انسانی حقوق: اسلام اور مغرب کا تقابلی جائزہ

مغرب میں انسانی حقوق کا تصور

اہل مغرب [میں سے جو لوگ متعصب ہے، ان کا] کا یہ قاعدہ رہا ہے کہ وہ ہر اچھی چیز کو اپنی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ نعمت ہمارے ذریعے سے دنیا کو ملی ہے ورنہ دنیا ان چیزوں سے ناآشنا اور نری جہالت میں مبتلا تھی۔ اب ذرا اسی حقوق انسانی کے مسئلے کو دیکھیے۔ بڑے دعووں کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ اس کا تصور لوگوں کو انگلستان کے میگنا کارٹا کے ذریعے سے نصیب ہوا ہے، اگرچہ پھر بھی وہ اسلام کے 600 برس کے بعد کی چیز ہے۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سترہویں صدی کے قانون دانوں سے پہلے کسی کے ذہن میں یہ تصور موجود نہ تھا کہ میگنا کارٹا میں ٹرائل بائی جیوری، ہیبیس کارپس اور ٹیکس لگانے کے اختیارات پر پارلیمنٹ کے کنٹرول کے حقوق بھی شامل ہیں۔ اگر میگنا کارٹا کے لکھنے والے اس زمانے میں موجود ہوتے تو ان کو سخت حیرت ہوتی کہ میگنا کارٹا میں یہ چیزیں بھی موجود تھیں۔

صاحب عقل کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے اور تنہائی برے ہم نشینوں کی صحبت سے بہتر ہے۔ ہوشنگ
PU04-0004-Rights

جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے، سترہویں صدی سے پہلے اہل مغرب میں حقوق انسانی اور حقوق شہریت کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ سترہویں صدی کے بعد بھی ایک مدت تک فلسفیوں اور قانونی افکار پیش کرنے والے لوگوں نے تو ضرور اس خیال کو پیش کیا تھا۔ لیکن عملاً اس تصور کا ثبوت اٹھارہویں صدی کے آخر میں امریکہ اور فرانس کے دستوروں اور اعلانات ہی میں ملتا ہے۔ اس کے بعد مختلف ملکوں کے دستوروں میں بنیادی حقوق کا ذکر کیا ضرور گیا ہے مگر اکثر و بیشتر حالات میں یہی صورت پائی گئی ہے کہ جو حقوق کاغذ پر دیے گئے ہیں وہ زمین پر نہیں دیے گئے۔۔۔۔

اسلام میں انسانی حقوق کی اصل حیثیت

دوسری بات جو میں چاہتا ہوں کہ ابتدا ہی میں اچھی طرح واضح ہو جائے، یہ ہے کہ جب ہم اسلام میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس کے معنی دراصل یہ ہوتے ہیں کہ یہ حقوق خدا کے دیے ہوئے ہیں۔ یہ کسی بادشاہ یا کسی مجلس قانون ساز کے دیے ہوئے نہیں ہیں۔

    بادشاہوں اور قانون ساز اداروں کے دیے ہوئے حقوق جس طرح دیے جاتے ہیں، اسی طرح جب وہ چاہیں واپس بھی لئے جا سکتے ہیں۔۔۔۔ لیکن اسلام میں انسان کے جو حقوق ہیں، وہ خدا کے دیے ہوئے ہیں۔ دنیا کی کوئی مجلس قانون ساز اور دنیا کی کوئی حکومت ان کے اندر رد و بدل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ ان کو واپس لینے یا منسوخ کر دینے کا کوئی حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔ [اسلام انسان کو جو حقوق دیتا ہے، ان کی تفصیل یہ ہے:]

اسلام میں جسمانی و نظریاتی غلامی کے انسداد کی تاریخ
کیا اسلام نے غلامی کے خاتمے کے لئے کچھ اقدامات کیے یا اسلام غلامی کی حمایت کرتا ہے؟ موجودہ دور میں غلامی کی تحریک مغربی دنیا سے شروع کیوں ہوئی؟ مسلم دنیا میں غلامی کا خاتمہ کیسے اور کیوں ہوا؟ مسلم اور مغربی دنیاؤں میں موجود غلامی میں کیا فرق تھا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا میں غلامی کے خاتمے سے متعلق کیا کردار ادا کیا؟  پڑھنے کے لئے کلک کیجیے۔

انسان بحیثیت انسان کے حقوق

سب سے پہلی چیز جو اس مسئلے میں ہمیں اسلام کے اندر ملتی ہے، وہ یہ ہے کہ اسلام بجائے خود انسان بحیثیت انسان کے کچھ حقوق مقرر کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان، خواہ وہ ہمارے اپنے ملک اور وطن کا ہو یا کسی دوسرے ملک اور وطن کا، ہماری قوم کا ہو یا کسی دوسری قوم کا، مومن ہو یا [غیر مسلم]، کسی جنگل کا باشندہ ہو یا کسی صحرا میں پایا جاتا ہو، بہرحال محض انسان ہونے کی حیثیت سے، اس کے کچھ ہیں جن کو ایک مسلمان لازماً ادا کرے گا اور اس کا [دینی] فرض ہے کہ وہ انہیں ادا کرے۔

زندہ رہنے کا حق

ان میں اولین چیز زندہ رہنے کا حق، اور انسانی جان کے احترام کا فرض ہے۔ قرآن مجید ممیں فرمایا گیا ہے۔

مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعاً وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً۔ 

جس شخص نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، بغیر اس کے کہ اس سے کسی جان کا بدلہ لینا ہو، یا وہ زمین میں فساد برپا کرنے کا مجرم ہو، اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ (المائدہ 5:32)

جہاں تک خون کا بدلہ لینے یا فساد فی الارض پر سزا دینے کا سوال ہے، اس کا فیصلہ ایک عدالت ہی کر سکتی ہے یا کسی قوم سے جنگ ہو تو ایک باقاعدہ نظام حکومت ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ بہرحال کسی فرد کو انفرادی طور پر یہ حق نہیں ہے کہ وہ قصاص لے یا فساد فی الارض کی سزا دے۔ اس لئے ہر انسان پر یہ واجب ہے کہ قتل انسان کا ہرگز ارتکاب نہ کرے۔ اگر کسی نے ایک انسان کو قتل کیا تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا۔ اسی مضمون کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں اس طرح دہرایا گیا ہے کہ ۔۔۔۔

لا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ۔ 

کسی جان کو حق [یعنی قصاص یا فساد کی سزا] کے بغیر قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ (الانعام 6:151)

یہاں بھی حرمت قتل کو ایسے قتل سے مستثنی کیا گیا ہے جو حق کے ساتھ ہو، اور حق کا فیصلہ بہرحال کوئی عدالت مجاز ہی کرے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل نفس کو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اکبر الکبائر الاشراک باللہ و قتل النفس۔ ان تمام آیات و احادیث میں مطلقاً نفس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو کسی خاص نفس کو مختص نہیں کرتا کہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکے کہ اپنی قوم، یا اپنے ملک کے شہری، یا کسی خاص نسل، رنگ یا وطن، یا مذہب کے آدمی کو قتل نہ کیا جائے۔ حکم تمام انسانوں کے بارے میں ہے اور بجائے خود ہر انسانی جان کو ہلاک کرنا حرام کیا گیا ہے۔

جینے کا حق انسان کو صرف اسلام نے دیا ہے۔

اب آپ دیکھیے کہ جو لوگ حقوق انسانی کا نام لیتے ہیں، انہوں نے اگر اپنے دستوروں میں یا اعلانات میں کہیں حقوق انسانی کا ذکر کیا ہے تو فی الحقیقت اس میں یہ بات مضمر ہوتی ہے کہ یہ حقوق یا تو ان کے شہریوں کے ہیں، یا پرھ وہ ان کو سفید نسل والوں کے لئے مخصوص سمجھتے ہیں۔ جس طرح آسٹریلیا میں انسانوں کا شکار کر کے سفید نسل والوں کے لئے قدیم باشندوں سے زمین خالی کرائی گئی اور امریکہ میں وہاں کے پرانے باشندوں کی نسل کشی کی گئی اور بقیۃ السلف کو مخصوص علاقوں میں مقید کر دیا گیا، اور افریقہ کے مختلف علاقوں میں گھس کر انسانوں کو جانوروں کی طرح ہلاک کیا گیا۔ یہ ساری چیزیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ انسانی جان کا بحیثیت انسان کوئی احترام ان کے دل میں نہیں ہے۔ اگر کوئی احترام ہے تو اپنی قوم یا اپنے رنگ یا اپنی نسل کی بنیاد پر ہے۔ لیکن اسلام تمام انسانوں کے لئے اس حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص وحشی قبائل سے تعلق رکھتا ہے تو اس کا بھی اسلام انسان ہی سمجھتا ہے۔

    [مولانا مودودی کے تمام تر احترام کے باوجود ہمیں ان کے طریقہ کار میں موجود ایک غلطی کا اعتراف کرنا ہوگا۔ موصوف جب اسلام اور مغرب کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں تو اسلام کی تعلیمات کا تقابل، اہل مغرب کے عمل سے کر جاتے ہیں جس کو خود اہل مغرب بھی برا سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ درست طریقہ کار یہ ہے کہ اسلام کا تقابل، اہل مغرب کے قانون سے کیا جائے اور مسلمانوں کے عمل کا تقابل، اہل مغرب کے عمل سے کیا جائے۔ اسلام کے آئیڈیل دور یعنی خلافت راشدہ کے عمل کا تقابل اہل مغرب کے ان ادوار سے کیا جا سکتا ہے، جو ان کے نزدیک سب سے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے موجودہ مفکرین کے نزدیک موجودہ دور، ان کے نزدیک، مغرب کی تاریخ میں سب سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔

    اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ دور کے مغربی مفکرین کی اکثریت اب اپنے اسلاف کے ان کارناموں کو جرم کا درجہ دینے لگ گئی ہے اور اس پر شرمندہ ہے۔ کاش یہی فکر ان کی حکومتیں بھی اختیار کر لیں اور جو حقوق وہ اپنے شہریوں کو دیتے ہیں، انہی حقوق کو تیسری دنیا کے ممالک کے شہریوں کے لئے بھی عملاً تسلیم کر لیں۔]

حفاظت جان کا حق

قرآن مجید کو جو آیت میں نے ابھی تلاوت کی ہے، اس کے معاً بعد یہ فرمایا گیا ہے کہ

وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً۔ 

اور جس نے کسی نفس کو بچایا، اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخشی۔ (المائدہ 5:32)

آدمی کو موت سے بچانے کی بے شمار شکلیں ہیں۔ ایک آدمی بیمار یا زخمی ہے۔ قطع نظر اس سے کہ وہ کس نسل، کس قوم یا کس رنگ کا ہے، اگر وہ آپ کو بیماری کی حالت میں یا زخمی ہونے کی حالت میں ملا ہے تو آپ کا کام یہ ہے کہ اس کی بیماری یا اس کے زخم کے علاج کی فکر کریں۔ اگر وہ بھوک سے مر رہا ہے تو آپ کا کام یہ ہے کہ اس کو کھلائیں تاکہ اس کی جان محفوظ ہو جائے۔ اگر وہ ڈوب رہا ہے یا اور کسی طرح سے اس کی جان خطرے میں ہے تو آپ کا فرض ہے کہ اس کو بچائیں۔

    آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ یہودیوں کی مذہبی کتاب تالمود میں بعینہ اس آیت کا مضمون درج ہے مگر اس کی عبارت یہ ہے کہ جس نے اسرائیل کی ایک جان کو ہلاک کیا، الکتاب کی نگاہ میں اس نے گویا ساری دنیا کو ہلاک کر دیا اور جس نے اسرائیل کی ایک جان کو محفوظ رکھا، الکتاب کے نزدیک اس نے گویا ساری دنیا کی حفاظت کی۔ تالمود میں یہ بھی صاف لکھا ہے کہ اگر کوئی غیر اسرائیلی ڈوب رہا ہو اور تم نے اسے بچانے کی کوشش کی تو گنہگار ہو گے۔ نسل پرستی کا کرشمہ دیکھیے، ہم ہر انسان کی جان بچانے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کیونکہ قرآن مجید نے ایسا ہی حکم دیا ہے۔ لیکن وہ اگر بچانا ضروری سمجھتے ہیں تو صرف بنی اسرائیل کی جان کو۔ باقی رہے دوسرے انسان، تو دین یہود میں وہ انسان سمجھے ہی نہیں جاتے۔

