قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تاریخ سے متعلق سوالات

سوال:   سورۃ المومن میں دو مرتبہ مردہ اور دو مرتبہ زندہ کرنے سے بیان کیا گیا ہے، اس سے کیا مراد ہے؟

اسامہ ذوالفقار عباسی

جواب:  ہماری اس موجودہ زندگی سے پہلے دور کو اللہ نے موت کہا ہے، اس کے بعد ہم ایک مرتبہ پیدا ہوجاتے ہیں، پھر موت کے مرحلے میں چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ تعالی دوبارہ زندہ کر کے آخرت میں لے جائے گا۔  اس طرح سےاللہ تعالی دو مرتبہ زندہ کر تا ہےاوردومرتبہ موت دیتا ہے۔ 

 سوال:  قرآن میں جب کسی رسول کی اُمت کا واقعہ سنایا جاتا ہے تو تفصیلات نہایت مختصر ہوتی ہیں، کسی اور مقام پر وہی واقعہ مختلف اور مزید تفصیلات کے ساتھ آتا ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ایک جگہ ہی واقعہ کی مکمل معلومات بتا دی جاتیں؟

جواب:  جب تفصیلات پہلے ہی لوگوں کو معلوم ہوں تو بار بار اسے وہی تفصیلات بتانے سے لوگ بور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں مختصر ارشاد فرمایا ہے کیونکہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قرآن مجید پڑھ کر سنا رہے تھے تو اس وقت تمام عرب لوگ ان واقعات کو پہلے ہی  سےجانتے تھے۔ اگر کسی ایک آدھ انسان کو تفصیلات کی ضرورت ہوتی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ بھی سکتے تھے۔آپ کی وفات کے بعد  اگرکسی صحابی کو تفصیلات کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ بنی اسرائیل کے بڑے عالم جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے پوچھ لیتے تھے۔  آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ 

ان تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت کی تفصیلات پر بنی اسرائیل کے علماء نے کتابیں لکھ دی تھیں جو ساری مل کر 56 کتابیں  بائبل کا حصہ بن چکی ہیں۔ 

باقی بوریت کی مثال  کوآپ اس طرح سے دیکھ لیجیے کہ آپ نے اسکول میں جو کتابیں پڑھ لی تھیں، اب اگر کوئی بھی استاد بار بار ان پر تقریر کرنے لگے تو آپ بور ہو جائیں گے۔ مثلاً قیام پاکستان اور کشمیر کے معاملات جو آپ اسکول کی کتابوں میں پڑھ چکے ہیں، اب پھر اس پر کوئی تقریر کرنے لگے تو  یقیناًآپ بور ہو جائیں گے۔ 

 سوال:  سورۃ حم کی آیت نمبر ۶ سے واضح ہے رسول اللہﷺ نے ہمیشہ خود کو بشر کہا ،لیکن اِس کے بعد نور یا بشر کی بحث کس بنیاد پر کی جاتی ہے؟ کیا مختلف لوگ اِس آیت سے مختلف معنی لیتے ہیں؟

جواب:  اس آیت 6 میں اللہ تعالی نے یہی بتا دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر یعنی انسان ہی تھے۔ تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام انسان ہی تھے۔ اس دلیل سے آپ خود ہی سوچ سکتے ہیں۔  جیسا کہ آپ کو نور ہونے کا کہا ہے تو وہ حقیقی معنی  نہیں بلکہ مجازی معنی میں لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نور ہدایت تھے۔ ظاہر ہے کہ بہت سی ہدایت کی روشنی آپ کے ذریعے ہی ہمیں ملی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ  یہ مجازی معنی ہے۔ ظاہر ہے کہ حقیقی معنی میں  تو جسم مبارک کی کوئی کیمسٹری تو نہیں کر سکتا ہے۔ اس لیے یہ واضح ہے کہ مجازی معنی میں ہی ہدایت نور کہا جاتا ہے۔ 

