دین دار افراد کے لئے معاش اور روزگار کے مسائل

دین دار افراد خواہ وہ مدارس کے تعلیم یافتہ ہوں یا اعلی تعلیم یافتہ، اپنی دین داری کے باعث عملی زندگی میں چند مخصوص مسائل کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ اس تحریر میں ان مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے حل کے لئے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔

L0010-Career-Download

معاشی مسئلہ انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اگر کوئی شخص معاشی اعتبار سے مسائل کا شکار ہو تو وہ کوئی بھی کام ذہنی یکسوئی سے انجام نہیں دے سکتا۔ مالی اعتبار سے مستحکم ہونا، اچھا روزگار حاصل کرنا اور اپنے کاروبار یا ملازمت میں ترقی حاصل کرنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے کا نظام حیات ان اصولوں پر مرتب کیا گیا ہے جو بہت سے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی شریعت اور دین سے متصادم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہوں، ان کے لئے معاشی زندگی میں کچھ مخصوص نوعیت کے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد ان مسائل کا جائزہ لینا اور ان کے حل کے لئے مناسب تجاویز پیش کرنا ہے۔

          اپنے کیریئر کے اعتبار سے دین دار افراد کو ہم دو طبقات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو مکمل طور پر دین کی تعلیم و تبلیغ کے لئے وقف کردیا ہوا ہے۔ یہ افراد عموماً فل ٹائم دینی خدمات انجام دیتے ہیں۔

          دوسرے وہ لوگ ہیں جو عام سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں اور اپنے خاندان، اساتذہ، دوستوں، کسی دینی حلقے یا جماعت کے زیر اثر دین کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اس پر عمل کرنے اور اس کی خدمت کرنے کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہیں۔ یہ افراد عموماً دین کی خدمت کو ایک پارٹ ٹائم مشغلے کے طور پر اختیار کرتے ہیں اور اپنی معاش کے لئے کسی کاروبار یا ملازمت پر انحصار کرتے ہیں۔

دینی مدارس کا تعلیم یافتہ طبقہ

مدارس کی بالعموم دو اقسام ہیں: ایک تجوید و قرآء ت اور حفظ کے مدارس اور دوسرے درس نظامی اور اعلیٰ دینی تعلیم کے مدارس۔ پہلی قسم کے مدارس کے فارغ التحصیل قرا ء اور حفاظ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد عموماً کسی مسجد میں امام یا موذن کی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی حفظ یا تجوید کے مدرسے میں بطور معلم خدمات انجام دیتے ہیں۔ آج کل یہ حضرات اپنی آمدنی میں کچھ اضافہ کرنے کے لئے ہوم ٹیوشنز پر بھی انحصار کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے بے شمار مدارس کا ایک جال پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ ان کامکمل کیریئر بس یہی ہوتا ہے اور وہ اسی سے حاصل ہونے والی قلیل آمدنی سے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔

          دینی تعلیم کے کورس کو درس نظامی کہا جاتا ہے۔ یہ اورنگ زیب عالمگیر کے دور کے ایک ماہر تعلیم ملا نظام الدین کا ترتیب دیا ہوا نصاب ہے جو تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس میں بالعموم رائج ہے۔ اس دور میں یہ نصاب حکومت کی سول سروس کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ وقت کی ضرورت کے پیش نظر اس میں چند معمولی تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کے نصاب کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کئے ہیں جس کے تحت بعض جدید علوم کو بھی دینی مدارس کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔

          ان مدارس کے فارغ التحصیل علماء عموماً مساجد میں امام یا خطیب کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں۔ ان میں سے جو افراد اچھی تقریر کرنا جانتے ہیں وہ جمعے کی نماز کی خطابت کے علاوہ جلسوں وغیرہ میں تقاریر کرکے بھی کچھ رقم کما لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے جو علمی اعتبار سے مستحکم ہوتے ہیں، وہ کسی مدرسے میں بطور معلم ملازمت حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمارے عام سکولوں کے نصاب میں بھی عربی پڑھائی جاتی ہے، اس وجہ سے بعض علماء جدید تعلیمی اداروں میں بھی بطور عربی اور اسلامیات کے معلم کے خدمات انجام دیتے ہیں۔ بعض ایسے حضرات جنہیں مالی امداد کرنے والے دوست اور ساتھی مل جائیں ، عموماً اپنا دینی مدرسہ کھول لیتے ہیں۔ یہ حضرات معاشی اعتبار سے سب سے بہتر حالت میں ہوتے ہیں۔

          اگر دینی تعلیم و تعلم کو کوئی بطور کیریئر اختیار کرنا چاہے تو اس میں اس کے لئے دنیاوی اعتبار سے کوئی خاص کشش موجود نہیں ہے۔ 2003 میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق حفظ و قراۃ کے مدارس کے ایک عام معلم کی تنخواہ 2500 سے لے کر 6000 روپے تک ہوتی ہے۔ مدارس کے ائمہ کی تنخواہیں بھی اسی رینج میں ہوتی ہیں جبکہ مساجد کے موذن اور خادم حضرات کو 1500 سے 3000 روپے تک ادا کئے جاتے ہیں۔ درس نظامی کے فارغ التحصیل علماء بطور خطیب تقریباً 4000 سے 8000 روپے تک تنخواہ پاتے ہیں اور مدارس میں بطور معلم بھی زیادہ سے زیادہ اتنی ہی رقم حاصل کر پاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار بھی بڑے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں عام لوگ مساجد اور مدارس کو اچھی خاصی رقم بطور چندہ ادا کرتے ہیں۔

