توحید پر ایمان کے بعدنمازہی دینِ اسلام کا اگلا اور اہم ترین رکن ہے۔ بندہ جونہی اپنی زبان سے اللہ کے معبود ہونے کا اقرار کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے اس اقرارِ بندگی کی عملی تعبیرنماز کی صورت میں پیش کرنی فرض ہو جاتی ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے نماز کا انکار کرنے والے شخص کو فقہاء دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔نماز کا بنیادی مقصد خدا کی یاد ،اسکی حمدو ثنا اور اس سے اپنی بندگی کا اظہارہے۔ نماز کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اس ضمن میں غفلت کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مستقل نمازیوں کی تعداد محض پندرہ سے بیس فیصد ہے جبکہ اکثریت یا تو جمعہ کو نماز پڑھتی ہے یا سرے سے پڑھتی ہی نہیں۔
آرٹیکل کا بنیادی مقصد
اگر نمازسے متعلق دستیاب اردو لٹریچر کا جائزہ لیا جائے تو ا فقہی اور علمی پہلو پر تو بہت ضخیم مواد موجود ہے لیکن عملی اور نفسیاتی امور پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس مضمون کا بنیادی مقصدنماز کے ان پہلووٗں پر روشنی ڈالنا ہے جو عملی اورنفسیاتی ہیں مثلاََ نماز سے متعلق لوگوں کا رویہ ، نماز نہ پڑھنے کے اسبا ب اور انکا تدارک، نماز میں آنے والے وسوسوں اور دیگر آفات کا بیان وغیرہ۔ مزید یہ کہ ایک ایسا عملی پروگرام مرتّب کرنا کہ ہر قسم کے اشخاص استفادہ حاصل کرکے پانچ وقت کی نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کے عادی ہو جائیں۔
نماز سے متعلق لوگوں کی اقسام
نماز کے حوالے سے تین مختلف اقسام کے افراد پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو پانچ وقت کے نمازی ہیں انہیں مستقل نمازی کہا جاسکتا ہے، دوسرے وہ جو جمعہ کے علاوہ بھی کچھ نمازیں پڑھ لیتے ہیں یہ غیر مسقل مزاج نمازی ہیں، تیسرے وہ جو صرف جمعہ کی نمازیں پڑھتے ہیں یا جمعے کی نماز سے بھی روگردانی کرتے ہیں انہیں تفہیم کے لئے بے نمازی کہا جاسکتا ہے۔آپ کا ابتدائی کام یہ ہے کہ آپ متعین کریں آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے پھر آپ اس گروہ سے متعلق تجزیہ اور ہدایات پر غور کرکے عمل کریں۔
بے نمازی یا جمعے کے نمازی
اس گروہ میں شامل افراد صرف جمعہ کی نماز پڑھتے ہیں یا وہ بھی نہیں پڑھتے ۔اگر آپکا تعلق اس گروہ سے ہے توآپ کی نماز نہ پڑھنے کے یہ اسباب ہو سکتے ہیں: ۱۔اللہ پر ایمان اور یقین کی کمزوری۔ ۲۔آخرت کی جوابدہی سے لاپرواہی ۔ ۳۔آخرت میں کسی کی شفاعت پر بھروسہ ۴۔دنیا کی محبت اور دنیاوی مصروفیات کی زیادتی ۔ ۵۔َ نماز کی دینِ اسلام میں اہمیت سے ناواقفیت۔ ۶۔ سستی اور کاہلی
