السلام مبشر بھائی
میرے ایک دوست حمیر داؤد نے آپ کے بارے میں بتایا کہ آپ بہت جلد جواب دیتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا خیر اور شر دونوں اللہ تعالی کی جانب سے ہیں؟ اگر خدا برے اعمال نہ بناتا تو ہم گناہ نہ کرتے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالی کو علم تھا کہ شیطان سرکش ہو گا تو پھر اسے بنایا ہی کیوں؟
یہ سوالات اگر میں مولوی صاحب سے پوچھتا ہوں تو کہتے ہیں کہ تمہارا ایمان کچا ہے۔ اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ مذہب مطالبہ کرتا ہے کہ آنکھیں بند کر کے یقین کر لو؟ امید ہے کہ آپ جواب دیں گے تاکہ میں اپنے ایمان کو مضبوط کر لوں۔
جہانزیب ہاکرو
جامشورو، پاکستان
ڈئیر جہانزیب بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کی میل کا بہت شکریہ۔ سوالات کو دبانا ہرگز ایمان کا تقاضا نہیں ہے۔ قرآن مجید تو ہمیں بار بار غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ جب ہمارے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہوتا تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ ایمان کی کمزوری ہے۔ آپ بلاتکلف سوال بھیجیے۔ بس ایک گزارش ہے کہ رومن اردو کی بجائے اردو رسم الخط ہی میں لکھ لیجیے یا پھر انگریزی میں ای میل لکھ لیجیے کیونکہ رومن اردو پڑھنا میرے لیے کافی مشکل ہے۔ اپنا تفصیلی تعارف کروا دیجیے تو نوازش ہو گی۔
آپ نے جو پہلے تین سوالات کیے ہیں، وہ بنیادی طور پر ایک ہی سوال ہے کہ کیا اللہ تعالی نے شر کو تخلیق کیا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر ہم جو برائی کرتے ہیں، اس میں ہمارا قصور کیا ہوا؟
اللہ تعالی نے انسان کو اختیار دیا ہے کہ وہ نیکی یا برائی میں سے کوئی راستہ چن لے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے برائی کو تخلیق کر کے ہمیں مجبور کر دیا ہے کہ ہم وہ برائی کریں۔ اگر وہ ایسا کرتا تو پھر آپ کا سوال valid ہوتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی تلوار سے کسی کو قتل کر دے تو اس کا الزام اسی پر رکھا جائے گا نہ کہ تلوار ایجاد کرنے والے پر۔آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں برائی کرنے کا اختیار ہی نہ دیتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر انسان کی حیثیت بھی وہی ہوتی جو بے جان اشیاء جیسے پتھروں وغیرہ کی ہے۔ اختیار کی صلاحیت دے کر اللہ تعالی نے ہمیں ایک امتحان میں اتارا ہے جس میں ہم اپنی پوری مرضی کے ساتھ اترے ہیں۔ قرآن مجید سے واضح ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے سامنے اس امتحان کو رکھا اور ہمیں اختیار دیا کہ ہم اس میں اتریں یا نہ اتریں۔ اس امتحان میں اترنے کے بدلے اللہ تعالی نے ہمیں لامحدود زندگی کی نوید سنائی۔ اس وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس موضوع پر میں نے تفصیل سے لکھا ہے، اس کا مطالعہ کر لیجیے۔
http://www.mubashirnazir.org/QA/000300/Q0240-Scheme.htm
ان تحریروں کے مطالعے کے بعد اگر کوئی نیا سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے، تو ضرور میل کیجیے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ہم جانتے ہیں کہ نفس ہمیں برائی پر اکساتا ہے اور یہ ہماری شخصیت کا حیوانی حصہ ہے۔ جیسے بدکاری ایک حیوانی جذبے کے تحت ہی انسان کرتا ہے۔ یہ بتائیے کہ گناہ کا سبب کیا ہے؟ روح یا جسم؟ شیطان سے پہلے تو کوئی شیطان نہ ہتھا، پھر اسے گناہ پر کس نے اکسایا؟ ہم حیوانی جسم اور روح سے مل کر بنے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخرت میں جزا و سزا کسے ملے گی؟ روح کو یا جسم کو یا دونوں کو؟ شیطان اتنے لوگوں پر اثر انداز کیسے ہو جاتا ہے؟