    ان کے ہاں کوئیم کا تصور، جس کے لئے انگریزی میں  اور عربی میں امی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، یہ ہے کہ ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں۔ انسانی حقوق صرف بنی اسرائیل کے لئے مخصوص ہیں۔ قرآن مجید میں بھی اس کا ذکر آیا ہے کہ یہودی کہتے ہیں، لیس علینا فی الامیین سبیل۔ یعنی ہمارے اوپر امیوں کے بارے میں (یعنی ان کا مال مار کھانے میں) کوئی گرفت نہیں ہے۔

    [اللہ تعالی نے جو اصل شریعت بنی اسرائیل کو عنایت کی تھی، اس میں یہ تمام انسانی حقوق تمام انسانوں ہی کے لئے تھے۔ تورات میں اب بھی یہ آیت موجود ہے کہ کوئی پردیسی (غیر قوم کا فرد) تمہارے ساتھ تمہارے ملک میں رہتا ہو تو اس کے ساتھ بدسلوکی نہ کرنا۔ جو پردیسی تمہارے ساتھ رہتا ہو اس سے دیسی (اسرائیلی) جیسا برتاؤ کرنا بلکہ تم اس سے اپنے ہی مانند محبت کرنا کیونکہ تم بھی مصر میں پردیسی تھے۔ میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔ (احبار باب 19)

    جب تک بنی اسرائیل میں خلافت راشدہ کا نظام قائم رہا، اس وقت تک تمام اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کو انسانی حقوق دیے جاتے رہے۔ اپنے دور انحطاط میں انہوں نے دینی احکام میں جو تبدیلیاں کیں، ان میں سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ انہوں نے انسانی حقوق کو صرف اسرائیلیوں کے لئے مخصوص قرار دے دیا۔

    یہ واضح رہنا چاہیے کہ تالمود، خدا کی کتاب نہیں ہے بلکہ یہ بنی اسرائیل کے فقہ کی کتاب ہے۔ جس طرح مسلمانوں کی فقہ کی کسی غلطی کی بنیاد پر قرآن و سنت پر تنقید نہیں کی جا سکتی، اسی طرح یہود کی فقہ کی غلطی کی بنیاد پر اللہ کی کتاب تورات پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔ فاضل مصنف بھی دراصل بنی اسرائیل کے دور انحطاط میں پیدا ہو جانے والے دینی انحراف پر تنقید کر رہے ہیں نہ کہ اللہ کی کتاب پر۔

    یہودی علماء میں تالمود کی حیثیت وہی ہے جو ہمارے ہاں موجودہ فقہی ذخیرے کی ہے۔ جس طرح صدیوں پرانا ہونے کے باعث ہمارا فقہی ذخیرہ مقدس اور ناقابل تنقید مقام حاصل کر چکا ہے، بعینہ وہی معاملہ تالمود کا بھی ہے۔ جیسے ہمارے ہاں شخصیت پرستی اور اکابر پرستی مذہبی فکر میں گہری جڑیں پکڑ چکی ہے، ویسے ہی علمائے یہود میں اکابر پرستی اپنے عروج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں تالمود کو بھی کم و بیش وہی مقام حاصل ہو چکا ہے جو بائبل کو حاصل ہے۔

    موجودہ دور کے یہودی علماء جیسے ربی مالکیل کوٹلر وغیرہ بڑی شد و مد سے اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کے ہاں غیر اسرائیلیوں کو انسانی حقوق نہیں دیے جاتے لیکن بہرحال ان کی مذہبی کتب اور تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ خود بائبل میں غیر اسرائیلیوں سے سود لینے کو جائز قرار دیا گیا ہے جب اسرائیلیوں سے سود لینا حرام ہے۔ اسی طرح غلامی کے خاتمے کا جو قانون تورات میں بیان ہوا ہے، اسے تبدیل کر کے اسرائیلیوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔

    غلامی کے خاتمے کا جو قانون تورات میں اب بھی موجود ہے، اس میں تحریفات کس طرح سے کی گئیں، اس کی تفصیل کے لئے میری کتاب اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کا انسداد ملاحظہ فرمائیے۔

    انسانی جان کو بچانے سے متعلق تالمود کا جو حوالہ مودودی صاحب نے پیش کیا ہے، وہ باوجود تلاش کے مجھے دستیاب نہیں ہو سکا۔ تالمود میں ہمیں یہ مل سکا ہے کہ طہارت کو یہود کے ہاں انسانی جان سے زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ تالمود کے اصل الفاظ یہ ہیں۔

R. Jose said: “Their laundering takes precedence over the lives of strangers.” Footnote 18: And as it is expressed by a word meaning life, we deduce that its importance is so great that it takes precedence over the lives of strangers. (Babylonian Talmud: Seder Nashim, Tractate Nedarim, Folio 81a, www.come-and-hear.com )

آر جی روز نے کہا، صفائی غیر اسرائیلیوں کی جان سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ (فٹ نوٹ میں لکھا ہے کہ) ہم اس سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صفائی کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ یہ غیر اسرائیلیوں کی جان سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

عورت کی عصمت کا احترام

تیسری اہم چیز اسلام کے دیے ہوئے انسانی حقوق میں یہ ہے کہ عورت کی عصمت بہرحال محترم ہے، خواہ وہ اپنی قوم کی ہو، یا دشمن قوم کی، جنگل بیابان میں ملے یا کسی مفتوح شہر میں، ہماری ہم مذہب ہو یا کسی غیر مذہب سے تعلق رکھتی ہو، یا لامذہب ہو۔ مسلمان کسی حالت میں بھی اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اس کے لئے زنا کو مطلقاً حرام کیا گیا ہے خواہ اس کا ارتکاب کسی عورت سے کیا جائے۔

    قرآن مجید کے الفاظ ہیں، لا تقربوا الزنی یعنی زنا کے قریب بھی نہ پھٹک سکو۔ اور مزید برآں اس فعل کی سزا مقرر کر دی گئی ہے۔ یہ حکم کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ہے۔ عورت کی عصمت پر ہاتھ ڈالنا ہر حالت میں حرام ہے اور کوئی مسلمان اس فعل کا ارتکاب کر کے سزا سے نہیں بچ سکتا، خواہ دنیا میں سزا پائے یا آخرت میں۔ عورت کی عصمت کے احترام کا یہ تصور اسلام کے سوا کہیں نہیں پایا جاتا۔

    مغربی فوجوں کو تو اپنے ملک میں بھی رفع حاجت کے لئے خود اپنی قوم کی بیٹیاں درکار ہوتی ہیں اور غیر قوم کے ملک پر ان کا قبضہ ہو جائے تو اس ملک کی عورتوں کا جو حشر ہوتا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کی تاریخ منفرد انسانی غلطیوں سے قطع نظر، اس سے خالی رہی ہے کہ کسی ملک کو فتح کرنے کے بعد ان کی فوجیں ہر طرف عام بدکاری کرتی پھری ہوں، یا ان کے اپنے ملک میں حکومت نے ان کے لئے فاحشات فراہم کرنے کا انتظام کیا ہو۔ یہ بھی ایک بڑی نعمت ہے جو نوع انسانی کو اسلام کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے عصمت صرف عورت ہی کی نہیں، مرد کی بھی ہوتی ہے۔ جو شخص زنا کرتا ہے، وہ عورت کی عصمت ہی خراب نہیں کرتا، اپنی عصمت بھی خراب کرتا ہے۔

    [اللہ کا شکر ہے کہ موجودہ دور میں مغربی اقوام بھی خواتین کی عصمت کی حفاظت پر کم از کم قانون کی سطح پر متفق ہو چکی ہیں۔ اللہ کرے کہ ان کی افواج ان قوانین پر بھی پوری طرح عمل درآمد کر سکیں۔

    ممکن ہے یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ قرآن مجید نے ملک یمین یا لونڈیوں سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی جو اجازت دی ہے، کیا وہ خواتین کی عصمت کی حفاظت کے خلاف نہیں ہے۔ اس کی تفصیل کے لئے میری کتاب اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کا انسداد ملاحظہ فرمائیے۔

ہر سائل و محروم کا یہ حق کہ اس کی مدد کی جائے

قرآن مجید میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ و فی اموالھم حق للسائل و المحروم یعنی اور مسلمانوں کے مالوں میں مدد مانگنے والے اور محروم رہ جانے والے کا حق ہے۔ اول تو اس حکم کے الفاظ بجائے خود مطلق ہیں۔ پھر یہ حکم مکے میں دیا گیا تھا، جہاں کوئی مسلم معاشرہ باقاعدہ بنا ہی نہ تھا اور بالعموم مسلمانوں کا سابقہ غیر مسلم آبادی ہی سے پیش آتا تھا۔ اس لئے آیت کا صاف مطلب یہی ہے کہ مسلمان کے مال پر ہر مدد مانگنے والے اور ہر محروم رہ جانے والے انسان کا حق ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی قوم یا اپنے ملک کا ہو یا کسی قوم، ملک یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔

    آپ استطاعت رکھتے ہوں اور کوئی حاجت مند آپ سے مدد مانگے، یا آپ کو معلوم ہو جائے کہ وہ حاجت مند ہے تو ضرور اس کی مدد کریں۔ خدا نے آپ پر اس کا یہ حق قائم کر دیا ہے۔

ہر انسان کا حق آزادی

اسلام میں کسی آزاد انسان کو پکڑ کر غلام بنانا یا اسے بیچ ڈالنا قطعی حرام قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے صاف الفاظ یہ ہیں کہ تین قسم کے لوگ ہیں جن کے خلاف قیامت کے روز میں خود مستغیث (استغاثہ پیش کرنے والا) ہوں گا۔ ان میں ایک وہ شخص ہے جو کسی آزاد انسان کو پکڑ کر بیچے اور اس کی قیمت کھائے (رجل باع حرا فاکل ثمنہ)۔ اس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بھی عام ہیں۔ ان کو کسی قوم یا نسل یا ملک و وطن کے انسان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا گیا ہے۔

    اہل مغرب کو بڑا فخر ہے کہ انہوں نے غلامی کا انسداد کیا ہے۔ حالانکہ انہیں یہ قدم اٹھانے کی توفیق پچھلی [یعنی انیسویں] صدی کے وسط میں نصیب ہوئی ہے۔ اس سے پہلے جس بڑے پیمانے پر وہ افریقہ سے آزاد انسانوں کو پکڑ پکڑ کر اپنی نو آبادیوں میں لے جاتے رہے ہیں، اور ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے رہے ہیں، اس کا ذکر ان کی اپنی ہی لکھی ہوئی کتابوں میں موجود ہے۔۔۔۔

یہ تمام تفصیلات اب انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ اٹلانٹک سلیوری کے نام سے کسی بھی سرچ انجن پر سرچ چلا کر کر آپ ان تفصیلات کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسلام اور مغرب میں غلامی کے انسداد پر تفصیلی بحث کے لئے دیکھیے اسلام میں جسمانی و ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

ہر انسان کا یہ حق کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جائے

یہ ایک بڑا اہم حق ہے جو اسلام نے انسان کو بحیثیت انسان عطا کیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ۔۔۔

وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا۔

کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ [تم انہیں مسجد الحرام سے روک کر] تم ناروا زیادتی کرنے لگو۔  (المائدہ 5:2)

آگے چل کر پھر فرمایا۔

وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔

اور کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو، انصاف کرو یہی تقوی سے قریب تر ہے۔  (المائدہ 5:8)

ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو۔  (النساء 4:135)