باقی دیگر حضرات نے جو کچھ ارشاد فرمایا ہے، اس کی بحث آپ کے لئے سارے گروہوں کے علماء کے ارشادات کو تقابلی مطالعہ کی کتابوں میں اکٹھا کر دیا ہے اور خود فیصلہ نہیں کیا ہے۔ آپ کوا س میں دلچسپی ہوئی تو آپ تقابلی مطالعہ کی دوسری کتاب میں اس بحث کو دیکھ سکتے ہیں۔  آپ کو چاہیے کہ کسی سے تعصب کیے بغیر آزادانہ طریقے سے تمام گروہوں اور فرقوں کے علماء کی دلیل کو دیکھیے۔ پھر دوسروں کی دلیل کو دیکھیے اور پھر فیصلہ آپ خود کر لیجیے گا کہ کس کی دلیل زیادہ مضبوط ہے۔ 

سوال:   سورۃ الشوری  میں دین میں تفرقہ کرنے سے منع کیا گیا ہے، میرا سوال یہ ہے کہ فرقہ و مسلک اور مکاتبِ فکر میں کیا فرق ہے؟ فرقہ بنانے سے منع کیا گیا ہے لیکن ہمارے ہاں تمام بڑے عالم اپنے آپ کو کسی خاص مکاتبِ فکر کا پیروہ کہتے ہیں، کیا مختلف  مکاتبِ فکر کو مختلف  فرقے کہا جا سکتا ہے؟

جواب:  آپ کے ذہن میں جو سوالات پیدا ہوئے ہیں، وہ ہر لڑکے کی فطرت میں یہی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس لاجک سے یہی کنفرم ہو جاتا ہے کہ کسی فرقہ اور مسلک سے ہمیں دور ہی رہنا چاہیے۔ اسی فرقہ واریت کی وجہ سے لوگ آپس میں جنگیں کرتے ہیں اور اس طرح  دین کی ہدایت کو توڑ مروڑ کر بحثیں کرتے ہیں۔  پھر دوسروں پر جبر کر کے ان کے خلاف منفی فتوے کہہ دیتے ہیں اور پھر لڑائیاں کر کے آگے دوسروں کی مسجدوں میں بم بھی مارتے رہتے ہیں۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھا دیا تھا کہ اس حرکت سے بچیں۔ 

 حاکم نے مستدرک علی الصحیحین میں روایت نقل کی ہے۔

عَنْ أَبِي عَامِرٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ لُحَيٍّ، قَالَ: حَجَجْنَا مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ... ثُمَّ قَامَ حِينَ صَلَّى الظُّهْرَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ تَفَرَّقُوا فِي دِينِهِمْ عَلَى اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ هَذِہِ الْأُمَّةُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً وَهِيَ الْجَمَاعَةُ

ابو عامر  عبد اللہ بن لُحی ّ   سے روایت ہے  کہ: ہم نے معاویہ بن ابی سفیانؓ کے ساتھ حج کیا ، پھر جب معاویہؓ مکہ میں ظہر کی نماز پڑھ چکے تو وہ کھڑے ہو گئے اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) اپنے دین میں72 فرقوں میں بٹ گئے ، اور یہ امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی، یہ سب جہنم میں ہوں گے ،سوائے ایک ہی لوگوں  کےجو الجماعت  ( یعنی فرقہ واریت سے ہٹ کر دین پر عمل کرنے والے) ہیں۔

 عبد اللہ بن مسعودؓنے فرمایاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:۔

لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ الثَّيِّبُ الزَّانِي وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ

کوئی بھی مسلمان جو یہ گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں  اور میں اللہ کا رسول ہوں ، اس کا خون صرف ان تین وجوہات کے باعث حلال ہے؛ شادی شدہ ہو اور زنا کرے، قتل کے قصاص میں قتل کیا جائے اور دین کو چھوڑنے والا،الجماعۃ سے الگ ہونے والاہو۔ (صحیح مسلم)

یہاں پر اصل لفظ الجماعتہ کی ورڈ ہے۔ اردو میں جماعت سے لوگ کسی فرقے کی یا سیاست کی پارٹی کو کہتے ہیں۔ یہ ترجمہ ہی غلط ہے کیونکہ عربی قدیم زبان میں الجماعتہ سے مراد  تمام مسلمانوں میں اتحاد کے ساتھ رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے 41 ہجری میں الجماعۃ کا سال کہا کیونکہ اس وقت حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما میں ایسا اتفاق ہو گیا تھا کہ ایک ہی حکومت مل گئی تھی۔ 

