تاریخی مطالعہ میں بغاوت اور مرتد پر سزا کیوں ہوئی اور اب کیا کریں؟

سوال: سر مجھے صحیح و ضعیف تاریخ الطبری ویب سائٹ سے نہیں ملی آپ اس  کتاب کا لنک بھیج دیں۔

ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد

جواب: یہ مجھے بھی نہین ملی ہے۔ اس کے لیے یہ کام ہمیں خود ہی کرنا پڑے گا۔ تاریخ الطبری میں یہ فائدہ ہے  کہ اس میں تاریخ کی ساری  روایات مل جاتی ہیں۔ اس میں اگر کوئی نارمل سی بات ہے تو بے شک ریسرچ نہ کریں اور مان لیں۔ لیکن جن روایات میں کوئی عجیب اور نامعقول بات لگے تو اس میں پھر علم الرجال سے ریسرچ کر لیجیے۔ میں نے اسی کتاب میں استعمال کیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد  کی تاریخ میں یہ کچھ کیا ہی نہیں بلکہ اسے عقل کی بنیاد پر دیکھا ہے کہ اس میں علم الرجال ہے ہی نہیں۔ 

عقل کی مثال یہ ہے کہ تمام انسانوں پر کوئی اچھا تبصرہ ہے تو اسے مان لیا ہے۔ اگر برا تبصرہ ہے تو پھر  اسے چھوڑ دیا اور کتاب میں شامل نہیں کیا۔ ہاں اگر تواتر سے وہی برا عمل نظر آیا تو اسے پھر قبول کر لیا۔ جیسے انڈیا، ایران اور سلطنت عثمانیہ میں یہ تواتر سے ثابت ہو گیا کہ ان میں شہزادے آپس میں جنگ کرتے رہے تاکہ وہ بادشاہ بنیں۔ 

سوال: صدیق اکبر کے دور میں نبوت کے جن دعویداروں پر حملہ کیا گیا وہ کس بنا پر کیا گیا؟ ان کے دعوہء نبوت کی بنا پر یا پھر ان کی بغاوت کی بنا پر؟ واضح کریں۔

جواب: اس کے لیے وہی اصول جو عربوں کے لیے سورۃ التوبہ میں حکم دیا گیا کہ وہ ایمان لائیں، سرنڈر کریں، نماز اور زکوۃ ادا کریں تو وہ آپ کے بھائی ہیں ورنہ پھر ان پر ایکشن ہو گا۔ یہ آپ پوری سورۃ التوبہ پڑھ لیجیے تو انہی کی بنیاد پر ایکشن ہوا تھا۔ ایک تو ختم نبوت کا انکار، جعلی نبوت اور پھر زکوۃ کا انکار کرنےوالوں پر۔   

سوال: آج اگر کوئی شخص اسلام چھوڑ کر کسی اور دین کو اختیار کر لے تو اسے مرتد کہتے ہیں اور ہمارے آئمہ اس کی سزائے موت کے قائل ہیں اور اس کی دلیل وہ یہ ہی دیتے ہیں کہ جس طرح مسیلمہ کے پیروکار جو مرتد ہو گئے تھے انہیں قتل کیا گیا۔  اگر یہ بات درست ہے تو آج لوگ مرتد کی سزائے موت کو ماننے سے گریزاں کیوں ہیں؟

جواب: جو علماء ارتداد پر سزا کا بیان کرتے ہیں، وہ اسی سورۃ التوبہ کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قدیم زمانے میں مسلمان ہی سپر پاورز گزرے ہیں، تو وہ اسی بنیاد پر عمل کرتے تھے۔ لیکن اب جب مسلمان نئی کالونیازم میں پھنسے ہوئے ہیں، اس لیے دور جدید کو سمجھنے والے علماء کہتے ہیں کہ اس کا ہم سے تعلق نہیں ہے بلکہ یہ عہد رسالت ہی میں تھا۔ بیچ کے زمانے میں جب مسلمان سپر پاورز گزرے تھے تو اس وقت وہ اسی عہد رسالت کے احکامات پر خود بھی عمل کروا لیتے تھے کہ ان کا اجتہاد یہی تھا کہ سورۃ التوبہ کے احکامات ہمیشہ کے لیے ویلڈ ہیں۔ آج کل کے علماء کا اجتہاد مختلف ہے۔   