چھوٹے شہروں اور دیہات میں یہ رقوم اور بھی کم ہو جاتی ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک امام مسجد اپنی تمام تر کاوشوں کے بعد بڑی مشکل سے زیادہ سے زیادہ پانچ چھ ہزار روپے اور خطیب زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار روپے کما پاتا ہے۔ جو حضرات اپنے مدرسے قائم کر لیتے ہیں، وہ نسبتاً بہتر حالت میں ہوتے ہیں۔ افراط زر کے ساتھ ساتھ ان ائمہ و خطباء کی تنخواہوں میں بھی کوئی خاص اضافہ نہیں ہوتا۔گویا جس تنخواہ پر ایک امام یا خطیب اپنے کیریئر کا آغاز کرتا ہے، تقریباً اتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ پر اس کے کیریئر کا اختتام ہوتا ہے۔

          یہ بھی غنیمت ہے کہ عموماً مساجد کے ساتھ امام و موذن کی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے اور ان کے یوٹیلیٹی بلز وغیرہ ادا کردیے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اس رقم سے یہ حضرات جس درجے کا معیار زندگی حاصل کر سکتے ہیں، اس کا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے۔یہی وجوہات ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ فل ٹائم خدمت کے طور پر اسے اختیار نہیں کرتا۔ اس طبقے میں جو لوگ دین کا درد رکھتے ہیں، وہ اپنی معاش کے لئے کوئی اور انتظام کرتے ہیں اور دینی خدمات کو پارٹ ٹائم مشغلے کے طور پر انجام دیتے ہیں۔

مساجد کی اکثریت کا نظام انتظامیہ کمیٹیوں کے تحت چلتا ہے۔ بہت سے مساجد کی کمیٹیاں بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہیں جو شاذ ونادر ہی مسجد میں آ کر نماز پڑھتے ہیں۔ بہت مرتبہ ان لوگوں کا رویہ امام مسجد سے حقارت آمیز ہوتا ہے اور یہ انہیں ذاتی ملازم سے زیادہ حیثیت نہیں دیتے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امام و خطیب کے انتخاب اور احتساب کا فریضہ وہ لوگ انجام دیتے ہیں جو علوم دینیہ کی ابجدبھی واقف نہیں ہوتے۔

 یہی وجہ ہے کہ امام و خطیب کو مسجد میں انتظامیہ اور نمازیوں کی منشا اور مرضی کے مطابق ہی بات کرنا پڑتی ہے اور اسے مکمل طور پر آزادی رائے حاصل نہیں ہوتی۔ کھل کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینا بھی اکثر اوقات ان کے لئے خاصا مشکل ہوجاتا ہے جو ان کی اصل ذمہ داری ہے۔ ان سب کے علاوہ مساجد کی تزئین اور آرائش پر تو لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اور لوگ بھی اس میں دل کھول کر چندہ دیتے ہیں لیکن اس زندہ وجود کی کسی کو خبر نہیں ہوتی جو اس مسجد کا سب سے اہم حصہ ہے۔ مساجد کی تزئین و آرائش میں اسراف کی حد تک خرچ کرنے میں کسی کو کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا لیکن اس انسان کا کوئی خیال نہیں کرتا جسے اپنے علاوہ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہے۔ اگر مساجد کی کمیٹیوں کے عہدے دار اپنے اپنے ائمہ مساجد کے گھروں میں جاکر ان کے معیار زندگی کا اندازہ لگائیں تو وہ خود کبھی بھی ایسی زندگی گزارنا پسند نہ کریں۔

          ملک بھر میں چھوٹے بڑے مدارس کا اتنا بڑا جال پھیلا ہوا ہے کہ اس سے ہر سال فارغ التحصیل ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں شمار کی جاسکتی ہے۔ ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نہ تو مساجد کی تعمیر ہو رہی ہے اور نہ ہی نئے مدارس وجود میں آ رہے ہیں۔ مدارس کے ذہین طلباء عموماً دین پر ریسرچ کا ذوق رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسے ادارے بہت کم  ہیں جہاں دین پر ریسرچ کی جارہی ہو۔ ان حالات کے پیش نظر اس طبقے میں بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل سوچنا نہ صرف ارباب حکومت کا کام ہے بلکہ مدارس کے منتظمین اور علماء کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر خوب غور و خوض کرکے اس کا کوئی حل نکال سکیں۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام مسائل دوہرے نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ مسلم ممالک پر اہل مغرب کے قبضے سے پہلے یہ صورتحال تھی کہ ایک ہی نظام تعلیم تھا جس میں تمام طالب علم تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس میں دینی و دنیاوی کی کوئی تفریق نہ تھی۔ مدارس کے تعلیم یافتہ علماء ہی اپنی اہلیت کے مطابق بیوروکریسی، تعلیم، تجارت اور دوسرے شعبوں میں خدمات انجام دیا کرتے۔

اہل مغرب کے سیکولر ازم نے دوہرے نظام تعلیم کو جنم دیا جس کے مطابق دینی مدارس کے تعلیم یافتہ دنیاوی ذمہ داریوں کے لئے نااہل تھے اور دنیاوی علوم کے ماہرین کا دین سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہ ہوتا تھا۔ پاکستان کی کئی حکومتوں نے اس خلیج کو پاٹنے کے لئے کئی اقدامات کئے ہیں جن میں مدارس کی سند کو ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں مدارس کے تعلیم یافتہ بھی سرکاری نوکریوں کے لئے اہل قرار پا گئے ہیں۔ اسی طرح مدارس کے نصاب میں جدید علوم اور کمپیوٹر کی تعلیم کو شامل کرلیا گیا ہے۔ ان تمام اقدامات کے باوجود ان معاشی مسائل پر قابو نہیں پایا جاسکا۔

          ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل تجاویز کے ذریعے دینی مدارس کے تعلیم یافتہ طبقے کے معاشی مسائل پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اور انہیں بھی زندگی کی خوشیوں میں شریک کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔ دینی مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ایسا ہنر بھی سکھایا جائے جس میں وہ اپنی روزی کماسکیں۔ یہ تجویز بہت پہلے دی جاچکی ہے لیکن اسے بہت سے علماء نے رد کردیا۔ ایک عالم دین کے مطابق ، اگر ایک امام مسجد یا خطیب معاشرے کے لئے اپنی فل ٹائم خدمات انجام دیتا ہے تو معاشرے کو بھی اس کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان کا یہ نقطہ نظر اپنی جگہ بالکل درست ہے لیکن اگر معاشرہ اپنی اس ذمہ داری کو بطریق احسن انجام نہیں دے رہا تو پھر مدارس کے طلباء ہی کو اپنے لئے کچھ کرنا پڑے گا۔ اگر مدارس میں اس طرز کی کسی تعلیم وتربیت کا کوئی اہتمام نہیں کیا جاتا تو طلباء کو چاہئے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی اپنے طور پر کوئی ہنر سیکھ کر اپنے کیریئر بنانے کے لئے کچھ اقدام کریں۔ ہمارے ہاں عام لوگوں کی طرح دینی طلباء میں بھی محنت اور ہاتھ سے کام کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے اور اس سے اغماض برتا جاتا ہے۔جو شخص بھی دین کا تھوڑا بہت علم رکھتا ہے وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ اکثرجلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محنت مزدوری کیا کرتے تھے ۔ کوئی کپڑے سیتا، کوئی گوشت بیچتا، کوئی جوتے مرمت کرتا، کوئی لوہے کا کام کرتا، کوئی قبریں تیار کرتا، کوئی گھوڑوں کی پرورش کرتا اور کوئی کھیتوں اور باغات میں کام کرتا۔ سیدنا ابوبکر اور عثمان رضی اللہ عنہما تجارت کرتے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ باغات میں مزدوری کرکے اپنی روزی کماتے۔ ان حضرات میں ایسا کوئی کمپلیکس نہیں تھا کہ ان میں سے کوئی پیشہ گھٹیا ہے۔ اہل عرب میں اب تک تما م پیشوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ تصورات ہم میں برصغیر کے مخصوص جاگیر دارانہ ماحول کے زیر اثر آئے ہیں جہاں محنت کشوں کو تیسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔ امام، خطیب اور موذن کو مساجد کی انتظامیہ میں اہم مقام دیا جائے اور ان کی رائے کو زیادہ اہمیت   دی جائے۔ مساجد کو حاصل ہونے والے چندے کی رقم کے زیادہ تر حصے کو غیر ضروری تعمیرات پر خرچ کرنے کی بجائے مستحق انسانوں پر خرچ کیا جائے۔ ان مستحقین میں مسجد کے اردگرد رہنے والے مساکین، بیواؤں اور یتیموں کو بھی شامل کرلیا جائے۔ انشاء اللہ اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ ملے گا اور مسجد کے اہم ترین ادارے کو بھی ایک فلاحی مرکز کے طور پر معاشرے میں لایا جاسکے گا۔

۔۔۔۔۔ اعلیٰ تعلیم دینے والے مدارس کے نصاب میں دور جدید کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیاں کی جائیں تاکہ ان کے فارغ التحصیل طلباء معاشرے سے کٹنے کی بجائے اس کی تعمیر میں فعال کردار ادا کرنے والے بنیں۔

۔۔۔۔۔ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا بھرپور اہتمام کیا جائے اور طلباء میں پوری طرح اخلاقی شعور بیدار کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ دوسروں کو دین کی دعوت دیں لیکن ان کی اپنی اخلاقی حالت عام لوگوں سے بھی زیادہ خراب ہو۔ اس معاملے میں حفظ و قراۃ کے مدارس خاص توجہ کے مستحق ہیں کیونکہ آج کل ان کے طلباء بہت زیادہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ معلمین کی جانب سے توجہ کی کمی ہے۔

عام دینی طبقہ

دینی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی بڑی تعداد بھی دین کو اپنی زندگی میں بہت اہمیت دیتی ہے۔ بہت سے معاشرتی اور اخلاقی مسائل کے باوجود دین ہماری زندگیوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ایسے لوگ بھی جن کے شب و روز گناہوں میں گزرتے ہیں، کبھی نہ کبھی دین کی طرف مائل ضرور ہوتے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں دین کی طرف مائل ہونے کا رجحان بہت تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ یہ حضرات عموماً کسی دینی حلقے یا دینی جماعت کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دین کی طرف آتے ہیں اور پھر ان کی زندگیوں کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔

          یہ لوگ عموماً اپنی معاش کے لئے کوئی اور پیشہ اختیار کرتے ہیں اور دین کی خدمت کو جزوقتی مشغلے کے طور پر اپناتے ہیں۔ چونکہ ہمارے معاشرے کی اکثریت دین سے جذباتی سی وابستگی رکھتی ہے اور اس کو پورے کا پورا اختیار کرنے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی، اس وجہ سے اپنے کیریئر میں ان لوگوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 بہت سے دین دار افراد ذاتی کاروبار کو اپنے کیریئر کے طور پر اختیار کرتے ہیں۔ جب یہ کسی سے کاروباری ڈیل کرتے ہیں تو لوگوں کی توقعات خواہ مخواہ بڑھ جاتی ہیں۔ عام لوگوں کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ انہیں خود تو دین اور اخلاق چھو کر بھی نہ گزرے ہوں لیکن وہ دینی طبقے سے یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی ہر ڈیل میں کھرے ہوں گے اور پوری دیانت داری سے اپنی ذمہ داری پوری کریں گے۔

ان دین دار حضرات میں سے بہت سے لوگ تو اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق پوری دیانت داری سے کاروبار کرتے ہیں لیکن بعض افراد ایسے ہوتے ہیں جن کی پوری طرح سے دینی تربیت نہیں ہوتی۔ کسی دینی حلقے سے وابستگی کی وجہ سے یہ دین کے ظاہری اعمال کو تو اپنا لیتے ہیں لیکن دین کے اخلاقی پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کی دلچسپیوں کا تمام مرکز نماز، روزہ ، مخصوص وضع قطع اور ذکر و اذکار رہ جاتے ہیں لیکن خوش اخلاقی سے پیش آنا، کاروبار میں دیانت داری سے کام لینا، پورا تولنا، اور بروقت ادائیگی کرنا ان کے ہاں مفقود ہوتا ہے۔