جہاں تک مکتب فکر کا تعلق ہے تو اس کو اسکول آف تھاٹ کہا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ مختلف اسکالرز کا طریقہ کار ایک ہی ہوتا ہے تو اس سے مکتب فکر بنتا ہے۔ دوسرے اسکالرز میں مختلف طریقہ کار ہوتا ہے تو ان کا الگ مکتبہ فکر بن جاتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جب آپس میں تعصب پیدا ہوتا ہے تو تب جا کر مکتب فکر کو مسلک اور اس سے آگے جا کر فرقہ بن جاتا ہے۔

 ایک یورپی اسکالر نے اپنے ممالک میں یہی تبصرہ کیا کہ سائنسدانوں میں مختلف مکتب فکر بنتے ہیں ، پھر یہ سائنسدان اختلاف کے ساتھ آپس میں دوستی کے ساتھ رہتے ہیں، اکٹھے مل کر چائے پیتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں اور پھر اختلاف کے ساتھ گلے لگا کر چلے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس مذہبی علماء تو عزت کے ساتھ اختلاف نہیں کرتے ہیں اور پھر دشمنی اختیار کر لیتے ہیں۔ اس پر آپ میری تحریر دیکھ سکتے ہیں۔ 

سوال: قرآن مجید کس رات کو نازل کیا گیا ہے؟ سورۃ الدخان کی آیت نمبر4 کے مطابق ہم اس رات کو ہر فیصلہ کرتے ہیں، سے کون سی رات مراد ہے؟ ہمارے ہاں شبِ برات کو تمام معاملات کے فیصلے کا دن کہا جاتا ہے؟ اس میں کتنی حقیقت ہے؟

جواب:  اس سوال کا جواب آپ خود قرآن مجید میں ڈھونڈ لیجیے۔ پہلے کوشش کریں، اگر مل گیا تو الحمد للہ۔ ویسے آپ نے ابھی نہیں پڑھا ہو گا تو جواب بتا دیتا ہوں کہ اس کا جواب سورۃ القدر میں ہے۔ شب برات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے  جس کا نہ تو قرآن مجید میں ذکر ہے اور نہ احادیث میں۔ قرآن مجید کا تعلق سورۃ القدر سے ہے  اورا س رات کی وضاحت آپ نے سورۃ الدخان میں پڑھ لی ہے۔

اب آپ کا سوال یہ ہو گا کہ لیلۃالقدر کب ہوتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی بتایا تھا کہ جب قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تھا تو وہ رمضان کے آخری عشرے میں رات تھی اور وہ کوئی طاق رات تھی۔  آپ کا رویہ یہی تھا کہ رمضان میں زیادہ عبادت اور صدقات ادا کرتے تھے اور پھر اس میں اعتکاف بھی کرتے تھے تاکہ اللہ تعالی کے ساتھ فوکس ہو جائے۔ 

سوال: سورۃ یسیٰن کی ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ میں ذکر ہوا ہے کہ ایک بستی میں دو رسول بھجیے۔ اس سے کون سی بستی مراد ہے اور ان رسولوں کے بارے میں تفصیلات کیا ہیں؟

جواب: یہاں پر لفظ رسول لفظی معنی میں ہے جس کا مطلب ہے یعنی سفیر یا نمائندہ یعنی ایمبیسیڈر۔ جب حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دعوت کے لئے مختلف شہروں اور ملکوں میں پہنچے تو وہ  حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے نمائندے کے طور پر دعوت پہنچا رہے تھے۔ تاریخ میں ہے کہ وہ  دعوت لے کریروشلم سے شروع کر کے سیریا، لبنان، ترکی، یونان اور اٹلی تک پہنچے۔ دوسری طرف مصر، لیبیا کی طرف بھی دعوت پہنچانے لگے۔ چونکہ وہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے نمائندے تھے، اس طرح انڈائرکٹ اللہ تعالی کے نمائندے کے طور پر پہنچے اور دعوت پہنچانے لگے۔ 

 سوال:   الیاس علیہ السلام کس قوم کی طرف نبی بن کر آئے تھے؟

جواب:  الیاس علیہ الصلوۃ والسلام بنی اسرائیل ہی کے نبی تھے۔ جب حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کی حکومت میں بنی اسرائیل کا عروج تھا۔ آپ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل میں سیاسی مشکلات پیدا ہوئیں اور پھر انہوں نے دو ملک الگ کر لیے۔ ایک ملک لبنان میں بنا اور دوسرا فلسطین سے مصر تک۔ دونوں میں گمراہیاں پیدا ہونے لگیں لیکن لبنان والوں میں گمراہی زیادہ پھیلنے لگی۔ پھر یہاں کے بادشاہ نے ایک مشرک خاتون سے شادی کر لی اور پھر یہ ملکہ ہر طرف شرک پھیلانے لگی۔ 