جہانزیب ہاکرو
ڈئیر جہانزیب بھائی
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
نفس کا لفظ دو معنی میں استعمال ہوتا ہے: ایک شخصیت کے معنی میں اور دوسرا اس قوت کے معنی میں جو انسان کو برائی پر اکساتی ہے۔ قرآن مجید میں اسے “نفس امارہ” کہا گیا ہے۔
انسانی شخصیت تو اتنی واضح چیز ہے کہ اس کے لیے کسی تعریف کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ جو “میں” کا تصور ہر شخص کے اندر موجود ہے، یہی انسانی نفس ہے اور اسی کا مطالعہ علم نفسیات کہلاتا ہے۔
اگر ہم انسانی شخصیت کا جائزہ لیں تو اس کے مختلف حصے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ عقل ۔۔ جو چیزوں کا تجزیہ کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔ نفس امارہ ۔۔ وہ قوت جو انسان کو برائی پر اکساتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔ نفس لوامہ ۔۔ وہ قوت جو برائی کی صورت میں انسان کو لعن طعن کرتی ہے۔ اسے ضمیر بھی کہا جاتا ہے۔ یہی وہ قوت ہے جس کی وجہ سے انسان غلط و صحیح میں فرق کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ جذبات ۔۔ جیسے غصہ، محبت، نفرت وغیرہ۔
اگر یہ سب چیزیں عقل کے کنٹرول میں رہیں اور وہ نفس لوامہ کی مشوروں پر چلتی رہے تو انسان صحیح رہتا ہے۔ اگر عقل جذبات یا نفس امارہ سے مغلوب ہو جائے تو وہ غلط راہ پر چل نکلتا ہے۔ جزا وسزا اسی بات پر دی جائے گی کہ عقل کا کنٹرول رکھا گیا یا نہیں اور انسان کو صرف اسی معاملے میں جزا و سزا ملے گی جس میں اسے اللہ تعالی نے اختیار دیا ہے۔ غیر اختیاری معاملات میں کوئی جزا و سزا نہیں ہے۔ اس موضوع پر آپ میری تحریر انسانی شخصیت کا مطالعہ کر لیں تو مزید تفصیلات مل جائیں گی۔
شیطان کو اس کے نفس امارہ ہی نے بہکایا تھا۔ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ ہمارا نفس امارہ ہمیں بہکاتا ہے۔ شیطان صرف اتنا کرتا ہے کہ اسی نفس امارہ کو اکساتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ شیطان اتنے لوگوں پر اثر کیسے ڈالتا ہے۔ تو جو ابلیس ہے، وہ تو ایک ہے لیکن اس کے بے شمار کارکن ہیں جو جنات اور انسانوں دونوں میں شامل ہیں۔ جب ایک دوست دوسرے کو گناہ کی ترغیب دیتا ہے، تو وہ بھی تو شیطان کا آلہ کار ہی بنا ہوتا ہے۔
جنت و جہنم کی جو تفصیلات ہمیں قرآن و حدیث میں ملتی ہے، ان کے مطابق جزا و سزا روح اور جسم دونوں کو دی جائے گی۔ اس سے لگتا ہے کہ اللہ تعالی ہماری شخصیت کو کوئی اور جسم عطا فرمائے گا جس پر یہ معاملات گزریں گے اور اللہ تعالی کے لیے ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
آپ ماشاء اللہ اتنی دلچسپی رکھتے ہیں تو میرا مشورہ ہے کہ آپ دینی علوم کا تفصیل سے مطالعہ کر لیجیے۔ اس سے یہ تمام سوالات خود بخود حل ہو جائیں گے۔ اس کے لیے ہم نے کچھ آن لائن کورسز شروع کیے ہیں، آپ ان میں ہمیں جائن کر سکتے ہیں۔ اس طرح آپ کو جوابات بھی جلد ملیں گے اور آن لائن ڈسکشنز میں بھی آپ شریک ہو سکیں گے۔ تفصیلات یہاں ہیں۔
دعاؤں کی درخواست ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply as soon as possible if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.