سوال: آپ کا مرتد کی سزا کے بارے میں کیا موئقف ہے؟

جواب: میرا اجتہاد بھی اس میں جدید علماء کے مطابق ہے۔ اس میں معمولی سا فرق یہ ہے کہ جب بھی مسلمان سپر پاورز سے آزاد ہو جائیں گے، تو اس وقت وہ ارتداد کی سزا کروا سکیں گے۔ لیکن مولویوں کی طرح نہیں بلکہ جب کوئی کھلے عام میں ایمان کا انکار کریں اور واضح بھی کریں تو حکومتی عدالت یہ کر سکتی ہے۔ آج کل ہم آزاد نہیں ہیں بلکہ 1950 سے آج تک نئی اکنامک کالونیلزم میں پھنسے ہوئے ہیں۔  آزاد ہو جائیں تو ہماری عدالت کو ان لوگوں پر ایکشن کروانا چاہیے جو جھوٹی نبوت کر کے پراپیگنڈا کر رہے ہوں۔ اس میں سزا کا فیصلہ عدالت ہی کر سکتی ہے۔ 

اس میں دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قدیم تقلیدی ذہن والے حضرات سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک آزاد ہیں، اس لیے ہم اس پر پرانے فقہ پر عمل کروائیں گے۔ افغانستان میں طالبان نے یہی کیا تھا لیکن ان کی آزادی سامنے آ گئی۔ 

سوال: آج اگر کوئی شخص نبوت کا جھوٹا دعوہ کرے تو کیا مسیلمہ کی طرح اسے بھی قتل کیا جانا چاہیے؟ اگر ہم اسے قتل کریں تو کیا یہ اللہ کی اسکیم(انسان کو اس دنیا میں مکمل آزادی حاصل ہے کہ جو راستہ چاہے اختیار کرے) کے خلاف نہیں ہے؟ لیکن زسول اللہ کے بعد حضرت ابو بکر نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ واضح کریں کہ حضرت ابو بکر کی  اس معاملے میں پوزیشن کیا تھی؟اور اسلام ہمیں اس بارہ میں کیا رہنمائی دیتا ہے؟

جواب: دوسری دلیل یہی ہے جو آپ نے ارشاد فرما دی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو ایکشن کروایا تھا، وہ انہی لوگوں پر کیا گیا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حصے میں آ چکے تھے۔ مسیلمہ نے تو آپ کو خط بھی لکھ دیا تھا کہ زمین آدھی آپ کی اور آدھی میری۔ اسے آپ نے انکار فرما دیا تھا اور اسے مسیلمہ کذاب ارشاد فرمایا تھا۔ 

آج کل کے زمانے میں یہ وہی حکم نہیں ہو گا۔ اب یہ ہے کہ عام آدمی اگر اپنی آزادی سے دین سے نکلنا چاہے تو وہ جاتے اور اللہ تعالی اور حکومت کو کوئی ایکشن نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو انکار دین کر کے پھر اپنی مارکیٹنگ کرنے لگتے ہیں اور اپنی دعوت پھیلا کر  جا رہے ہوں تو اس صورت میں حکومتی عدالت کو ایکشن کرنا چاہیے اگر حکومت آزاد ہو۔ 

سوال:  آپ نے حضرت خالد رضی اللہ عنہ کو بہت بڑا رسک ٹیکر بتایا ہے۔ لیکن 1 مشہور واقعہ ہے کہ جنگ موتہ کے موقع پر وہ مسلم فوج کو  واپس لے آئے تو غالبا اس کی وجہ یہ تھی کہ رومی تعداد میں بہت زیادہ تھے۔ اس لیے حضرت خالد 1 تدبیر کے ذریعے فوج کو واپس لے گئے اور واپس جا کر لوگوں کی تنقید کا سامنہ بھی کرنا پڑا۔لیکن حضور نے کہا یہ پیچھے ہٹنے والے نہیں بلکہ اقدام کرنے والے ہیں۔ یہ واقعہ  تو حضرت خالد کے محتاط ہونے  کا عکاس ہے۔؟ پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت بڑے رسک ٹیکر تھے؟

