اللہ کی یاد اور ذکر

اللہ کا ذکر کیا ہے؟

قرآنی آیات

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۔ 2:8

مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اسکی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۔ 28:13

(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (انکو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔

وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ ۭ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ 59: 19

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے ایسا کر دیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے یہ بد کردار لوگ ہیں ۔۔

حدیث

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ بے شک ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ایک حلقے کی طرف تشریف لے گئے تو فرمایا تمہیں کس بات نے بٹھلایا ہوا ہے صحابہ نے عرض کیا ہم اللہ کا ذکر کرنے اور اس کی اس بات پر حمد کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور ہم پر اس کے ذریعہ احسان فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ کی قسم تمہیں اس بات کے علاوہ کسی بات نے نہیں بٹھایا صحابہ نے عرض کیا اللہ کی قسم ہم صرف اسی لیئے بیٹھے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تم سے قسم کسی بدگمانی کی وجہ سے نہیں اٹھوئی بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ اللہ رب العزت تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کر رہا ہے۔[ صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2360 ]

ذکر کا مفہوم

ذکر کے لغوی معنی یاد کرنا، بیان، چرچا، تذکرہ، یادآوری،  کسی چیز کو محفوظ کر لینا، کسی بات کا دل میں مستحضر کر لینا، حفاظت کرنا۔ یہ  لفظ نسیان کا الٹ ہے۔ ذکر الٰہی کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ کو  ہر حال میں یاد  رکھنا ،  اس کا تصور ہر وقت ذہن میں رکھنا اور اسکی مرضی، پسند ناپسند کا خیال رکھنا سب اس میں شامل ہیں۔

کیس اسٹڈی

 فائق پچھلے کئی سالوں سے لندن میں مقیم تھا۔ اسکی کاروباری مصروفیات پاکستان آنے کی اجازت نہیں دے رہی تھیں۔ لیکن وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے بے چین تھا۔  وہ اکثر تنہائیوں میں اپنی ماں کے بارے میں سوچتا، اس کا تصور کرتا، اسکی باتیں یاد کرتا، اس کی مسکراہٹ اور لوریوں کو ذہن میں لاتا اور محظوظ ہوتا ۔وہ اکثر جب اپنے دوستوں سے ملتا تو اپنی ماں کی تعریف اور چرچے بیان کرتا۔  کبھی اس کے دوست اسے سگریٹ کا کش لگانے کو کہتے تو اسے ماں کی تنبیہ یاد آجاتی اور وہ اس سے باز آجاتا۔ایک دن برسات میں وہ بھیگتاہوا گھر آیا تو اسے بخار چڑھ گیا ایسے میں ماں بہت یاد آئی۔وہ بے اختیار رودیا اور دوسرے ہی دن پاکستان واپس ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ایک ہفتے کےبعد وہ پاکستان پہنچ گیا اور ماں سے لپٹ کر رویا لیکن یہ رونا فراق کا نہیں بلکہ وصال کا تھا۔

کیس اسٹڈی کا تجزیہ

۔۔۔۔۔ فائق کاروبار میں مصروف ہونے کی وجہ سے اپنی ماں سے دور تھا جبکہ ایک بندہ مومن  دنیاوی مصروفیات کی بنا پر اللہ کی یاد محو کردیتا ہے۔

۔۔۔۔۔ فائق تنہائیوں میں اپنی ماں کی حرکات و سکنات اور احسانات کو یاد کرتا تھا جبکہ ایک مومن اپنی تنہائیوں میں  اللہ کی صفات اور بے پناہ احسانات کو یاد کرتا اور ان کا تصور کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔ فائق اپنے دوستوں میں اپنی ماں کے چرچے کرتا ۔ایک مومن اپنے ساتھیوں اور خاندان کے افراد سے جب ملتا ہے تو اللہ کی تسبیح، حمد، بڑائی، محبت اور دیگر صفات کا چرچا کرتا  اور اور اس ذکر سے خوش ہوتا ہے۔

۔۔۔۔۔ فائق  اپنی ماں کو یاد کرکے سگریٹ پینے سے باز آجاتا جبکہ مومن اللہ کو یاد کرکے ہر چھوٹی یا بڑی نافرمانی  سے رک جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔ فائق کو بخار میں ماں بہت یاد آئی جبکہ مومن کو مصیبت میں اللہ یاد آتا ہے۔

فکر کامفہوم

اس کا مطلب غور و فکر کرنا اور  تعقل کے ذریعے کسی متعین نتیجے تک پہنچنا شامل ہیں۔مثال کے طور پر ایک شخص جب یہ دیکھتا ہے کہ آسمان اور زمین میں اتنا تضاد ہونے کے بعد انتہائی درجے کی معاونت ہے ۔ یعنی آسمان کی بارش زمین میں غذا کی فراہمی کا باعث بنتی ہے، سورج کی روشنی حرارت کا سامان مہیا کرتی، چاند کا گھٹنا اور بڑھنا سمند ر میں جوار بھاٹا پیدا کرتا اور تاروں کی چال راہ دکھانے کا کام کرتی ہے  تو وہ اس غور فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ یقینی طور پر کو منتظم اعلیٰ موجود ہے جو ان سب تضادات میں ہم اہنگی پیدا کئے ہوئے ہے۔اسی کا نام تفکر ہے۔