ایک بے نمازی کے نماز نہ پڑھنے کی ان میں سے کوئی ایک یا متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان تمام اسباب کا بنیادی سبب اللہ پر یقین کی کمی یا آخرت کے بارے میں غلط فہمی ہے۔ اس ضمن میں آپ سے گذارش ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ آپ نے اقرار کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،اس قولی اقرار کے بعد آپ نے اپنے وجود، عمل اور طرزِ زندگی سے اس قول کو ثابت کرنا اور اس پر ثابت قدم رہنا ہے اور اس ثبوت کی فراہمی میں ناکامی کے نتائج خوشگوار نہیں۔
آخرت کی شفاعت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے اصول اللہ تعالیٰ نے متعین کردیئے ہیں کہ یہ شفاعت اللہ کے اذن سے ہوگی لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ خدا اپنے ہی حکم کو کسی کی سفارش سے باطل کروادے۔ اسی طرح شفاعت کرنے والا حق بات کے سوا کچھ نہ بولے گا یعنی وہ کسی باطل فعل کے حق میں سفارش نہیں کر سکتا۔
دنیا کی محبت بھی دنیاوی مصروفیات کو بہت اہم بناتی اور نماز سے روگردانی پر اکساتی ہے۔ دنیا وی امور میں دلچسپی بذاتِ خود کوئی بری شے نہیں لیکن اگر یہ محبت اور مصروفیت آخرت کی دائمی ناکامی کا باعث بنے تو عقل مندی نہیں کیونکہ عارضی کامیابی کبھی بھی دائمی ناکامی کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
نماز کی اہمیت سے ناواقفیت اور سستی و کاہلی بھی نمازسے روگردانی کا سبب ہو سکتی ہے اسکا تعلق عملی کمزوری سے ہے جسکا علاج آگے بتایا گیا ہے۔ چنانچہ آپ حضرات سے گذارش ہے کہ آپ دین کے بارے میں اپنے رویہ کا نیک نیتی سے جائزہ لیں اور اپنی منزل متعین کریں، اسلامی کتب کا مطالعہ کریں اور اہلِ علم سے اس مسئلے کو ڈسکس کریں جیسے آپ کسی موذی مرض کے لاحق ہونے پر معالج کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
غیر مستقل مزاج نمازی
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو جمعہ کے علاوہ بھی نماز ادا کرتے ہیں لیکن اس پر مستقل مزاجی نہیں رکھ پاتے جس کے نتیجے میں نمازیں قضا بھی ہو جاتی ہیں ۔اس رویہ کے مندرجہ بالا اسباب کے علاوہ درج ذیل اسباب ہوسکتے ہیں۔ ۱۔سستی و کاہلی ۲۔ مصروفیت ۳۔قوتِ ارادی کی کمزوری ۴۔نماز میں دل نہ لگنا
اس گروہ کے اشخاص کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ نماز کی ادائیگی پر نظری طور پر بالکل آمادہ ہیں لیکن چند عملی کوتاہیوں کے سبب اس تقاضے کو پورا کرنے سے قاصر ہیں۔سستی کا عذر، مصروفیت کا بہانہ، نماز میں دل نہ لگنا وغیرہ کا بنیادی سبب قوتِ ارادی کی کمی ہی ہے جو نماز کو بروقت یا پابندی سے ادا کرنے میں مانع ثابت ہوتی ہے۔اس صورتحال سے نبٹنے کے لیئے ذیل کی ہدایات پر عمل کریں۔ پہلے مرحلے میں یہ جائزہ لیں کہ کونسی نماز یا نمازیں آپ پر مشکل پڑتی ہیں اور انکے کیا اسباب ہیں مثال کے طور پر فجراور عشاء کی نماز چھوڑنے کا سبب بالعموم نیند ،تھکاوٹ اور سستی ہوتا ہے۔اسی طرح ظہر اور عصر ترک کرنے کا سبب کاروباری و دنیاوی مشاغل کا غلبہ ہے۔جبکہ مغرب سے فرار کی عمومی وجہ دورانِ سفر ہونا اور خواتین کا کھانا پکانے کی مصروفیت ہوسکتی ہے۔چنانچہ آپ یہ معلوم کرلیں کہ آپ کون سی نمازیں چھوڑتے ہیں اور اسکا سبب کیا ہے۔ سبب معلوم کرکے اسکا علاج دریافت کریں اور کسی مشکل کی صورت میں آخر میں دئیے گئے ای میل پر رابطہ کریں۔