اس وقت  الیاس علیہ الصلوۃ والسلام لبنان میں دعوت پہنچانے لگے۔ بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالی نے یہی معاملہ کیا تھا کہ وہ ہدایت پر رہے تو وہ سپر پاور بنے لیکن جب گمراہیاں اور پھر شرک تک پہنچے تو اسی زندگی میں انہیں سزا بھی ملی۔ ملکہ نے حکم دیا کہ حضرت الیاس علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کر دیا جائے۔ اللہ تعالی نے انہیں بچا کر ہجرت کا حکم دیا اور آپ فلسطین والی ریاست میں چلے گئے۔ اس کے بعد لبنان کو پہلی سزا یہ ملی کہ دوسری قوم عراق نے لبنان پر حملہ کر دیا۔

900-600BC

وقت کے ساتھ فلسطینی سلطنت میں بھی جب شرک پھیلا تو وہاں بھی سزا جاری کی گئی اور عراق نے ان پر حملہ کر کے پوری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا کر عراق لے گئے۔ یہ وقت تک جاری رہا۔ پھر ایک صدی تک غلام بنے رہے اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام انہی میں پیدا ہوتے رہے اور انہیں ہدایت کی بات سمجھاتے رہے۔ آخر تک حضرت عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کو انہوں نے قبول کیا تو اللہ تعالی نے توبہ قبول کر لی۔ پھر ذو القرنین رحمتہ اللہ علیہ ہی عراق اور ایران کے بادشاہ بنے اور وہ ہدایت یافتہ تھے۔ انہوں نے بنی اسرائیل کو آزاد کر دیا اور فلسطین میں دوبارہ ان کی حکومت بن گئی۔

 سوال:  یونس  علیہ السلام کی دعوت کا زمانہ کون سا ہے؟

600-500BC

جواب:  حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام عراق میں دعوت پہنچاتے رہے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب تک بنی اسرائیل غلام بنے ہوئے تھے۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کو اللہ تعالی نے آخرت کے ثبوت کے طور پر قیامت تک اس زندگی میں رکھا ہے تاکہ ان میں جزا یا سزا کا سلسلہ جاری رہے۔ 

 سوال:  اللہ تعالیٰ نے قرآن میں قسمیں کیوں کھائی ہیں؟

جواب:   یہ میں آپ کو پہلے  بتا چکا ہوں کہ قسم کا مجازی معنی ہے ثبوت۔ حقیقی قسم تو اللہ تعالی سے ہی کی کھا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے جن اشیا ء کی قسم کھائی ہے ان کو ثبوت کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ 

 سوال:  حضرت ایوب کس قوم میں مبعوث ہوئے؟

1250-1800BC

جواب:  حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام بھی بنی اسرائیل کے نبی تھے۔ آپ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل سے تھے۔ اندازہ یہی ہے کہ آپ اس وقت دعوت پہنچا رہے تھے جب بنی اسرائیل مصر میں سیٹل ہو چکے تھے ۔ یہ زمانہ کے بیچ میں کسی وقت کا ہے جب بنی اسرائیل مصر میں اللہ تعالی کی دعوت پہنچا رہے تھے۔ 

 سوال:  الیسع کون تھے؟

جواب: حضرت الیسع اور حضرت الیاس علیہما الصلوۃ والسلام کا ایک ہی پیریڈ ہے جب آپ لبنان میں اللہ تعالی کی دعوت پہنچا رہے تھے جب بنی اسرائیل میں شرک کی گمراہی پیدا ہو چکی تھی۔ ان سب انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی سیرت  کی کتابیں تو خود بنی اسرائیل کے علماء نے لکھ دی ہیں۔ یہ سب انہی کے نام پر بائبل کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ 

 سوال:  سورت الزمر کی آیت نمبر ۳ سے واضح ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی شخص سے اس لیے عقیدت رکھنا کہ وہ اللہ تک پہنچانے کا ذریعہ ہے، ایک ناجائر عمل ہے۔ ہمارے ہاں  ایک بڑا  طبقہ اس کا قائل ہے وہ اس آیت سے کیا مطلب نکالتے ہیں؟