ذکر اور فکر کا تعلق

 ذکر کا تعلق انسان کے دل اور جذبات سے زیادہ ہے جبکہ تفکرا یک عقلی طریقہ کار ہے۔

ذکر الٰہی کے مقاصد و اسباب

بندگی کا اظہار: ذکر کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اس  ہستی سے  کوئی تعلق پایا جاتا ہو۔ عہد الست کی یاد  انسان کی فطرت میں پیوست ہے  جس میں اللہ نے تمام انسانوں سے اپنے رب ہونے کا اقرار کروایاچنانچہ  اسی ربوبیت  کو یاد کر تے رہنے کے لئے اور اللہ کی بندگی کا اقرار کرنے کے لئے اللہ کو یاد کرتے رہنا لازمی ہے۔

اطاعت : ذکریا یادعام طور پر اس ہستی کو کیا جاتا ہے جو نگاہوں کے سامنے نہ ہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا مادی ساتھ ممکن نہیں چنانچہ اللہ سے تعلق روحانی نوعیت کا ہے۔چنانچہ اس تعلق کے قیام ، بقااور ارتقاکے لئے اللہ کو زبان اور افعال دونوں طریقوں سے یاد رکھنا لازم ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی عادت پیدا کرنا ہے۔

اللہ کی عظمت کا اظہار: ذکر کرنے کا ایک اور پہلو تذکر ہ کرنا، چرچا کرنا یا زیادہ سے زیادہ بیان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور محبت کے اقرار کے طور پر اس کا تذکرہ اور اسکی تسبیح و تحمید اور بڑائی لوگوں میں بیان کرنا ، تنہائیوں میں دہرانا وغیرہ اس میں شامل ہیں۔

ذکر کرنے کے اسباب

نشانیوں کو دیکھ کر  ذکر کرنا: اللہ کی یاد انفس و آفاق کی نشانیوں پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح ایک شخص اپنی ماں سے متعلق  چیزیں دیکھ کر اسے یاد کرنے لگتا  اور اسکی باتیں بیان کرتا ہے تو اسی طرح انسان  کائنات میں اللہ کی بکھری ہوئی نشانیوں  یعنی اسکے وسیع میدان، عظیم پہاڑ، جھلمل کرتی دھوپ اور باد نسیم کو دیکھ کر بے اختیار اللہ کو  یاد کرنے لگتا ہے۔

مصیبت میں تذکر:  اللہ کی یادمصیبت اور مشکلات میں بھی شدت سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ انسان مشکل میں ایک قادر مطلق، شفیق، نرم دل اور غم گسار ہستی کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ ساری صفات اللہ تعالیٰ  کےرحمٰن اور رحیم ہونے کی صورت میں میسر آجاتی ہیں۔

احسانات کا  تذکر: زندگی کی تخلیق، چین، سکون ، آرام ، رزق کی فراہمی، آسمان و زمین کی موافقت وغیرہ کو دیکھ کر انسان ان سب کے فراہم کرنے والے تنہا محسن کو یاد کرتا، اس کا شکر گذار ہوتا اور اسکے ذکر  اور باتیں کرکے ان سے اپنی زندگی کو گلزار بنانے کی سعی کرتا ہے۔

محبت کی بنا پر تذکر: اس  یکطرفہ احسان کی بنیاد  پر انسان اپنے محسن سے محبت کرتا، اسکی جانب لپکتا اور اپنی امیدیں اسی سے وابستہ کرتا ہے، چنانچہ یاد اسی محبت کا فطری نتیجہ ہے۔

ناراضگی کے خوف میں ذکر کرنا: لیکن وہ اس خیال سے بھی لرزاں رہتا ہے کہ کہیں یہ محسن ناراض نہ ہوجائے۔ اگر ایسا ہوگیا تو وہ نعمتوں سے محروم ہوجائے گا اور مصیبتوں میں گرفتار ہوجائے گا چنانچہ وہ اس خوف اور اندیشے کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے رب کو یاد کرتا ہے۔

دیگر صفات  حمیدہ کی بنا پر  ذکر کرنا:  ذکر کا یک اور پہلو اللہ کی دیگر صفات میں بھی ہے۔ ایک ملک کا سربراہ جو ایک چھوٹی سی زمین کا ایک نامکمل حاکم ہوتا ہے اس کے سامنے انسان جاتے ہوئے ادب کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے۔ چنانچہ انسان جب اپنے رب کی کامل ملکیت ، قدرت، خلاقی، مصوری اور حکمت دیکھتا ہے تو وہ ان صفات کے حامل ہستی کے بارے میں انتہائی ادب ، احترام اور عظمت کے جذبات رکھتا ہے  اور اس تصور کے بڑھنے سے خود بخود وہ خالق کو یاد کرتا ، اس کا چرچا کرتا ، اسکی بڑائی بیان کرتا، اوراسکے سامنے ادب سے قیام و قعود کرتارہتا ہے۔

