سوال: جسطرح سے اسلام نے ایک مرد کو صرف چار بیویاں رکھنے کی اجازت دی ہے پہلے لوگ چار سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے اسی طرح لونڈیوں کے تعلق سے ایسی تعداد کیوں مقرر نہیں کی گئی تھی؟
جواب: شادی کی اصل حیثیت تو یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت مل کر فیصلہ کریں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اس طرح ان کے بچے پیدا ہوں گے تو ہم ساری عمر تک اکھٹے رہ کر بچوں کی خدمت کریں گے۔ جب جوان ہوئے تو پھر ہمارے بڑھاپے میں وہ ہماری خدمت کریں گے۔ یہ نیچر کا طریقہ ہے۔
دیگر خواتین کے ساتھ شادی کا قبائلی علاقوں میں عام معاملہ تھا کیونکہ ان کی جنگوں میں مرد اکثر مرتے رہتے تھے اور خواتین بیوہ یا اکیلی رہ جاتی تھیں اور بچوں کی خدمت نہیں ہو سکتی تھی۔ قبائلی علاقوں میں حل یہی نکلا کہ مرد کئی خواتین کے ساتھ شادی کریں تاکہ خواتین سیٹل ہو سکیں۔
قرآن مجید کے نزول میں یہی صورتحال تھی تو اللہ تعالی نے متعدد شادیوں کی لمٹ کر دی کہ آپ یتیم کی خدمت کے لیے آپ شادی کریں لیکن اس کی لمٹ بھی چار خواتین تک ہی کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے چار شادیوں کا حکم نہیں دیا بلکہ اس کی لمٹ کر دی کہ بس خدمت بھی اس حد تک کریں تاکہ یتیم بچوں اور بیوہ خواتین کی خدمت ہو سکے اور وہ سیٹل ہو جائیں۔
اب آپ کا سوال لونڈیوں پر ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں کا سلسلہ تو قبائلی علاقوں میں جنگوں سے ہی پیدا ہوا۔ جو بھی فتح کر لیتے تو دوسرے قبیلے کے مرد اور خواتین کو غلام بنا دیتے تھے۔ اللہ تعالی اسی کو روکنا چاہتے تھے ، اس لیے تورات میں بھی لمٹ ہی رکھی کہ انہیں قیدی بنائیں اور وہ چھ سال کے بعد آزاد کریں۔ قرآن مجید میں یہی حکم آیا کہ آپ قیدیوں کو قیمت یا ان کی سروسز لے کر انہیں آزاد کریں۔ خواتین غلام تھیں جنہیں لونڈی کہتے ہیں۔ اب مستقبل کو تو اللہ تعالی نے روک دیا لیکن موجودہ لونڈیاں پہلے سے تھیں۔ اللہ تعالی نے انہیں ان لونڈیوں کو اپنی بیوی کے اسٹیٹس پر لے آئیں تاکہ وہ آزاد خاتون بنیں۔
آپ کا سوال اس کی لمٹ پر ہے۔ اس لمٹ میں ممکن نہ تھا کیونکہ پہلے ہی لونڈیاں بنی ہوئیں تھیں اور ان سب کو آزاد کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔ اگلی لونڈیاں بنانے کی اجازت نہیں تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا۔ اگلی نسل کے فوجیوں نے پھر اس کا الٹ عمل شروع کر دیا کہ یہ قرآن مجید کے خلاف انحراف شروع کر دیا اور غلامی کو دوبارہ شروع کر دیا اور انڈیا کی ہسٹری میں بھی یہی صورتحال جاری رہی۔ میری نانی صاحبہ کی تھیں اور انہوں نے بچپن میں انڈیا کی یہ صورتحال دیکھی تھی۔ اب لوگوں نے جرم ہی کرنا تھا تو پھر اس کی لمٹ کا کوئی سلسلہ ہی ختم ہو گیا۔ اس کی تفصیل آپ میری اس کتاب میں پڑھ چکے ہوں گے کہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لونڈیوں کے سلسلے کو ختم کیا تھا۔
سوال: عشق کی اصطلاح کیا قرآن اور حدیث میں استعمال ہوئی ہے محبت اور عشق میں کیا فرق ہے قرآن اور حدیث کی رو سے؟
جواب: اب آپ کا دوسرا سوال محبت اور عشق۔ محبت تو انسان کی اپنی فطرت ہی میں ہے کہ میاں بیوی محبت ہی کرتے ہیں اور تب ہی اکھٹے رہتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس کا کوئی طریقہ نہیں بتایا بلکہ بس اس محبت اور سکون کا ذکر ہی کیا ہے کہ یہ انسان کی فطرت میں ہے۔
رہا عشق تو اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ فارسی اور سنسکرت کی شاعری میں اس کا ذکر ہے اور اس کی موٹیویشن بھی کرتے رہے۔ محبت جب اپنے حدود سے باہر نکل کر ایکسٹریم شدت پسندی پر آ جاتی ہے تو وہ عشق بنتا ہے جسے غالباً غالب صاحب ہی نے اسے “جنون” اور باگل پن ہی قرار دیا ہے۔ دین میں یہی سکھایا گیا کہ وہ عشق کسی سے نہ کریں کہ وہ انسان کے عقل کے باہر ہے۔ اللہ تعالی سے محبت کریں اور انتہائی کریں لیکن اس میں بھی لمٹ ہے کہ انسان دنیا کے فائدوں کو بھی نہ چھوڑیں بلکہ اس کا فائدہ بھی لیں۔
صوفی ازم کے لوگوں نے تو پھر اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ اپنے پیر کے عشق کی کہانیاں ایجاد کیں اور پھر اسے جنون جیسا کروا دیا۔ انہوں نے رہبانیت اختیار کر لی جسے آپ تاریخ کی کتابوں میں آپ دیکھیں گے۔ انہی کے طریقہ کار کو آپ نفسیاتی غلامی کی کتاب میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com