معلوم ہوا کہ عام انسان ہی نہیں دشمنوں تک سے انصاف کرنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام جس انصاف کی دعوت دیتا ہے وہ محض اپنے ملک کے باشندوں کے لئے، یا اپنی قوم کے لوگوں کے لئے، یا مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سب انسانوں کے لئے ہے۔ ہم کسی سے بے انصافی نہیں کرتے۔ ہمارا مستقل شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ کوئی شخص بھی ہم سے بے انصافی کا اندیشہ نہ رکھے۔ ہم ہر جگہ ہر شخص کے ساتھ عدل و انصاف ملحوظ رکھیں۔

انسانی مساوات

اسلام نہ صرف یہ کہ کسی امتیاز رنگ و نسل کے بغیر تمام انسانوں کے درمیان مساوات کو تسلیم کرتا ہے بلکہ اسے ایک اہم اصول حقیقت قرار دیتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ۔ 

اے انسانو! ہم نے تمہیں ایک ماں اور ایک باپ سے پیدا کیا۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام انسان اصل میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک ہی ماں اور ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ اور ہم نے تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کر دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ (الحجرات 49:13)

 یعنی قوموں اور قبیلوں میں یہ تقسیم تعارف کے لئے ہے۔ اس لئے ہے کہ ایک قبیلے یا ایک قوم کے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے واقف ہوں اور باہم تعاون کر سکیں۔ اس لئے نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر فخر جتائے اور اس کے ساتھ تکبر سے پیش آئے۔ اس کو ذلیل سمجھے اور اس کے حقوق پر ڈاکے مارے۔ درحقیقت تم میں سے معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ خدا ترس ہے۔ یعنی انسان پر انسان کی فضیلت صرف اخلاق اور پاکیزہ کردار کی بنا پر ہے نہ کہ رنگ و نسل، زبان اور وطن کی بنا پر۔

    اور یہ فضیلت بھی اس غرض کے لئے نہیں ہے کہ پاکیزہ اخلاق کے انسان دوسرے انسانوں پر اپنی بڑائی جتائیں، کیونکہ بڑائی جتانا بجائے خود ایک برائی ہے جس کا ارتکاب کوئی خدا ترس اور پرہیزگار آدمی نہیں کر سکتا۔ اور یہ اس غرض کے لئے بھی نہیں ہے کہ نیک آدمی کے حقوق برے آدمیوں کے حقوق پر فائق ہوں، یا اس کے حقوق ان سے زیادہ ہوں، کیونکہ یہ انسانی مساوات کے خلاف ہے، جس کو آیت کی ابتدا میں اصول کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ فضیلت دراصل اس وجہ سے ہے کہ نیکی اخلاقی حیثیت سے برائی کے مقابلے میں بہرحال افضل ہے۔ اسی مضمون کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے:

لا فضل لعربی علی عجمی، و لا لعجمی علی عربی، و لا لاحمر علی الاسود و لا لاسود علی الاحمر۔ کلکم ابناء اٰدم و اٰدم من تراب۔

کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ نہ گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے۔ تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے تھے۔

اس طرح اسلام نے تمام نوع انسانی میں مساوات قائم کی اور رنگ، نسل، زبان اور قومیت کی بنا پر سارے امتیازات کی جڑ کاٹ دی۔ اسلام کے نزدیک یہ حق انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے حاصل ہے کہ اس کے ساتھ اس کی کھال کے رنگ یا اس کی پیدائش کی جگہ یا اس کو جنم دینے والی نسل و قوم کی بنا پر کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ اسے دوسروں کی بہ نسبت حقیر نہ ٹھہرایا جائے، اور اس کے حقوق دوسروں سے کمتر نہ رکھے جائیں۔

    امریکہ کے افریقی النسل لوگوں کا مشہور لیڈر میلکم ایکس جو سیاہ نسل کے باشندوں کی حمایت میں سفید نسل والوں کے خلاف مدتوں شدید کشمکش کرتا رہا تھا، مسلمان ہونے کے بعد جب حج کے لئے اور وہاں اس نے دیکھا کہ ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ غرض ہر جگہ کے اور ہر رنگ و نسل کے مسلمان ایک ہی لباس میں ایک کدا کے گھر کی طرف چلے جا رہے ہیں، ایک ہی گھر کا طواف کر رہے ہیں، ایک ہی ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں اور ان میں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہے تو وہ پکار اٹھا کہ یہ ہے نسل اور رنگ کے مسئلے کا حل، نہ کہ وہ جو ہم امریکہ میں اب تک کرتے رہے ہیں۔

    آج خود غیر مسلم مفکرین بھی، جو اندھے تعصب میں مبتلا نہیں ہیں، یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس مسئلے کو جس کامیابی کے ساتھ اسلام نے حل کیا ہے، کوئی دوسرا مذہب و مسلک نہیں کر سکا ہے۔

   موجودہ دور کے اہل مغرب قانون سازی کی حد تک تو اس مسئلے کو حل کر چکے ہیں مگر سماجی سطح پر بہت کچھ کرنا ان کے ہاں بھی ابھی باقی ہے۔ مسلم معاشروں میں عبادات کی حد تک تو پوری طرح مساوات اب بھی قائم ہے لیکن افسوس کہ موجودہ دور کے بہت سے مسلمان، اپنے دین کی تعلیمات کے بالکل برعکس انسانوں میں رنگ، نسل، قومیت، زبان، اسٹیٹس اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر سماجی رویوں میں تعصب اور امتیاز کا شکار ہیں۔

نیکی میں ہر ایک سے تعاون اور بدی میں کسی تعاون نہیں

اسلام نے ایک بڑا اہم قاعدہ کلیہ یہ پیش کیا ہے۔

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ 

نیکی اور پرہیزگاری میں تعاون کرو۔ بدی اور گناہ کے معاملے میں تعاون نہ کرو۔ (المائدہ 5:2)

اس کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص بھلائی اور خدا ترسی کا کام کرے، قطع نظر اس سے کہ وہ قطب شمالی کا رہنے والا ہو یا قطب جنوبی کا، وہ یہ حق رکھتا ہے کہ ہم اس سے تعاون کریں ار وہ بجا طور پر یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ ہم اس سے تعاون کریں گے۔

    اس کے برعکس جو شخص بدی اور زیادتی کا کام کرے، خواہ وہ ہمارا قریب ترین ہمسایہ یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو، اس کا نہ یہ حق ہے کہ نسل و وطن یا زبان و قومیت کے نام پر وہ ہمارا تعاون طلب کرے۔ نہ اسے ہم سے یہ امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس سے تعاون کریں گے۔ نہ ہمارے لئے یہ جائز ہے کہ ایسے کسی کام میں اس کے ساتھ تعاون کریں۔ بدکار ہمارا بھائی ہی کیوں نہ ہو، ہمارا اور اس کا کوئی ساتھ نہیں ہے۔ نیک کام کرنے والا خواہ ہم سے کوئی رشتہ نہ رکھتا ہو، ہم اس کے ساتھ اور مددگار ہیں، یا کم از کم خیرخواہ تو ضرور ہی ہیں۔

برسر جنگ دشمنوں کے حقوق

بین الاقوامی قانون کی حیثیت

اب قبل اس کے کہ میں اسلامی ریاست کے شہریوں کے حقوق بیان کروں، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دشمنوں کے کیا حقوق اسلام نے بتائے ہیں۔ جنگ کی تہذیب کے تصور سے دنیا قطعاً ناآشنا تھی۔ مغربی دنیا اس تصور سے پہلی مرتبہ سترہویں صدی کے مفکر گروشیوس کے ذریعے آشنا ہوئی۔ مگر عملی طور پر بین الاقوامی قوانین جنگ کی تدوین انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوئی۔ اس سے پہلے جنگ کی تہذیب کا کوئی تصور اہل مغرب کے ہاں نہیں پایا جاتا تھا۔ جنگ میں ہر طرح کے ظلم و ستم کئے جاتے تھے اور کسی قسم کے حقوق برسر جنگ قوم کے نہیں مانے جاتے تھے۔

    انیسویں صدی میں اور اس کے بعد سے اب تک جو قوانین بھی بنائے گئے ہیں، ان  کی اصل نوعیت قانون کی نہیں بلکہ معاہدات کی سی ہے اور ان کو بین الاقوامی قانون کہنا، درحقیقت لفظ قانون کا بے جا استعمال ہے۔ کیونکہ کوئی قوم بھی جنگ میں اس کو اپنے لئے واجب العمل نہیں سمجھتی، الا یہ کہ فریق ثانی بھیا س کی پابندی کرے۔ بالفاظ دیگر جنگ کے ان مہذب قوانین میں یہ مفروضہ کام کر رہا ہے کہ اگر ہمارا حریف ان کا احترام کرے گا تو ہم بھی کریں گے اور اگر وہ جنگ کے وحشیانہ طریقوں پر اتر آئے گا تو ہم بھی بے دریغ وہی طریقے استعمال کریں گے۔

    ظاہر ہے کہ اس چیز کا نام قانون نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جنگ میں ان نام نہاد بین الاقوامی قواعد و ضوابط کے پرزے اڑائے گئے اور ہر مرتبہ ان پر نظر ثانی اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہی۔

اسلامی قانون جنگ و صلح کی حیثیت

اسلام نے اس کے برعکس جنگ کی جو تہذیب قائم کی ہے، اس کی صحیح حیثیت قانون کی ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے لئے اللہ اور رسول کے دیے ہوئے احکام ہیں، جن کی پابندی ہم ہر حال کریں گے خواہ ہمارا دشمن کچھ ہی کرتا رہے۔ اب یہ دیکھنا ہر صاحب علم کا کام ہے کہ جو قانون جنگ 1300 برس [اور اب 1430 برس] پہلے مقرر کیا گیا تھا، مغرب نے اس کی خوشہ چینی کی ہے یا نہیں، اور خوشہ چینی کر کے بھی وہ تہذیب جنگ کے اس مقام تک پہنچ سکا ہے یا نہیں جس پر اسلام نے ہمیں پہنچایا تھا۔ اہل مغرب بسا اوقات یہ دعوی کیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے سب کچھ یہود و نصاری سے لے لیا ہے۔ اس لئے بائبل کو بھی پڑھ ڈالیے تاکہ آپ کو معلوم ہو جائے کہ ان مدعیان تہذیب کی کتاب مقدس جنگ کے کن طریقوں کی ہدایت دیتی ہے۔

    فاضل مصنف نے بائبل کی کتاب خروج باب 34، کتاب گنتی باب 31، کتاب استثنا ابواب 3,7,30 اور کتاب یشوع باب 6-8 کو پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام ابواب تورات کا خدائی قانون نہیں ہے۔ اس میں بنی اسرائیل کے علماء کے اجتہادات اور ان کے فقہ اور تاریخ کو بڑی حد تک داخل کر دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے ان قوانین کی کوئی ذمہ داری اللہ تعالی پر نہیں ہے۔

    ابتداء ہی میں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اسلام میں انسان بحیثیت انسان کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں، ان کا اعادہ کرنے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ ان کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیے کہ دشمن انسان کے کیا حقوق اسلام میں مقرر کئے گئے ہیں۔

غیر مقاتلین کے حقوق

اسلام میں سب سے پہلے دشمن ملک کی مقاتل اور غیر مقاتل آبادی کے درمیان فرق کیا گیا ہے۔ جہاں تک غیر مقاتل آبادی کا تعلق ہے (یعنی جو لڑنے والی نہیں ہے یا لڑنے کے قابل نہیں ہے مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، اندھے، اپاہج وغیرہ) اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات یہ ہیں۔۔۔:

لا تقتلوا شیخا فانیا و لا طفلا صغیرا و لا امراۃ۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث 2614)

کسی بوڑھے، کسی بچے اور کسی عورت کو قتل نہ کرو۔

لا تقتلوا اصحاب الصوامع

خانقاہ نشین راہبوں کو قتل نہ کرو یا عبادت گاہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو نہ مارو۔