 تیسرا مضمون ۔ ذکر الٰہی کے طریقے

نماز

 نماز ذکر کرنے کا بہترین اور سب سے آزمودہ نسخہ ہے نماز کے ذریعے قولی اور  عملی دونوں طریقوں سے اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوجاتاہے۔ ایک طرف تو فرض نمازوں کےاوقات اس خوبصورتی سے  دن و رات کا احاطہ کر لیتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں نماز پڑھنے والا شخص وقفے وقفے سے اللہ کی یاد سے سینہ منور کرتا رہتا ہے۔اس کے علاوہ  تہجد اور دیگرنفل نمازیں  روزمرہ پیش آنے والے معاملات میں اللہ سے کلام کا ذریعہ بنتی ہیں۔ نیز شکر، صبراور مددکاحصول   ہو یا سورج و چاند گرہن ، قحط اور موت جیسی آفات سب مواقع پر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے ذریعے اللہ کو یاد کرنا ، اس سے رجوع کرنا اور مدد کی درخواست کرنا  ثابت ہے۔

تسبیحات و دعائیں

 نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے  صبح و شام، بیداری و نیند ، کھانا  پینا، سفر و حضر، غم و خوشی غرض ہر موقع کی دعااور تسبیح نہایت صراحت کے ساتھ روایات میں منقول ہیں جو اللہ کو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے غرض ہر حال میں شامل یاد کرنے کا ایک اہم اور مستند ذریعہ ہیں۔

مخصوص اوقات و مقامات

جس طرح ہر فصل کا مو سم  اور محل مخصوص ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کچھ دن ، مہینے یا مقامات ذکر کے لئے مخصوص کردئیے ہیں اور ان میں اپنی یاد کا اہتما م انفرادی و اجتماعی سطح پر آسان بنادیا ہے۔ چنانچہ اوقات میں تہجد کا وقت، دنوں میں ایام تشریق اور جمعہ کا دن، مہینوں میں رمضان، مقامات میں بیت اللہ، صفا، مروہ، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

تفکر و تدبر

ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انفس و آفاق میں اپنی نشانیاں ہر قدم پر بکھیر د ی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر کوئی بھی حساس شخص خدا کو یاد کئے بنا اور اسکی تسبیح و تحمید بیان کرے بغیر نہیں رہ سکتا۔

تنہائی میں استغراق

تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کی صفات کا ادراک اور پھر زندگی میں ان کا  اطلاق بھی ایک بہت کارآمد طریقہ ہے کہ اللہ کو یا د رکھا جائے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اللہ کے رحمٰن ، رحیم اورودود  جیسی صفات کو سمجھتا اور پھر اپنی زندگی میں اللہ کے احسانات  نوٹ کرکے اللہ کی یاد دل میں تازہ کرتا ہے۔یا وہ اپنے گناہوں کو سامنے رکھتا اور پھر اللہ کی غفاریت کو ملحوظ رکھتے ہوئے گناہوں پر نادم ہوتا اس کی جانب رجوع کرتا ہے۔ اسی طرح تنہائی میں جنت یا جہنم کے احوال، موت کو یاد کرنا اور  حشر کے احوال کا تصور کرکے بھی ذکر  الٰہی کیا جاسکتا ہے۔

مطالعہ

قرآن کے متن  اور تفسیر کا تدبر کے ساتھ مطالعہ اللہ کے ذکر کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ سیرت پیغمبر و صحابہ اور صالحین کے سبق آموز مگر حقیقت پر مبنی واقعات بھی اللہ کی یاد  کے حصول کا ایک اہم طریقہ ہیں۔

صحبت

 عزیز واقارب اور دوستوں  کی تقاریب، محفلیں، مجلسیں اگر درست اسلامی شعائر پر مبنی ہوں تو اللہ کی یاد کا بہت موثر ذریعہ ہیں۔نیز  دینی  پروگراموں میں شرکت اور صالح لوگوں کی صحبت بھی اللہ کی یاد دل میں تازہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔

عملی تذکر

ذکر الٰہی محض قولی نہیں ہوتا بلکہ یہ عملی بھی ہوتا ہے۔ چنانچہ  اپنے جسم کے اعضاء کو اللہ کی بندگی اور اطاعت پر مجبور کرنا اور اطاعت کاملہ کی جانب راغب کرنا عملی ذکر کی بہترین مثال ہے۔

ذکر الٰہی کے غلط  تصورات

غیر مسنون تذکر

اللہ کی یاد کے لئے دنیا ترک کردینا،بیوی بچوں کے فرائض سے غافل ہوکر تبلیغ پر نکل جانا، اللہ ہو کی ضربیں لگانا، فنا فی الشیخ  یا فنا فی اللہ کے مراقبے کرنا، قبر پر چلہ کشی کرنا، کشف و  کرامات  کو ذکراللہ کا مقصد قرار دینا، کئی ہزار  یا لاکھ مرتبہ  کسی مخصوص وظیفے کا ورد کرنا یا کسی غیر مستند تسبیح سے دنیاوی مقاصد کا حصول وغیرہ وہ چند غلط اور اجنبی تصورات ہیں جن کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک سے نہیں ملتا۔