سیدنا عیسیٰ علیہ الصلوۃ السلام کے ایک فرمان کے مطابق ان کے ہاں مچھر تو چھانے جاتے ہیں لیکن اونٹ نگلے جاتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہی یہ ہوتی ہے کہ یہ جس دینی حلقے کے زیر اثر دین کو اختیار کرتے ہیں ، اس میں چند مخصوص اعمال پر تو بہت زور دیا جاتا ہے لیکن اخلاقی پہلو کو بالکل ہی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ ان سب عوامل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص جب ان کے ساتھ کاروبارکرلے تو پھر وہ آئندہ دین دار طبقے کے ساتھ ڈیل کرنے سے محتاط ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس طرز کے جملے عام طور پر سننے میں ملتے ہیں کہ داڑھی والوں پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہئے۔ چند لوگوں کی یہ اخلاقی گراوٹ پورے دینی طبقے کی بدنامی کا باعث بنتی ہے۔

 اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ تمام دینی جماعتیں اور دینی حلقے اپنے تربیتی نظام میں اخلاق کو بنیادی حیثیت دیں اور خود سے متاثر ہونے والوں کے اخلاق کو بہتر بنانے کے لئے مناسب اقدامات کریں۔اسی طرح جب کبھی بھی کوئی شخص دین کی طرف مائل ہو تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اب اس کی کسی ایسی حرکت کی وجہ سے صرف اس کا نہیں بلکہ پورے دینی طبقے کا نقصان ہوگا۔اسے عام لوگوں کی نسبت اپنے رویے میں سو گنا محتاط رہنا ہوگا۔

 عام دینی طبقے کا غالب حصہ ملازمت پیشہ افراد پر مشتمل ہے۔ انہیں ایک طرف تو ان عام مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی ملازمت پیشہ فرد کو پیش آسکتے ہیں جیسے بے روزگاری، بداخلاق باس سے واسطہ وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہیں کچھ ایسے مخصوص مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جو عام لوگوں کو پیش نہیں آتے۔ جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی عام روش یہ ہے کہ دین پر اتنا ہی عمل کیا جائے جتنا ضرورت ہو۔ ہمارے ہاں اپنی خواہش کو دین کے تابع نہیں بلکہ دین کو خواہش کے تابع کیا جاتا ہے۔ کاروباری دنیا میں یہ چیز اور کھل کر سامنے آتی ہے۔ اکثر افراد اپنے کاروبار میں ایسے کام کرتے ہیں جن سے دین میں منع کیا گیا ہے۔بہت سے لوگ نہ صرف ایسے کام خود کرتے ہیں بلکہ اپنے ملازمین کو بھی اس پر مجبور کرتے ہیں۔

 ہمارے ملک میں اچھے پیشوں میں میڈیکل، انجینئرنگ، مارکیٹنگ، فنانس اور کمپیوٹر سائنس وغیرہ شامل ہیں۔ عام پڑھے لکھے طبقے کی طرح دین دار افراد میں سے بھی پڑھے لکھے طبقے انہی میں سے کسی فیلڈ کا انتخاب کرتے ہیں۔ میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ تر ہسپتالوں میں ملازمت کرتے ہیں یا پھر اپنے کلینک قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انجینئرز عام طور پر صنعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ باقی تمام شعبے تقریباً تمام کاروباری اداروں میں موجود ہوتے ہیں۔ صنعت کے علاوہ خدمات (Services) کا شعبہ بھی ہمارے ہاں بڑی ترقی کر رہا ہے اور خدمات فراہم کرنے والے ادارے بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ یہی تمام کاروباری تنظیمیں ہی جدید تعلیم یافتہ طبقے کو روزگار فراہم کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں۔

  کاروباری اداروں کو بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں: ایک تو پاکستان کے مقامی لوگوں کی قائم کردہ کمپنیاں اور دوسرے ملٹی نیشنل کمپنیاں ان دونوں قسم کے اداروں کا ماحول اور کارپوریٹ کلچر ایک دوسرے سے بہت حد تک مختلف ہوتا ہے۔ ان دونوں طرز کی کمپنیوں میں کچھ ایسی برائیاں پائی جاتی ہیں جس کے نتیجے میں دین دار افراد کو کئی مسائل پیش آتے ہیں۔ دین دار طبقے کو ان کاروباری تنظیموں میں داخل ہوتے وقت جو پہلا مسئلہ درپیش ہوتا ہے وہ لباس اور وضع قطع کا ہے۔

پاکستان کی مقامی کمپنیوں میں اخلاقی اعتبار سے بہت سے مسائل پائے جاتے ہیں۔ اکثر کمپنیوں کے مالکان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے ملازمین کو کم سے کم تنخواہ اور دیگر مراعات دی جائیں اور ان پر زیادہ سے زیادہ ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جائے۔ دفتری اوقات کے بعد دیر تک بیٹھنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ ملازمین کو آٹھ گھنٹے کی تنخواہ دے کر ان سے چودہ اور سولہ گھنٹے تک کام لینا معمول کی بات ہے۔ بہت سی کمپنیوں میں ٹیکس بچانے کے لئے یا دوسرے شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دینے کے لئے اکاؤنٹس میں ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔سودی قرضے بھی لئے جاتے ہیں اور سودی اکاؤنٹس میں رقم رکھی جاتی ہے۔ ملازمین کو بروقت تنخواہیں تک ادا نہیں کی جاتیں اور سود بچانے کے لئے ادائیگیوں میں زیادہ سے زیادہ تاخیر کی جاتی ہے۔ بہت مرتبہ گاہکوں کو دھوکہ دیا جاتا ہے اور انہیں طے شدہ کوالٹی کے مطابق اشیاء فراہم نہیں کی جاتیں۔ دین دار افراد کے لئے ہیرا پھیری کرنا اور سودی معاملات میں ملوث ہوناایک بہت مشکل کام ہے۔ انہیں نوکری کے اوقات سے فارغ ہوکر اپنے گھر والوں اور دینی حلقے کو بھی وقت دینا ہوتا ہے۔ لیٹ سٹنگز کی وجہ سے وہ ایسا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دین دار افراد اس ماحول میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتے ۔