دوسرے مرحلے میں۲۴ گھنٹوں میں کم از کم ایک وقت کی نماز اسکے وقت پڑھنے کی کوشش کریں اور رات کو سونے سے پہلے دن بھر کی تمام قضاہو جانے والی فر ض نمازیں ادا کریں۔ کم ازکم ایک مہینے تک آپ اس عمل کو جاری رکھیں۔ہر قضا ہو جانے والی نماز اللہ سے توبہ کریں اور اپنی ندامت کا اظہار کریں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہر قضا نماز پر اپنے اوپر جرمانہ مقرر کریں جو مالی، بدنی یا دونوں طرح کی مشقت کا ملغوبہ ہو سکتا ہے۔ مثلاََ ہر نماز قضا ہوجانے کی صورت میں ۵۰۰ روپے اللہ کی راہ میں کسی مستحق کو دے دیں۔ یا پھر ہر قضا نماز کی ادائیگی کے ساتھ چار نوافل اضافی پڑھیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ یہ جرمانہ نہ تو اتنا آسان ہو کہ آپ کی طبیعت پر کوئی اثر نہ ہو اور نہ ہی اتنا مشکل کہ ناقابلِ عمل ہو۔
اس عمل کے دوران اللہ سے کامیابی کی دعا کرتے رہیں اور کسی بھی ناکامی کی صورت میں ہمت نہ ہاریں مثلاََ اگر کوشش کے باوجود کسی دن نماز نہ پڑھی تو یہ نہیں کہ اب خود کو بالکل ہی لعنت زدہ سمجھ کر آئندہ کی نمازوں سے بری الذمہ ہو گئے۔ یہ شیطانی وسوسہ ہے۔کسی بھی ناکامی کی صورت میں سابقہ عمل پر استقامت اور جرمانے کا ارادہ ہی نفس کو نکیل ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے۔قضا نمازوں کو رات میں پڑھنے کے عمل کو تقریباََ ایک سے دو مہینے تک جاری رکھیں۔ دو مہینے کے بعدآپ میں اتنی استقامت انشاء اللہ آجائیگی کہ آپ نماز اسکے وقت پر پڑھنے کے قابل ہو جائیں گے۔لیکن اگر دو مہینے میں ایسا نہ ہو تو راہنمائی کے لئے اس مضمون کے آخر میں دئیے گئے ای میل پر رابطہ کریں۔
مسقل نمازی
آخری صورت ان لوگوں کی ہے جو پانچ اوقات کی نمازیں پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔یہ ایک بہت ہی مستحسن مقام ہے لیکن چونکہ انسان کا ہر عمل کامل نہیں ہوتا لہٰذا پنج وقتہ نمازیوں کے لیئے بھی بہتری کی گنجائش اور متعلق آفات سے نبٹنے کے لئے مستعدی کی ضرورت ہے۔ مستقل نمازی جن آفات اور کوتاہیوں کا شکار ہو سکتے ہیں وہ یہ ہیں۔ ۱۔وسوسوں کی یلغار ۲۔ریا کاری ۳۔ جلد بازی ۴۔ نماز میں خشوع و خضوع سے محرومی ۴۔نماز کے ثمرات (فحش و منکرات سے بچنا یا خدا کی یاد کا دل میں بس جانا، سکونِ قلب کا حصول وغیرہ)سے محرومی ۵۔با جماعت نماز میں کوتاہی ۶۔ نوافل ادا نہ کرنا