جواب:  اس آیت سے آپ دیکھ لیجیے کہ ہمارے ہاں جو گمراہی پیدا ہوئی ہے، اس کا جواب اللہ تعالی نے دے دیا ہے کہ کوئی انسان اپنے مریدوں کو اللہ تعالی تک نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں، زوال کے دو رمیں مسلمان اپنے لیڈرز کو اللہ تعالی تک پہنچانے والا سمجھنے لگے اور پھر انہی لیڈرز کی پوجا کرنے لگے۔ ایسی ہی گمراہی میں بنی اسرائیل بھی رہ چکے اور مسلمان بھی کر رہے ہیں۔وہ قرآن مجید کی اس آیت کے مطلب پر غور ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہی سمجھتے ہیں جو اس میں لکھا ہوا آپ پڑھ رہے ہیں۔ بس اس پر ایگنور کر دیتے ہیں اور  یہی سمجھتے ہیں کہ یہاں مشرکوں کی بات چل رہی ہے۔ 

اس کی تفصیل آپ تقابلی مطالعہ کی پانچویں کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔ 

 سوال:  سورۃ زمر آیت نمبر 6 میں پیدائش کا جو عمل بیان ہوا ہے کیا جدید تحقیقات سے ثابت ہے؟

 جواب: اس آیت میں اسی غلط فہمی کو سمجھایا ہے کہ اللہ تعالی اپنی اولاد کو پیدائش نہیں کرتا ہے۔ کوئی اللہ تعالی کا بیٹا بیٹی نہیں ہو سکتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں یہی گمراہی پیدا ہوئی کہ انہوں نے حضرت عیسی اور عزیر علیہما الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی کا بیٹا قرار دے دیا جس کی غلطی قرآن مجید میں بتا دی ہے۔ اسی طرح عرب مشرکین نے فرشتوں کو اللہ تعالی کی بیٹی قرار دے دیا۔ قرآن مجید نازل ہونے پر ان سب کی غلطیاں سامنے آ گئیں، اب چاہیں تو وہ اس گمراہی میں رہے یا پھر ہدایت پر آ جائیں۔ 

مسلمان جب ایمان لائے تو  انہوں نے انڈیا اور ایران کے فلسفے کو اسلام میں شامل کی کوشش کی۔ قرآن مجید کو انہوں نے پڑھنا چھوڑ دیا ۔ بس تلاوت کر لیتے لیکن اس کا ترجمہ نہیں پڑھتے رہے۔ اس لیے ہمارے ہاں زوال پیدا ہوا اور ہم میں وہی مغلوبیت کی سزا ہو رہی ہے جو بنی اسرائیل پر ہوئی کہ ہم یورپ اور امریکہ کے غلام بن کر رہ رہے ہیں۔

اس مغلوبیت کی ابھی مثال آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہماری کرنسی کی ویلیو گر رہی ہے۔ پچھلے سال پاکستانی روپے کی قیمت یہ تھی کہ ۱۵۰ روپے ایک امریکی ڈالر جتنے تھے اور اب اس کی ویلیو یہ ہے کہ ایک ڈالر تو ۳۱۰ روپے تک ہو گیا ہے۔ اب ہم ہدایت پر آ جائیں تو اللہ تعالی پھر ہمیں بچا دے گا۔

جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت عزیر علیہ الصلوۃ والسلام کی ہدایت دوبارہ اختیار کر لی تو اللہ تعالی نے عراق میں ان کی غلامی ختم کر دی، تب وہ فلسطین میں دوبارہ حکومت بنا سکے اور آزاد ہو گئے جو تک رہے۔ 

Recovery of Bani Israil at 470-250BC & Fall 250BC-70CE

پھر دوبارہ وہ گمراہ ہوئے تو تب حضرت زکریا، یحیی اور عیسی علیہم الصلوۃ والسلام کی دعوت جاری رہی اور اس کے بعد مغلوبیت کی سزا ہو گئی جو 70 سال سے لے کر آج تک جاری ہے۔

Fall Period 70CE-Today

اسی طرح مسلمانوں میں یہی معاملہ ہوا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اور قرآن مجید پر عمل کرتے رہے تو عروج پر رہے اور جب گمراہیاں اختیار کیں تو  اسی مغلوبیت کی سزا ہے جو تک جاری ہے۔ اس کی تفصیل آپ دونوں امتوں کی تاریخ میں پڑھ سکتے ہیں۔