مسنون ذکر کو بھی غلط سمجھنا

دوسری انتہا پر وہ لوگ کھڑے ہیں جو ذکر کے مسنون طریقوں کو بھی اوپر بیان کردہ کیٹگری میں رکھتے اور اسے غلط مانتے ہیں۔ حالانکہ کچھ تسبیحات کا ایک مخصوص گنتی کے ساتھ پڑھنا اسوہ نبی کریم  سے ثابت ہے ۔چنانچہ کلمہ طیبہ کا ورد کرنا، درود شریف پڑھنا، سبحان اللہ ، الحمد للہ یا دیگر تسبیحات کا ایک مخصوص تعداد یا بلا کسی گنتی کے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ گو کہ ان تسبیحات کو سمجھ کر پڑھنا ہی مقصود ہے لیکن ایک عام اور کم تر علمیت والے شخص کے لئے ان کا بلا سمجھے پڑھنا بلاشبہ کسی نہ کسی درجے میں فائدہ مند ہے۔

مخصوص طریقے پر اصرار

 ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے پسندیدہ اور مخصوص ذکر کے طریقے  کو ہی درست سمجھتے اور اس میں کسی تنوع اور اختلاف کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں حالانکہ ذکر کے مختلف طریقے اور مدارج ہیں جو ہر شخص اپنے مزاج، حالات، علمی قابلیت اور وقت کی دستیابی کی بنیاد پر اپنا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ٹھیلے والے بھائی کو سقراط و بقراط سمجھ کر اس سے تفکر و تعقل کےاعلیٰ درجوں پر  فائز کرنے کی کوشش کرنا مناسب نہیں۔ اسی طرح ایک عالم و فاضل ڈاکٹر کو محض کلمہ طیبہ کا ورد  کروانا بھی غلط ہے۔

ذکر الٰہی کی مشکلات اور  علاج

ایمان کی کمزوری

 ذکر میں کوتاہی کی ایک اہم وجہ اللہ پر یقین کی کمزوری ہے۔ ایک بندہ زبان سے تو اللہ کا اقرار کرلیتا ہے لیکن اس شعور میں اس ہستی کی معرفت اور صفات کا فہم واضح نہیں ہوتا  چنانچہ وہ قول سے اقرار کے باوجود اللہ پر ایمان کو عملی جامہ پہنانے سے قاصر رہتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ کو یاد نہیں کرتا یا کرنے پر خود کو آمادہ نہیں کرپاتا۔

دنیا کی محبت

 نماز اور اللہ کو یاد کرنے کے دیگر طریقوں سے گریز کی وجہ مال ، زوج اور اولاد کی حد سے زیادہ محبت ہے۔ آج انسان کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک پیسہ کمانے میں مصروف رہتا ہے اور وہ یہ پیسہ عام طور رپر اپنے اہل خانہ کے لئے ہی کماتا ہے۔ پھر جو وقت بچتا ہے  وہ اسے سستی تفریح میں صرف کردیتا ہے۔چنانچہ وہ خدا کے فرض کردہ ذکر یعنی نماز سے بھی محروم رہ جاتا ہے چہ جائکہ وہ ذکر کثیر کی جانب مائل ہو۔ اس کا علاج پیسہ کمانے کے عمل کو ضروریات تک محدود کرنا، انفاق سے مال کی محبت کم کرنا اور ٹائم مینجمنٹ کے ذریعے اللہ کے ذکر کے لئے وقت نکالنا ہیں۔ نیز دوران سفر  یا فارغ اوقات میں روزانہ کسی مخصوص اور مسنون تسبیح کا پڑھنا بھی ایک بہتر حل ہے۔

اسباب کی دنیا میں یقین

ایک اور سبب اسبا ب وعلل کی دنیا ہی کو حقیقت ماننا اور اس سے اوپر اٹھ سوچنے میں ناکام ہوجانا بھی ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص کو ملازمت کی تلاش ہے چنانچہ وہ ملازمت کے حصول کے لئے تمام ممکنہ کوششیں کرلیتا ہے لیکن اللہ سے دعا نہیں مانگتا۔ چنانچہ وہ اللہ کے ذکر اور تعلق سے محروم رہ جاتا ہے۔

عربی زبان  سے ناواقفیت

 ذکر میں ایک اور رکاوٹ عربی زبان سے ناواقفیت ہے۔ اکثر لوگ کسی مخصوص دعا کو عربی زبان میں پڑھنا لازم سمجھتے اور اس کے الفاظ کو مفہوم کے بغیر دہرانے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ سے کوئی حقیقی تعلق قائم نہیں ہوپاتا اور بوریت کی بنا پر ان دعاؤں کا تسلسل ختم ہوجاتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ دعاؤں کے مفہہوم کو یاد کیا جائے اور دعا کے الفاظ کی بجائے اس کے مفہہوم کو اس موقع پر ذہن میں پڑھا جائے۔ نیز عربی زبان سے اس حد تک واقفیت کی کوشش  کی جائے کہ دعا اور اہم سورتیں سمجھ آنے لگ جائیں۔

