سوال: لوح محفوظ کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی وضاحت ملتی ہے؟
جواب: لوح محفوظ تو اللہ تعالی کا ڈیٹا بیس ہے جس میں کوئی انسان ، جنات اور کوئی مخلوق اس میں خرابی نہیں کر سکتا ہے۔ اسے تو اللہ تعالی نے بتا دیا ہے قرآن مجید میں کہ اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا ہے۔ اس میں مشرکین نے کہا تھا کہ یہ کسی جن نے کلام کیا تو اللہ تعالی نے جواب انہیں سمجھا دیا ہے۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عربی زبان میں نازل ہوا تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا تھا۔
سوال: امام احمد بن حنبل کے دور میں قرآن کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کا مسئلہ کھڑا ہوا تھا۔ ایک گروہ اس کو مخلوق قرار دے رہا تھا دوسرا گروہ اسے غیر مخلوق یعنی کلام اللہ قرار دے رہا تھا اور اسے اللہ کی صفت یعنی کلام کرنا قرار دیتا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس کائنات میں دو ہی وجود ہیں خالق اور مخلوق۔ یہ بیچ میں ایک تیسرا وجود غیر مخلوق کہاں سے آگیا؟ کیا قرآن مجید اللہ ہے یا غیر اللہ؟
اگر کلام کرنا اللہ کی صفت ہے تو کیاخلق کرنا اللہ کی صفت نہیں ہے؟اگر کلا م کرنے کے نتیجے میں الفاظ و تراکیب وجود میں آسکتے ہیں تو تخلیق کرنے کے نتیجے میں بھی جن، انس، فرشتے، چرند ، پرند اور کائنات وجود میں آگئےہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ جس طرح کائنات اللہ سے الگ ایک وجود ہے اسی طرح قرآن مجید بھی گو کہ اللہ کا کلام ہے مگر قرآن کا ایک الگ وجود ہے جس کو ہم چھوتے ہیں، دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور یہ پرانا ہوکر ردی بھی ہوجاتا ہے، بعض اوقات لوگ (کفار) اس کو جلا بھی دیتے ہیں۔ اور جو قران لوح محفوظ پر ثبت ہے تو ظاہر ہے کہ لوح محفوظ بھی مخلوق ہے اور اس پر اللہ نے جس طریقے سے بھی قرآن مجید فیڈ کیا ہے یا کاپی کیا ہے اللہ کا یہ فعل بھی اس کی تخلیق نہیں ہے؟ بھائی یہ کیا گورکھ دھندا ہے جو ہمارے علماء نے پیدا کیا ہے؟ سیدھی سی تو بات ہے کہ قرآن اللہ نہیں ہے بلکہ اس کا کلام ہے اور کیا اللہ کا کلام اس کی تخلیق نہیں ہے؟ جس طرح آسمان اللہ نہیں ہے بلکہ اس کی مخلوق ہے یہ بھی اس کے کلمہءِ کُن سے وجود میں آئے ہیں۔ مجھے اس کنفیوژن سے نکلنے میں مدد فرمائیں شکریہ
جواب: یہ احمقانہ فلسفہ ہے اور اس کی کوئی حیثیت دین میں نہیں ہے۔یہ احمقانہ اختلاف اس وقت پیدا ہوا تھا، جو یونانی فلسفہ کی بنیاد پر گورکھ دھندا سا پیدا ہو گیا تھا۔ اس میں یہ ہوا کہ مامون بادشاہ کو اس فلسفے کی بنیاد پر آئیڈیا پیدا ہوا اور وہ اسے دین کا حصہ سمجھ بیٹھے کہ قرآن پر بحث کر بیٹھے۔ وہ پھر کچھ معقول تھے، اس لیے شدت پسندی نہیں کی لیکن اگلا بادشاہ بالکل ہی احمق ہو کر جبراً سارے علماء کو قابو کرنے لگا۔ اس پر امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ نے اس جبر پر احتجاج کر دیا، جس پر انہیں کوڑے بھی مارے گئے اور انہیں جیل میں رکھا گیا۔ اس کی تفصیل آپ میری کتاب میں تہذیبی عروج کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تویہ سچ مچ گورکھ دھندا ہی ہے اور احمقانہ بحثیں ہیں۔ فلسفہ کی بنیاد پر قدیم زمانے میں بحثیں ہوتی رہیں۔ اب وہ سب کچھ ڈیلیٹ ہو چکی ہے تو اس سے جان چھڑانی چاہیے۔ قرآن اللہ تعالی کا ارشاد ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی بحثوں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روکنے کا فرمایا تھا کہ یہ احمقانہ بحثیں بنی اسرائیل کی طرح نہ بن جائیں۔ انہوں نے ایسا ہی عمل کیا تھا۔ کئی صدیوں بعد جب انسانوں نے فلسفہ کی بحثیں شروع کیں تو پھر اس زمانے کی فرقہ واریت پیدا ہوئی تھی۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com