جنگ میں ایک موقع پر حضور نے ایک عورت کی لاش دیکھی تو فرمایا، یہ تو نہیں لڑ رہی تھی۔ (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث 3015) اس سے فقہائے اسلام نے یہ اصول اخذ کیا کہ جو لوگ غیر مقاتل ہوں ان کو قتل نہ کیا جائے۔

مقاتلین کے حقوق

اس کے بعد دیکھیے کہ (مسلمانوں سے) لڑنے والوں کو کیا حقوق اسلام نے دیے ہیں۔

آگ کا عذاب نہ دیا جائے

حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لا ینبغی ان یعذب بالنار لا رب النار [یعنی] آگ کا عذاب آگ کے رب کے سوا کسی کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے یہ حکم نکلا کہ دشمن کو زندہ نہ جلایا جائے۔ (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث 3016)

زخمی پر حملہ نہ کیا جائے

لا تجھزن علی جریح [یعنی] کسی زخمی پر حملہ نہ کرو۔ مراد ہے وہ زخمی جو لڑنے کے قابل نہ رہا ہو نہ [کہ وہ جو] عملاً لڑ رہا ہو۔

قیدی کو قتل نہ کیا جائے

لا یقتلن اسیر۔ [یعنی] کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے۔

باندھ کر قتل نہ کیا جائے

نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل الصبر۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے باندھ کر قتل کرنے یا قید کی حالت میں قتل کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جنہوں نے یہ روایت حضور سے نقل کی ہے، فرماتے ہیں کہ جس خدا کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں کسی مرغ کو بھی باندھ کر ذبح نہ کروں گا۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث 2687)

غنیم کے ملک میں عام غارت گری یا لوٹ مار نہ کی جائے

یہ ہدایت بھی کی گئی کہ غنیم [یعنی مفتوحہ دشمن] کے ملک میں داخل ہو تو عام تباہی نہ پھیلاؤ۔ بستیوں کو ویران نہ کرو، سوائے ان لوگوں کے جو تم سے لڑتے ہیں اور کسی شخص کے مال پر ہاتھ نہ ڈالو۔ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن النھبی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار سے منع فرمایا۔ اور آپ کا ارشاد تھا کہ ان النھبی لیست باحل من المیتۃ۔ لوٹ کا مال مردار سے زیادہ حلال نہیں ہے۔ یعنی وہ بھی مردار کی طرح حرام ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوجوں کو روانہ کرتے وقت ہدایت فرماتے تھے کہ بستیوں کو ویران نہ کرنا۔ کھیتوں اور باغوں کو برباد نہ کرنا، مویشیوں کو ہلاک نہ کرنا۔

    (مال غنیمت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اس سے مراد وہ مال ہے جو غنیم کے لشکروں، اس کے فوجی کیمپوں اور اس کی چھاونیوں میں ملے۔ اس کو ضرور اسلامی فوجیں اپنے قبضے میں لیں گی لیکن عام لوٹ مار وہ نہیں کر سکتیں۔)

مفتوح علاقے کے لوگوں سے کوئی چیز مفت یا بلا اجازت نہ لی جائے

اس بات سے بھی منع کر دیا گیا کہ عام آبادی کی کسی چیز سے معاوضہ ادا کئے بغیر فائدہ اٹھایا جائے۔ دوران جنگ میں اگر دشمن کے کسی علاقے پر قبضہ کر کے مسلمانوں کی فوج وہاں مقیم ہو تو اس کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ لوگوں کی چیزوں کا بے دریغ استعمال کرے۔ اگر اس کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو خرید کر لینا چاہیے یا مالکوں کی اجازت لے کر اس کو استعمال کرنا چاہیے۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث 2623, 2629)

    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فوجوں کو روانہ کرتے وقت یہاں تک فرماتے تھے کہ دودھ دینے والے جانوروں کا دودھ بھی تم نہیں پی سکتے جب تک کہ ان کے مالکوں سے اجازت نہ لے لو۔

دشمن کی لاشوں پر غصہ نہ نکالا جائے

اسلام میں قطعی طور پر اس بات کو بھی منع کیا گیا ہے کہ دشمن کی لاشوں کی تذلیل کی جائے یا ان کا مثلہ کیا جائے۔

حدیث میں آیا ہے کہ نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن المثلۃ۔ نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے دشمنوں کی لاشوں کا مثلہ (یعنی ان کی قطع و برید) کرنے سے منع فرمایا۔ (ابوداؤد، کتاب الجہاد، حدیث 2613)

    یہ حکم جس موقع پر دیا گیا وہ بھی نہایت سبق آموز ہے۔ جنگ احد میں جو مسلمان شہید ہوئے تھے، دشمنوں نے ان کی ناک کاٹ کر ان کے ہار بنائے اور گلوں میں پہنے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ چیر کر ان کا کلیجہ نکالا گیا اور اسے چبانے کی کوشش کی گئی۔ اس وقت مسلمانوں کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا تھا مگر حضور نے فرمایا کہ تم غنیم کے مقتولوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کرنا۔ اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ دین فی الحقیقت خداوند عالم ہی کا بھیجا ہوا دین ہے۔ اس میں انسانی جذبات کا اگر دخل ہوتا تو جنگ احد میں یہ منظر دیکھ کر حکم دیا جاتا کہ تم بھی غنیم کے مقتولوں کا اسی طرح مثلہ کرو۔

دشمن کی لاشیں اس کے حوالے کرنا

جنگ احزاب میں دشمن کا ایک بڑا مشہور شہسوار مر کر خندق میں گر گیا۔ کفار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دس ہزار دینار پیش کئے کہ اس کی لاش ہمیں دے دیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ میں مردے بیچنے والا نہیں ہوں۔ تم لے جاؤ اپنی لاش۔

بدعہدی کی سخت ممانعت

اسلام میں بدعہدی کی بھی سختی سے ممانعت کر دی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوجوں کو بھیجتے وقت جو ہدایات دیتے تھے، ان میں سے ایک یہ تھی کہ لا تغدروا [یعنی] بدعہدی نہ کرنا۔ قرآن مجید اور احادیث میں اس حکم کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے کہ دشمن اگر عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کرے۔ لیکن تم کو اپنے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کبھی نہ کرنا چاہیے۔

    صلح حدیبیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ صلح نامہ طے ہوجانے کے بعد ایک مسلمان نوجوان ابوجندل رضی اللہ عنہ، جن کا باپ صلح نامے کی شرائط آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے طے کر رہا تھا، بیڑیوں میں بھاگتے ہوئے آئے اور انہوں نے کہا، مسلمانو! مجھے بچاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اب معاہدہ ہو چکا ہے۔ اب ہم تمہاری مدد نہیں کر سکتے۔ تم واپس جاؤ۔ اللہ تمہارے لئے کوئی راستہ کھولے گا۔

    ان کی حالت زار کو دیکھ کر مسلمانوں کی پوری فوج رو پڑی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب فرما دیا کہ عہد کی خلاف ورزی ہم نہیں کر سکتے تو ان کو بچانے کے لئے ایک ہاتھ بھی آگے نہ بڑھا اور کفار ان کو زبردستی گھسیٹ کر لے گئے۔ یہ عہد و پیمان کی پابندی کی بے نظیر مثال ہے اور اسلامی تاریخ میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں۔

جنگ سے پہلے اعلان جنگ کا حکم

قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ۔ (الانفال 8:58)

اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت (یعنی عہد شکنی) کا خطرہ ہو تو اس کا عہد اعلانیہ اس کے منہ پر مار دو۔

اس آیت میں اس بات سے منع کر دیا گیا ہے کہ اعلان جنگ کے بغیر دشمن کے خلاف جنگ نہ چھیڑ دی جائے الا یہ کہ دوسرا فریق جارحانہ کاروائیوں کی ابتدا کر چکا ہو۔ اگر دوسرے فریق نے اعلان کے بغیر جارحانہ کاروائیوں کی ابتداء کر دی ہو تو پھر ہم بلا اعلان اس کے خلاف جنگ کر سکتے ہیں۔ ورنہ قرآن مجید ہمیں یہ حکم دے رہا ہے کہ اعلانیہ اس کو بتا دو کہ اب ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی عہد باقی نہیں رہا ہے اور اب ہم اور تم برسر جنگ ہیں۔

    اگرچہ موجودہ بین الاقوامی قانون کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اعلان جنگ کے بغیر جنگ نہ کی جائے لیکن اس بیسویں صدی میں بھی تمام بڑی بڑی لڑائیاں بلا اعلان جنگ شروع ہوئی ہیں۔ وہ ان کا اپنا بنایا ہوا قانون ہے اس لئے وہ اپنے ہی قانون کو توڑنے کے مجاز ہیں مگر ہمارے لئے یہ خدا کا دیا ہوا قانون ہے، ہم اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔

اسلامی ریاست میں شہریوں کے حقوق

اب میں آپ کو شہریوں کے حقوق بتانا چاہتا ہوں۔ یہ حقوق ان حقوق سے زائد ہیں جو ابھی تھوڑی دیر پہلے میں انسان بحیثیت انسان کے حقوق بیان کر چکا ہوں۔

جان و مال کا تحفظ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو تقریر فرمائی تھی اس میں فرمایا تھا کہ تمہاری جانیں اور تمہارے مال ایک دوسرے پر قیامت تک کے لئے حرام ہیں۔ ان دماءکم و اموالکم علیکم حرام الی ان تلقوا ربکم۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً۔ (النساء 4:93)

جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اللہ اس پر سخت غضب ناک ہے اور اس نے اس (قاتل) پر لعنت فرمائی ہے اور اس کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمیوں [یعنی مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں] کے متعلق بھی فرمایا۔

من قتل معاھدا لم یرح رائحۃ الجنۃ۔ (بخاری، کتاب الدیات، حدیث 6914)

جس نے کسی معاہدہ (یعنی ذمی) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکے گا۔

قرآن قتل نفس کو حرام قرار دینے کے بعد اس میں صرف ایک استثناء رکھتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایسا قتل حق کے ساتھ ہو یعنی ناحق نہ ہو بلکہ کوئی قانونی حق اس کا تقاضا کرتا ہو کہ آدمی کو قتل کیا جائے۔ اور ظاہر ہے کہ حق اور ناحق کا فیصلہ ایک عدالت ہی کر سکتی ہے اور جنگ یا بغاوت کی صورت میں ایک عادل حکومت، یعنی شریعت کی پابند حکومت ہی یہ طے کر سکتی ہے کہ برحق جنگ کون سی ہے جس میں انسانی خون بہانا جائز ہو، اور قانون اسلام کی رو سے باغی کون قرار پاتا ہے، جس پر تلوار اٹھائی جائے یا جسے موت کی سزا دی جائے۔

    یہ فیصلے نہ کسی ایسی عدالت پر چھوڑے جا سکتے ہیں جو خدا سے بے خوف انتظامیہ سے مرعوب و خوفزدہ ہو کر انصاف کا خون کرنے لگے اور نہ کسی ایسی حکومت کے جرائم قرآن و حدیث کی سند پر جائز قرار پا سکتے ہیں جو بلاتکلف اپنے شہریوں کو صرف اس لئے خفیہ یا اعلانیہ قتل کرواتی ہو کہ وہ اس کی ناروا کاروائیوں سے اختلاف کرتے یا ان پر تنقید کرتے ہیں، اور اس کے اشارے پر قتل جیسے جرم عظیم کا ارتکاب کرنے والوں کو الٹا تحفظ بہم پہنچاتی ہو کہ ان کے خلاف نہ پولیس کاروائی کرے نہ عدالت میں کوئی ثبوت اور شہادت پیش ہو سکے۔ ایسی حکومت کا وجود ہی ایک جرم ہے، کجا کہ اس کے حکم سے کسی انسان کے قتل پر قرآن کی اصطلاح قتل بالحق کا اطلاق ہو سکے۔