وظائف سے دنیاوی مسائل کا حل

ایک اور ذکر میں مشکل یہ ہے کہ لوگ غیر مستند وظفیوں کو پڑھتے اور ان سے دنیاوی مقاصد جیسے ملازمت، شادی بیاہ، رزق میں کشادگی، صحت ، تعلیم  وغیرہ کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ اللہ کا ذکر جس کا بنیادی مقصد انسان کو مادی آلائشوں سے دور کرکے اخروی زندگی کے قریب کرنا تھا وہ مزید دنیا پرستی کی جانب لے جانے کا سبب بن جاتا ہے ۔اس ضمن میں یہ حقیقت جان لینی چاہئے کہ ان وظائف میں سے اکثر کا تو اسوہ نبی سے کوئی ثبوت ہی نہیں بلکہ یہ تو کچھ لوگوں کی اپنی اختراع ہے جو انہوں نے عوام کو دین کی جانب راغب کرنے کی وجہ سے ایجاد کی۔ دوسرے یہ کہ اگر ان وظائف کا ثبوت سند کے لحاظ سے قوی احادیث میں اگر ملتا بھی ہے تو اس کی وجہ محدثین کا ان روایات کے بارے میں نرم رویہ ہے اور اسکی وجہ وہی نیک نیتی ہے کہ لوگوں کو ذکر کی جانب راغب کیا جائے۔

مخصوص بزرگوں کی صحبت اور طریقے کو لازم سمجھ لینا

کسی بزرگ کی بیعت، مراقبہ وظیفہ وغیرہ کو ذکر کے لئے لازم سمجھنا بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے جبکہ حقیقت میں یہ تمام طریقے لوگوں نے اپنے زمانے  کے حالات کے لحاظ سے وضع کئے  اور اس کا اسوہ رسول سے کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔

ذکر کے فوائد اور نتائج

اللہ سے تعلق میں مضبوطی: [19:59] ذکر کا اولین فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بندگی اور اطاعت کا تعلق مضبوط تر اور ارتقا ء پذیر  ہوتا ہے۔

توبہ میں آسانی: [135:3] بندہ جب کوئی نادانی میں خطا کر بیٹھتا ہے  تو بے اختیار اللہ کویاد کرتا، اسکی مغفرت   کی جانب کا رجوع کرتا اور اسکے خوف سے اسی کی رحمت کے دامن میں خود کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔

خشیت اور دل کی نرمی کا حصول: [16:57]اللہ کی یاد  کی تکرار  سے دل نرم ہوتا، حساسیت بڑھتی اور  قلب نیکیوں کی جانب مائل ہوتا ہے۔

دعا کی ترغیب: [191:3] دعا کا مطلب اللہ کو پکارنا ہے اور یہ پکار اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب اللہ کا خیال اور تصور  ہر وقت دل میں موجود رہے۔

ایمان کا ارتقاء: [2:8]اللہ کا ذکر اور یاد جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اللہ کی صفات اور سنن  کا ادراک ہوگا  جس سے اللہ پر یقین اور ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔

خواہش پرستی سے گریز: [37:24] اللہ کا ذکر انسان کو آخرت کی یاد دلاتا اور اخروی دنیا سے  قریب کر دیتا ہے۔اس سے دنیا کی غیر ضروری  محبت   ہوتی اور خواہش پرستی کا استیصال ہوتا ہے۔

اطمینان قلب: [28:13]  اللہ کا ذکر جذباتی، عقلی اور نفسیاتی خلا کو پر کرکے اطمینان قلب کا باعث بنتا ہے۔

تقوٰی کا حصول: [23:39] ذکر الٰہی اللہ کا خوف پیدا کرتا ، اسے ہر لمحے ذہن میں تازہ رکھتا اور نازک نفسیاتی مواقع پر  اللہ کی ناراضگی کو ملحوظ خاطر رکھواتا ہے۔چنانچہ بھول چوک سے کوئی خطا تو ممکن ہے لیکن ایک ذاکر کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ گناہوں کی زندگی کو اوڑھنا بچھونا بنالے۔

اچھی صفات کو اپنانے میں آسانی: [35:22]  ذکر الٰہی مومن میں نرم دلی، معاونت، عفو و درگزر، سچائی اور دیگر صفات پیدا کرتا ہے۔

ذکر الٰہی سے متعلق سوال و جواب

سوال نمبر 1:میں اکثر اللہ کا ذکر ، تسبیح وغیرہ کرتا ہوں لیکن کوئی کیفیت پیدا نہیں ہوتی نیز نمازوں میں بھی نہ رونا آتا ہے اور نہ رقت طاری ہوتی ہے۔کیا میرا ذکر اور نمازیں قبول نہیں ہورہی ہیں؟