Muslim Falls History 1258CE-Now

 سوال:  سورۃ سبا میں آتا ہےہم نےداؤد (علیہ السلام) کے لئے لوہا نرم کیا اور پہاڑوں کو حکم دیا کہ ان سے ہم آہنگ ہو جاؤ سے کیا مراد ہے؟

جواب:  حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کی حکومت کا ٹائم قبل مسیح 1000 کے قریب ہے۔ اس وقت انسانوں کو ٹیکنالوجی معلوم نہیں تھی۔ اس لیے حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے لوہے کو پگھلانے کا طریقہ بتا دیا۔ آپ نے پھر اپنی قوم بنی اسرائیل کو ٹیکنالوجی سکھا دی۔ ابھی بھی آثار قدیمہ میں اسرائیل ہی میں لوہے کو پگھلانے کی بھٹیوں کے آثار ملے ہیں جو قبل مسیح 1000 کے قریب ہے۔  ابھی بھی اسرائیل کی یونیورسٹی کے ماہرین آثار قدیمہ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ 

لفظ حکم  کو اللہ تعالی نے کیا کہ وہ کسی بھی مخلوق کو حکم دے سکتا ہے۔ پہاڑوں کو ہم آہنگ کرنے میں اللہ تعالی نے کیا کیا ہو گا؟ اس کا ہمیں تو علم نہیں ہے لیکن اندازہ ہی کر سکتے ہیں کہ پہاڑوں میں ہوا اور پانی کی موومنٹ  کو ہم آہنگ کر لیا ہو گا تاکہ سیلاب نہ آئے اور لوگ آسانی سے پہاڑوں سے گزر سکیں۔ اسی طرح زلزلہ نہ ہو اور پہاڑوں کے اندر روڈ بھی بنائے جا سکیں۔ 

 سوال:  قوم سبا پر کب سیلاب آیا تھا؟

جواب: قوم سبا کے سیلاب کا معاملہ تو قرآن مجید کے نزول سے سو یا دو سو سال پہلے ہی ہوا تھا جسے آپ 400-500CE کہہ سکتے ہیں۔ اس زمانے میں عرب علاقوں میں سب سے زیادہ امیر ملک یمن تھا کیونکہ ڈیم کے نتیجے میں ایگریکلچر اچھا چل رہا تھا۔ اس کے علاوہ چین، انڈیا، افریقہ کی اشیا یمن کی بندرگاہ میں پہنچتیں۔ پھر عرب لوگ ہی خرید کر فلسطین میں پہنچاتے ۔ اسی طرح یورپ کی اشیاء خرید کر یمن میں پہنچاتے اور وہاں سے اشیا چین، انڈیا اور افریقہ میں پہنچتی۔ اس طرح عرب علاقے میں بزنس کاریڈور بنا ہوا تھا۔

اسی کا ذکر آپ نے سورۃ القریش میں پڑھا ہو گا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑدادا  ہاشم صاحب نے اہل مکہ قریش کو سمجھایا کہ وہ اس بزنس میں آسانی سے فائدہ اٹھا سکتے ہو کہ سارے عرب قبیلے آپ سے محبت کرتے ہیں اور وہ کوئی آپ سے ڈکیتی نہیں کریں گے۔ اس لیے قریش کے لوگ ہی یمن سے فلسطین اور وہاں سے یمن تک سفر کرتے اور ان کا بزنس بہت کامیاب تھا۔ 

سیلاب  میں زرخیز زمینیں خراب ہوئیں اور سبا قوم کے کئی قبیلے عرب علاقوں میں سیٹل بھی ہوئے۔ ان میں سب سے بڑے مشہور قبیلے اوس اور خزرج تھے جو مدینہ منورہ میں سیٹل ہوئے تھے۔ ان تمام عربوں کو سورۃ سبا میں وہی مثال سمجھا دی کہ تم سب کو اللہ تعالی کسی وقت بھی سزا اسی طرح دے گا اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ لائیں۔ اس میں قریش میں کم لوگ ہی ایمان لائے لیکن اوس اور خزرج قبیلے جلدی ایمان لے آئے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدینہ منورہ سیٹل ہو گئے۔ 

