السلام علیکم سر جی
باقی کل سے آپکو باقاعدہ آگاہ کرتا رہوں گا مطالعہ کے بارے۔ اور میرے کچھ سوال ہیں۔
سوال: ابھی کچھ دن پہلے کسی مولانا صاحب نے بیان جاری کیا کہ انکے کسی بزرگ کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی 2 بار رات کو خواب میں زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انکو کہا کہ اسرائیل کی پروڈکٹ کوک اور پیپسی کا بائکاٹ کیا جائے۔ جو ان سے بائکاٹ نہیں کرے گا وہ قیامت کے دن میری سفارش سے محروم رہے گا۔ محمد وکیل، کروڑ پکہ
جواب: وعلیکم السلام رحمتہ اللہ وبرکاتہ: یہ حضرات اس طرح زیارت کہہ کر اپنے ایجنڈے کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے جو ارشاد فرمایا ہے تو وہ لاجیکل بات کہہ سکتے تھے تو اس طرح کہہ دیتے۔ اس میں بشارت اور زیارت پر دینی حکم کو استعمال کرنا بہت گناہ ہے اگر جھوٹ ہے تو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا ہے کہ میرے بارے میں کوئی جھوٹ پھیلائے گا تو پھر یہ گناہ کبیرہ ہے۔ خواب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا تھا کہ خواب میں شیطان میری شکل میں نہیں آ سکتا ہے۔ یہ ارشاد صحابہ کرام سے متعلق ہی تھا کیونکہ انہوں نے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھا تھا۔ اس لیے خواب میں بھی وہ دیکھتے تو یہ کنفرم کر لیتے کہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی بشارت سامنے آئی ہے۔
اگلی نسل میں پھر اس معاملہ نہیں ہے کیونکہ ہم نے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھا اور نہ ہی ملاقات کی ہے۔ خواب میں کوئی شیطان یہ کوشش نہیں کر سکتا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکل میں آ جائے۔ لیکن یہ شیطان کسی بھی شکل میں آ کر دعوی ضرور کر سکتا ہے کہ میں تمہارا رسول ہوں۔
اب خواب میں ہمیں ایسا دعوی سامنے آئے تو ہم چیک ضرور کر سکتے ہیں کہ جو حکم دیا گیا، وہ اگر قرآن مجید اور صحیح احادیث سے میچ ہو رہا ہے تو پھر ہم یقین کر سکتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو سچ مچ ہو گئی ہے۔ الحمد للہ یہ عمدہ بشارت ہے اور اس میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ حکم قرآن مجید اور احادیث کے ساتھ میچ نہیں ہو رہا ہے تو پھر کنفرم ہو گیا کہ خواب میں یہ دعوی ہی غلط ہے۔
اب آپ مولانا صاحب نے سیاسی ایجنڈا ارشاد فرمایا ہے تو آپ چیک کر لیجیے کہ سورۃ الانفال میں جہاد کا جو مطالعہ کیا ہے، اگر ان کی بات درست ہے تو پھر ان کی بات ٹھیک ہے اور ان کی بشارت درست ہو سکتی ہے۔ اگر قرآن مجید کے خلاف بات ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی کسی انسان کو فرما ہی نہیں سکتے جو قرآن مجید کے خلاف ہے۔ اس کا آپ خود فیصلہ کر لیجیے۔ سفارش سے محروم ہونے کا قرآن و حدیث میں کوئی حکم نہیں ہے سوائے اس کہ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دینی احکامات کے خلاف کوئی دشمن بن جائے۔
اگر آپ کے ہاتھ میں اسرائیل کی کوئی پراڈکٹ آ رہی ہے تو یہ چیک کر لیں کہ اس کمپنی کے مالک حضرات مسلمان ہیں یا انتہا پسند یہودی ہیں۔ اگر وہ لوگ دہشت گرد یہودی یا دہشت گرد مسلمان ہی ہیں تو پھر ان کی اشیاء نہ خریدیں تاکہ انہیں فائدہ نہ ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کنفیوژن کا معاملہ ہے کہ مالک کون لوگ ہیں تو پھر آپ کا اپنا خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اگر کمپنی کے مالک لوگ دہشت گرد نہیں ہیں تو پھر وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، کسی سے بھی آپ بزنس کر سکتے ہیں۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے بزنس کرتے تھے۔
سوال: آپ کیا کہتے اس بارے میں کیا ایسا ہے۔ اگر کوئی بائیکاٹ نہیں کرے تو کیا وہ حرام کام کر رہا ہے؟