جواب: اللہ کے ذکر اور نماز کا کا بنیادی مقصد اللہ کو راضی کرنا اور انکے حکم کی بجا آوری ہے۔کیفیت کا پیدا ہونا یا نہ ہونا نہ تو مطلوب ہے اور نہ ہی انسان کے اختیار میں ہے۔  اسی طرح رقت کا طاری ہونا ایک اچھی علامت خشیت تو ہے لیکن یہ غیر اختیاری امر ہے۔لہٰذا رقت  یا کیفیت کو نماز کی قبولیت کا پیمانہ سمجھنا قطعی طور پر غلط ہے۔

سوال نمبر 2۔ مجھے ایک بزرگ نے  کیفیت ، سرور اور کشف  کے حصول کے لئے ایک وظیفہ تجویز کیا کیا یہ درست طرز عمل ہے ؟

جواب۔  اللہ کے ذکر کا مقصد اللہ کو یاد کرکے انکی رضاجوئی کرنا اور نافرمانی سے رک جانا ہے۔  جو شخص کیفیت اور لذت کے لئے اللہ کا ذکر کرتا ہے تو وہ ایک طرح سے ذکر کی اصل روح کو چھوڑ بیٹھتا ہے جس سے اجر میں کمی آسکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص ٹرین کے ذریعے کراچی سے لاہور جاتا ہے تو اسکا اصل مقصد لاہور پہنچنا ہے۔ لیکن دوران سفر ارد گرد کے نظاروں سے محظوظ ہوتا اور ہر اسٹیشن پر اتر کر  ان مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے جس میں کوئی قباحت نہیں۔لیکن اگر وہ اس لطف میں کھو کر لاہور پہنچنے کا مقصد کو بھول جائے تو ممکن ہے کہ وہ لاہور دیر سے پہنچے یا پہنچ ہی نہ پائے۔ چنانچہ کیفیت کو  ذکر کی بائی پراڈکٹ سمجھنا چاہئے نا کہ اصل مقصد۔اسی طرح کشف و کرامات کا تعلق نفس کی مخصوص مشقوں سے ہے اس کا تعلق براہ راست ذکر الٰہی سے نہیں۔

سوال نمبر 3۔ میں سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم کا ورد دن میں ہر وقت کرتا رہتا ہوں کیا یہ درست ہے ؟ یا مجھے گن کر ورد کرنا چاہئے؟

جواب۔ گننے یا نہ گننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ کچھ طبیعتیں  ذکر کو معین مقدار میں کرنے کی عادی ہوتی ہیں اور اس سے ایک پابندی پیدا ہوجاتی ہے ۔اسی طرح کچھ مزاج اس پابندی سے وحشت زدہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ آپ اپنے مزاج سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ البتہ ہر وقت ایک ہی تسبیح کا ورد یکسانیت اور غیر فطری طرز عمل  کو جنم دے سکتا ہے۔ چنانچہ مختلف اوقات میں مختلف  مسنون دعائیں پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ نیز ہر وقت قولی تسبیح کی بجائے کائنات پر غور و فکر کرنا اور ان سے اللہ کو یاد کرنے کی عادت ڈالنا بھی ذکر ہی کی ایک صورت ہے۔

سوال نمبر 4۔ تسبیح کے دانوں پر ذکر کرنا کیسا ہے؟

جواب۔ اس  بارےمیں دو نقطہ نظر ہیں۔ ایک گروہ کاخیال ہے کہ دانوں والی تسبیح کا استعمال  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ، نیز اس سے ریاکاری کاشبہ ہوتا ہے چنانچہ اس کا استعمال مناسب نہیں۔ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ تسبیح کا استعمال گناہوں سے دور کرتا اور ذکر پر اکسا تا ہے چنانچہ اس کا استعمال مستحسن ہے۔میرا رحجان پہلے گروہ کی جانب ہے۔

سوال نمبر 5۔ میں اوراد وظائف  کی ایک کتاب  میں موجود وطائف پابندی سے پڑھتی ہوں۔ کیا اس کا پڑھنا ذکر کرنے کے زمرے میں آتا ہے؟

 جواب۔اوراد وظائف مختلف  لوگوں نے مرتب کی ہے۔ یہ کتاب قرآن کی منتخب سورتوں، مختلف اقسام کے درود شریف ، دعاؤں، آداب اور فضائل پر مبنی ہے۔ اس کتاب میں چند سورتوں   اور کچھ مستند دعاؤں کے علاوہ  زیادہ تر درود شریف، وظائف اور دعائیں   نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ انہیں بعد کے بزرگوں نے اپنی طبع کے مطابق ترتیب دیا ہے ۔ چنانچہ ایسے اذکار جن میں اللہ کی یاد کا کوئی پہلو موجود ہو ان کو اگر صحیح شعور   کے ساتھ پڑھا جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہ سب کچھ تو اپنی زبان میں  بھی پڑھا جاسکتا ہے اور اس کے لئے عربی  زبان یا کسی وظیفے کی کتاب کی کوئی خاص ضرورت نہیں  ۔