جواب: آپ نے صحیح تجزیہ فرمایا۔ موتہ کی جنگ میں بس یہی مسئلہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد صرف 3000 تھی اور رومن ایمپائر کی ملٹری 100,000 سے زیادہ تھی۔ اس لیے خالد رضی اللہ عنہ نے اتنا رسک نہیں لیا۔ بعد میں  وہ رسک لیتے تھے لیکن اتنا جتنا اٹھا سکتے ہوں۔ مثلاً اگر اپنا لشکر 10,000 ہوتا اور دشمن کا 30,000 تک ہوتا تو جنگ کر لیتے کہ قرآن مجید میں اتنی لمٹ کی ذمہ داری ہے۔ وہ کبھی اس سے بھی زیادہ لے لیتے ہوں اور مثلاً 35,000 دشمن سے بھی کر لیں۔ 

دوسرا وہ رسک یہ کرتے تھے کہ صحرا میں تیزی سے سفر بھی کر لیتے تھے۔ اس میں بھی رسک ہوتا ہے کہ پانی نہ ملے، یا  کسی پہاڑی سے کوئی حملہ ہو جائے۔ اس کا رسک وہ لے لیتے تھے، اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو ان کے اوپر رکھا۔ 

دلچسپ واقعہ ہے جب دمشق کی فتح ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ آدھا شہر فتح کر چکے تھے۔ اس موقع پر اس کے سردار شہر کے دوسرے دروازے سے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے ملے اور سرنڈر کرنے لگے۔ آپ نے قبول فرما لیا اور مزید جنگ کو روک دیا کہ اب تو وہ سرنڈر کر چکے ہیں۔ خالد رضی اللہ عنہ کو افسوس بھی ہوا لیکن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے انہیں صورتحال سمجھا بھی دی تو وہ بھی قائل ہو گئے۔ 

سوال: جب رسول اللہ بذات خود موجود تھے تو مرتد کی سزا قتل ہی بنتی تھی؟ لیکن صدیق اکبر کے دور میں بھی مرتدین کو قتل کیا گیا۔ اگر صدیق اکبر کا اقدام عین سنت کے مطابق تھا تو آج کے دور میں مرتد کی سزا(قتل) پر لوگ کیوں تحفظات کا اظہار کرتے ہیں؟

جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم آخر میں سورۃ التوبہ میں ملا جو 9 ہجری  کے آخر میں نازل ہوئی۔ اس میں  حج کے امیر تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے لیکن وہ حج پر جا چکے تھے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو انہی آیات کا اعلان کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ پہنچے اور حج کے دوران انہوں نے بیان کر دیا۔ ان آیات میں 4 ماہ  یا جن قبائل سے معاہدہ ہے، اس ٹائم تک کی اجازت دے دی تھی۔ ایک سال کے اندر سارے ہی ایمان لے آئے اور مرتد بنے ہی نہیں تو کیا ایکشن ہونا تھا۔ 

اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں کچھ دن یا ایک دو ماہ کہہ لیجیے باقی تھے۔ اس دوران مسیلمہ  نے دعوی کر دیا تو پہلے انہیں سمجھایا اور دعوت پہنچا دی اور واضح بھی کروا دیا۔ اس پر ملٹری ایکشن کرنے سے پہلے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کروا دیا۔ 

سوال: میں نے غلام احمد پرویز صاحب کی کتاب شاہلکار رسالت پڑھی ہے۔ گو کہ مجھے اس کتاب سے متعلق اتفاق نہیں ہے مگر انھوں نے عجمی سازش کو بے نقاب کرنے میں بہت مضبوط دلائل قائم کیے ہیں۔ میرے خیال میں عجمی سازش بہت بھیانک ثابت ہوئی ہے کیونکہ اس کے اثرات آج بھی عرب ایران جنگ کی صورت میں پائے جاتے ہیں؟ اس سازش کے متعلق آپ کا کیا نقطئہ نظر ہے؟