 لوکل کمپنیوں کے برعکس ملٹی نیشنل کمپنیاں بالعموم اخلاقی اعتبار سے بہت بہتر ہوتی ہیں۔ یہاں تنخواہیں اور دیگر مراعات نسبتاً بہتر ہوتی ہیں، لیٹ سٹنگز کم ہوتی ہیں، ان کے اکاؤنٹس عموماً کمپنی کے معاملات کی ایک حقیقی اور دیانت دارانہ تصویر (True & Fair View) پیش کرتے ہیں۔ پورا پورا ٹیکس ادا کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی ہیرا پھیری نہیں کی جاتی۔ تنخواہیں بروقت ادا کی جاتی ہیں۔ اشیاء کی کوالٹی پر خاص زور دیا جاتا ہے۔ ان اداروں میں دین دار افراد کو وہ مسائل تو بہرحال کم ہی پیش آتے ہیں جو لوکل کمپنیوں میں ہیں لیکن یہاں انہیں کچھ اور نوعیت کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے۔

ہمارے ملک کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں زیادہ تر امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں کی مقامی شاخیں ہیں۔اگرچہ اپنی مقامی پالیسیوں میں کسی حد تک یہ خود مختار ہوتی ہیں لیکن ان کی افرادی قوت سے متعلق پالیسیاں عموماً ان کے غیر ملکی ہیڈکوارٹرز متعین کرتے ہیں۔ 2000  کے عشرے میں عالمی سیاست میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں اہل مغرب اور مسلمانوں بالخصوص دین دار مسلمانوں کے مابین ذہنی خلیج میں اضافہ ہوا ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 کی دہشت گردی، افغانستان اور عراق پر امریکی جارحیت ، امریکہ کے خلاف مظاہرے، دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں بم دھماکے ، ان میں بعض دینی وضع قطع رکھنے والے مسلمانوں کو ملوث کیا جانا، مغربی میڈیا کا پروپیگنڈہ اور پاکستان جیسے ممالک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کو دھمکیاں، ان سب عوامل نے امریکہ اور یورپ کاروباری طبقے کے ذہنوں میں دین پر عمل کرنے والے مسلمانوں کا امیج دہشت گرد کا بنا دیا ہے۔ یہ لوگ اب دین پر عمل کرنے والے مسلمانوں سے بری طرح خائف ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف تعصب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کمپنیوں میں دین دار افراد کا داخلہ خاصی حد تک محدود ہو چکا ہے۔

 جو افراد کسی نہ کسی طرح ان کمپنیوں میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، انہیں بھی کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مغرب کی تقلید میں ان کمپنیوں کا ماحول بڑی حد تک مادر پدر آزاد ہوتا ہے۔ میٹنگز میں نمازوں کی پرواہ نہ کرنا، مرد و زن کا بے قید اختلاط اور شراب و رقص کی مخلوط محفلیں ان کمپنیوں کے ماحول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس قسم کی تقریبات میں ہر شخص کو اس کی مرضی کے خلاف شریک ہونے پر مجبور نہیں کیا جاتا اور مذہبی تعصب سے پاک ہونے کے بلند و بانگ دعووں کے ساتھ کسی حد تک مذہبی آزادی بھی دی جاتی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ماحول میں شریک نہ ہونے والوں پر ایک مخصوص لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

اس ذہنیت کا مظاہرہ ان کی کارکردگی کے جائزے کے وقت سامنے آتا ہے جب غیر محسوس طریقے سے کچھ اور باتوں کو بہانہ بنا کر ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز دین دار افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ ایسی مثالیں بھی دیکھنے میں آئی ہیں کہ ان کمپنیوں کے اعلیٰ عہدے داران میں سے اگر کوئی دین کی طرف مائل ہوا بھی ہے تو اس کے خلاف ایک محاذ بنا لیا گیا اور ایسے حالات پیدا کئے گئے ہیں کہ وہ خود ہی نوکری چھوڑ کر چلا جائے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر مسلم مغربی ممالک میں دین دار مسلمانوں کو پیش آنے والے ان مسائل کی تعداد اور شدت نسبتاً بہت کم ہے۔ اگرچہ حالیہ واقعات میں مسلمانوں کے خلاف تعصب میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی مسلم ممالک سے زیادہ میسر ہے۔ مسلم ممالک میں انہی غیر مسلم کمپنیوں کے مسلمان کہلانے والے نمائندے اپنے بھائیوں کو دین سے برگشتہ کرنے میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ثابت ہوتے ہیں۔ اس مسئلے کے ساتھ ساتھ بسا اوقات مسلکی تعصب بھی رنگ لاتا ہے۔ اگر کسی شخص کا باس اس کے مخالف فرقے سے تعلق رکھتا ہو تو وہ اسے ہر طریقے سے تنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا دین پر عمل کرنے والے تقریباً ہر شخص کو کرنا پڑتا ہے۔ ان کا ایک حل تو وہ ہے جو ہمارے معاشرے کے عام افراد اختیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ جس ماحول میں بھی جائیں، خود کو اس کے مطابق ڈھال لیتے ہیں اور ہر چیز پر کمپرومائز کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ مقامی کمپنیوں کا جابرانہ اور غیر دیانتدارانہ ماحول ہو یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مادر پدر آزاد ماحول، یہ اپنے دین کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے ویسا ہی کرنا شروع کردیتے ہیں جیسا کہ ماحول میں ہورہا ہوتا ہے اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے تراشتے ہیں۔ 

