عظمت والدین کا قرآنی تصور

(دین میں) عقیدے کے بعد سب سے بڑا (اور اہم) خاندانی تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رب العزت نے اپنی عبادت کے ساتھ والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا۔ اس سے ظاہر ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا درجہ رکھتا ہے۔

وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاهُمَا فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيماً۔  وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنْ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيراً۔ 

ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اگر بڑھاپے کو پہنچ جائیں تیری زندگی میں ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں، تو انہیں اف تک مت کہو۔ اور انہیں مت جھڑکو اور جب ان سے بات کرو، تو بڑی تعظیم سے بات کرو، اور جھکا دو ان کے لئے توضع اور انکساری کے پر رحمت (محبت) سے اور عرض کرو، ‘اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بڑی محبت و پیار سے مجھے پالا تھا جب میں بچہ تھا۔ (بنی اسرائیل 17:23)

مجرد خیالات کو حقیقی اشیاء میں تبدیل کرنا ہی کامیابی کا راز ہے۔ ہنری وارڈ

اس شگفتہ عبارت اور حیات بخش صورت کے ساتھ قرآن ہمارے دلوں میں محبت و رحمت کے جذبات کو مستحسن قرار دیتا ہے کیونکہ زندوں کے ساتھ اسی بنا پر زندگی اپنے راستے پر گامزن ہے۔ اور زندگی اسی قوی اہتمام کو نئی نسل، اولاد اور نئی پود تک بڑھا رہی ہے۔

    فطرتی طور پر والدین اپنی ذات بلکہ ہر چیز کی قربانی دے کر اپنی اولاد کی پرورش کرتے ہیں۔ اس کی مثال کو یوں سمجھیے کہ جس طرح تر و تازہ شاخ اپنی ساری غذا دانے سے حاصل کرتی ہے۔ جس کی بنا پر دانہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے۔ اور چوزہ اپنی ساری خوراک انڈے سے حاصل کرتا ہے جس کی بنا پر انڈا چھلکا رہ جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اولاد ہر قسم کی محبت و الفت، سعی و کوشش والدین سے حاصل کرتی ہے جس کی بنا پر والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ اور اگر موت کچھ مہلت دے تو اس بڑھاپے کے ہوتے ہوئے بھی خوش دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس اولاد تمام نوازشات کو بہت جلد بھول جاتی ہے۔ اور اپنے گھروں کی تعمیر، بیویوں اور اولاد کے معاملات میں مشغول رہتی ہے اور اسی مشغولیت میں زندگی پوری ہو جاتی ہے۔

    اس مذکورہ آیت پاک میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا اور عبادت کے بعد سب سے زیادہ تاکید والا حکم یہی ہے۔ مزید ساتھ ساتھ لطیف ترین سایہ ماحول پر ڈالا جا رہا ہے اور بچپن کی یادوں کو محبت و احساسات کے ساتھ ابھارا جا رہا ہے۔ فلا تقل لھما اف و لا تنھرھما (یعنی انہیں اف تک نہ کو اور نہ ہی انہیں جھڑکو۔) یہ رحمت و ادب کا اعلی ترین مرتبہ ہے کہ اولاد کے منہ سے ایسی کوئی بات نہ نکلے جو والدین کی تنگی اور اکتاہٹ پر دلالت کرے۔ اور جس سے اہانت اور سوء ادب کا پہلو نکل جاتا ہو۔

دنیا کے سات جدید عجائب میں پیٹرا کا شمار بھی ہوتا ہے۔ پیٹرا قدیم دور کی اس واحد سلطنت کا دارالحکومت تھا جو کہ فوج کی بجائے تجارت کی بنیاد پر قائم تھی۔ دنیا کے قدیم اور خوبصورت ترین آرکیٹیکچر پر مشتمل اس مقام کا سفرنامہ پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجیے۔

قل لھما قولا کریما (یعنی جب ان سے بات کرو تو بڑی تعظیم سے بات کرو۔) یہ مثبت فکر کا اعلی ترین درجہ ہے کہ والدین کے ساتھ گفتگو بھی تعظیم و احترام کے ساتھ کی جائے۔ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ (اور جھکا دو ان کے لئے توضع اور انکساری کے پر رحمت سے) یہاں تعبیر شفاف، لطیف اور بلیغ ہے جو دل کی اتھاہ گہرائیوں تک پہنچ رہی ہے۔ یہ ایسی رحمت ہے جو رقیق بھی ہے اور لطیف بھی اور یہ ایسی رحمت ہے جس کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی حکم کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔

    قل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا (عرض کرو، اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انہوں نے بڑی محبت و پیار سے مجھے پالا تھا جب میں بچہ تھا۔) یہ محبت بھری یاد ہے اور بچپن کی اس کمزوری کا تصور ہے جس کمزوری میں والدین نے پرورش کی۔ اور اب والدین بھی بالکل اسی طرح کمزور اور ضعیف ہیں جس طرح ان کی اولاد تھی اور بالکل اسی طرح جس طرح اولاد کو بچپن میں والدین کی توجہ کی ضرورت تھی بعینہ اسی طرح اب والدین کو بچوں کی طرف سے توجہ کی ضرورت ہے۔ اور اب بچوں کی طرف سے رب کریم کے حضور عرض ہے، کہ اے رب کریم، ان پر اسی طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں ہم پر رحم فرمایا تھا۔۔۔۔۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ آدمی کا اپنے والدین کو گالی دینا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی۔ آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کے باپ کو گالیاں دیتا ہے پس وہ جواباً اس کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے۔۔۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ والدین کے حوالے سے بیٹے کے دس فرائض ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ والدین اگر کھانے کے محتاج ہوں تو انہیں کھانا کھلائے۔

۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ کپڑے کے محتاج ہوں تو حسب استطاعت کپڑا پہنانا۔

۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ خدمت کے محتاج ہوں تو ان کی خدمت کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ بلائیں تو فوراً جواب دیا جائے اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ حکم دیں تو فوراً اطاعت کی جائے۔ ہاں اگر برائی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت ضروری نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔ جب ان کے ساتھ گفتگو کی جائے تو ہمیشہ نرم اور شیریں لہجے میں بات کی جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔ جب اپنے لئے دعا کی جائے تو والدین کا بھی خیال رکھا جائے اور ان کے لئے بھی دعا کی جائے۔

(مصنف: محمد کرم شاہ الازہری، بشکریہ www.zia-ul-ummat.com )

اگر آپ کو یہ تحریر پسند آئی ہے تو اس کا لنک دوسرے دوستوں کو بھی بھیجیے۔ اپنے سوالات، تاثرات اور تنقید کے لئے بلاتکلف ای میل کیجیے۔  
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ والدین کے حقوق دین نے ہمارے ذمہ عائد کیوں کیے ہیں؟

۔۔۔۔۔۔ والدین کے اولاد پر تین احسانات بیان کیجیے۔

اپنے جوابات بذریعہ ای میل ارسال کیجیے تاکہ انہیں اس ویب پیج پر شائع کیا جا سکے۔

علوم القرآن اور احادیث کے ذریعے آپ کی تعمیر شخصیت لیکچرز

عظمت والدین کا قرآنی تصور
Scroll to top