سوال:   سورۃ فاطرمیں بیان ہوا ہے کہ دوبارہ جی اٹھنا اسی طرح ہو گا جیسے بارش کے بعد مردہ زمین میں سبزہ اگ آتا ہے اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:   اس مثال کو سمجھنے کے لئے آپ خود اپنے علاقے میں کھیتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ کافی عرصے تک بارش نہ ہو تو زمین مردہ ہو جاتی ہے اور سبزہ نہیں ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالی چاہے تو بارش پیدا کر کے اس زمین کو زندہ کر کے اس میں سبزہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کشمیر میں آپ کو مثالیں تو کم نظر آئیں گی لیکن پنجاب میں آپ کو بہت علاقوں میں نظر آئے گا۔ ان مثالوں سے انسان کو سمجھایا  گیاہےکہ اللہ تعالی جب زمین کو مردہ کر کے زندہ کر دیتا ہے تو انسان کو بھی کر سکتا ہے۔ اس لیے ہر انسان کو دوبارہ زندہ کر کے آخرت کا سلسلہ شروع کر دے گا۔ 

عربوں میں یہ گمراہی تھی کہ وہ آخرت کو نہیں مانتے تھے ، ان کا سوال یہ تھاکہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ کیسے زندہ ہو سکتا ہے؟ تواس کی وضاحت اللہ تعالی نے کر دی  کہ اللہ تعالی اس طرح کر دے گا۔ عیسائی، یہودی اور ہندو حضرات آخرت کو مانتے ہیں لیکن انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہمارے بڑے نیک بزرگ لیڈرز ہمیں سزا سے بچا لیں گے۔ اس لیے وہ ان بڑے لیڈرز کی پوجا کرتے ہیں۔ عیسائی اور یہودی انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنا سفارش کرنے والا سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں واضح کر دیا کہ کوئی بھی سفارش نہیں کر سکے گا  جب تک اللہ تعالی اجازت نہ دے گا۔ مسلمانوں میں بھی یہی گمراہی کافی لوگوں میں آ چکی ہے کیونکہ انہوں نے قرآن مجید کا مطالعہ چھوڑ دیا تھا۔ 

سوال:   سورۃروم  میں رومیوں کی فتح کی پیشن گوئی کی گئی ہے،یہ پیشین گوئی کب  پوری ہوئی تھی؟ اِس آیت کے نازل ہونے کے کتنے عرصہ بعد رومی غالب آئے تھے؟

جواب:  یہاں سورۃ روم میں روم اور ایران کی جنگ سے متعلق گفتگو ہے۔ یہ باہمی  جنگوں کا سلسلہ کئی صدیوں سے جاری تھاکیونکہ دونوں ہی سپر پاورز تھیں۔ اس سورۃ روم میں ان جنگوں کا تعلق ہے جو 610 بعد مسیح سے سلسلہ شروع ہوا تھا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت مکہ مکرمہ میں چل رہی تھی۔ اس وقت مشرک لیڈرز نے ایک طنز اور پراپیگنڈا کرنا شروع کیا کہ دیکھو، ابھی ہمارے مشرک (ایرانی) تمہارے ساتھی توحیدی لوگوں (رومی عیسائیوں) کو فتح کر رہے ہیں۔ اسی طرح ہم مشرک بھی توحید والوں پر فتح کریں گے۔ 

اس کے جواب میں اللہ تعالی نے سورۃ روم نازل فرمائی اور بتا دیا کہ اگرچہ رومیوں پر مشکلات ہیں لیکن کچھ عرصے میں غالب ہو جائیں گے۔ اس کے بعد  624 بعد مسیح میں روم کو فتح حاصل ہوئی اور انہوں نے عراق کا کافی حصہ بھی فتح کر دیا ۔ ایران کا دارالحکومت بھی یہیں پر تھا۔ عین اسی وقت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ والے مشرکین سے جنگ بدر ہوئی اور وہاں آپ کو بھی فتح حاصل ہو گئی۔ تفصیل آپ میری اردو کتاب میں پڑھ سکتے ہیں اور انگلش میں اس لنک پر بھی موجود ہے۔ 