ایسا کام وہی کرسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے کا کوئی خوف نہ ہو، وہ اپنے کیریئر کو صرف انہی تیس پینتیس سالوں پر محیط سمجھتا ہواور یہ سمجھتا ہو کہ اس دنیا کی چند سالہ زندگی ہی سب کچھ ہے اور اس کے بعد اس کا کیریئر ختم ہو جائے گا۔ ایسے لوگ جو دین پر عمل کرنے ہی کو اپنی ترجیح سمجھتے ہوں ، ان کے لئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔ امید کی جاسکتی ہے کہ ان تجاویز کی مدد سے اگر یہ مسائل مکمل طور پر حل نہ بھی ہو سکیں تب بھی ان کی شدت کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔

۔۔۔۔۔ سب سے پہلے اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیجئے کہ ہم سب کا رازق اللہ تعالیٰ ہے۔ وہ جب پتھر کے اندر موجود کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے تو کیا اس انسان کو رزق عطا نہیں کرے گا جو اس کی فرمانبرداری کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ درحقیقت ایسا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں آزمانے کے لئے بعض اوقات ہمارے سامنے کچھ مسائل رکھتا ہے۔ جو لوگ ان مسائل کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کریں، انہیں وہ کچھ عرصے بعد اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ جو افراد اس کی نافرمانی کریں اور پھر توبہ کرکے واپس بھی نہ آئیں ، انہیں وہ بہت مرتبہ دنیاوی عیش و آرام دے کر ان کی نیکیوں کا صلہ اس دنیا ہی میں دے دیتا ہے۔ ہمارے پیش نظر یہ حقیقت بھی رہنی چاہئے کہ ہمارا کیریئر صرف چند سال پر مشتمل نہیں ہے۔ اس زندگی کے بعد ایک ختم نہ ہونے والی زندگی اور شروع ہوگی جس کے کیریئر کی ہر شخص کو فکر ہونی چاہئے۔ ہم لوگ اپنی قلیل المیعاد ضروریات کو قربان کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ طویل عرصے میں اپنی زندگی کو بہتر بنایاجاسکے۔ ہمارا یہ عمل دراصل مستقبل میں سرمایہ کاری کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کبھی ہمارے کیریئر کے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد مقاصد میں کوئی تصادم ہو تو ہم ہمیشہ طویل المیعاد مقاصد ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ بالکل اسی طریقے سے ہمیں لامحدود سالوں پر مشتمل کیریئر کے لئے کبھی چھوٹی موٹی قربانی بھی دے دینی چاہئے اور چند سالوں کے اس کیریئر کے لئے ختم نہ ہونے والے کیریئر کو قربان نہیں کرنا چاہئے۔ دین کے کسی حکم پر عمل نہ کرنے کی رخصت ہمیں اس صورت میں حاصل ہے جب ہمارے سامنے کوئی بہت بڑی مجبوری ہو۔ اس مجبوری کو بھی معقول ہونا چاہئے اور دنیاپسند طبقے کی طرح مضحکہ خیز مجبوریوں سے اجتناب کرنا چاہئے۔

۔۔۔۔۔ اعلیٰ کاروباری حلقوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں میں دینی طبقے کے بارے میں پائے جانے والے تعصب کو بڑی حد تک اپنی اچھی کارکردگی سے کم کیا جاسکتا ہے۔ دین دار افراد کو چاہئے کہ وہ اپنے کام میں مہارت حاصل کریں، دیانت داری سے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کریں، دوسروں کی نسبت اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں ، پیشہ ورانہ اخلاقیات کا مظاہرہ کریں اور اپنے تاثر کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش جاری رکھیں۔ حالیہ دنوں میں اس کی بہترین مثال امریکی مسلمانوں نے پیش کی ہے۔ گیارہ ستمبر 2001 کی دہشت گردی کے بعد مسلم مخالف حلقوں کی طرف سے امریکی میڈیا پر یہ مہم چلائی گئی کہ مسلمان دہشت گرد ، لاقانونیت کے حامی، انتہا پسنداور امن کے دشمن ہوتے ہیں۔ اس مہم کے نتیجے میں مسلمانوں کو خاصا نقصان پہنچا۔ اگر ان کی جگہ ہم ہوتے تو لڑائی جھگڑے پر اتر آتے۔ وہ لوگ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ہماری نسبت ایسے معاملات کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور بے جا جذباتیت سے پرہیز کرتے ہیں۔ انہوں نے اس کے جواب میں ایک جوابی میڈیا مہم چلائی جس میں انہوں نے اپنے کردار اور عمل سے یہ ثابت کیا کہ اسلام دہشت گردی، لاقانونیت، انتہا پسندی اور بدامنی کا سب سے بڑا مخالف ہے اور کوئی بھی سچا مسلمان ایسا نہیں ہوسکتا۔ اس جوابی مہم میں ان کا ساتھ ان غیر مسلم سکالرز نے بھی دیا جو غیر متعصب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ یہ جوابی مہم ابھی جاری ہے اور اس کے نتیجے میں مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے عزت اور وقار میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ان کی یہ مہم کامیاب ہو۔ موجودہ حالات کی ضرورت ہے کہ ہمارا تعلیم یافتہ دینی طبقہ بھی ایسی مہم چلائے او راپنے کردار سے یہ ثابت کرے کہ دین پر عمل کرنے والا مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند نہیں ہوتا۔ وہ پیشہ ورانہ اخلاقیات کا اپنے ساتھیوں سے زیادہ پابند ہوتا ہے، اس کی کارکردگی عام لوگوں کی نسبت بہتر ہوتی ہے ، اپنے فرائض کی ادائیگی میں وہ انتہائی دیانت دار ہوتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں انتہائی توجہ اور محنت سے ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔ ایسے دین دار حضرات جو اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، انہیں چاہئے کہ وہ دوسرے دین دار ساتھیوں کی جائز حمایت کریں اور ان کا امیج بہتر بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ یہ حمایت صرف اور صرف جائز معاملات میں ہونی چاہئے اور اس میں کسی اور کی حق تلفی بالکل نہیں کرنی چاہئے۔