    جان کے ساتھ مال کے تحفظ کا حق بھی اسلام نے پوری صراحت کے ساتھ دیا ہے۔ جیسا کہ ابھی میں حجۃ الوداع کی تقریر کے حوالہ سے بیان کر چکا ہوں بلکہ قرآن مجید تو خدا کے قانون کے سوا کسی اور طریقہ سے لوگوں کے مال لینے کو قطعی حرام قرار دیتا ہے۔ ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل۔ اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھا جایا کرو۔

عزت کا تحفظ

دوسرا اہم حق ایک شہری کی عزت کا تحفظ ہے۔ حجۃ الوداع کے جس خطبے کا میں ذکر کر چکا ہوں اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی صرف جان و مال ہی کو ایک دوسرے پر حرام قرار نہیں دیا تھا بلکہ ان کی عزت و آبرو (اعراضکم) کو بھی تاقیامت حرام ٹھہرایا تھا۔ قرآن مجید میں صاف حکم ہے کہ لا یسخر قوم من قوم، لوگ ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑائیں، ایک دوسرے کی تضحیک نہ کریں۔ و لا تلمزوا انفسکم، اور تم آپس میں ایک دوسرے پر چوٹیں نہ کرو، پھبتیاں نہ کسو، الزام نہ دھرو، طعنے نہ دو، کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے اس کی تذلیل نہ کرو۔

    ولا تنابزوا بالالقاب، ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔ ولا یغتب بعضکم بعضا، اور تم میں سے کوئی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کرے۔ یہ ہے ہمارا قانون تحفظ عزت اور یہ اہل مغرب کے قانون ہتک عزت سے بدرجہا بہتر ہے۔ ہمارے قانون کی رو سے اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ کسی نے کسی شخص کی عزت پر حملہ کیا ہے تو قطع نظر اس سے کہ وہ مظلوم اپنے آپ کو عزت دار ثابت کرتا ہے یا نہیں، ظالم کو اس کی سزا بہرحال دی جائے گی۔

    لیکن مغربی قانون کا کمال یہ ہے کہ ہتک عزت کا دعوی کرنے والے کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ عزت والا ہے اور اس بحث میں اس غریب کو اس سے زیادہ توہین و تذلیل ہو جاتی ہے جس کی فریاد لے کر وہ انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے گیا تھا۔ مزید برآن اسے چند ایسے گواہ بھی پیش کرنے پڑتے ہیں کہ ملزم کی توہین آمیر باتوں سے وہ واقعی ان کی نگاہ میں ذلیل ہو گیا ہے۔ سبحان اللہ! کس غضب کی قانون دانی ہے یہ جسے خدا کے بنائے ہوئے قانون کے سامنے لایا جاتا ہے۔

    اسلام تو بجائے خود کسی شخص کی توہین کو جرم قرار دیتا ہے، خواہ [معاشرے کی نظر میں] عزت والا ہو یا نہ ہو اور خواہ توہین کرنے والے کی باتوں سے اس کی واقعی توہین ہوئی ہو یا نہیں۔ اسلامی قانون کی رو سے ملزم کے اس فعل کا ثابت ہو جانا اس کو مجرم قرار دینے کے لئے کافی ہے کہ اس نے ایسی بات کی ہے جو عقل عام  کے لحاظ سے مستغیث کے لئے موجب توہین ہو سکتی ہے۔

    فاضل مصنف نے اہل مغرب کے جس قانون ہتک عزت کا حوالہ دیا ہے، اس کی تفصیل کسی بھی انسائیکلوپیڈیا میں دیکھی جا سکتی ہے۔ موجودہ دور میں مغربی معاشروں میں آزادی اظہار کے نام پر قانون ہتک عزت کو بڑی حد تک غیر موثر کر دیا گیا ہے۔

    ان کے نزدیک اہمیت اس بات کی رہ گئی ہے کہ ہر شخص کے ذہن میں کسی کے بارے میں جو غلاظت موجود ہے، وہ اسے بلا روک ٹوک دنیا کے سامنے پیش کر دے۔ اس کی آزادی اظہار کے نتیجے میں کسی شہری کی عزت نفس، شخصیت اور امیج جس طرح بھی مجروح ہو جائے، اس کی ان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت باقی نہیں رہ گئی۔ قانون ہتک عزت موجود ہے لیکن اسے اس قدر پیچیدہ بنا دیا گیا ہے کہ اس سے کسی کو انصاف ملنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ اہل مغرب آزادی اظہار کی حدود سے زیادہ آشنا نہیں رہے۔ وہ اپنے اسی مقولے کو بھلا چکے ہیں کہ تمہاری آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک کا آغاز ہوتا ہے۔

نجی زندگی کا تحفظ

اسلام اپنی مملکت کے ہر شہری کا یہ حق قرار دیتا ہے کہ اس کی نجی زندگی میں کوئی ناروا مداخلت نہ ہونے پائے۔ قرآن مجید کا حکم ہے کہ لا تجسسوا ایک دوسرے کے حالات کا تجسس نہ کرو۔ لا تدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا لوگوں کے گھروں میں ان کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہو۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک تاکید کی کہ آدمی خود اپنے گھر میں بھی اچانک نہ داخل ہو بلکہ کسی نہ کسی طرح اہل خانہ کو خبردار کر دے کہ وہ اندر آ رہا ہے تاکہ ماں بہنوں اور جوان بیٹیوں پر ایسی حالت میں نظر نہ پڑے جس میں نہ وہ اسے پسند کر سکتی ہیں کہ انہیں دیکھا جائے نہ خود وہ شخص یہ پسند کرتا ہے کہ انہیں دیکھے۔

    دوسروں کے گھر میں جھانکنے کی کوشش کرنا بھی سخت ممنوع ہے۔ حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اپنے گھر میں جھانکتے ہوئے دیکھے اور وہ اس کی آنکھ پھوڑ دے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ حضور نے دوسرے کا خط تک اس کی اجازت کے بغیر پڑھنے سے منع فرمایا ہے، حتی کہ اگر کوئی اپنا خط پڑھ رہا ہو اور دوسرا شخص جھانک کر اسے پڑھنے لگے تو یہ بھی سخت منع ہے۔ یہ ہے اسلام میں انسان کے تخلیے کا تقدس۔

    ادھر اس جدید تہذیب کے تحت ہماری دنیا کا حال یہ ہے کہ نہ صرف لوگوں کے خطوط پڑھے جاتے ہیں اور ان کو سنسر کیا جاتا ہے اور باقاعدہ ان کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بھی رکھ لی جاتی ہیں، بلکہ اب لوگوں کے گھروں میں ایسے آلات بھی لگائے جانے لگے ہیں جن کی مدد سے آپ دور بیٹھے ہوئے یہ سنتے رہیں کہ اس کے گھر میں کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اب تخلیہ کوئی چیز نہیں ہے اور آدمی کی نجی زندگی کا عملاً خاتمہ کر دیا گیا ہے۔

    اس تجسس کے لئے یہ کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے کہ حکومت خطرناک آدمیوں کے رازوں سے واقف رہنا ضروری سمجھتی ہے۔ حالانکہ درحقیقت اس کی بنیاد وہ شک و شبہ ہے جس سے آج کل کی [جمہوری لیبل والی آمرانہ] حکومتیں اپنے ہر اس شہری کو دیکھتی ہیں جس میں وہ کچھ ذہانت اور سرکاری پالیسیوں پر عدم اطمینان کی بو سونگھ لیتی ہیں۔ یہی چیز ہے جس کو اسلام سیاست میں فساد کی جڑ قرار دیتا ہے۔

    چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ان الامیر اذا ابتغی الریبۃ فی الناس افسدھم، حاکم وقت جب لوگوں کے اندر شبہات کے اسباب تلاش کرنے لگتا ہے تو ان کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ انک ان اتبعت عورات الناس افسدتھم او کدت ان تفسدھم تم اگر لوگوں کے مخفی حالات معلوم کرنے کے درپے ہو گئے تو انہیں بگاڑ دو گے یا کم از کم بگاڑ کے قریب پہنچا دو گے۔

    بگاڑنے کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگوں کے راز ٹٹولنے کے لئے جاسوس (سی آئی ڈی کے آدمی) ہر طرف پھیلا دیے جاتے ہیں تو لوگ خود ایک دوسرے کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں حتی کہ اپنے گھروں تک میں وہ کھل کر بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ نہ معلوم اپنے ہی بچوں کی زبان سے کوئی بات ایسی نکل جائے جو ہم پر آفت لے آئے۔ اس طرح اپنے گھر تک میں زبان کھولنا آدمی کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اور معاشرے میں ایک عام بے اعتمادی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

    [اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کرنے میں موجودہ دور کے مغربی معاشرے، مسلم معاشروں کی نسبت بہتر مقام پر موجود تھے۔ ان کے ہاں انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بہت سی قانونی پابندیاں عائد تھیں تاکہ وہ عام لوگوں کی پرائیویسی میں دخل نہ دے سکیں۔ نائن الیون کے بعد ان کے ہاں بھی اس معاملے میں حالات کافی خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال پر ان کے اپنے میڈیا میں زور و شور سے تنقید کا عمل جاری ہے۔

    مسلم معاشروں میں انسان کے اس حق سے غفلت کے تین پہلو ہیں۔ ایک تو وہی جس کی طرف فاضل مصنف نے اشارہ کیا کہ آمرانہ اور استبدادی حکومتیں ہر وقت عام لوگوں سے خوفزدہ رہتی ہیں۔

    دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہمارے ہاں نظریہ سازش کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے دی گئی ہے۔ ہر وہ شخص جو ہمارے نظریات یا طرز فکر سے ذرا سا اختلاف رکھتا ہو، اس پر بلا تحقیق امریکہ کا ایجنٹ ہونے کا فتوی عائد کر دیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کے باعث ہم اپنے ذہین اور قابل ترین لوگوں سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ ذہین شخص کبھی آزادی اظہار اور اختلاف رائے پر پابندی برداشت نہیں کرتا بلکہ ایسی صورت میں وہ معاشرہ چھوڑ دینے کو ترجیح دیا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلی ذہن ہمارے معاشروں کو چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں اور ہمارے پاس درمیانے درجے کے لوگ ہی باقی بچ رہے ہیں۔

    پرائیویسی کے حق سے غفلت کی تیسری صورت معاشرے کی سطح پر تجسس کا رویہ ہے۔ ہم میں سے ہر شخص بالخصوص خواتین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کے اندرونی معاملات کا ایک نظر ہی میں ایکسرے کر لیں۔ بہت سے لوگوں کا پہلی ملاقات ہی میں سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ دوسروں کے خاندانی جھگڑوں، معاشی مسائل اور دیگر معاملات میں غیر معمولی دلچسپی لینا ہماری معاشرتی ضرورت بن چکا ہے۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ تمام رویے بہرحال اسلام سے مطابقت نہیں رکھتے۔]

شخصی آزادی کا تحفظ

اسلام یہ اصول بھی طے کرتا ہے کہ کسی شخص کو اس کا جرم عدالت میں، اور وہ بھی کھلی عدالت میں ثابت کئے بغیر قید نہیں کیا جا سکتا۔ محض شبہ کی بنا پر پکڑنا اور کسی عدالتی کاروائی کے بغیر اور صفائی کا موقع دیے بغیر قید کر دینا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ حدیث میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے۔ خطبے کے دوران میں ایک شخص نے اٹھ کر کہا، یا رسول اللہ! میرے ہمسائے کس جرم میں پکڑے گئے ہیں؟ آپ نے سنا اور خطبہ جاری رکھا۔ اس نے پھر اٹھ کر یہی سوال کیا۔ آپ نے پھر خطبہ جاری رکھا۔ اس نے تیسری بار پھر اٹھ کر یہی سوال کیا۔ تب آپ نے حکم دیا کہ اس کے ہمسایوں کو چھوڑ دو۔

