کیا عہد رسالت میں چند غلاموں کی آزادی کو منسوخ کیا گیا تھا؟

ایسا غلام جس کے بارے میں اس کا آقا یہ وصیت کر دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ غلام آزاد ہو جائے گا، مدبر کہلاتا ہے۔ یہ بھی غلام کو آزاد کرنے کا ایک طریقہ تھا جو دور جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس طریقے کو پسند نہیں فرمایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک آقا ساری عمر تو بے چارے غلام سے خدمت لیتا رہے اور مرتے وقت اسے آزاد کر دے جب وہ غلام بھی جوانی کی عمر گزار چکا ہو اور اس کے لئے آزادی و غلامی بے معنی ہو چکی ہو۔

قال أخبرنا قتيبة بن سعيد ، قال : حدثنا أبو الأحوص ، عن أبي إسحاق ، عن أبي حبيبة ، عن أبي الدرداء أن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال الذي يعتق عند الموت كالذي يهدي بعدما شبع . (سنن نسائی الکبری، کتاب العتق، حديث 4873)

سیدنا ابو دردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی مرتے وقت غلام آزاد کرتا ہے، وہ تو اس شخص کی طرح ہے جو (گناہوں سے) اچھی طرح سیر ہونے کے بعد (نیکی کی طرف) ہدایت پاتا ہے۔

حدیث میں دو ایسے واقعات ملتے ہیں جن کے بارے میں اسلام اور غلامی کے تعلق کے بارے میں اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر ضروری ہے کہ ان کا جائزہ لے لیا جائے۔ پہلی حدیث یہ ہے۔

حدثنا آدم بن أبي إياس: حدثنا شعبة: حدثنا عمرو بن دينار: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال:  أعتق رجل منا عبدا له عن دبر، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم به فباعه. قال جابر: مات الغلام عام أول. (بخاری، کتاب العتق، حديث 2534)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص نے اپنے غلام کو مرتے وقت آزاد کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اسے بلایا اور اس کی خدمات کو فروخت کر دیا۔ جابر کہتے ہیں کہ وہ غلام (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت کے) پہلے سال فوت ہوا۔

اس حدیث میں دراصل کسی راوی نے پوری بات بیان نہیں کی۔ پورا واقعہ اسی حدیث کے ایک اور طرق میں ملتا ہے۔

أخبرنا أبو داود ، قال : حدثنا محاضر ، قال : حدثنا الأعمش عن سلمة بن كهيل عن عطاء عن جابر قال أعتق رجل من الأنصار غلاما له عن دبر وكان محتاجا وكان عليه دين فباعه رسول الله صلى الله عليه وسلم بثمانمائة درهم فأعطاه فقال اقض دينك . (سنن نسائی الکبری، کتاب العتق، حديث 4985)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انصار کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مرتے وقت آزاد کر دیا۔ وہ صاحب خود محتاج تھے اور ان پر قرض تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اس غلام کی خدمات کو آٹھ سو درہم کے بدلے فروخت کر دیا اور وہ رقم ان کے (قرض خواہ) کو ادا کر کے فرمایا، اپنے قرض کو پورا کر لو۔

دوسری حدیث یہ ہے۔

حدثنا علي بن حجر السعدي وأبو بكر بن أبي شيبة وزهير بن حرب. قالوا: حدثنا إسماعيل (وهو ابن علية) عن أيوب، عن أبي قلابة، عن أبي الملهب، عن عمران بن حصين؛  أن رجلا أعتق ستة مملوكين له عند موته. لم يكن له مال غيرهم. فدعا بهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم. فجزأهم أثلاثا. ثم أقرع بينهم. فأعتق اثنين وأرق أربعة. وقال له قولا شديدا. (مسلم الکبری، کتاب الايمان، حديث 4335)

سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے مرتے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کر دیا۔ ان صاحب کے پاس اور کوئی مال نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے انہیں بلا کر تین ٹکڑیوں میں تقسیم کیا۔ اس کے بعد ان میں قرعہ اندازی فرمائی۔ (قرعہ اندازی میں جیتنے والے) دو غلاموں کو تو آپ نے آزاد فرما دیا اور باقی چار کو بدستور غلامی میں برقرار رکھا اور وصیت کرنے والے کے لئے سخت بات ارشاد فرمائی (کہ انہیں وصیت کرتے ہوئے اپنے بال بچوں کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔)