جواب: اس میں یہ عرض کر دوں کہ پرویز صاحب احادیث کی اکثریت کو نہیں مانتے ہیں۔ اس لیے ان کی ریسرچ کا احتیاط کر لینا چاہیے۔ عجمی سازش پر میں بھی متفق ہوں کہ اس زمانے سے آج تک جاری ہے۔   میں دین کا کوئی ایشو نہیں ہے بلکہ قوم پرستی کا سیاسی ایشو ہی ہے جو عرب اور ایران کی جنگ ہوتی رہی ہے۔  بنو عباس کی حکومت کی طاقت ہی تاجکستان، ازبکستان لوگوں کے ذریعے ہوئی اور یہی لوگ حکومت کے اعلی عہدوں پر رہے۔ پھر بنو عباس ہی نے اپنے گورنرز کو نسل در نسل حکمران بنا دیا تو وہ آزاد ہو گئے۔ 

ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ جب 1500CE میں اثنا عشری شیعہ حضرات کی اکثریت ایران میں ہو گئی تو پھر فرقہ کے اختلاف کے اثرات بھی سیاست میں آ رہے ہیں۔  اس کی چند مثالیں یہ ہے۔

۔۔۔۔۔۔ عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل ابولولو فیروز کے لیے ایران میں مزار بنایا گیا ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔ عرب ممالک پر خمینی صاحب کی تنقید زیادہ تر سیاسی معاملات میں ہوتی رہی ہے لیکن پھر امامیہ کے اختلاف کی بات بھی آ جاتی ہے۔ 

۔۔۔۔۔۔ تیسری صدی ہجری میں اثنا عشری حضرات کو آدھے ایران اور عراق میں حکومت بن گئی تھی تو تب انہوں نے کربلا اور نجف میں مزارات بھی بنے اور ماتم کے طریقے بھی ایجاد ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نجف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مزار بھی بنایا ہوا ہے۔ اس کے بعد کئی اور علاقوں کے لوگوں نے اس کا دعوی کیا تو افغانستان میں بھی مزار شریف شہر بھی ہے اور مزار بھی۔ 

آج کل کی جنگیں تو یا تو دہشت گردی ہے یا پھر اکنامک وار۔ یہ دونوں جاری ہیں اور اس میں دین کا ایشو نہیں ہے بلکہ اپنی اپنی اسٹریٹیجی بنا رہے ہیں۔  دہشت گردی کے لیے یمن کے یمنی شیعہ حضرات تیار ہو جاتے ہیں۔ دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ سعودی عرب میں دمام اور آس پاس علاقوں میں شیعہ حضرات کی اکثریت ہے لیکن وہ سعودی حکومت پر جنگ نہیں کرتے ہیں۔ اسی طرح قریب ہی بحرین جزیرہ جو ملک ہے، ان کا تعلق بھی سعودی عرب سے زیادہ ہے اور ایران سے کم حالانکہ وہاں بھی اکثریت شیعوں کی ہیں۔ ایران میں خمینی صاحب نے بڑی کوشش کی کہ یہ ان کے ساتھ ملیں لیکن نہیں ملے۔ 

 سب سے دلچسپ علاقہ لبنان ہے جس میں شیعہ، سنی، عیسائی سب ہی کی آبادی تقریباً برابر ہے۔ وہ آپس میں نہیں لڑتے ہیں اور انہوں نے اپنے آئین میں طے کیا ہوا ہے کہ شیعہ صدر، سنی وزیر اعظم اور عیسائی پارلیمنٹ کے اسپیکر ہوتے ہیں۔ کوئی اسی سے سبق سیکھ لیں تو لڑائی نہ ہوں۔ 

https://en.wikipedia.org/wiki/Religion_in_Lebanon#:~:text=A%202012%20study%20conducted%20by,Armenian%20Orthodox%2C%20Armenian%20Catholic%2C%20Syriac

سوری لبنان کی ایک غلطی میں نے کہہ دی ہے۔ اصل صورتحال یہ ہے۔

The president of the country is traditionally a Maronite Christian, the prime minister a Sunni Muslim, and the speaker of parliament a Shia Muslim.  

سوال: مرتد کی سزا قتل ہی ہے لیکن اس پر تب عمل ہو سکتا ہے جب مسلمان سوپر پاور ہوں۔ 

جواب: حکومت کیونکہ اللہ کی طرف سے اہل ایمان پر اس دنیا میں انعام ہے۔ اور یہ انعام تب ملتا ہے جب مسلمان 1 تدریجی عمل سے گزر کر اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ انہیں اللہ کی طرف سے اقتدار دیا جائے۔ جیسا کہ صحابہ کرام نے پہلے تکالیف برداشت کیں، صبر کیا،اپنا تزکیہ نفس کیا اسلام کی دعوت ہر جگہ پہنچائی اس کے بعد اللہ نے انھیں دنیا میں اپنا پیشوا بنایا۔

سوال: آج بھی اگر مسلمان ان مراحل سے گزریں تب اقتدار حاصل(سوپر پاور) ہو گا اور تب جا کر سورہ توبہ کا حکم ہم پر ہو گا؟

جواب: اس میں صرف سوپر پاور ہونا ہی نہیں بلکہ دینی معاملات میں اس نوعیت کی سزا اسی وقت اللہ تعالی دیتا رہا ہے جب وہ رسول موجود تھے۔ ان رسول کو بتایا جاتا تھا کہ فلاں آدمی مرتد اور مجرم ہے، اسے قتل کر دیں تو تب وہ ایکشن لیتے رہے ہیں۔ اس میں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ ہے۔ باقی تمام رسولوں کی حکومت ہی نہیں بنی تو انہیں الگ کر دیا اور فرشتوں نے سزا دی۔

اب ہمارے پاس کوئی رسول موجود نہیں ہیں جو ہر خاص انسان پر اللہ تعالی کا ایکشن کروا دیں۔ اللہ تعالی کی دی ہوئی سزا تو صرف رسول ہی کر سکتے ہیں یا اللہ تعالی کے فرشتے۔ اب چونکہ نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا تو اب ہم محض اجتہاد پر سزا نہیں دے سکتے ہیں۔ سزا صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس میں سورۃ المائدہ میں فساد فی الارض کی سزا پر عدالت ہی فیصلہ کر سکتی ہے۔ ایک آدمی نے خود کو نبوت کا دعوی کیا اور اپنی تبلیغ کرنے لگا تو تب عدالت فیصلہ کر سکتی ہے۔ 

سوال: جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آج ہم آزاد نہیں ہیں اس لیے ہم مرتد کو قتل کی سزا نہیں دے سکتے آپ کی بات سے میں اتفاق کرتا ہوں مگر ہم کم از کم اپنے ملک میں تو آزاد ہیں اور ہم نے اپنے آپ کو اسلامک سٹیٹ ڈکلیئر بھی کیا ہوا ہے تو کیا ہم قانون بنا سکتے ہیں مرتد کی سزا والا؟

جواب: اس میں ہم اپنے علاقے میں بھی مکمل آزاد نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنے اندر ملک میں کچھ کر رہے ہوں تو جونیٹڈ نیشن ایکشن کر لیتی ہے یا پھر سپرپاور جیسے امریکہ کر لیتے ہیں۔ اس کی مثال آپ وہی دیکھ سکتے ہیں کہ افغانستان اور عراق کے اندر جو کچھ ہوا، اس پر پھر  امریکہ نے ایکشن کیا۔ قانون اگر ہم بنا بھی دیں، تب بھی اس پر ایکشن کرنے کے لیے سپرپاورز ایکشن کر لیتی ہیں اگر ان کا مفاد پورا ہو۔ ہاں مفاد کا تعلق نہ ہو تو پھر وہ چھوڑ دیتے ہیں۔ 

سوال: کیا کوئی ایسا واقعہ ملتا ہے کہ جب مسلمانوں کو اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا کوئی شخص مرتد ہوا ہو اور رسول اللہ نے اسے قتل کروایا ہو یا پھر کچھ نہ کہا ہو؟

جواب: اس میں آپ سیرت کی کسی بھی کتاب میں پڑھ لیجیے کہ مکہ مکرمہ کی زندگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی ایکشن نہیں فرمایا۔ مدینہ منورہ میں جب حکومت ملی تو تب آپ نے ایکشن فرمائے تھے۔  

مرتد کو قتل تب ہی کیا جا سکتا ہے جب وہ دین اسلام چھوڑ کر فتنہ برپا کرے۔؟ کیونکہ اگر وہ دین چھوڑ کر اپنی حد تک ہی رہے تو میرے خیال میں اسے قتل نہیں کیا جا ئے گا؟ کیونکہ 1 تو آج کے لوگ رسول اللہ کے ڈائرکٹ مخاطب نہیں ہیں اور دوسرا ہر ایک پر ہمیں کیا پتا کہ اتمام حجت ہوئی ہے کہ نہیں۔ اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟

آپ کے ارشاد میں متفق ہوں۔ اگر وہ فتنہ و فساد پیدا کرے، تب ہی حکومت ایکشن لے سکتی ہے۔ محض اپنے مذہبی آئیڈیاز پر حکومت کچھ نہیں کر سکتی ہے۔ پھر اس کا معاملہ اللہ تعالی کے ہاں ہے، وہ چاہے تو ابھی سزا دے دے یا پھر آخرت میں۔  

سوال: رسول اللہ کے زمانہ میں منافقین کو رسول اللہ نے کیوں نہیں کچھ کہا حالانکہ ان کا فتنہ آپ کے سامنے تھا؟ وہ ظاہر ا اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر وہ دائرہ اسلام سے خارج تھے۔ اسی طرح آج بھی اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے اور بظاہر اپنے آپ کو مسلمان کہے تو وہ بھی کیا  منافق کی کیٹگری میں  نہیں آتا؟ 

جواب: بالکل منافقین پر کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ہاں اس کے کچھ لوگوں نے جب جرم کیا تو انہیں سزا دی۔ جیسے جن منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر سکینڈل کا پراپیگنڈا کیا تو پھر سورۃ النور کے حکم کے مطابق ان پر ایکشن ہوا۔  اسی طرح سورۃ التوبہ میں سفر تبوک کو اس کا موضوع بنایا اور منافقین پر کر دیا۔ اب جو لوگ نہیں آئے تو ان پر واضح ہو گیا کہ یہ سب ہی منافقین ہیں۔ صرف تین مخلص صحابہ نہیں آ سکے تھے تو انہیں 50 دن تک بائیکاٹ کی سزا دی گئی اور پھر معاف کر دیا۔ 

سوال: کیا حضور نے منافقین کے خلاف اقدام اس لیے نہیں کیا کہ کہیں آنے والے زمانہ میں لوگ اسے بنیاد بنا کر ایک دوسرے کو منافق کہ کر  کہیں قتل نہ کرنا شروع کر دیں؟

جواب: جب تک جرم نہ کیا تو اس وقت تک ایکشن نہیں ہوا۔ جب انہوں نے ایسی حرکت کی تو انہیں سزا دی گئی۔ آخر میں تبوک سفر کے بعد ان کا اعلان ہو گیا کہ یہ منافق ہیں اور یہی نفسیاتی سزا ہی کافی تھی۔ پہلے کچھ منافقین نے ریپ کی حرکت کی تو انہیں سنگسار کر دیا گیا جو سورۃ المائدہ میں ہے۔  

سوال: خلاصئہ کلام یہ ہے کہ مرتد کو قتل اس وقت کیا جا سکتا ہے جب وہ اتمام حجت ہونے کے باوجود اسلام سے پھر جائے۔ رسول اللہ  کے دور میں کیونکہ آپ خود موجود تھے اس لیے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کر کے دینونت برپا کی گئی؟ آج ہمیں کسی کی نیت کا علم نہیں ہو سکتا اس لیے ہم کسی کے بارے میں حد جاری نہیں کر سکتے؟

جواب: بالکل صحیح فرمایا کہ نیت کا کسی کو علم نہیں ہے۔ اس لیے کوئی حکومتی عدالت بھی نہیں کر سکتی۔ ہاں جب وہ جرم کریں گے تو ان پر فساد یا قتل یا کوئی اور حرکت پر سزا دی جائے گی۔  