    دو مرتبہ سن کر خاموش رہنے کی وجہ یہ تھی کہ کوتوال مسجد میں موجود تھا۔ اگر شخص مذکور کے ہمسایوں کو گرفتار کرنے کی کوئی خاص وجہ ہوتی تو وہ اٹھ کر اسے بیان کرتا۔ جب اس نے کوئی وجہ بیان نہ کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں چھوڑ دیا جائے۔ کوتوال اسلامی قانون سے واقف تھا۔ اس لئے اس نے اٹھ کر یہ نہیں کہ انتظامیہ ان کے قصور سے واقف ہے اور [ملکی مفاد میں] اعلانیہ وہ قصور بیان نہیں کیا جا سکتا۔ حضور تخلیہ میں دریافت فرمائیں تو عرض کر دیا جائے گا۔

    یہ بات اگر کوتوال زبان سے نکالتا تو اسی وقت کھڑے کھڑے اسے ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا۔ عدالت کے لئے یہ بات بالکل کافی تھی کہ کوتوال نے گرفتاری کی کوئی وجہ کھلی عدالت میں پیش نہیں کی ہے۔ اس لئے فوراً رہائی کا حکم صادر کر دیا گیا۔

    واضح رہے کہ عہد رسالت میں سرکاری محکموں کی علیحدہ علیحدہ عمارتوں کا تصور موجود نہیں تھا۔ اس چھوٹے سے معاشرے میں مسجد نبوی ہی عبادت گاہ تھی، وہی پارلیمنٹ ہاؤس تھی، یہیں  حضور کی سپریم کورٹ لگا کرتی تھی، یہی کمیونٹی سنٹر  بھی تھا اور اسی کو بسا اوقات جیل کے طور پر استعمال بھی کیا گیا۔ بعد میں معاشرے کے پھیلاؤ اور تمدن کے ارتقاء کے ساتھ یہ ادارے الگ الگ وجود پذیر ہوئے۔

    قرآن کا صاف حکم ہے کہ و اذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خود یہ حکم تھا کہ امرت ان اعدل بینکم، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل کروں۔ اسی بنا پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ لا یوسر رجل فی الاسلام الا بالعدل، اسلام میں کوئی شخص عدل کے بغیر قید نہیں کیا جا سکتا۔

    یہ الفاظ خود بتا رہے ہیں کہ عدل سے مراد معقول عدالتی طریقہ کار ہے۔ اور جس کی نفی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کو ثبوت جرم اور عدالت میں صفائی کا موقع دیئے بغیر پکڑ کر قید کر دیا جائے۔ اگر حکومت کسی پر یہ شبہ رکھتی ہو کہ اس نے کوئی جرم کیا ہے یا وہ کوئی جرم کرنے والا ہے تو اسے عدالت کے سامنے اپنے شبہ کے وجوہ بیان کرنے چاہئیں، اور ملزم یا مشتبہ آدمی کو کھلی عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنی چاہیے تاکہ عدالت یہ فیصلہ کر سکے کہ اس شخص پر شبہ کی کوئی معقول بنیاد ہے یا نہیں اور معقول بنیاد ہے تو اس کو جرم سے باز رکھنے کے لئے کتنی مدت تک قید رکھنا چاہیے۔ یہ فیصلہ لازماً کھلی عدالت میں ہونا چاہیے نہ کہ بند کمرے میں تاکہ حکومت کا الزام اور ملزم کی صفائی اور عدالت کی کاروائی دیکھ کر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اس کے ساتھ انصاف کیا جا رہا ہے، بے انصافی نہیں کی جا رہی ہے۔۔۔۔۔

    [فاضل مصنف نے یہاں عہد رسالت سے سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا مشہور مقدمہ بطور مثال پیش کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے انہوں نے چند قیمتی معلومات کفار مکہ کو بھیجنے کی کوشش کی تھی جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدنا علی و زبیر رضی اللہ عنہما نے ناکام بنا دیا تھا۔اس مقدمے کی کاروائی کھلے عام مسجد میں ہوئی۔ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ ان کے اہل و عیال مکہ میں تھے اور وہ ان کی حفاظت کی خاطر کفار مکہ کو یہ معلومات بھیج کر ان کا تعاون حاصل کرنا چاہتے تھے۔ صحابہ کو اس واقعے پر شدید غصہ آیا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا۔

    خلافت راشدہ کے دور کی مثال بیان کرتے ہوئے انہوں نے خارجیوں کی مثال پیش کی ہے۔ یہ ایک انتہا پسند باغی گروہ تھا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں خود انہیں کافر قرار دیا کرتا تھا۔]

    حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خارجیوں کا طرزعمل جیسا کچھ تھا وہ تاریخ کے طالب علموں سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ وہ اعلانیہ آپ کو گالیاں دیتے تھے۔ قتل تک کر دینے کی آپ کو دھمکیاں دیتے تھے، مگر ان باتوں پر جب کبھی ان کو پکڑا گیا تو آپ نے انہیں چھوڑ دیا اور اپنی حکومت کے افسروں سے فرمایا کہ جب تک وہ باغیانہ کاروائیاں نہیں کرتے محض زبانی مخالفت اور دھمکیاں ایسی چیز نہیں ہیں جن کی وجہ سے ان پر ہاتھ ڈالا جائے۔

    امام ابوحنیفہ امیر المومنین کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ما لم یعزموا علی الخروج فالامام لا یتعرض لھم جب تک وہ خروج (مسلح بغاوت) کا عزم نہیں کرتے خلیفہ وقت ان سے تعرض نہ کرے گا۔

    ایک اور موقع پر حضرت علی خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ خارجیوں نے اپنا مخصوص نعرہ دوران خطبہ میں بلند کیا۔ آپ نے اس پر فرمایا، لن نمنعکم مساجد اللہ ان تذکروا فیھا اسم اللہ و لن منعکم الفی ما دامت ایدیکم مع ایدیان و لن نقاتلکم حتی تقاتلونا، ہم تمہیں مسجدوں میں آ کر اللہ کو یاد کرنے سے نہ روکیں گے اور حکومت کے مال میں سے تمہارا حق دینا بھی بند نہ کریں گے، جب تک تمہارے ہاتھ ہمارے ہاتھوں کے ساتھ ہیں۔۔۔۔ اور ہم تم سے ہرگز جنگ نہ کریں گے جب تک تم ہم سے جنگ نہیں کرتے۔

    اب دیکھیے جس اپوزیشن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سابقہ درپیش تھا، ایک جمہوری نظام میں اس سے زیادہ سخت اپوزیشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مگر اس کے مقابلے میں جو آزادی انہوں نے دے رکھی تھی کسی حکومت نے ایسی آزادی اپوزیشن کو نہیں دی۔ انہوں نے قتل کی دھمکیاں دینے والوں کو بھی نہ گرفتار کیا اور نہ کسی کو جیل بھیجا [یہاں تک کہ جب انہوں نے باقاعدہ جنگی کاروائیاں کیں تو آپ نے ان کے خلاف تلوار اٹھائی اور بالآخر ایک خارجی نے ہی آپ کو شہید کر دیا۔]

    [عہد رسالت اور دور خلافت راشدہ میں عدلیہ کو مکمل آزادی دے دی گئی تھی۔ ایسے بہت سے واقعات منقول ہیں جب قاضی نے خود خلیفہ کی ذات کے خلاف فیصلہ سنا دیا اور خلیفہ نے چون و چرا نہ کی۔

    سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر ایک یہودی نے اپنی زرہ کے لئے قاضی شریح کی عدالت میں دعوی دائر کیا۔ آپ نے اپنے حق میں اپنے بیٹے حسن اور ملازم قنبر رضی اللہ عنہما کی گواہی پیش کی۔ قاضی شریح جن کی شہرت ایک محب اہل بیت کی ہے۔ انہوں نے حسن و قنبر کی گواہی کو سیدنا علی کے حق میں قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ ایک کا رشتہ مدعی علیہ سے بیٹے کا جبکہ دوسرے کا ملازم کا تھا۔ فیصلہ یہودی کے حق میں کر دیا گیا۔ اس عدل سے متاثر ہو کر یہودی نے خود تسلیم کر لیا کہ میرا دعوی جھوٹا تھا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔

    موجودہ دور میں توہین عدالت کے قانون کے ذریعے عدالت کو تنقید سے ماوراء قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلام کے آئیڈیل دور میں اس کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ عدالت خواہ کسی چھوٹے موٹے قاضی کی ہوتی یا خلیفہ وقت کی، اس کے فیصلوں پر کھلی تنقید کی اجازت ہوا کرتی تھی۔ اس طریقے سے عدالت کے عادل ہونے پر ایک اخلاقی اور سماجی پریشر موجود رہا کرتا تھا جو قاضیوں کو عدل کے ساتھ فیصلے کرنے پر مجبور کیا کرتا۔ اگر کوئی قاضی انصاف کا خون کرتا تو اپیل کے حق کے علاوہ فریقین کو اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں لے جانے کا حق بھی حاصل تھا۔ اگر کسی قاضی کی طرف غیر عادلانہ فیصلہ منسوب ہو جاتا تو اس کی عدالت کی کوئی حیثیت نہ رہ جاتی، اس کا کیریئر ختم ہو جاتا اور لوگ ایسے قاضی کے پاس مقدمے لے جانے سے کترایا کرتے تھے۔ اپنی ساکھ برقرار رکھنے کا پریشر قاضیوں کو عادلانہ فیصلے پر مجبور کیا کرتا تھا۔]

ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق

اسلام کے دیے ہوئے حقوق میں سے ایک ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ

لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنْ الْقَوْلِ إِلاَّ مَنْ ظُلِمَ۔ (النساء 4:148)

اللہ کو برائی کے ساتھ آواز بلند کرنا پسند نہیں ہے سوائے اس شخص کے جس پر ظلم کیا گیا ہو۔

یعنی اللہ برائی پر زبان کھولنے کو سخت ناپسند کرتا ہے، لیکن جس شخص پر ظلم کیا گیا ہو، اس کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ علی الاعلان ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔ یہ حق صرف افراد ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ آیت کے الفاظ عام ہیں۔ اس لئے اگر کوئی شخص نہیں بلکہ کوئی جماعت یا گروہ اقتدار پر غلبہ حاصل کر کے افراد یا جماعتوں یا ملک کی پوری آبادی پر ظلم ڈھانے لگے تو ان کے خلاف برسر عام صدائے احتجاج بلند کرنا خدا کا دیا ہوا حق ہے اور اس حق کو سلب کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ اب اگر کوئی اللہ کے دیے ہوئے اس حق کو سلب کرتا ہے تو وہ اللہ کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔ دفعہ 144 کا تعویذ اسے دنیا میں چاہے بچا لے جائے، اللہ کی دوزخ سے بچانا اس کی کرامتوں میں شامل نہیں ہے۔

آزادی اظہار رائے کا حق

مملکت اسلامیہ کے تمام شہریوں کو اسلام آزادی اظہار رائے کا حق اس شرط کے ساتھ دیتا ہے کہ وہ بھلائی پھیلانے کے لئے ہو نہ کہ برائی پھیلانے کے لئے۔ اظہار رائے کی آزادی کا یہ اسلامی تصور موجودہ مغربی تصور سے بدرجہا بلند ہے۔ برائی پھیلانے کی آزادی اسلام نہیں دیتا۔ تنقید کے نام سے دشنام طرازی کی بھی وہ اجازت نہیں دیتا البتہ اس کے نزدیک بھلائی پھیلانے کے لئے اظہار رائے کا حق صرف حق ہی نہیں بلکہ مسلمان پر ایک فرض بھی ہے جسے روکنا خدائے ذوالجلال سے لڑائی مول لینا ہے اور یہی معاملہ برائی سے منع کرنے کا بھی ہے۔

    برائی خواہ کوئی شخص کر رہا ہو یا کوئی گروہ، خود اپنے ملک کی حکومت کر رہی ہو یا کسی دوسرے ملک کی، اپنی قوم کر رہی ہو، یا دنیا کی کوئی دوسری قوم، مسلمان کا حق ہے اور یہ اس کا فرض بھی ہے کہ اسے ٹوکے، اس سے روکے اور اس کے خلاف علی الاعلان اظہار ناراضی کر کے یہ بتائے کہ بھلائی کیا ہے جسے اس فرد، یا قوم، یا حکومت کو اختیار کرنا چاہیے۔