پہلی کوتاہی جس کا ایک نمازی شکار ہوسکتا ہے وہ وساوس کا حملہ ہے۔ عموماََ نماز ہی میں بھولی بسری باتیں یاد آتی ہیں بعض اوقات انہی لایعنی خیالات کی رو بہک کر نمازی رکوع کی جگہ سجدہ کر بیٹھتااور سورۂ فاتحہ کی جگہ التحیات پڑھ لیتاہے۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وہ وسوسے جو غیر اختیاری ہیں ان پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے پر نکیر ہے۔ وسوسوں کا بنیادی سبب نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کا ناقابلِ فہم ہونا ہے۔ اسکا علاج یہ ہے کہ پہلے مرحلے میں سورۂ فاتحہ اور رکوع و سجود میں پڑھی جانے والی تسبیحات کا اردو ترجمہ یاد کرلیا جائے۔پھر ان سورتوں کا ترجمہ بھی یاد کیا جائے جو آپ نماز میں پڑھتے ہیں۔ ہر آیت یا تسبیح کی ادائیگی سے پہلے اسکے مفہوم کو ذہن میں لاکر کچھ توقف کیا جائے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ کوئی آیت یا تسبیح ادا کرتے وقت یہ سوچیں کہ آپ کلمہ ادا کرنے کی نیت کر رہے ہیں۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ نوافل اور جہری نمازوں میں ہلکی سی بلند آواز میں اس طرح قرآت کی جائے کہ دیگر نمازی متاثّر نہ ہوں۔ اس سے بھی وسوسہ رفع کرنے میں مدد ملے گی۔
دوسری کوتاہی ریاکاری ہے۔ بعض اوقات اپنے ساتھیوں کو دکھانے یا متاثّر کرنے کے لئے بھی کچھ لوگ نماز پڑھتے ہیں ۔ اسکا علاج یہ نہیں کہ نماز چھوڑ دی جائے بلکہ ریا کاری کا سدّباب کیا جائے۔ اسکا طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھنے کے مقامات تبدیل کردیں جہاں ریاکاری ہونے کا اندیشہ ہو مزید یہ کہ تنہائیوں میں بھی نماز ادا کرنے پر زور دیا جائے۔
تیسری آفت نماز جلد بازی سے ادا کرنا ہے۔ اسکا ایک سبب مفہوم وفلسفے سے نا بلد ہونا جبکہ دوسرا سبب نماز کے بعد کئے جانے والے دنیاوی کاموں کا خیال ہے۔ پہلی وجہ کا تدارک تو وسوسوں کے علاج میں موجود ہے جبکہ دوسرا نسخہ یہ ہے کہ نماز کے بعد کئے جانے والے تمام ممکنہ امور کو ذہن سے نکال دیا جائے اور ہر نماز کے بعد کچھ دیر پانچ یا دس منٹ تسبیحات اور ذکر میں مشغول رہا جائے اسطرح ذہن اور اعضاء سکون میں رہیں گے۔
خشوع، خضوع ، ارتکاز، حضوری قلب اور خدا کی یاد کے ثمرات سے محرومی بھی ایک آفت ہے جسکا شکار اکثر نمازی ہوتے ہیں۔ اس محرومی کے اسباب نماز کے فلسفے سے ناواقفیت، مطلوب تصورات کی کمزوری، یکسانیت اور تنہائی کا میسّر نہ آنا ہیں۔اسکا علاج یہ ہے کہ نماز کے ہر رکن یعنی قیام، رکوع، سجدہ، جلسہ وغیرہ کی حکمت پر مطالعہ کیا جائے کہ میں کس طرح اللہ رب العٰلمین کے حضور کھڑا ہوں، وہ مجھے دیکھ رہا ہے میں اپنا چہرہ اسکے قدموں میں رکھ کر اسکی محبت، شفقت اور رحم کی بھیک مانگ رہا ہوں ۔کبھی کھڑا ہوکر، کبھی بیٹھ کرکبھی جھک کر اور کبھی اٹھ کراسکی یاد سے اپنے سینے کو منوّر کررہا ہوں۔