ان دونوں احادیث میں بات بالکل واضح تھی۔ پہلی حدیث میں ایک صاحب قرض چھوڑ کر فوت ہو گئے۔ ان کے پاس ایک غلام کے سوا اور کچھ نہ تھا جسے انہوں نے آزاد کر دیا۔ اسلام کے قانون وصیت کی رو سے وصیت اسی وقت کی جا سکتی ہے جب میت پر قرض نہ ہو اور یہ وصیت بھی ترکے کے ایک تہائی حصے میں کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اس غلام کی آزادی کی وصیت کو منسوخ قرار دیا۔

          دوسرے واقعے میں بھی بالکل یہی صورتحال تھی۔ جو صاحب وصیت کر کے فوت ہوئے، ان کے بال بچے تھے جن کے پاس کوئی مال و دولت نہ تھا۔ ان کی کفالت کا واحد ذریعہ یہی غلام تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ایک تہائی حصے پر وصیت برقرار رکھتے ہوئے دو غلاموں کو بذریعہ قرعہ اندازی آزادی دے دی۔

          اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قانون میں ان غلاموں کا کیا قصور تھا کہ انہیں آزادی نہیں دی گئی؟ جہاں تک پہلے غلام کا معاملہ ہے تو ان صاحب کی بقیہ زندگی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہیں آزاد ہونے کی کوئی خواہش ہی نہ تھی اور ان کے لئے آزادانہ طور پر کما کر زندگی بسر کرنا ایک مشکل کام تھا۔ یہ صاحب اگر چاہتے تو اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مکاتبت کی درخواست کر سکتے تھے۔ آٹھ سو درہم کوئی اتنی بڑی رقم نہ تھی جس کا انتظام کرنا حکومت یا مخیر صحابہ کے لئے مشکل ہوتا۔ یہ صاحب اس کے بعد کم و بیش 50-60 سال تک زندہ رہے لیکن انہوں نے آزادی کی خواہش کا اظہار نہ کیا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے دور حکومت کے پہلے سال 62 ہجری میں جا کر فوت ہوئے۔

          دوسری روایت کے چار غلاموں کے بارے میں تفصیلات نہیں مل سکیں۔ ان حضرات کے لئے بھی مکاتبت کے ذریعے آزادی کا دروازہ کھلا تھا۔ چونکہ آقا کے فوت ہونے کے وقت ان کی آزادی سے آقا کی بیوہ اور بچوں کی کفالت کا مسئلہ تھا، اس وجہ سے انہیں اسی وقت آزادی نہیں دی گئی۔ ممکن ہے کہ بعد میں انہوں نے مکاتبت کر لی ہو یا انہیں بطور احسان کے آزاد کر دیا گیا ہو۔ اس کی کوئی تفصیل ہمیں نہیں مل سکی۔

          اس حدیث کی عملی تشریح میں بھی علماء کا اختلاف ہے۔ بعض علماء کا یہ نقطہ نظر ہے کہ ایسی صورت میں غلاموں میں قرعہ اندازی کی جائے گی اور جو ایک تہائی غلاموں کو آزاد کر دیا جائے گا۔ دیگر علماء جن میں امام شعبی اور امام ابراہیم النخعی شامل ہیں کی رائے یہ ہے کہ ان تمام غلاموں کو ایک تہائی حصہ آزاد ہو جائے گا۔ اب وہ لوگ بقیہ دو تہائی رقم کما کر یا کسی سے مدد قبول کر کے مالکان کو ادا کریں گے اور اس کے بعد آزاد ہو جائیں گے۔

          یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ دونوں واقعات محض استثنائی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بلامبالغہ سینکڑوں احادیث ہیں جو غلاموں کو آزادی دینے سے متعلق ہیں۔ ان سینکڑوں احادیث کو نظر انداز کر کے صرف ان دو واقعات کا پروپیگنڈہ کرنا کسی دیانت دار شخص کا کام نہیں ہے۔ ایسا صرف متعصب افراد ہی کیا کرتے ہیں۔

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا عہد رسالت میں چند غلاموں کی آزادی کو منسوخ کیا گیا تھا؟
Scroll to top