۔۔۔۔۔ دین دار حضرات کے بعض مسائل ایسے ہیں جو کہ قرآن و سنت کی واضح احکامات (نصوص) کی وجہ سے نہیں بلکہ علماء کے نقطہ ہائے نظر کے اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان معاملات میں ہمیں لکیر کا فقیر نہیں بننا چاہئے بلکہ دوسرے نقطہ نظر کا مطالعہ بھی کرنا چاہئے اور اگر ہمیں وہ قرآن وسنت اور عقل و فطرت کے زیادہ قریب لگے اور اسے اپنا لینے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرنی چاہئے۔ بلاسوچے سمجھے ایک ہی نقطہ نظر کو مان کر ہر طرف سے آنکھیں بند کرلینا نہ تو دین میں صحیح قرار دیاگیا ہے اور نہ ہی عقل و فطرت میں۔

۔۔۔۔۔ بعض دینی جماعتوں کی انتہا پسندی اور چند غلط اقدامات کی وجہ سے معاشرے میں ان کا منفی امیج پایا جاتا ہے۔ ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی عملی زندگی میں اپنی جماعتوں کے مخالفین یا ان کے بارے میں منفی تاثر رکھنے والے افراد کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری رائے میں ایسی جماعتوں میں شمولیت سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہئے جن کے بارے میں معاشرے میں اچھا تاثر پایا جاتا ہو۔ اچھے تاثر سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ معاشرے کی ہر پسند و ناپسند کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہوں بلکہ اچھے تاثر کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ دین پر عمل کے اعتبار سے معاشرے میں اچھے سمجھے جاتے ہوں۔  ان کا اخلاق و کردار اتنا مضبوط ہو کہ دشمن بھی ان کے کردار کی مضبوطی کی گواہی دے۔ ان کی محفلوں میں بیٹھنے سے اللہ، اس کے رسول اور انسانیت کی محبت کی خوشبو آتی ہو۔ وہ کسی کے خلاف نفرت پھیلانے میں مشغول نہ ہوں۔ ان کے ہاں انسانوں کی کردار سازی کی جاتی ہونہ کہ کردار کشی۔ وہ انسانوں کی  اخلاقی تربیت میں مشغول ہوں نہ کہ ان کی برین واشنگ میں۔

۔۔۔۔۔ اگر ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑ جائے جو محض مسلکی یا فرقہ وارانہ تعصب کی بنا پر ہمیں ہمارے جائز حقوق سے محروم کرنے پر تلے ہوں، تو ان کے ساتھ حکمت عملی سے معاملہ کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہئے کہ وہ انہیں ہدایت دے۔ اس بات کا بھی خیال رکھئے کہ مذہب یا نقطہ نظر میں اختلاف کی صورت میں آپ سے بھی کبھی کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

Comments on “Deen dar afrad key lie Ma’ash aur Ruzgar key Masail”

ڈئیر مبشر نذیر صاحب

آپ نے اپنی ایک تحریر میں یہ جملہ لکھا ہے، اس پر میرا تبصرہ یہ ہے۔

انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہئے جن کے بارے میں معاشرے میں اچھا تاثر پایا جاتا ہو۔

انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہیے جو قران اور سنت پر قائم ہوں – بیشک معاشرے میں ان کے بارے میں منفی رائے رکھی جاتی ہو – اگر آپ کے اصول کی روشنی میں دیکھیں تو ہمیں کہنا پڑے گا کے ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کری جب پوری قوم کی اور ان کے دینی حلقوں کی مخالفت کری اور اس عقیدے سے چمٹے رہے جس کی پوری قوم مزمت کرتی تھی – محترم زیادہ لوگوں یا معاشرے کے پیچھے چلنے سے تو آپ نے خود اپنے ایک مضمون میں منع فرمایا تھا جو ابھی ابھی میں نے اتفاقا پڑھا ہے – پھر تو یہ بھی ذہنی غلامی ہی ہوئی کے میں معاشرے کی ان قدروں پر چلوں جن کا نہ اللہ نے حکم دیا نہ رسول نے اور نہ ہی کبھی میرے ننھے منے سے بھیجے نے۔

 معاشرۃ / سوسائٹی / جمہوریت بھی نئے دور کے بت ہی ہیں جو تلتے نہیں ہیں بس گنے جاتے ہیں-  اور ذہنی پسماندگی کی بدترین مثال ہیں – یہ کیا بات ہوئی کے اگر میرے پڑوس میں دس گدھے رہتے ہوں جو ڈھینچون ڈھینچوں کو اچھا سمجھتے ہوں تو میں بھی کیا ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے لگوں – صرف اس لیے کے گدھوں کے معاشرے میں میرے اچھا تاثر قائم ہو جاَے ؟ اور یہ کیا بات ہوئی کے امتحان کے پرچے میں پورے نمبر لینے کیلئے میں یہ لکھوں کے شروع میں ہم بندر ہوتے تھے آہستہ آہستہ انسان بن گئے اور اب آہستہ آہستہ پھر بندر بنتے جارہے ہیں جب کے یہ بات میرے مذہب کے بھی مخالف ہے اور میری عقل کے بھی

ہوسکتا ہے کہ ابراہیم اکیلا ہو مگر ہو حق پر – اور موسی اور ہارون ہوں مگر ہوں حق پر – اور شاید کوئی دہشتگرد ہو مگر ہو حق پر – کیا نہیں ہوسکتا ؟