    قرآن مجید میں مومنوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر، وہ بھلائی کے لئے کہنے والے اور برائی سے روکنے والے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس منافقوں کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ یامرون بالمنکر و ینھون عن المعروف، وہ برائی کے لئے کہنے والے اور بھلائی سے روکنے والے ہوتے ہیں۔

اہل ایمان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی حکومت کا مقصد وجود ہی یہ ہے کہ

الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنْ الْمُنْكَرِ۔ (الحج 22:41)

ان کو اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوۃ دیں گے، بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص برائی کو دیکھے تو ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتا تو دل سے روکے یعنی کم از کم دل سے اسے برا سمجھے۔ اور یہ آخری درجہ ہے ایمان کا۔ اس کے بعد ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔ یہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی حیثیت۔

    اگر کوئی حکومت لوگوں سے یہ حق چھینتی ہے اور انہیں یہ فرض ادا کرنے نہیں دیتی تو وہ براہ راست خدا کے حکم سے ٹکرا رہی ہے۔ اس کا تصادم ہم سے نہیں ہے۔ اس کا تصادم خدا سے ہے۔ وہ خدا کے مقابلے میں برسر جنگ ہے اور اس حق کو چھین رہی ہے جس کو اللہ تعالی نے صرف حق ہی نہیں فرض قرار دیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے۔ رہی وہ حکومت جو برائیوں کو پھیلاتی اور پھیلنے دیتی ہے اور بھلائی کی طرف دعوت دینے والوں کی مزاحمت کرتی ہے، تو وہ از روئے قرآن منافقوں کی حکومت ہے۔

    فاضل مصنف نے جو حدیث بیان کی ہے، اس میں ایک اہم پہلو مضمر ہے۔ حدیث میں ہاتھ، زبان اور دل سے برائی کے روکنے کا جو حکم ایک مسلمان کو دیا گیا ہے وہ اس شخص کے اپنے قانونی اور معاشرتی دائرہ عمل سے ہے۔ ایک شخص اپنے بیوی بچوں کو تو برائی کرنے سے ہاتھ سے روک سکتا ہے لیکن دوسرے کے بیوی بچوں کا یہ معاملہ یہ نہیں ہے۔ انہیں وہ زیادہ سے زیادہ احسن انداز میں زبان سے ہی کچھ کہہ سکتا ہے۔ ایک ادارے کا سربراہ اپنے ادارے میں کسی برائی کو بزور ختم کر سکتا ہے لیکن دوسرے ادارے کے معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ اصلاح کی دعوت ہی دے سکتا ہے۔

    ہمارے مذہبی لوگ بالعموم اس حدیث کا غلط مفہوم اخذ کرتے ہوئے اپنے قانونی دائرہ عمل سے آگے بڑھ کر قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اصلاح تو کیا ہو، الٹا فساد فی الارض پیدا ہوتا ہے۔ کسی شخص کی برائی کو ہاتھ کے ذریعے روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا جائے اور اس کے بعد میڈیا اور دیگر ذرائع سے پولیس اور عدالت پر دباؤ برقرار رکھا جائے کہ وہ کسی مجرم کو رشوت لے کر نہ چھوڑ سکیں۔

    اگر ہم نے اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش جاری رکھی تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہ نکلے گا کہ ہم خود بدترین انارکی اور فساد فی الارض کے مجرم قرار پائیں گے۔ اس طرح ہم ایک چھوٹی برائی کا خاتمہ کرتے کرتے ظلم و فساد کی آخری شکل میں سب سے بڑی برائی انارکی کو جنم دے کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں خود ایک مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اس پہلو کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔]

آزادی اجتماع کا حق

اجتماع اور جماعت سازی کا حق بھی اسلام نے لوگوں کو دیا ہے مگر وہ بھی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ بھلائی پھیلانے کے لئے ہو، برائی پھیلانے کے لئے نہ ہو۔ اس نوعیت کے اجتماع اور اس قسم کی جماعت سازی کا صرف حق ہی نہیں بلکہ اس کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں مسلمانوں کو خطاب کر کے فرمایا گیا ہے۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ۔ (اٰل عمران 3:110)

تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں (کی اصلاح) کے لئے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کے لئے کہتے ہو اور برائیوں سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

یعنی پوری کی پوری مسلمان امت ہی کا یہ کام ہے کہ وہ بھلائی کے لئے لوگوں سے کہے اور برائی سے روکے، لیکن اگر سب مسلمان ایسے نہ ہوں تو کم از کم:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنْ الْمُنْكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ۔ (اٰل عمران 3:104)

تم میں سے ایک گروہ تو ایسا ہونا ہی چاہیے جو نیکی کی طرف بلائے، بھلائی کے لئے کہے اور بدی سے روکے اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان قوم اگر مجموعی طور پر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے سے غافل ہو جائے تو ان میں سے ایک گروہ کا موجود رہنا ضروری ہے جو بھلائی پھیلانے، برائی سے روکنے اور خیر کی دعوت دینے کی خدمت انجام دے۔ یہ حق ہی نہیں فرض ہے جس کے ادا کرنے پر فلاح کا انحصار ہے۔

    لیکن خدا کے دین کے ساتھ یہ عجیب مذاق ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں برائی پھیلانے کے لئے جو اجتماع اور جماعت سازی ہو وہ تو حکومت کرنے کا حق رکھے اور بھلائی پھیلانے کے لئے جو جماعت سازی ہو وہ ہر وقت خطرے میں مبتلا رہے کہ نہ معلوم کب اس پر ہاتھ ڈال دیا جائے۔ یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے۔ دعوی یہ ہے کہ ہم مسلمان اور یہ ریاست اسلامی ہے، لیکن ہو رہا ہے امر بالمنکر اور نہی عن المعروف اور جینا دشوار کیا جا رہا ہے ان لوگوں کے لئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

    [اسلام نے واضح طور پر مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ ان میں کم از کم ایک گروہ ایسا ہونا چاہیے جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ معاشرے میں ہاتھ کے ذریعے برائی کو روکنے کے لئے ایک سرکاری محکمہ احتساب (یا حسبہ) تشکیل دیا گیا جس نے یہ کام کیا۔

    اس محکمے کے علاوہ زبان اور دل کے ذریعے نیکی کے حق میں اور برائی کے خلاف آواز بلند کرنے کا کام امت کے اہل علم نے ہمیشہ جاری رکھا۔ عام لوگ اپنے قانونی دائرہ عمل میں برائی کو ہاتھ، زبان اور دل سے روکتے رہے۔ یہ کام ان نیکی کے علمبرداروں نے انفرادی طور پر بھی کیا ہے اور اس کے لئے ادارے اور جماعتیں بھی تشکیل دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں بالعموم کوئی بڑا فساد اس وجہ سے پیدا نہیں ہوا کہ کسی نے اپنی قانونی حدود سے تجاوز کیا ہو۔ اگر کہیں ایسا کیا گیا تو اس کا نتیجہ سوائے فساد کے اور کچھ نہیں نکل سکا۔

    موجودہ دور میں یہ المیہ پیش آیا ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں مذہبی طرز فکر کے لوگوں نے اپنی قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے برائی کو ہاتھ سے روکنے کے عمل کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لینے کا سلسلہ شروع کیا جس کا نتیجہ سوائے فساد فی الارض کے اور کچھ نہیں نکلا۔

    اس تحریر کے مصنف سید ابو الاعلی مودودی اور ان کی جماعت کی مثال سب کے سامنے ہے۔ سید صاحب پاکستان کے ایک بڑے عالم، مفکر، دانشور اور سیاست دان تھے۔ ان کی تمام تحریروں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہے کہ وہ قانونی دائرہ عمل میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے کے قائل تھے۔ ان کے بعض پیروکاروں نے بہت سے مواقع پر اپنے قائدین کی تلقین کے برعکس قانونی حدود سے تجاوز کیا جس کا نتیجہ وہ نکلا جس کی طرف اشارہ سید صاحب نے اپنی اس تحریر میں کیا ہے۔

    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ اپنی قانونی حدود میں رہتے ہوئے برائی کے خلاف جدوجہد کے نتیجے میں کبھی فساد فی الارض پیدا نہیں ہوا۔ ایسا ضرور ہوا ہے کہ برائی کے علمبرداروں نے اس کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، جس پر نیکی کی تلقین کرنے والوں نے مظلومانہ جدوجہد کی وہ تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثالیں آج بھی ہمارے لئے روشنی کا مینار ہیں۔ امام احمد بن حنبل سے لے کر آج تک کے علماء کی مظلومانہ جدوجہد اور قربانیوں کی ایک پوری تاریخ ہے جس میں کوئی فساد پیدا کئے بغیر برائی کے خلاف موثر آواز ہر دور میں بلند کی جاتی رہی ہے۔

    دین کی خدمت اور دعوت و تبلیغ کے لئے متعدد افراد، اداروں اور جماعتوں کا قیام ناگزیر ہے۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں ایک اور فتنہ جو پیدا ہوا ہے اس کی طرف توجہ مبذول کروانا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عرصے سے مختلف اداروں اور جماعتوں سے وابستہ افراد کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی جا رہی ہے کہ صرف ان کی جماعت ہی دین کا معیاری کام کر رہی ہے اور دوسرے لوگ جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی کوئی خاص حیثیت نہیں۔ مزید برآں ہمارے ہاں ادارے اور جماعتیں مسلکی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم کی جاتی ہیں۔

    اس طرز فکر کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ دینی اداروں اور جماعتوں کا باہمی تعلق، جو کہ احترام اور تعاون کے رویے پر مبنی ہونا چاہیے، اب چپقلش اور عدم تعاون کا تعلق بن کر رہ گیا ہے۔ اس رویے کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے کہ ہم دین کی خدمت انجام دینے والے مختلف افراد، اداروں اور جماعتوں میں احترام اور تعاون کے رویے کو فروغ دیں۔ ایک دوسرے کے دائرہ عمل اور کام کا احترام کیا جائے اور اس میں ممکنہ حد تک تعاون کیا جائے۔ اگر ایک دوسرے پر تنقید کرنا بھی ضروری ہو تو شائستگی اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر ایسا کیا جائے۔]

ضمیر و اعتقاد کی آزادی کا حق

اسلام اپنے معاشرے اور اپنی مملکت میں لوگوں کو ضمیر و اعتقاد کی آزادی کا حق بھی دیتا ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ لا اکراہ فی الدین۔ دین میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اگرچہ دین حق سے بڑی کوئی نیکی نہیں ہے اور مسلمان اس کی طرف دعوت ضرور دیں گے اور اس کی حقانیت دلائل سے بھی ثابت کریں گے مگر یہ نیکی لوگوں پر زبردستی مسلط نہیں کی جائے گی۔

    جو شخص اس کو مانے تو اپنی مرضی سے مانے۔ ہم اسے سینے سے لگائیں گے اور اپنے معاشرے میں بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شامل کر لیں گے۔ لیکن اگر کوئی شخص اس کو نہ مانے تو ہم اس کا یہ حق بھی تسلیم کریں گے کہ وہ اس کو نہ مانے۔ کوئی جبر اس پر نہیں کیا جائے گا۔

    [ضمیر و اعتقاد کی آزادی اسلام کا دیا ہوا حق ہے۔ یہ اسلام ہی ہے جس نے دنیا کے بڑے حصے میں مذہبی جبر کا خاتمہ کیا۔ افسوس کہ ہمارے مذہبی لوگ اب انسان کا یہ حق تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ عام رویہ یہ ہے کہ وہ اپنے اور اپنے پیروکاروں کے علاوہ باقی ساری دنیا کو کافر، منکر، گمراہ اور جہنمی قرار دینے پر اصرار کرتے ہیں۔]