اسکا دوسرا طریقہ جائز تصورات کو دل میں لانا ہے مثلاََ جنّت و دوزخ کا تصور، خدا کے دربار کا خیال، قیامت کی ہولناکی کے مناظر وغیرہ۔تصوّر میں ارتکاز اور پختگی پیدا کرنے کے لئے اگر نفل نمازوں میں آنکھیں بند کرلی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ یکسانیت سے نبٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ نماز میں سورتیں اور تسبیحات کو بدل بدل کر پڑھا جائے۔ مثال کے طور پر رکوع میں سبحانَ ربی العظیم کی جگہ کوئی اور دعا پڑھی جائے،یا تکبیر کے بعد مروّجہ ثناء کی بجائے کسی اور مسنون کلمے سے ابتدا کی جائے۔ اس سلسلے میں دعاؤں کی کتاب حصنِ حصین سے مدد لی جاسکتی ہے۔خشوع وخضوع کے حصول کا ایک اور طریقہ تنہائی ہے۔ نوافل کو بالخصوص تہجد کی نماز رات کی تنہائی میں ادا کی جائے۔
باجماعت نماز ادا کرنے میں بھی اکثر نمازی تساہل کا شکار ہوتے ہیں۔اسکا بنیادی سبب سستی اور غفلت ہی ہے۔ اس ضمن میں جماعت کے ثواب کو ذہن میں لاکر نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں بالکل ویسے ہی کہ جب دنیا میں خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے ہیں۔
بعض اوقات نمازی سنّت و نوافل سے گریز کرتے ہیں جس کا آخری نتیجہ فرائض سے روگردانی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔ خدا اور بندے کا تعلق نوافل کی ادئیگی ہی سے مظبوط ہوتا ہے۔نوافل کی ادائیگی کا بہترین وقت اور نماز تہجد کی نماز ہے اسکا افضل وقت تو رات کا آخری پہر ہی ہے ، لیکن آج کے مصروف دور میں رات کو نماز ادا کرنا اور دوسرے دن فرائض زندگی ادا کرنا اتنا آسان نہیں۔ لہٰذاعشاء کی نماز کے بعد بھی اس نماز کو ادا کرنے کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔البتہ ہفتے میں کم ازاکم ایک مرتبہ(عموماََ ویک اینڈپر) یہ نماز اپنے اصل وقت میں ادا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ آخری کلمہ: مندرجہ بالا ہدایات پر اپنے مرض کے مطابق ایک سے دو مہینے عمل کریں اور اس ضمن میں کسی بھی مشکل کی صورت میں راہنمائی کے کے لئے مندرجہ ذیل ای میل پر رابطہ کریں۔ishraqdawah@gmail.com
(پروفیسر محمد عقیل)
اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
نوٹ : یہاں مختلف درجے کے نمازیوں کے لئے ایک سوال نامہ دیا جا رہا ہے تاکہ آپ اپنے اپنے لیول کے مطابق اپنا جائزہ لے سکیں۔ اس سوال نامے کو مختلف درجے کے لوگوں کے لئے مرتب کیا گیا ہے۔ لیول ۱ بے نمازیوں کے لئے ہے۔ لیول ۲ غیر مستقل مزاج نمازیوں کے لئے ہے جب لیول ۳ مستقل نمازیوں کے لئے ہے۔ آپ خود کو جس لیول پر سمجھتے ہیں، اس کے مطابق سوالنامہ پر کریں۔ کسی سوال میں جب آپ سے کسی کام کا پوچھا جائے تو اس کا جواب ہاں میں اسی صورت میں دیجیے جب آپ اس کام کو کم از کم ایک مہینے سے مسلسل کر رہے ہوں۔
سوال نامہ برائے لیول 1 (بے نمازیوں کے لیے)
یہ سوال نامہ ان لوگوں کے لئے ہے جو نماز نہیں پڑھتے۔ اس سوالنامے کی مدد سے اپنا اسکور معلوم کریں اور جب اسکور سو فیصد ہو جائے تو اگلے لیول کا سوالنامہ پر کریں۔
نمبر شمار |
سوال |
ہاں |
نہیں |
1 |
نماز قضا ہونے کی صورت میں ہر رات سونے سے پہلے قضاپڑھ لیتا ہوں |
100 |
0 |
2 |
میں ہر نماز قضا ہونے کی صورت میں توبہ کرتا اورجرمانہ ادا کرتا ہوں۔ |
100 |
0 |
3 |