جب وہ مولانا صاحب یہ بیان کر رہے تھے تو میرے زہن میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں صرف یہی کہا کہ کوک اور پیپسی کا بائکاٹ کریں۔ یہ کیوں نہیں کہا کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم کیوں نہیں دیا۔ یہ کیوں نہیں کہا کہ مسلمانوں پے ظلم ہو رہا ہے اور علماء اور حکمران خاموش ہیں۔ صرف عام لوگوں کے لیے خواب آیا۔ کیا علماء اور حکمران اس سے مستثنا ہیں۔ کیا ظلم بھی عام لوگ سہ لیا کریں اور جہنم میں بھی وہی جائیں۔ یہ ڈبل نظریہ کیوں ہے؟
جواب: یہی احمقانہ ارشاد کسی نے فرمایا ہے۔ کوک اور پیپسی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں اور ان کے مالکان بہت سے مسلمان اور بہت سے غیر مسلم حضرات ہیں اور ہم کسی کو نہیں جانتے ہیں تو پھر انہیں نقصان کیوں پہنچا سکتے ہیں؟ پھر یہاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ مسلمانوں پر اسرائیلی دہشت گرد یقیناً ظلم کر رہے ہیں اور یہ دہشت گرد ہی حکومت میں شامل ہیں۔
اگر ہمارا ان دہشت گردوں سے رابطہ ہوتا تو پھر ہم ان پر نہی عن المنکر کی کوشش اتنی ہی کر سکتے جس میں اپنے زبان یا قلم کے ذریعے کر سکتے۔ قلم پر تو ہم پھر بھی فیس بک اور یو ٹیوب میں ان پر تنقید کر ہی دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں یہ طاقت موجود ہے۔ عام آدمی تو بس یہی کر سکتا ہے اور اس سے زیادہ اس میں کوئی طاقت نہیں ہے۔
اللہ تعالی نے سورۃ البقرۃ کی آخری آیت میں بتا دیا ہے کہ ہر انسان پر وہی ذمہ داری ہے جس میں اس کی طاقت ہے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ۔ ہمارے حکمرانوں میں صرف اتنی سی طاقت ہی ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں احتجاج کر سکیں اور وہ الحمد للہ کر ہی رہے ہیں۔ اس سے زیادہ ذمہ داری تو بس اتنی ہی ہے جتنی ان میں طاقت ہے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جنہیں سپر پاورز بنیں، انہوں نے تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک کی حکومتوں پر اکنامکس کالونی ازم کے طور پر قبضہ کر دیا ہے۔ اب ان ممالک کے حکمران، حقیقت میں امریکہ، روس، انگلینڈ ، فرانس اورچین کے ملازمین ہیں۔ ان سب کو یونیڈٹ نیشنز کے بینکوں سے قرض ہی لیتے رہتے ہیں اور مقروض ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ان کی حیثیت بس یہی ہے جیسے کسی کمپنی کے ملازمین اپنے مالکان سے درخواست کے طور پر احتجاج کر سکتے ہیں اوران کی یہی حیثیت ہے۔
سوال: کوئی ایسا واقعہ تاریخ میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یا صحابہ کرام نے یہودیوں یا عیسائیوں کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کیا ہو؟
جواب: عہد رسالت میں ایسا ہوا ہے جب یہودیوں نے امن کا معاہدہ کرنے کے بعد پھر بھی مدینہ منورہ میں دہشت گردی کی تھی۔ اس وقت پھر مدینہ منورہ کی حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایکشن فرمایا اور ان کے دو قبیلوں کو مدینہ منورہ سے جلا وطنی کی سزا دے دی۔ تیسرے قبیلے نے جنگ میں ہی حملے کا پلان کیا تو پھر انہیں پکڑ کر تورات کے حکم کے مطابق ان کے تمام فوجیوں کو قتل کیا گیا۔ اسے آپ بائیکاٹ کہیں تو کہہ سکتے ہیں لیکن میں اسے ملٹری ایکشن جہاد کہوں گا۔