 سوال:  لقمان کون تھے؟ کس دور میں پیدا ہوئے؟ کس نبی کے امتی تھے؟

جواب: لقمان رحمۃ اللہ علیہ توحید کے لاجیکل نیک انسان تھے اور وہ حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی امت کے حصے میں تھے۔ ان کی وزڈم اور لاجک کی بنیاد پر پورے عرب کے قبائل ان سے متاثر تھے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ آپ کا ٹائم اندازاً 1100 قبل مسیح ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور 609-632 بعد مسیح ہے۔ اتنے طویل عرصے یعنی 1700 سال تک عرب لوگ لقمان رحمتہ اللہ علیہ کی وزڈم سے متاثر تھے۔  عربوں کی تاریخ میں کم ہی لوگ زیادہ لاجیکل اور وزڈم والے گزرے ہیں۔ 

https://en.wikipedia.org/wiki/Luqman

 سوال:  اگر پہاڑ زمین پر نہ ہوں توکیا زمین ایک طرف جھک جائے گی؟

جواب:  اس کے لیے آپ سائنس میں چیک کر لیجیے اسے جیالوجی کہا جاتا ہے۔ اسے آپ پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا زمین میں زلزلے کی پلیٹس ہوتی ہیں اور وہ پہاڑوں کے ہاتھوں  کنٹرول میں ہیں۔ 

https://www.sayvilleschools.org/site/handlers/filedownload.ashx?moduleinstanceid=867&dataid=3477&FileName=what%20is%20earth%20science%202013-1-2%20shorter%20ver_.pdf

سوال:   عربوں میں رسول اللہ ﷺ سے پہلے کوئی رسول نہیں آئے؟ حضرت اسماعیل علیہ السلام کس قوم کی طرف آئے تھے؟

جواب:  عربوں کی بہت بڑی لائن ہے جس میں موجودہ سعودی عرب، اردن، فلسطین، سیریا، عراق، یمن، عمان سب ہی عربوں میں ہیں۔ اس میں بڑی شخصیت حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جو اصل میں عراقی تھے۔ پھر آپ کے دونوں بیٹے نبی ہوئے۔ ان میں حضرت اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام کی ذمہ داری فلسطین میں رہی کہ دعوت پہنچائیں۔ ان کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ الصلوہ والسلام تھے جن کا ٹائٹل اسرائیل یعنی عبداللہ تھا۔ ان کی نسل میں تو مسلسل نبی آتے رہے اور ان کی امت کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے۔ 

حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کی ذمہ داری تھی کہ جزیرہ نما عرب میں دعوت پہنچائیں۔  آپ ہی نے مکہ مکرمہ شہر کی آبادی کی او ریہاں کعبہ کی تعمیر کی اور پھر آپ کی دعوت کے نتیجے میں پورے عرب کے لوگ ایمان لائے۔ آپ کی نسل میں کوئی نبی نہیں گزرے اور پھر 2500 سال کے بعد انہی کی نسل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نبوت شروع ہوئی۔  عربوں کی تاریخ بھی آپ کو میری پہلی کتاب ہی میں ملے گی۔ 

Your questions should send to mubashirnazir100@gmail.com.

               اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے۔

www.mubashirnazir.org

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

علوم القرآن کا دور جدید اردو زبان میں مطالعہ ۔۔۔ ترجمہ اور تفسیر

علوم الحدیث ۔۔۔ ریسرچ

https://mubashirnazir.org/category/islamic-studies/islamic-studies-urdu/%d8%b9%d9%84%d9%88%d9%85-%d8%a7%d9%84%d8%ad%d8%af%db%8c%d8%ab-%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88-%d9%84%db%8c%da%a9%da%86%d8%b1%d8%b2/

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

https://mubashirnazir.org/category/lectures/%d8%a7%d8%b1%d8%af%d9%88-%d8%a7%d8%b3%d9%84%d8%a7%d9%85%db%8c-%d9%84%db%8c%da%a9%da%86%d8%b1%d8%b2/%d8%af%d9%88%d8%b1-%d8%ac%d8%af%db%8c%d8%af-%d9%85%db%8c%da%ba-%d9%81%d9%82%db%81-%d8%b3%db%92-%d9%85%d8%aa%d8%b9%d9%84%d9%82-%d8%b3%d9%88%d8%a7%d9%84%d8%a7%d8%aa-%da%a9%d8%a7-%d8%ac%d9%88%d8%a7%d8%a8/

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی تاریخ سے متعلق سوالات
Scroll to top