ذیشان ضیا

مسقط، عمان

مئی 2010

ڈئیر ذیشان بھائی

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وربرکاتہ

آپ کی ای میل کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے جس جملے کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے، اس میں واقعی کچھ ابہام پایا جاتا ہے۔ یہ میری تحریر کی خامی تھی۔ آپ نے توجہ دلائی، بہت بہت شکریہ۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے۔

میں اس میں مزید کچھ جملوں کا اضافہ کر رہا ہوں تاکہ بات بالکل واضح ہو جائے۔ سیاق و سباق کے ساتھ اضافہ شدہ عبارت یہ ہو گی:

بعض دینی جماعتوں کی انتہا پسندی اور چند غلط اقدامات کی وجہ سے معاشرے میں ان کا منفی امیج پایا جاتا ہے۔ ان جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی عملی زندگی میں اپنی جماعتوں کے مخالفین یا ان کے بارے میں منفی تاثر رکھنے والے افراد کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری رائے میں ایسی جماعتوں میں شمولیت سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ انسان کو ایسے دینی حلقوں سے وابستگی اختیار کرنی چاہئے جن کے بارے میں معاشرے میں اچھا تاثر پایا جاتا ہو۔ اچھے تاثر سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ وہ معاشرے کی ہر پسند و ناپسند کے ساتھ ہاں میں ہاں ملاتے ہوں بلکہ اچھے تاثر کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ دین پر عمل کے اعتبار سے معاشرے میں اچھے سمجھے جاتے ہوں۔  ان کا اخلاق و کردار اتنا مضبوط ہو کہ دشمن بھی ان کے کردار کی مضبوطی کی گواہی دے۔ ان کی محفلوں میں بیٹھنے سے اللہ، اس کے رسول اور انسانیت کی محبت کی خوشبو آتی ہو۔ وہ کسی کے خلاف نفرت پھیلانے میں مشغول نہ ہوں۔ ان کے ہاں انسانوں کی کردار سازی کی جاتی ہونہ کہ کردار کشی۔ وہ انسانوں کی  اخلاقی تربیت میں مشغول ہوں نہ کہ ان کی برین واشنگ میں۔

امید ہے کہ اس سے بات واضح ہو جائے گی۔ آپ کو چونکہ اس موضوع میں دلچسپی ہے، اس لئے اگر میری اس کتاب کا مطالعہ کر کے اس پر اپنی رائے سے نوازیں تو بہت مہربانی ہو گی۔

مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی

مجھے آپ کی بات سے مکمل اتفاق ہے کہ بھیڑ چال کے پیچھے چلنا ہرگز دین کا تقاضا نہیں ہے۔ اس کے برعکس بلا خوف لومۃ لائم حق کا علم بلند کرنا خواہ معاشرہ اس کی حمایت کرے یا مخالفت، ہمارے دین کا تقاضا ہے۔ یہی انبیاء کرام علیہم السلام نے کیا۔

اصل بات جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں، وہ اخلاق و کردار کی تربیت ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کے کردار کا یہ عالم تھا کہ ان سے شدید اختلاف رکھنے والے بھی ان کے کردار کے معترف تھے۔ آپ کی ذات پر دشمنوں کے اس اعتماد کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن آپ پر حملہ کرنے والے تھے مگر اس وقت بھی ان کی امانتیں آپ کے پاس موجود تھیں۔ آپ نے اسے ٹھیس نہیں پہنچائی بلکہ جان کے خطرے کے باوجود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ امانتیں لوٹانے پر مامور فرمایا۔

ایک بات عرض کرتا چلوں کہ “دہشت گرد” کبھی حق پر نہیں ہو سکتا۔ بے گناہ بوڑھوں، بچوں، خواتین اور مردوں کو نشانہ بنانا ایسا جرم ہے جس کی کوئی گنجائش نہ دین میں موجود ہے اور نہ انسانیت میں ۔ قرآن مجید نے تو ایک انسان (خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم) کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ دہشت گرد، ایک انسان کو تو کیا بیسیوں انسانوں کو قتل کرتا ہے جس کی سزا اسے اللہ تعالی سے مل کر رہے گی۔

اس وقت جو لوگ اسلام کے نام پر دہشت گردی کا طوفان برپا کیے ہوئے ہیں، وہ دین کی کوئی خدمت نہیں کر رہے۔ یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں کا اہل مغرب کو تو کیا نقصان پہنچے گا، سب سے بڑا نقصان خود اسلام اور امت مسلمہ کو پہنچ رہا ہے۔ یہ لوگ یا تو اسلام دشمن ہیں یا پھر اسلام دشمنوں کے ہاتھوں دانستہ و ناداستہ طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

ایسا ضرور ممکن ہے کہ کوئی دہشت گردی میں ملوث نہ ہو اور اس پر اس کا جھوٹا الزام لگ جائے۔ ایسی صورت میں اس شخص یا گروہ کو چاہیے کہ ہر ممکن طریقے سے اس الزام کو دھونے کی کوشش کرے۔ کم سے کم اتنا تو ہر کوئی کر سکتا ہے کہ دہشت گردی کی غیر مشروط مذمت کی جائے اور جو لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں، ان کے سائے سے بھی دور رہا جائے۔ اگر کوئی زبانی مذمت پر بھی تیار نہ ہو، اور بدستور دہشت گردوں سے روابط رکھے، تو پھر ایسے شخص، جماعت یا ادارے کو دور سے ہی سلام کرنا ضروری ہے۔

دہشت گردی ایسا جرم ہے جو اسلام اور امت مسلمہ کے سر پر اسلام کے دانا دشمنوں اور نادان دوستوں کی جانب سے تھوپ دیا گیا ہے۔ اس کے خلاف زبانی، قلمی اور عملی جہاد وقت کی ضرورت ہے خواہ اس کے لئے ہمیں معاشرے کی کتنی ہی مخالفت کیوں نہ سہنی پڑے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

دین دار افراد کے لئے معاش اور روزگار کے مسائل
Scroll to top