سوال: سورہ توبہ میں کیونکہ یہودونصاری پر بھی اتمام حجت کی گئی ہے اور انہیں ذمی بنانے کا حکم ہے یہ بھی اللہ کی سنت کے مطابق ہے کیونکہ جب بھی کوئی قوم نبی کا انکار کرتی ہے تو اس پر اللہ کی سزا وارد ہو جاتی ہے۔ اور وہ یہود و نصاری رسول اللہ کے ڈائرکٹ مخاطب تھے اس لیے انہیں سزا دی گئی۔ لیکن آج کل بھی ہمارے علماء کا 1 گروہ یہ ہی سمجھتا ہے کہ یہود و نصاری پر حملہ کر کے پوری دنیا پر اسلامی نظام حکومت کو بزور بازو قائم کیا جائے۔ مثلا مولانا مودودی،ڈاکٹر اسرار احمد،علامہ اقبال، مصر کے قطب شاہ وغیرہ اس نقطئہ نظر کے حامی ہیں۔ اور ان علماء کا استدلال یہ ہی ہے سورہء توبہ والا اور سورہ الشوری کی آیت نمبر 13 کا بھی یہ لوگ حوالہ دیتے ہیں۔

جواب: حقیقت یہی ہے کہ جب قرآن نازل ہو رہا تھا، اس وقت رسول موجود تھے اور آپ کی دعوت جن یہود و نصاری پر پہنچی تو انہی پر ایکشن ہوا۔ اسی طرح اس زمانے کی دونوں سپر پاورز پر دعوت پہنچ گئی تو انہی پر ایکشن ہوا اور دونوں سپرپاورز کا خاتمہ ہو گیا اور یہاں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رک گئے۔ اس سے آگے انہوں نے کوئی ایکشن نہیں کیا۔ ان اہل علم نے اجتہاد کیا  کہ ہم بھی یہ سزا دے سکتے ہیں۔ ان کے اجتہاد کی بس یہی غلطی ہے کہ اس سے تحریکیں بنی ہیں اور یہود و نصاری کو تو کچھ نہیں ہوا لیکن مسلمانوں نے آپس میں دہشت گردی کرنی شروع کر دی۔ 

ان اہل علم کے نقطہ نظر پر میں قائل تھا اور خود بھی جہاد کرنا چاہتا تھا اور اسی کی تبلیغ کرتا تھا۔ لیکن جب 2001 میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو تب واضح ہو گیا کہ یہ جو کچھ کرنے لگے ہیں، یہ جہاد نہیں بلکہ فساد فی الارض ہی ہے۔ پھر میرا نقطہ نظر بھی تبدیل ہو گیا جب ان کی  تمام تحریکوں کا مطالعہ کیا اور ان کے پریکٹیکل عمل دیکھے تو تب مجھے واضح ہو گیا کہ رسول جب سامنے ہوتے، تو تب اللہ تعالی کی عدالت سے فیصلہ آ جاتا۔ اب سب بھائی جو سوچتے ہیں، وہ اپنے اجتہاد سے ایکشن لینا کرتے ہیں۔ اب تک 270 سال سے وہ اسی کو جہاد قرار دے کر ایکشن بھی دینے لگتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے کبھی نصرت نہیں فرمائی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تو اللہ تعالی مدد آئی تھی اور آسانی سے ان کی فتوحات ہوئیں لیکن ہمارے زمانے میں تحریکوں نے جو کچھ بھی کیا، ہمیشہ ناکامی ہی ہوئی ہے۔ اس سے یہی ثبوت کافی ہے کہ یہ ہمارا کام نہیں تھا۔ 

سوال: میرے خیال میں اس کا حکم رسول اللہ کے ڈائرکٹ مخاطبین کے متعلق تھا ہم سے اس کا تعلق نہیں ہے۔آپ کا اس بارے میں کیا نقطئہ نظر ہے؟

 جواب: اپنے اس زمانے میں جو کچھ ہوا ہے، اسی سے یہ مجھے کنفرم ہوا کہ سزا و جزا کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخاطبین کا تھا۔ اس میں آپ شاہ ولی اللہ صاحب کی تحریک سے لے کر آج تک پڑھ سکتے ہیں کہ مسلسل ناکامی ہی ہوئی ہے۔ یہی ثبوت کافی ہے کہ اگر اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہوتا تو  پھر مدد بھی آتی اور فتوحات بھی ہوتیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ان 270 سال کی تحریکوں کا مطالعہ ضرور فرما دیجیے۔ انہی کی کتابوں سے میں نے اپنی تہذیبی تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے۔ 

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
تاریخی مطالعہ میں بغاوت اور مرتد پر سزا کیوں ہوئی اور اب کیا کریں؟
Scroll to top