جلاوطن یہودی قبیلوں نے خیبر شہر میں مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا پلان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملٹری ایکشن جہاد کیا اور جنگ خیبر ہو گئی۔ اس میں ان کے لیڈرز مارے گئے لیکن عوام نے معذرت کی۔ پھر عوامی یہودیوں نے درخواست کی کہ ہمیں خیبر ہی میں رہنے دیں۔ ہم یہاں پر کھیتوں پر کام کریں گے اور آپ جتنی پیداوار آپ کی ہو گی۔ ہمیں بھی کچھ حصہ دے دیجیے گا تاکہ ہمارا رزق چلتا رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر ہی میں یہودیوں کو اجازت دے دی۔ معاہدہ یہ فرمایا کہ جب تک اچھا ماحول ہوا تو وہ خیبر میں رہیں ۔ اس کا 50% حصہ انہی کو ملے گا اور 50% مسلم حکومت کو ملے گا۔ اس پیداوار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جلیل القدر صحابی ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو فائنانشل ڈائرکٹر کو ذمہ داری دی۔ جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کٹائی کے وقت تشریف لیجاتے اور بالکل صحیح طرح دو حصے بنا دیتے۔ پھر یہودیوں کو فرماتے کہ آپ کو جو پسند ہے، آپ لے لیجیے۔ اس پر یہودی روتے تھے کہ آسمان و زمین میں ایسا انصاف نہیں دیکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی بنیاد پر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو امین الامتہ کا ٹائٹل دیا کہ امت مسلمہ کے انصاف ترین انسان ہیں۔
اس پر عمل تقریباً 20 سال جاری رہا اور پھر جب رومن ایمپائر کے ساتھ جنگیں جاری تھیں اور اسی معاہدے کے مطابق خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں خیبر سے نکال کر یہودیوں کو فلسطین میں سیٹل کر دیا اور عمدہ کھیت انہیں مزید دے دیے ۔ اسی طرح عیسائی حضرات کو نجران سے نکال کر شاندار کھیت فلسطین میں دے دیے۔ انہی یہودیوں اور عیسائیوں کی نسل آج تک فلسطین، اردن، سیریا اور لبنان میں موجود ہیں۔
عیسائیوں کے ساتھ کوئی ایسا بائیکاٹ وغیرہ کا معاملہ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم یہی دیا تھا کہ افریقہ کے عیسائی اگر جنگ کرنے آئیں تو آپ جنگ کریں ورنہ بالکل نہیں کرنا ہے۔ ایسا ہی ہوا اور پھر سوڈان اور دیگر افریقی ممالک میں عیسائیوں کی اکثریت ایمان لائی جن کی نسل موجود ہے۔
صرف اور صرف رومن ایمپائر نے مدینہ منورہ پر حملے کی پلاننگ کی تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبوک تک اپنے لشکر کو لے آئے لیکن پھر عیسائیوں نے جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے سرنڈر کر دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد رومن بادشاہ نے جنگ شروع کی تو ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رومن ایمپائر کے اکثر علاقوں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح کر دی۔ اب رومن ایمپائر کے پاس ترکی کا آدھا حصہ ہی باقی رہا اور وہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ڈرتے رہتے تھے کیونکہ وہی ان تمام ممالک کے گورنر تھے۔
عیسائی اور یہودی اسکالرز نے خود انہوں نے اپنی تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ہماری تاریخ میں سب سے بڑا سکون کا ٹائم وہی تھا جب مسلمانوں کی حکومت رہی ہے۔ اس میں آپ پوری تاریخ کا مطالعہ کر لیجیے۔ میں نے یہودی اور عیسائی اسکالرز کی کتابوں کے حوالے پیش کیے ہیں۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1qBg8D6KnsutiyG16lwLLEePpNqgd_Pbh
سوال: آزاد کشمیر میں ایک شخص نے کے ایف سی جو کہ اسرائیل کا برانڈ ہے، اسکی دکان کھولی تو لوگوں نے اسکو مارا اور اسکی دکان کو بھی آگ لگا دی۔ کیا یہودیوں کے نام پے اپنے مسلمان بھائی کا نقصان کرنا جائز ہے؟
جواب: جن صاحب نے یہ حرکت کی ہے، اس میں انہوں نے مسلمانوں ہی کو نقصان پہنچایا ہے۔ پہلے یہ سرچ کر لیجیے کہ کے ایف سی کمپنی اور ان ریسٹورنٹس کے مالک کون لوگ ہیں؟ وہ کیا مسلمان ہیں یا غیر مسلم اور کیا وہ کسی مسلمان پر تشدد کر رہے ہیں یا نہیں؟
حقیقت یہی ہے کہ پاکستان ، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مالکان کی اکثریت مسلمان ہی ہوتے ہیں۔ مثلاً
KFC, Coke, Pepsi, Unilever, EY, PW, KPMG Etc.