مذہبی دل آزاری سے تحفظ کا حق

آزادی اعتقاد و آزادی ضمیر کے ساتھ اسلام نے لوگوں کو یہ حق بھی دیا ہے کہ ان کی مذہبی دل آزاری نہ کی جائے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔

وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ۔ (الانعام 6:108)

جن معبودوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں، ان کو گالیاں نہ دو۔

یہ معاملہ صرف بتوں اور معبودوں ہی کی حد تک خاص نہیں ہے بلکہ کسی قوم کے بزرگوں اور پیشواؤں کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک گروہ اگر آپ کے نزدیک برا عقیدہ رکھتا ہے، اور ان لوگوں کو اپنا بزرگ مانتا ہے جو آپ کے نزدیک بزرگی کے مستحق نہیں ہیں تو آپ ان کو گالیاں دینے لگیں اور اپنی اس بیہودہ حرکت سے ان کے ماننے والوں کا دل دکھائیں۔

    مذہبی مسائل میں بحث مباحثہ کرنے سے اسلام نہیں روکتا مگر وہ چاہتا ہے کہ یہ تہذیب و شائستگی کے ساتھ ہو۔ و لا تجادلوا اھل الکتاب الا بالتی ھی احسن۔ اہل کتاب سے مباحثہ نہ کرو مگر احسن طریق سے۔ یہ حکم صرف اہل کتاب ہی کے لئے نہیں ہے، بلکہ سب اہل مذاہب کے لئے ہے۔

    ہمارے ہاں دین کے اس حکم پر سلف صالحین اور سنجیدہ اہل علم نے ہمیشہ عمل کیا ہے۔ جاہل مناظرہ بازوں اور بسا اوقات عام لوگوں نے بہت سے مقام پر اس کی خلاف ورزی بھی کی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی دوسرے مذہب یا مسلک کی شخصیات کی شان میں گستاخی کی جائے گی تو وہ پلٹ کر ہمارے مذہب و مسلک کی شخصیات کی توہین پر اتر آئے گا۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں سوائے فساد کے اور کچھ پیدا نہ ہوگا۔

    ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم دیگر مذاہب و مسالک کی شخصیات کا پورا احترام کریں اور جہاں ہمیں ان کے نظریات سے اختلاف ہو، وہاں شائستگی اور تہذیب کے ساتھ اپنی بات دلائل کے ساتھ رکھ دیں۔ کسی کی دل آزاری نہ کریں اور نہ  ہی کسی کی ذات پر تنقید کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو خدا کی بارگاہ میں ہم مجرم قرار پائیں گے جہاں ہمیں دیگر مذاہب و مسالک کی جانب سے اپنی مذہبی شخصیات کی توہین کا ذمہ دار بھی قرار دے دیا جائے گا۔]

یہ حق کہ ایک کے قصور میں دوسرا نہ پکڑا جائے

اسلام انسان کا یہ حق بھی قرار دیتا ہے کہ وہ دوسروں کے قصور میں نہ دھر لیا جائے۔ قرآن مجید میں یہ عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ لا تزرو وازرۃ وزر اخری۔ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فعل کا خود ذمہ دار ہے۔ دوسرے کسی شخص کا اگر اس کے فعل میں کوئٰ حصہ نہیں ہے تو وہ اس کی ذمہ داری میں وہ نہیں پکڑا جا سکتا۔

    افسوس کہ اس صریح منصفانہ اور معقول قاعدے کو بھی، جو کسی انسان کا گھڑا ہوا نہیں بلکہ رب کائنات کا مقرر کردہ ہے، ہم پامال ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ قصور وار ایک شخص ہے اور پکڑی جا رہی ہے اس کی بیوی۔ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ کراچی میں ایک شخص پر شبہ کیا کہ وہ ایک بم کیس میں ملوث ہے۔ تفتیش کے لئے اسے پکڑ کر اسے سخت اذیتیں دی گئیں کہ وہ اس جرم کا اعتراف کرے۔ جب اس نے کہا کہ میں بالکل بے قصور ہوں تو اس کی ماں، اس کی بیوی، اس کی بیٹی، اس کی بہن سب کو پکڑ لایا گیا، اس کے سامنے ان کو اور ان کے سامنے اس شخص کو برہنہ کیا گیا تاکہ وہ اعتراف جرم کرے۔ گویا اب تفتیش جرائم کے لئے یہ بھی جائز ہو گیا کہ مشتبہ شخص پر دباؤ ڈالنے کے لئے اس کے گھر کی بے قصور خواتین کو ننگا کیا جائے۔ یہ سخت شرمناک ہے، کمینہ پن کی انتہا ہے۔

    میں یہ ہوائی بات نہیں کر رہا ہوں بلکہ مجھے اس واقعہ کا علم ہے اور میں اسے ثابت کر سکتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ایسے ظالموں کو کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم اسلام کے مطابق حکمرانی کر رہے ہیں اور ہماری ریاست اسلامی ہے۔ قرآن کے ایک صریح قاعدے کو توڑ رہے ہو، مردوں اور عورتوں کو برہنہ کرتے ہو جو اسلام میں قطعی حرام ہے۔ انسانیت کی مٹی پلید کرتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

    [حقیقت یہ ہے کہ تفتیش کے نام پر ایک شخص کی جگہ دوسرے کو سزا دینے کے اس ظلم کا ارتکاب نہ صرف ہماری پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیاں کرتی ہیں بلکہ یہی ظلم ہمارے قبائلی اور جاگیردارانہ نظام میں صدیوں سے جاری ہے۔ ایک شخص کے جرم کے بدلے میں اس کی بیٹی یا بہن کو دشمن کے نکاح میں زبردستی دے دینا ظلم کے علاوہ اور کیا ہے۔ ایک شخص کے مفروضہ جرم کے بدلے اس کی بہن کی عصمت دری کرنے کو کون اسلام اور انسانیت کے مطابق قرار دے سکتا ہے۔

    ہزارہا افسوس کہ معاشرے میں موجود ایسے ظلم کے خلاف نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے وہی لوگ ہیں جو عرف عام میں سیکولر کہلاتے ہیں۔ اس ظلم کے خلاف مذہبی آوازیں بہت ہی کم ہیں۔ یہی مذہبی آوازیں معمولی درجے کے نان ایشوز پر تو طوفان کھڑا کر دیتی ہیں لیکن جو حقیقی دینی ایشوز ہیں، ان پر خاموش رہتی ہیں۔ کیا یہ ہمارے مذہبی اور اخلاقی انحطاط کی نشانی نہیں ہے؟ انسانیت کے جو مجاہدین ایسے ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، انہیں یہ کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ مغرب کے ایجنٹ ہیں۔ اپنے معاشرے کی اخلاق باختگی کے جواز میں مغربی معاشروں کے ظلم اور اخلاقی باختگی کو پیش کیا جاتا ہے حالانکہ ہم اپنے دین پر عمل کے مکلف ہیں نہ کہ اہل مغرب کی پیروی کے۔

    ہمیں دوسروں کو کچھ کہنے سے پہلے اپنے گریبان میں دیکھنا ہوگا ورنہ ہم اللہ کی بارگاہ میں مجاہد نہیں بلکہ مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔

ہر حاجت مند کا یہ حق ہے کہ اس کی مدد کی جائے

اسلام میں حاجت مند لوگوں کا یہ حق قرار دیا گیا ہے کہ ان کی دستگیری کی جائے۔ و فی اموالھم حق للسائل و المحروم۔ مسلمانوں کے مال میں حق ہے ہر اس شخص کا جو مدد مانگے اور ہر اس شخص کا جو محروم ہو۔

    اس آیت میں صرف مدد مانگنے والے ہی کا حق مسلمان کے مال میں قرار نہیں دیا گیا ہے بلکہ یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اگر تمہارے علم میں یہ بات آئے کہ فلاں شخص اپنی ضروریات زندگی سے محروم رہ گیا ہے تو قطع نظر اس سے کہ وہ مانگے یا نہ مانگے، تمہارا کام یہ ہے کہ خود اس تک پہنچو اور اس کی مدد کرو۔

    اس غرض کے لئے صرف رضاکارانہ انفاق فی سبیل اللہ پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ زکوۃ بھی فرض کر دی گئی ہے اور اس کی تعریف میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ توخذ من اغنیاءھم فترد علی فقراءھم۔ وہ مسلمانوں کے مال داروں سے لی جاتی ہے اور ان کے غریبوں پر صرف کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اسلامی حکومت کی بھی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ جس کا کوئی دستگیر نہ ہو، اس کی دستگیری وہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ السلطان ولی من لا ولی لہ۔ حکمران اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو۔

    یہ ولی کا لفظ بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔ کوئی یتیم، کوئی بوڑھا، کوئی اپاہج، کوئی بے روزگار، کوئی مریض اگر اس حالت میں ہو کہ دنیا میں اس کا کوئی سہارا نہ ہو، تو حکومت کو اس کے لئے سہارا بننا چاہیے۔ اگر کوئی میت ایسی ہو جس کا کوئی ولی و وارث نہ ہو تو اس کا جنازہ اٹھانا اور اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرنا حکومت کے ذمے ہے۔ غرض یہ دراصل ایک ولایت عامہ ہے جس کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

    [اور اگر حکومت یہ فریضہ انجام نہ دے رہی ہو تو پوری مسلم کمیونٹی پر یہ ذمہ داری خود بخود عائد ہو جاتی ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی ہر ممکن حد تک مدد کریں۔]

قانون کی نگاہ میں مساوات کا حق

اسلام اپنی مملکت کے تمام شہریوں کو قانون کی نگاہ میں مساوات کا حق دیتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، ان کے بارے میں تو قرآن اور حدیث میں یہ صاف وضاحت ہے کہ اپنے حقوق و واجبات میں وہ سب برابر ہیں۔

انما المومنون اخوۃ۔ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ۔ (الحجرات 49:10)

مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔

فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوْا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ۔ (التوبة 9:11)

اگر (غیر مسلم) کفر سے توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ المسلمون تتکافاء دماؤھم۔ مسلمانوں کے خون برابر کی قدر و قیمت رکھتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے ذمۃ المسلمین واحدۃ یسعی ادناھم۔ سب مسلمانوں کا ذمہ ایک ہی ہے، ان کا ایک ادنی شخص بھی کسی کو پناہ یا امان دے سکتا ہے۔۔۔۔۔ حقوق و فرائض کی یکسانی اسلامی معاشرے میں مساوات کی بنیاد ہے اور اس میں کسی کے حقوق و فرائض کسی دوسرے کے حقوق و فرائض سے کسی معنی میں بھی کم یا زیادہ نہیں ہیں۔

    رہے اسلامی حکومت کے غیر مسلم شہری، تو ان کے بارے میں اسلامی شریعت کا قاعدہ خلیفہ برحق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ انہوں نے ہمارا ذمہ قبول ہی اس لئے کیا ہے کہ ان کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہو جائیں۔ (لتکون اموالھم کاموالنا و دماءھم کدماءنا۔) بالفاظ دیگر ان کے جان و مال کی حرمت بھی اسلامی مملکت میں ویسی ہی ہے جیسی مسلمان کی جان و مال کی حرمت ہے۔ قرآن مجید فرعون کے بدترین جرائم میں اس جرم کو بھی شمار کرتا ہے کہ جعل اھلھا شیعا، اس نے ملک کے باشندوں کو الگ الگ طبقوں میں بانٹ دیا تھا۔ اور یستضعف طائفۃ منھم، وہ ان میں سے ایک گروہ کو دبا کر رکھتا تھا۔

    [ہمارے ہاں بعض امتیازی قوانین اور نظریات موجود ہیں اگرچہ انہیں امت مسلمہ میں عام پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ مسلمانوں کے مصلحین اور اہل علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ممکنہ حد تک ان امتیازات کے خاتمے کی جدوجہد کریں اور قانونی اور معاشرتی سطح پر انسان کی مساوات اور برابری کی روایت کو فروغ دیں۔]

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

انسانی حقوق: اسلام اور مغرب کا تقابلی جائزہ
Scroll to top