سوال نمبر 6۔ کیا  دنیاوی مقاصد کے حصول  جیسے ملازمت ، شادی کرانایا  کسی بیماری کےعلاج کی نیت سے وظائف پڑھنا درست ہے؟

جواب۔ اصولی بات تو یوں سمجھ لیں کہ دین کا بنیادی مقصد انسان کو ان اصولوں کی تعلیم دینا ہے جن میں اس کی عقل اور فطرت ٹھوکر کھاسکتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں سور کی حرمت تو جگہ جگہ بیان ہوئی ہے لیکن زہر کو کہیں حرام نہیں کیا گیا کیونکہ انسانی عقل اس کو یونہی حرام سمجھتی ہے۔ چنانچہ دنیاوی مقاصد کے حصول  اور علاج کے وہ طریقے دنیاوی اسباب کے تحت فیصلہ کرنا  ہی مناسب ہوتا ہے البتہ اللہ سے دعا مانگی جاسکتی ہے اور یہ کسی بھی زبان میں ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ملازمت   کا حصول یا رشتوں کا طے کرانا وغیرہ اسبا ب کی دنیا کے معاملات ہیں چنانچہ ان میں کوئی وظیفہ کی بجائے تدبیر اور پھر دعا کرنا ہی درست ہے۔

البتہ کچھ امور ایسے ہیں جو مادی دائرہ کار میں نہیں آتے جیسے جادو ٹونہ  یا جنات کے اثرات وغیرہ ۔ ان کے علاج کے لئے صرف مسنون  اور مستنددعائیں اور وظائف سے مدد لی جاسکتی ہے۔

سوال نمبر 7۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ دوران حمل اگر سورہ محمد کثرت سے پڑھی جائے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔  اسی طرح ادورادظائف   کے  صفحہ نمبر 192 پر درج ہے کہ اگر جسم پر فالج گرجائے تو  فتبارک اللہ احسن الخٰلقین پڑھنا چاہئے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب۔ ہماری سوسائٹی میں اکثر لوگ سنی سنائی بات آگے بیان کردیتے ہیں اور لوگ ان کو درست سمجھ کر اس پر عمل شروع کردیتے اور پھر توہمات کی دنیا میں بھٹکتے پھرتے ہیں۔کوئی بھی وظیفہ کے بارے میں جب بھی  سنیں تو اس کا  مستندحوالہ معلوم کریں  کیونکہ کوئی بات کسی کے کہنے یا کتاب میں درج ہوجانے سے درست نہیں ہوجاتی۔ اگر حوالہ نہ ملے یا وہ حوالہ مستند نہ ہو تو اسے قابل توجہ نہ سمجھیں خواہ وہ کتنی ہی مشہور بات کیوں نہ ہو۔

اورادظائف   کے جس وظیفے کی آپ نے بات کی ہے  اس کا  کوئی حوالہ موجود نہیں کہ یہ کن صاحب  نے کس موقع پر کہا۔  اس پر عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی ایک عام شخص کے مشورے پر دوائی کھانا شروع کردے ۔غالب گمان ہے کہ اس وظیفے کو تخلیق کرنے والے بزرگ کے نزدیک اس کا مفہوم ذہن میں  ہوگا ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ “پھر  اللہ بڑی برکت والا اور پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر تخلیق کرنے والا ہے”۔ چنانچہ اللہ کی  اس تعریف کے ساتھ دعا  کی جائے کہ آپ بہترین تخلیق کرنے والے ہیں تو ہمارے فلاں عزیز  کی فالج کا نقص درست کردیں  تو امکان ہے اللہ تعالیٰ دعا قبو ل کرلیں۔ لیکن  اس وظیفے کے الفاظ کو اسم اعظم  سمجھ کر پڑھنا   عبث ہے۔ یہی معاملہ دیگر وظائف کا بھی ہے۔ جہاں تک سور ہ محمد پڑھنے سے اولاد نرینہ ہونے کا تعلق ہے تو اس کا کوئی ثبوت کسی حدیث میں نہیں ملتا ۔

سوال نمبر 8۔ کیا آیت الکرسی پڑھنے سے ہم اللہ کی پناہ میں آجاتے ہیں؟

جواب۔ جی ہاں کیونکہ آیت الکرسی کے بارے میں صحیح احادیث میں اس کا بیان ہے نیز آیت الکرسی کے مفہوم کو اگر درست شعور کے ساتھ  پڑھا اور مانا جائے تو پھر کسی مادی یا غیر مادی ہستی کا حملہ ممکن نہیں البتہ اگر اللہ کی مشیت کچھ اور ہو تو اور بات ہے۔

سوال نمبر 9۔ نماز میں ارتکاز توجہ پیدا نہیں ہوتی بلکہ خیالات بھٹکتے رہتے ہیں ۔ میں کیا کروں؟