وہ فرنچائز کے طور پر تھوڑی سی فیس امریکہ کی کمپنیوں کو ادا کرتے ہیں اور ان کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر امریکہ میں ان کے اصل مالکان کا معلوم نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں یا نہیں۔ یہ لوگ خواہ مسلمان، یہودی، عیسائی کوئی بھی ہوں تو انہیں چھوٹا سا حصہ ہی ملتا ہے۔ اگر آپ کو کسی بھی دہشت گرد کو پہچان لیں تو پھر اپنی حکومت کو بتا دینا چاہیے۔ ہم پر صرف یہی دینی ذمہ داری ہے۔
اب بعض بھائیوں کا یہ خیال ہے کہ امریکہ، یورپ اور اسرائیل میں یہ سب لوگ ٹیکس کی شکل میں حکومت کو دیتے ہیں اور پھر یہ حکومتیں مسلمانوں پر ظلم کرتے ہیں۔ یہ جرم تو ان حکومتوں کا ہے لیکن عوام پر ٹیکس اتنا مسلط ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے یہ محض مجبوری ہے۔
میری ملاقات کئی یورپی کولیگز جو سپین اور سویٹزرلینڈ کے تھے لیکن وہ سعودی عرب میں رہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اپنے ملک کو چھوڑ آپ یہاں کیوں رہ رہے ہیں حالانکہ سپین اور سویٹزرلینڈ میں بہت اچھی تنخواہ ملتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ تنخواہ تو بہت اچھی ہوتی ہے لیکن ٹیکس اتنا بڑا ہوتا ہے کہ بچت کچھ نہیں رہتی ہے۔ اس لیے ہم ٹیکس فری ملک سعودی عرب میں جاب کر رہے ہیں۔ اس سے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ عوام سے جبراً ٹیکس چھینا جاتا ہے تو پھر ان کا کیا قصور ہے؟
سوال: ایک بار گناہ سے توبہ کرنے کے بعد دوبارہ وہی گناہ ہو جاتا ہو تو اسکا کیا حل کیا جائے
جواب: اس میں پھر بھی توبہ کریں۔ جتنی بار بھی گناہ کریں، ہر بار توبہ فوراً کر لینی چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ پوری کوشش کریں کہ مستقبل میں دوبارہ یہی گناہ نہ کر سکیں۔
سوال: میرا ایک دوست ہے وہ اپنا مسئلہ بیان کر رہا تھا کہ اسے لڑکوں کو دیکھ کہ جنسی خواہش کی سوچ آ جاتی ہے۔ اور اس نے کبھی یہ غلیظ کام نہیں کیا۔ ان خیالات پے وہ کیسے قابو پائے۔ مزید یہ کہ کیا ان خیالات پے اسکو گناہ ملتا ہے یا نہیں
جواب: جنسی خواہش تو نارمل جسمانی عمل ہے اور وہ ہر لڑکوں اور لڑکیوں میں ہوتا ہے۔ دین میں صرف یہی حکم ہے کہ خواہش کو کنٹرول کریں۔ اس کے لیے لمٹ بتا دی ہے کہ شادی کر لیں، پھر جب خواہش پیدا ہو تو میاں بیوی آپس میں سیکس کر کے انجوائے کریں۔ اگر شادی نہیں ہوئی تو ان کے ساتھ ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کبھی گناہ کر بیٹھے تو فوراً توبہ کریں۔ دوسرے لڑکے یا لڑکی پر اگر جسمانی یا نفسیاتی نقصان کیا ہے تو ان سے بھی معذرت کریں اور آئندہ ان کی طرف نہ جائیں۔ اس کے لیے اپنے کھانے کو کم کریں تاکہ شہوت کم پیدا ہو اور سیکس کی خواہش زیادہ پیدا نہ ہوں۔ شادی ہو جائے تو پھر کھانا اچھی طرح کھائیں پئیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com