بدگمانی اور تجسس

ارشاد باری تعالی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنْ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا۔ 

اے ایمان والو، بہت گمان کرنے سے بچا کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسس کرنے سے بھی بچا کرو۔ (حجرات 49:12)

اس [آیت] میں تین چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اول ظن، دوسرے تجسس یعنی کسی پوشیدہ عیب کا سراغ لگانا اور تیسرے غیبت۔

اسلام اور دور جدید کی تبدیلیاں
 معاشرے مستقل تبدیلی کا شکار رہا کرتے ہیں۔ ہے ثبات اس زمانے میں اک تغیر کو۔ موجودہ دور میں ہماری فکر میں کیا تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے اثرات ہمارے معاشروں پر رونما ہو رہے ہیں۔ مصنف نے ان تبدیلیوں کا اسلام کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔

    قرآن کریم نے اول تو یہ ارشاد فرمایا کہ بہت سے گمانوں سے بچا کرو۔ پھر اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ “بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔” جس سے معلوم ہوا کہ ہر گمان گناہ نہیں تو یہ ارشاد سننے والوں پر اس کی تحقیق واجب ہو گئی کہ کون سے گمان گناہ ہیں تاکہ ان سے بچیں اور جب تک کسی گمان کا جائز ہونا معلوم نہ ہو جاوے، اس کے پاس نہ جائیں۔۔۔۔ قرطبی نے فرمایا کہ ظن سے مراد اس جگہ تہمت ہے۔ یعنی کسی شخص پر بغیر کسی قوی دلیل کے کوئی الزام عیب یا گناہ کا لگانا۔۔۔۔

    نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایاکم و الظن اکذب الحدیث۔ یعنی گمان سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی بات ہے۔ یہاں ظن سے مراد بالاتفاق کسی مسلمان کے ساتھ کسی قوی دلیل کے بدگمانی کرنا ہے۔۔۔۔ یہ جو مشہور ہے کہ ان من الحزم سوء الظن یعنی احتیاط کی بات یہ ہے کہ ہر شخص سے بدگمانی رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملہ ایسا کرے جیسے بدگمانی کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ کہ بدون قوی اعتماد کے اپنی چیز کسی کے حوالہ نہ کرے۔ نہ یہ کہ اس کو چور سمجھے اور اس کی تحقیر کرے۔ خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو چور یا غدار سمجھے بغیر اپنے معاملے میں احتیاط برتے۔

اپنے والدین کو گالی دینا سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے۔ اگر کوئی شخص دوسرے کے والدین کو گالی دیتا ہے اور وہ جواب میں اس کے والدین کو گالی دیتا ہے (تو یہ پہلا شخص اپنے والدین کو گالی دلوانے کے سبب بڑا مجرم ہے۔) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم

    دوسری چیز جس سے اس آیت میں منع کیا گیا ہے، تجسس یعنی کسی کے عیب کی تلاش اور سراغ لگانا ہے۔۔۔ معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ جو چیز تمہارے سامنے آ جائے اس کو تم پکڑ سکتے ہو اور کسی مسلمان کا جو عیب ظاہر نہ ہو اس کی جستجو اور تلاش کرنا جائز نہیں ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد ہے:

لا تغتابوا المسلمین و لا تتبعوا عوراتھم۔ فان من اتبع عوراتہم یتبع اللہ عورتہ و من یتبع اللہ عورتہ یفضحہ فی بیتہ۔ (قرطبی)

مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کے عیوب کی جستجو نہ کرو۔ کیونکہ جو شخص ان کے عیوب کی تلاش کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیب کی تلاش کرتا ہے۔ اور جس کے عیب کی تلاش اللہ تعالی کرے، اس کو اس کے گھر کے اندر بھی رسوا کر دیتا ہے۔

چھپ کر کسی کی باتیں سننا یا اپنے کو سوتا ہوا بنا کر باتیں سننا بھی تجسس میں داخل ہے۔ [اسی طرح دوسروں کے خطوط، کاغذات یا ای میلز کا جائزہ لینا بھی اسی میں شامل ہے۔]

    البتہ اگر کسی سے مضرت پہنچنے کا احتمال ہو اور اپنی یا دوسرے کسی کی حفاظت کی غرض سے مضرت پہنچانے والے کی خفیہ تدبیروں اور ارادوں کا تجسس کرے تو جائز ہے۔

(مصنف: مفتی محمد شفیع، معارف القرآن سے اقتباسات)

آئیے، ہم اپنے بچوں اور دوستوں کو اچھی تحریریں پہنچا کر ان کی اخلاقی تربیت میں حصہ لیں۔دیگر قارئین آپ کے خیالات سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان تک اپنے خیالات پہنچانے کے لئے ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ لوگ دوسروں کو شک و شبہ کی نظر سے کیوں دیکھتے ہیں؟ تین وجوہات بیان کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ اپنے آپ سے دریافت کیجیے کہ کیا آپ بھی دوسروں سے متعلق بدگمانی کرتے ہیں۔ اس کا جواب ارسال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔ اگر آپ چاہیں، تو اپنی زندگی کا کوئی واقعہ شیئر کیجیے جس میں کسی نے آپ سے متعلق بدگمانی کی تھی اور آپ کو اس کا ایسا کرنا بہت برا لگا تھا۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

بدگمانی اور تجسس
Scroll to top