جواب۔ نماز میں ارتکاز توجہ کے لئے تین تدابیر اختیار کیجئے۔ پہلی یہ کہ جو کچھ بھی نماز میں پڑھیں اس کا اردو ترجمہ  یا مفہوم ذہن میں رہے۔ دوسرا یہ کہ نماز میں تسبیحات کو بدل بدل کر پڑھیں ۔ ہمارے ہاں لوگوں کو صرف ایک ہی طرح کی تسبیحات سکھائی جاتی ہیں جس سے یکسانیت پیدا ہوجاتی ہے۔حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثناء، رکوع، قومہ، سجدہ، قعدہ اور تشہد کی ایک سے زیادہ دعائیں منقول ہیں۔اس کی تفصیل حصن حصین یا دیگر مستند کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ تیسری تدبیر یہ ہے کہ کچھ طویل سورتیں یاد کریں اور انہیں نفل نمازوں میں پڑھنا شروع کریں۔ اس سے بھی دھیان  نماز میں لگا رہے گا۔

آخری مضمون ۔ ذکر الٰہی پر قرآن کا تبصرہ

اللہ کا ذکر  ایک بڑا عظیم کام ہے۔ [ 29:  45]

 اے اہل ایمان خدا کا بہت ذکر کیا کرو۔ [41:33]

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے ایسا کر دیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے یہ بد کردار لوگ ہیں ۔[19:59]

کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں۔ [16:57]

اور وہ کہ جب کوئی کھلا گناہ یا اپنے حق میں کوئی اور برائی کر بیٹھتے ہیں تو خدا کو یاد کرتے ہیں۔ [135:3]

جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) اے پروردگار تو نے اس (مخلوق) کو بےفائدہ نہیں پیدا کیا۔ تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لینا۔ [191:3]

مومن تو وہ ہیں کہ جب خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب انہیں اسکی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ [۲:۸]

 (یعنی ایسے) لوگ جن کو خدا کے ذکر اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے نہ خرید و فروخت۔ وہ اس دن سے جب دل (خوف اور گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں۔ [37:24]

منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم۔ [142:4]

اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہو جاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں۔ [45:39]

(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں (انکو) اور سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں۔ [28:13]

خدا نے نہایت اچھی باتیں نازل فرمائی ہیں (یعنی) کتاب (جس کی آیتیں باہم) ملتی جلتی (ہیں) اور دہرائی جاتی (ہیں) جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کے بدن کے (اس سے) رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ان کے بدن اور دل نرم (ہو کر) خدا کی یاد کی طرف (متوجہ) ہو جاتے ہیں یہی خدا کی ہدایت ہے وہ اس سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جس کو خدا گمراہ کرے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ [23:39]

 (اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم یہ) کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو کچھ شک نہیں کہ نماز بےحیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے اور خدا کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اسے جانتا ہے۔ [49:29]

یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور (جب) ان پر مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور نماز آداب سے پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ [۳۵:۲۲]

اور جو کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کر لے (یعنی تغافل کرے) ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔ [ 43:36]

اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کر کے اڑھائیں گے۔ [124:20]

 مومنو تمہارا مال اور تمہاری اولاد تم کو خدا کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔  [9:63]

شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جُوئے کے سبب تمہارے آپس میں دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تم کو (ان کاموں سے) باز رہنا چاہئے۔ [91:5]

 (پروفیسر محمد عقیل، aqilkhans.wordpress.com, aqilkhans@gmail.com )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں  کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ ایک ہفتے میں صبح اٹھنے اور رات کو سونے کی دعا مفہوم کے ساتھ یاد کریں ۔

۔۔۔۔۔۔ ایک مہینے میں ان دس دعاؤں کے ترجمے یاد کریں جو آپ کو عربی میں یاد ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ چھ ماہ میں قرآن میں بیان کردہ تمام دعائیں مفہوم کے ساتھ یاد کریں۔

۔۔۔۔۔۔ تفکر کے لئے   سورہ رحمٰن کو غور سے پڑھیں اور اس میں اللہ کی بیان کردہ صفات کے نام لکھیں۔

۔۔۔۔۔۔ سورہ نبا کا مطالعہ کریں اور مختلف تفاسیر کو پڑھنے کے بعد متعین صورت میں بیان کریں کہ اس میں آخرت کے کون کون سے دلائل بیان کئے گئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ آیت الکرسی کا ترجمہ پڑھیں اور بیان کریں کہ یہ اللہ کے ذکر میں یہ کس طرح معاون ہوسکتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔ وہ کون کون سے مواقع ہیں جب آپ کو اللہ تعالیٰ یاد آتے ہیں؟ ان کی وجہ بیان کریں۔

۔۔۔۔۔۔ اللہ کے ذکر کرنے کے مختلف طریقے لکھیں اور آپ اپنے لئے کوئی ایک طریقہ منتخب کریں۔

۔۔۔۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بیس دعائیں ترجمے کے ساتھ  لکھیں اور ان کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان کریں۔

۔۔۔۔۔۔ ذکر کی تعریف ، اقسام اور اسباب اپنے الفاظ میں بیان کریں ۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

اللہ کی یاد اور ذکر
Scroll to top