میں گذشتہ ایک مہینے سے دنیاوی مصروفیت کے باوجود نماز پڑھنے کو ترجیح دینے لگا ہوں۔ |
100 |
0 |
4 |
میں گذشتہ ایک مہینے سے پانچ وقت کی نمازیں وقت پر یا وقت گذرنے کے بعد پڑھنے لگا ہوں |
100 |
0 |
اگر مندرجہ بالا سوالات میں آپکا اسکور 400 ہے تو آپ اگلے لیول تک جانے کے اہل ہیں بصورتِ دیگر مزید ایک مہینے تک ہدایات پر عمل کریں یا ای میل پر رجوع کریں۔
سوال نامہ برائے لیول 2( غیر مستقل مزاج نمازیوں کے لیے)
نمبر شمار |
سوال |
ہاں |
نہیں |
1 |
میں نیند کے غلبے کے باوجود نماز (بالخصوص فجر کی نماز) وقت پر پڑھ لیتا ہوں |
100 |
0 |
2 |
اب میری نمازیں سستی، کاہلی یا بہانے کی وجہ سے قضا نہیں ہوتی ہیں۔ |
100 |
0 |
3 |
میں دفتری ، کاروباری، گھریلو یا کسی اور مصروفیت کی بنا پر نماز قضا نہیں کرتا۔ |
100 |
0 |
4 |
میں گذشتہ ایک مہینے سے وقت پر پانچ وقت کی نمازیں پڑھ رہا ہوں |
100 |
0 |
اگر مندرجہ بالا سوالات میں آپکا اسکور 400 ہے تو آپ اگلے لیول تک جانے کے اہل ہیں بصورتِ دیگر مزید ایک مہینے تک ہدایات پر عمل کریں یا ای میل پر رجوع کریں۔
سوال نامہ برائے لیول 3 ( مستقل نمازیوں کے لیے)
نمبر شمار |
سوال |
ہاں |
نہیں |
1 |
میں نماز کے دوران جان بوجھ کر کچھ سوچنے سے مطلقاََ گریز کرنے لگا ہوں |
100 |
0 |
2 |
مجھے یقین ہے کہ میں اپنی نماز کسی کو دکھانے یا متا ثّر کرنے کے لیئے نہیں پڑھتا۔ |
100 |
0 |
3 |
میں قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ اور قعدہ کو سکون سے ادا کرتا ہوں۔ |
100 |
0 |
4 |
میں نماز میں قرآت ٹہر ٹہر کر بنا کسی جلد بازی کے کرتا ہوں۔ |
100 |
0 |
5 |
نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں اور تسبیحات کا ترجمہ یاد کرلیا ہے اور قرآت کے وقت اسے ذہن میں رکھتا ہوں۔ |
100 |
0 |
6 |
دورانِ نماز قیام ،رکوع اور سجدہ وغیرہ کے فلسفے کو جان کر خدا کی حضوری میں نمازاد ا کرتا ہوں |
100 |
0 |
7 |
میں نماز میں خدا کے دربار، جنت، دوزخ ، قیامت وغیرہ کاتصور کرکے خشوع و خضوع کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہوں |
100 |
0 |
8 |
میں سجدے ، رکوع، قومے، جلسے اور قیام میں پڑھی جانے والی دعایءں بدل بدل کر پڑھنے لگا ہوں۔ |
100 |
0 |
9 |
میں فرض کے علاوہ سنت و نوافل بھی اداکرتا ہوں |
100 |
0 |
10 |
میں تہجّد کی نماز عشاء کے بعد یا رات کے آخری پہر میں پڑھتا ہوں |
100 |
0 |
11 |
میں نماز کے بعد بھی خدا کی یاد دل میں رکھنے کے قابل ہو جاتا ہوں |
100 |
0 |
12 |
میری نماز مجھے فحش او ر منکر باتوں اور کاموں سے روکنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ |
100 |
0 |
اگر اس لیول کا اسکور 1200 ہے تو ای میل پر رجوع پر رجوع کریں تاکہ نماز میں مزید بہتری لائی جائے۔ 1200 سے کم اسکور کی صورت میں دوبارہ ایک ماہ تک ہدایات پر عمل کریں۔
علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز
تزکیہ نفس : نماز