے واقعات سے نصیحت حاصل کرے گا۔ بطلیموس

یہ بات بالکل واضح ہے کہ قیامت ایک ایسی تباہی کا نام ہے جس میں درخت لگانا بظاہر بے فائدہ کام ہے۔ کیونکہ درخت لگانا ایک ایساعمل ہے جس کی نفع بخشی کے لیے کئی برس چاہییں۔ جبکہ قیامت کا زلزلہ لمحہ بھر میں ہرچیز کو تباہ کردے گا۔ لیکن یہ روایت بتاتی ہے کہ انسان کومثبت ذہن کے ساتھ کام کرناچاہیے، چاہے اسے یقین ہو کہ اس کے کسی کام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنے والا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک بندہ مومن آخرت کے اجر کے لیے کام کرتا ہے اور یہ اجر اصلاً اس کی نیت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ کسی کام کا ارادہ کر لیتا ہے، اس کے لیے ایک اجر ثابت ہو جاتا ہے۔ وہ اس کام کو کر دیتا ہے تو دوسرا اجر ثابت ہو جاتا ہے۔ اس کام سے کوئی نفع ہونا شروع ہوتا ہے تو تیسرے اجر کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہے کہ انسان کے کسی عمل کا نتیجہ اگر نہیں بھی نکلتا تب بھی تین میں سے دو اجر تو بہرحال انسان کو مل جاتے ہیں۔ وہ صرف ایک اجر سے محروم رہتا ہے۔

    عام حالات میں لوگ معاشرے کے بگاڑ سے پریشان ہو کر مایوس ہوجاتے ہیں اور مایوسی کی بنا پر صرف منفی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور پھر وہ ان چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں کو بھی چھوڑ دیتے ہیں جنہیں وہ باآسانی کر سکتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر معاشرے میں بگاڑ بڑھتا رہتا ہے۔ مگر جب لوگ حالات کی خرابی سے بے پرواہ ہو کر اپنے حصے کا اچھا کام کرتے رہتے ہیں تو آہستہ آہستہ برائی کم ہونا اور خیر پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہر آدمی اپنے حصے کا درخت لگاتا ہے اور کچھ عرصے میں ایک چمنستان وجود میں آجاتا ہے۔

دور جدید میں دعوت دین کا طریق کار 
یہ تحریر دعوت دین کی اہمیت، دین کا کام کرنے والوں کی شخصیت، دعوت دین کی منصوبہ بندی اور دعوتی پیغام کی تیاری کے عملی طریق ہائے کار کی وضاحت کرتی ہے۔ ان افراد کے لئے مفید جو کہ دعوت دین میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

اس بات کو ایک اورمثال سے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ جب رات آتی ہے توسورج کی روشنی ختم ہو جاتی ہے۔ ہرطرف اندھیرا پھیل جاتا ہے۔ ایسے میں کسی ایک فرد کا چراغ جلانا سارے اندھیرے کو دور نہیں کرسکتا اور نہ ا س کا چراغ ہی سورج کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ مگر لوگ ان چیزوں سے بے پرواہ ہو کر اپنا اپنا چراغ جلاتے ہیں۔ دنیا بھر سے قطع نظر ان کے اردگرد روشنی پھیلنا شروع ہو جاتی ہے اورجب سارے لوگ اپنے اپنے چراغ جلاتے ہیں تو ہر جگہ روشنی پھیل جاتی ہے۔ اندھیرے دور ہوجاتے ہیں ۔

    تو اب آئیے، ماحول کے اندھیرے سے بے پرواہ ہوکر ہم اپنا چراغ جلالیں۔ہم اپنا درخت لگالیں۔

(مصنف: ریحان احمد یوسفی)

اس تحریر سے متعلق آپ کے تجربات دوسروں کی زندگی سنوار سکتے ہیں۔ اپنے تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ جو لوگ دین و ملت کا درد رکھتے ہیں وہ بالعموم معاشرے کے حالات دیکھ کر بہت افسردہ اور پست ہمت ہو جایا کرتے ہیں۔ یہ تحریر ایسے لوگوں کو کیا پیغام دیتی ہے؟

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

اپنا چراغ جلا لیں
Scroll to top