راویوں کو ثقہ یا ضعیف کیسے قرار دیا جاتا ہے؟

بھائی آپ سے ایک علمی ایشو ڈسکس کرنا ہے۔ کسی بھی حدیث بیان کرنے والے راوی کے بارے گواہیاں لی جاتی ہیں کہ آیا کہ وہ ثقہ ہے یا ضعیف؟ اور گواہی لینے کا اصول یہ ہے کہ گواہیاں ان سے لی جاتی ہیں جو اس آدمی کو جانتے ہوں اور اس کے زمانے کے ہوں۔ اگر کسی راوی کے بارے میں اس کی وفات کے سالوں بعد پیدا ہونے والا کوئی بھی آدمی شہادت دے گا تو اس کی وہ گواہی علمی میدان میں نہیں مانی جائے گی۔ لیکن ایک راوی ہے عبید بن فیروز، یہ تابعین میں سے ہے۔ اسے اس کے زمانے کے کسی ایک معتبر آدمی کی گواہی حاصل نہیں ہے۔ اس کی وفات کے ساٹھ ستر سال بعد پیدا ہونے والے امام رازی نے اسےثقہ کہا ہے اور ان کی گواہی کو علماء نے قبول کیا ہے۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ علمی میدان میں ان کی یہ شہادت قابل قبول نہیں ہونی چاہیے   کہ اصول کے خلاف ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟

عاطف احمد

حیدر آباد، پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

محض ایک آدھ شخص کی گواہی پر کسی راوی کو ثقہ یا ضعیف قرار نہیں دیا جاتا بلکہ یہ متعدد Tests میں سے ایک ٹیسٹ ہے۔ اس کے علاوہ اور ٹیسٹ بھی ہوتے ہیں۔ مزید ٹیسٹ کے بارے میں نیچے تفصیل دے رہا ہوں جو کہ میری نئی کتاب کا حصہ ہے۔ ہم عصروں کی گواہی تو محض ایک سب جیکٹو چیز ہے جبکہ دیگر ٹیسٹ اس کی  نسبت کافی آب جیکٹو ہوتے ہیں۔

محدثین ان راویوں کی جانچ پڑتال کے لیے ان کی عمومی شہرت ہی پر انحصار نہیں کرتے ہیں بلکہ ایک مزید ٹیسٹ کرتے ہیں۔ جب وہ کسی شخص پر تحقیق کرتے ہیں تو وہ اس شخص کی بیان کردہ روایات کا موازنہ اس کے ہم سبق راویوں کی بیان کردہ روایات سے کرتے ہیں۔ مثلاً وہ شخص اپنے استاذ یا شیخ سے ایک حدیث روایت کر رہا ہو، تو محدثین یہ دیکھتے ہیں کہ اسی شیخ کے دوسرے شاگرد  اسی روایت کو کن الفاظ میں روایت کر رہے ہیں۔ اگر تو ان روایات میں مطابقت ہو تو ٹھیک ہے لیکن اگر زیر تحقیق شخص کی بیان کردہ روایات میں دوسرے ہم سبق راویوں کی روایات سے فرق پایا جاتا ہو تو پھر تحقیق کے دائرے کو مزید پھیلا دیا جاتا ہے۔ اس شخص کی دیگر روایات کو بھی جانچا جاتا ہے۔ اگر یہ نظر آئے کہ وہ اکثر روایات میں دوسرے راویوں سے فرق کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ یا تو اس نے احادیث کو صحیح طرح محفوظ نہیں کیا یا پھر بدنیتی سے خود احادیث میں ردو بدل کیا ہے۔ اس طرح نہایت ہی معروضی طریقے سے ہر ہر راوی کے بارے میں معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ روایت حدیث میں کس حد تک قابل اعتماد ہے۔

محض گواہی پر کبھی بھی راوی کے ثقہ یا عدم ثقہ ہونے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ خاص کر ایسے شخص کی گواہی جو متعلقہ شخص کو براہ راست نہ جانتا ہو۔ اگر کوئی صاحب اس گواہی کی بنیاد پر مانتے ہیں تو آپ کے سوال کا جواب انہی کی ذمہ داری ہے۔ میں چونکہ اس کا قائل نہیں، تو کیا عرض کر سکتا ہوں۔ ہاں کوئی ایسا شخص ہو، جو اس شخص کو براہ راست جانتا ہو، تو اس کی گواہی کی اپنی اہمیت ہے۔

میرے نزدیک آب جیکٹو طریقہ یہی ہے کہ ایک راوی کی روایات میں ڈیوی ایشن کو دیکھا جائے۔ ایک آدھ روایت میں ڈیوی ایشن سے فرق نہیں پڑتا لیکن جو راوی بہت سی روایتوں میں اپنے ہم سبق افراد سے بہت مختلف بات کہہ رہا ہو، وہ مشکوک ہوتا ہے۔ اس کے بعد رجال کی معلومات سے اس شک کو مزید کوروبراٹ کیا جا سکتا ہے۔ تفصیل کے لیے آپ امام مسلم کی ایک کتاب دیکھ سکتے ہیں (مجھے اس وقت نام یاد نہیں آ رہا،) اس میں انہوں نے راویوں کی چھان بین کے اس طریقے پر بحث کی ہے۔

متعلقہ راوی پر تحقیق کر کے دیکھنا ہو گا کہ امام رازی کے نقطہ نظر کی بنیاد کیا ہے۔ اگر ان کے نقطہ نظر کی بنیاد نہیں ملتی تو پھر اسے ان کی غلطی قرار دیا جائے گا۔ ان کا اقتباس اور کتاب کا نام بھیج سکیں تو کچھ عرض کر سکتا ہوں۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

راویوں کو ثقہ یا ضعیف کیسے قرار دیا جاتا ہے؟
Scroll to top