قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ۔ (البقرۃ 2: 104)
اے ایمان والو! ‘راعنا’ نہ کہا کرو بلکہ ‘انظرنا’ کہا کرو اور توجہ سے بات کو سنا کرو۔ یہ انکار کرنے والے تو دردناک سزا کے مستحق ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے بغض رکھنے والے بعض یہودی اور منافقین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو ظاہری احترام کو برقرار رکھتے ہوئے بھی ان کی یہ کوشش ہوا کرتی کہ وہ کسی طرح آپ کی شان میں بے ادبی کر سکیں۔
جو شخص ارادے کا پکا ہو، وہ دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ گوئٹے |
‘راعنا’ ایک ذو معنی لفظ تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی گفتگو سنتے ہوئے اگر کبھی کوئی بات سمجھ نہ پاتے تو آپ سے رعایت کی درخواست کرتے ہوئے یہ لفظ بول کر بات کو دوہرانے کے لئے کہتے۔ اس لفظ کو ذرا لچکا کر بولا جائے تو یہ ایک اہانت آمیز لفظ بن جاتا۔ اللہ تعالی نے اہل ایمان کو اس لفظ کے استعمال سے روک دیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ ایسے موقع پر ‘انظرنا’ یعنی ہم پر نظر فرمائیے کہہ کر آپ کی توجہ حاصل کریں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ بات کو پہلے ہی توجہ سے سنیں تاکہ اس کی نوبت نہ آئے۔
اس حکم کو اللہ تعالی نے قرآن مجید کا حصہ بنا دیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اپنے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی عزت و حرمت کے معاملے کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی جو حیثیت اللہ کے نزدیک ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضروری ہے آپ کی ذات والا صفات کا انتہائی درجے میں ادب و احترام کیا جائے اور کوئی ایسا لفظ نہ بولا جائے اور نہ ہی ایسا عمل کیا جائے جس سے آپ کی شان میں ادنی درجے میں بھی گستاخی کا کوئی شائبہ ہو۔ یہی رویہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بارے میں اختیار کرنا چاہیے۔
مایوسی سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ مایوسی کن وجوہات کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے؟ مایوس انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ مثبت زندگی گزارنے کا طریقہ کیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات کے لئے یہاں کلک کیجیے۔ |
موجودہ دور میں اہل مغرب کے ہاں افراط و تفریط کے جو رویے پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے ایک معاملہ یہ بھی ہے۔ انہوں نے اس بات کو آزادی اظہار کا مسئلہ بنا لیا ہے کہ کوئی شخص اگر چاہے تو اللہ کے کسی رسول کی شان میں گستاخی کر دے۔ آزادی اظہار ایک بڑی قدر ہے اور اسلام اس کو اہل مغرب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے لیکن اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ انسان کی آزادی کی حدود وہاں ختم ہو جاتی ہیں جہاں کسی دوسرے انسان کی آزادی کی حدود شروع ہوتی ہیں۔
علمی گفتگو اور سوال کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن دوسرے کے مذہب اور مذہبی شخصیات کے بارے میں گستاخانہ رویہ اختیار کرنا ایسا معاملہ ہے جہاں ان کی آزادی اظہار دوسرے کی آزادی میں دخل انداز ہو جاتی ہے۔ یہ رویہ سراسر انسانیت اور اعلی اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ ہمیں احسن انداز میں اپنا نقطہ نظر دنیا کے سامنے واضح کر دینا چاہیے اور اہل مغرب کو اس بات کی دعوت دینا چاہیے کہ ان کی جانب سے ایسا رویہ اختیار کرنا سراسر بدتہذیبی اور بداخلاقی ہے جس کی اصلاح ان پر لازم ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم دوسرے مذاہب کی محترم شخصیات کے بارے میں احترام کا رویہ اختیار کریں تاکہ امن اور سکون کے ماحول میں مثبت مکالمے کا عمل جاری رہ سکے۔
(مصنف: محمد مبشر نذیر)
آپ کے سوالات اور تاثرات سے دوسرے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اپنے سوالات اور تاثرات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے۔ اگر یہ تحریر آپ کو اچھی لگی ہو تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ mubashirnazir100@gmail.com |
غور فرمائیے
۔۔۔۔۔ اللہ کے رسول کا ادب کیوں ضروری ہے؟
۔۔۔۔۔ موجودہ دور میں آزادی اظہار کے نام پر جس بدتہذیبی اور بدتمیزی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں؟
اپنے جوابات بذریعہ ای میل اردو یا انگریزی میں ارسال فرمائیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔
علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز