السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا حال ہے ؟ اُمید ہے بخیریت ہوں گے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے تین کذب کےمتعلق ایک مضمون لکھ رہا ہوں۔ ابھی اس میں مزید علمی مواد جمع کرنا ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ اس میں مزید کیا چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں؟ ویسے اسرائلیات کو قبول کرنے میں میرا دل ہمیشہ متذبذب رہتا ہے۔ اس میں بہت سی ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں جن کی نسبت نبیﷺ کی طرف کرنا شائد صحیح نہ ہو۔ لیکن ہمارا روایت پرست طبقہ ان کو جزوِ ایمان بنا کر لوگوں کو پیش کرتا ہے۔
ویسے اسرائلیات کے متعلق بھی ایک مضمون لکھا جا سکتا ہے۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کی زیادہ تر روایات سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہوتی ہیں۔ ویسے صغار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی اس میں شامل ہیں۔ لیکن کبار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا رویہ اس معاملے میں بہت مختلف رہا ہے۔بلکہ اگر کہا جائے کہ احادیث رسول ﷺ کبار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے زیادہ صغار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم سے مروی ہیں جو بے جا نہ ہو گا۔ عشرہ مبشرہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کل روایات ملا کر بھی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایات تک نہیں پہنچتی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عشرہ مبشرہ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم احادیث رسول ﷺ لکھنا اور روایت کرنا پسند نہیں کرتے تھے الا یہ کہ کوئی مجبوری لاحق ہو جائے۔
آپ کا کیا نقطہ ٔ نظر ہے؟
شکریہ
طلحہ خضر
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ طلحہ بھائی
بہت عرصے بعد آپ سے رابطہ ہوا ہے اور آپ کی ریسرچ پر بہت خوشی ہوئی ہے۔ اس آرٹیکل میں یہ تجزیہ کرنا چاہیے اور آپ خود چیک کر لیجیے کہ کونسا تجزیہ کر دیا ہے اور جو باقی ہے، اس کا اضافہ کر لیجیے۔
۔۔۔۔۔۔ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے کہ یہ تو خود گناہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ارشاد فرمایا، وہ محض مجازی معنی میں کچھ فرمایا تھا جبکہ سننے والے کو غلط فہمی ہو گئی۔ حقیقتاً یہ جھوٹ نہیں تھا لیکن منکرین نے اپنی غلط فہمی کی وجہ سے اسے جھوٹ کہہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے علماء جب گمراہ ہوئے تو پھر انہوں نے بہت سی جعلی کہانیاں ایجاد کر دیں جس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے گناہ کی کہانیاں بنا دیں۔ اس کا مقصد یہی تھا کہ وہ اپنی حرکتوں کو جسٹی فائی کر سکیں۔ اس کی وہی مثال حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام پر جھوٹ قرار دیا، اسی طرح حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ السلام پر جادو ٹونا کا ماہر قرار دیا۔ یہ سب جعلی کہانیاں تھیں۔
۔۔۔۔۔۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تو کوئی اثرات نہیں ہوئے لیکن بعض علمی ذوق والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بنی اسرائیل سے ان کی تاریخی کہانیاں سن لیں۔ ان کی غلطیوں کو واضح کر دیا کہ جعلی کہانیاں تھیں اور کونسی قابل اعتماد روایات ہیں۔ اس کی مثال آپ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا تجزیہ دیکھ سکتے ہیں بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح فرما دیا۔
۔۔۔۔۔۔ اگلی جنریشنز میں کچھ لوگوں نے بنی اسرائیل کی جعلی کہانیوں کو قبول کر لیا اور پھر اگلے شاگردوں کو سناتے رہے۔ انہوں نے خود بھی متن کا تجزیہ نہیں کیا۔ بعض حضرات نے اگرچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تجزیے کو بھی ریکارڈ کر دیا لیکن کچھ نے نہیں کیا۔ پھر دونوں صورتحال محدثین کی کتابوں میں پہنچ گئے۔
۔۔۔۔۔۔ اب آپ متن کا تجزیہ ہی کر سکتے ہیں اور اس روایت کی جعلی کہانیاں سنا دیجیے۔ اس میں راوی اگرچہ قابل اعتماد ہیں لیکن اتنا نوٹ کر لیجیے کہ وہ صاحب متن کے تجزیے کی ریسرچ کی صلاحیت کے قابل نہیں تھے۔
اس سے آپ راویوں کی لسٹ بنا سکتے ہیں کہ کون تنقیدی رویہ والے لوگ تھے اور کونسے نہیں؟ اس میں انہی راویوں کو لسٹ ہی بنا لیجیے گا جس میں محدثین نے قابل اعتماد کر دیا تھا۔ پھر اگر کسی بھی محدث نے ان پر تنقید کی، تو وہ بھی اضافہ کر دیجیے گا۔ آپ کی اس کنٹریبیوشن سے راویوں پر احتیاط کر سکیں گے۔ پھر آ پ اگر چاہیں تو ان راویوں کی تنقید کو عربی میں لکھ کر ان ویب سائٹس کو بھیج دیجیے گا تاکہ آپ کی کاوش پر لوگوں کو فائدہ مل جائے۔
https://hadith.islam-db.com/all-narrators
https://www.islamicurdubooks.com
اردو میں ہم بھی میگزین میں پبلش کر دیں گے۔ انشاء اللہ۔ آپ جاوید صاحب اور ریحان بھائی کو بھی بھیج دیجیے گا تاکہ وہ بھی اپنے میگزین میں پبلش کر دیں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
سوال: ویسے میرے ذہن میں ایک خیال تھا کہ جس طرح قرآن مجید کا سیاق و سباق اور پسِ منظر معلوم ہوتا ہے ۔ اس طرح اگر ہمیں کسی ایک حدیث کا جامع متن، پسِ منظر اور سیاق و سباق میسر آ جائے تو اس طرح پوری بات سمجھ میں آ سکتی ہے ۔
جواب: میں نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی پوائنٹ کا مشورہ دیا ہوا ہے۔ سنا ہے کہ جاوید غامدی صاحب یہی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی کرے تو کامیاب فرمائے۔ میں نے اس پر یہ کتاب لکھی ہے جس میں یہ فائنانس سے متعلق احادیث کو اکٹھا کیا ہے اور سیاق و سباق بیان کیا ہے۔
سوال: ہمارے فقہاء و محدثین ایک جامع متن والی حدیث سے صرفِ نظر کر کے اس کے مختلف اجزاء سے نئے نئے احکامات و سنن اخذ کرتے رہتے ہیں۔ شائد یہ طرزِ عمل درست نہیں ہے۔
جواب: بالکل صحیح فرمایا ہے۔ بہت سے فقہاء تو بس اپنا فتوی لکھ کر اس کی وجہ بیان نہیں کرتے رہے ہیں اور آج تک ہے۔ اس کا حل ہمارے بس میں نہیں ہے۔ صرف اپنی کتابوں میں یہی طریقہ کار پر مشورہ دے دیا ہے ۔ جو مان لیں تو کر لیں گے ورنہ پھر جاری رکھیں گے۔ ہاں خود میں نے سوال جواب میں یہی کاوش کی ہے کہ دلائل ضرور بیان کریں جس میں قرآن مجید اور احادیث بھی موجود ہے۔ آپ اگر میرے پاس کوئی غلطی نظر آئے تو ضرور فرمائیے گا تاکہ ٹھیک کر لوں۔
سوال: صحیح طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ ایک ہی حدیث کے مختلف اجزاء کو جوڑ کر ایک جامع متن تیار کر کے دیکھا جائے کہ حدیث کاسیاق و سباق اورپسِ منظر کیا ہے۔ پھر اس کے بعد اس کو قرآن مجید کی روشنی میں سمجھ کر کوئی حکم اخذ کیا جائے۔ اس طریقہ سے ہم نہ صرف حدیث کا صحیح فہم حاصل کر سکتے ہیں بلکہ زائد از قرآن احکامات سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے حدیث میں کوئی نیا حکم یا عقیدہ نہیں ہو سکتا بلکہ قرآن مجید کی ہی تفہیم و تبیین ہوسکتی ہے۔
جواب: بالکل صحیح ارشاد فرمایا ہے اور جاوید صاحب کر رہے ہیں۔ ہم لوگ بھی کسی حد تک کوشش کر سکتے ہیں۔ آپ بھی اس میں کتاب لکھ سکتے ہیں۔
سوال: مثلاً داڑھی والی حدیث ہی کو لےلیجیے کہ اس کے مختلف طرق میں داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں کتراؤ کا حکم موجود ہے جس سےہمارا روایت پرست طبقہ اس کو فرض یا واجب کےدرجے میں لیتا ہے جبکہ احناف اسے سنت قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب ہم اس حدیث کا جامع متن تیار کرتے ہیں تو ہم نہ صرف اس حکم کے پسِ منظر سے واقف ہو جاتے ہیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دین کاکوئی حکم نہ تھا بلکہ ایک طرح کام مشورہ تھا جسے غلطی سے سنت یا فرض سمجھ لیا گیا ہے۔
جواب: بالکل صحیح طرح کتابیں لکھ لیجیے۔ اس سے ان لوگوں کو فائدہ ہو گا جو اس ٹاپک پر دلچسپی رکھتے ہوں۔ میں نے بھی یہی کاوش کی ہے جو فقہ کی کتابوں میں کر دیا ہے۔
سوال: جب ان حضرات سے داڑھی کٹانے یا ترشوانے کی حرمت کی دلیل طلب کی جاتی ہے تو یہ عمومی احادیث مثلاً فمن رغب عن سنتی فلیس منی وغیرہ یا فقہاء کے اقوال بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں (جبکہ داڑھی کے سنت یا فرض ہونا ہی زیرِ بحث ہے۔) لیکن وہ صاف و صریح حدیث جس میں داڑھی کٹانایا ترشوانا حرام قرار دیا گیا ہے ، وہ پیش نہیں کرتے۔
میرے نزدیک حکم کی نوعیت دیکھی جائےاگر کسی حکم کی خلاف ورزی پر لعنت یا عذاب کی وعید سنائی گئی ہو تو پھر وہ حکم فرض کے درجے میں ہو گا ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ پورے ذخیرۂ احادیث میں ترکِ داڑھی پر کوئی وعید نہیں سنائی گئی ہے۔
جواب: صرف داڑھی ہی نہیں بلکہ دیگر معاملات میں بھی ایسی غلطیاں موجود ہیں۔ اس کی سب سے بڑی غلطی تو تین طلاق پر فتوے ہی غلط ہیں۔ اس کا حل یہی ہے کہ فقہاء کو سمجھانے کی کوشش کریں۔ پرانی عمر والے فقہاء تو کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے لیکن اگلی جنریشن میں کوشش کی جا سکتی ہے۔ میں نے اسی وجہ سے مدارس کے نظام تعلیم پر چینج کرنے کے لیے یہ کورسز بنا دیے ہیں۔ اس میں آپ بھی اضافہ کر دیجیے اور میں بھی اسے سافٹ کاپی میں پبلش کر دوں گا انشاء اللہ۔ ایسے پبلشر بھی موجود ہیں جو ہارڈ کاپی پر کتابیں بیچتے ہیں۔
الحمد للہ یہ رزلٹ سامنے آیا ہے کہ کم از کم وہ فقہاء تو ٹھیک ہوئے ہیں الحمد للہ جو ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ پھر ہماری کتابیں پڑھ کر اپنے طریقے کو ٹھیک کر لیتے ہیں الحمد للہ۔ اس کی مثال آپ ڈاکٹر شکیل اور ڈاکٹر غوری صاحب کو دیکھ سکتے ہیں اور انہیں کال کر سکتے ہیں۔ نئے نوجوان بھی ملے ہیں جو ابھی تعلیم شروع کر رہے ہیں الحمد للہ۔ غوری صاحب نے تو پنجاب یونیورسٹی میں علوم الحدیث کی ہماری کتاب کو پڑھا رہے ہیں الحمد للہ۔
ایک مدارس کے وہ طلباء نہیں پڑھتے ہیں جن میں علمی ذوق نہیں ہوتا ہے۔ پھر یہی لوگ مسجد کے امام بنتے ہیں۔ ہاں یہ دیکھا ہے کہ اچھے علاقوں میں مسجد کے امام معقول ہوتے ہیں۔ اس کی مثال آپ وہی دیکھ لیجیے جو یورپ میں رزلٹ آیا تھا۔ پہلے تو پادریوں نے آزاد سوچنے والے علماء کو آگ میں جھونک دیا۔ اس میں دو تین صدیوں تک یہی ہوا لیکن پھر جب رنیساں تحریک کامیاب ہوئی۔ اس کے بعد موجودہ پادری بڑے معقول ہوتے ہیں۔
میری ملاقات اردن میں ہوئی جو بپتسمہ کر رہے تھے جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بپتسمہ کی جگہ ہے۔ وہ پادری بڑے معقول لگے اور پھر پادری صاحب نے دعائیں کرتے ہوئے قرآن مجید اور احادیث کی دعاؤں کو بھی پورے مجمع میں عربی میں دعائیں کرتے رہے۔ پھر میں نے ان سے وجہ پوچھی تو بتایا کہ وہ پادری اور مسلمان علماء سب اکٹھے ہی ٹیبل پر ملتے ہیں اور ایک دوسرے سے ڈسکشن جاری ہوتی ہے۔ یہ سرکاری مذہبی ادارہ کے لوگ ہیں اور سب محبت سے ملتے ہیں۔
امید ہے کہ انشاء اللہ ہم سب کی کنٹریبوشن کا رزلٹ بھی کئی صدیوں میں ہو جائے گا انشاء اللہ۔ پاکستان میں یہ دیکھا ہے کہ پی ایچ ڈی والے مذہبی علماء اچھے ہوتے ہیں الحمد للہ اور فرقہ واریت نہیں ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہے گا تو یورپ کی طرح کچھ صدیوں میں اچھا رزلٹ مسلمانوں میں بھی ہو جائے گا انشاء اللہ۔ سعودی عرب، اردن، امارات وغیرہ کے دینی علماء اچھے ہو چکے ہیں الحمد للہ۔ پہلے وہابی مسجد نبوی کے اندر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر لوگوں کو عقیدت کی وجہ سے کوڑے مارتے تھے لیکن اب بہت عزت سے معاملہ کرتے ہیں۔
سوال: اگر ایک جامع متن والی حدیث سنداً صحیح ہے تو اس کے کسی جزء سےمتعلق سنداً ضعیف حدیث بھی قبول کی جا سکتی ہے ۔کیونکہ اس کو جامع متن والی سنداً صحیح حدیث کی تائید حاصل ہے۔
بالکل اسی طرح، اگر ایک جامع متن والی سنداً ضعیف حدیث ہے تو اس کے کسی جزء سےمتعلق سنداً صحیح روایت بھی ردکی جا سکتی ہے۔ کیونکہ اس کی جامع متن والی حدیث سنداً ضعیف ہے۔
اس طرح احادیث کے رد و قبول کا فیصلہ کر کے اختلافات کو ختم نہیں تو بہت حد تک کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
جواب: آپ سے متفق ہوں۔ اس میں یہی کرنا چاہیے کہ پہلے صحیح اور حسن احادیث کو اکٹھا کر لیں۔ پھر یہ تبصرہ بھی کر لیجیے کہ اسی ٹاپک پر ضعیف احادیث ہیں لیکن ان کا متن صحیح احادیث کے ساتھ میچ ہو رہا ہے۔
سوال: میں نہیں جانتا کہ محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور محترم الیاس صاحب کا ” حدیث پروجیکٹ “ کے خدوخال کیا ہیں؟ لیکن اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ وہ حدیث کا ایک جامع متن تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ ہمارا روایت پرست طبقہ اس خدمت کو بھی استخفافِ حدیث ، استنکارِ حدیث اور انکارِ حدیث ہی سے موسوم نہ کردے۔
جواب: امید تو نہیں ہے کہ وہ ایسا کریں گے۔ ان کے طریقہ کار کو آپ الیاس بھائی کو بھیجیں اور ان کا طریقہ کار پوچھ لیجیے۔ میں نے اسی ٹیم کے عامر گزدر بھائی سے پوچھا تھا۔ انہوں نے یہ بتایا ہے کہ اس کا کچھ حصہ تو پبلش ہوا ہے۔ اسے آپ ڈھونڈ سکتے ہیں اور اس کے طریقہ کار کا تنقیدی تجزیہ کر لیجیے اور اس پر رپورٹ لکھ دیجیے۔ اسے میں بھی اضافہ کر کے پبلش کر دوں گا انشاء اللہ۔ اس طرح ہم دونوں کی تحریر سامنے آ جائے گی انشاء اللہ۔
روایات ِشفاعت میں بھی متعدد انبیاء و رسل علیہم السلام کی لغزشیں اُمت کی شفاعت سے مانع بتائی گئی ہیں۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں مذکورہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی نہ صرف لغزشیں بلکہ ان کی بخشش کا بھی ذکر موجود ہے ۔ اسی طرح قرآن مجید نبیﷺ کی بھی متعدد لغزشوں اور ان کی معافی کا ذکر کرتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی طرف سےتمام انبیاء و رسل علیہم السلام کی لغزشیں معاف کر دینے کے باوجود دیگر انبیاء علیہم السلام پرجو خشیتِ الہیٰ طاری ہو گی،کیا رسول ﷺ اس خشیتِ الہیٰ سے محروم ہوں گے؟ کیا یہ بات باعثِ تعجب نہیں کہ ایک نبی یا رسول ایک کام خالصتاً اللہ تعالٰی کے لیے سرانجام دے جبکہ اس کام پر اسے تائیدِ الہیٰ بھی حاصل ہو، وہ اس کے لیے عنداللہ مسئول ہو جائے؟
سوال: ہم قرآن مجید کی روشنی میں روایاتِ شفاعت کو کیسے پرکھ سکتے ہیں۔ میں رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کا منکر نہیں ہوں، لیکن جس طرح روایات ِ شفاعت میں دیگر انبیاء علیہم السلام کے متعلق منظر نامہ پیش کیا گیا ہے ، اس کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟
جواب: شفاعت سے متعلق جتنی روایات آپ کے ذہن میں ہیں تو پلیز عنایت فرما دیجیے۔ پھر ہر ہر روایت کے متن کا تجزیہ کر سکتا ہوں۔ لاجیکل تو بس اتنی بات قرآن مجید ہے کہ اللہ تعالی جن شخص کے بارے میں اللہ تعالی اس کی امت کے نبی کو اللہ تعالی اجازت دے گا تو پھر نبی شفاعت کریں گے اور اللہ تعالی قبول فرما لیں گے۔ اب جو روایت بھی اس آیت الکرسی کے ساتھ میچ ہو تو درست ہے ورنہ پھر نہیں ہے۔
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ. (255)
(اُس دن معاملہ صرف اللہ تعالی سے ہو گا۔) اللہ تعالی جس کے سوا کوئی خدا نہیں، زندہ اور سب کو قائم رکھنے والا۔نہ اُس کو اونگھ لاحق ہوتی ہے نہ نیند۔زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، سب اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں کسی کی سفارش کرسکے۔ لوگوں کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے اور وہ اُس کے علم میں سے کسی چیز کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ اُس کی حکومت زمین اور آسمانوں پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی حفاظت اُس پر ذرا بھی گراں نہیں ہوتی،اور وہ بلند ہے، بڑی عظمت والا ہے۔ (سورۃ البقرۃ)
اس کے لیے آپ بنی اسرائیل کی غلطی کو بھی دیکھ لیجیے تو ہمارے ہاں بھی وہی غلطیاں جاری ہیں۔ ہمارے ہاں اس حکم کو سمجھے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شفاعت لینے کی کوشش کرتے ہیں خواہ اپنا عمل جو بھی کریں۔ سورۃ البقرۃ ہی میں یہ آیت ہے۔
وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ. (78)
اِن میں ان پڑھ عام لوگ بھی ہیں جو اللہ کی کتاب (تورات) کو صرف (اپنی) آرزوؤں کا ایک مجموعہ سمجھتے ہیں اور اپنے گمانوں ہی پر چلتے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ)
اب آپ دیکھ سکتے ہیں کہ شفاعت کے بارے میں بھی جو تصورات ہیں، بالکل اسی آیت کی مثال ہمارے ہاں موجود ہے۔ یہی بنی اسرائیل کے ان پڑھ لوگ کرتے تھے اور ہمارے ہاں بھی ہے۔ روایات میں بھی اسی طرح کئی احمق راوی نے کوئی بات کہہ دی ہو گی حالانکہ صحیح حدیث وہی ہے جو قرآن مجید کے ساتھ میچ ہو سکتی ہو۔
اس میں یہ آئیڈیا بھی آیا ہے کہ آپ علوم الحدیث میں راویوں پر ریسرچ کر رہے ہیں تو اس میں ایک کرنے کا کام ہے۔ محدثین نے راویوں کی ریپوٹیشن اور ان کی میموری پر فوکس کیا تھا اور اسی میں انہوں نے قابل اعتماد قرار دیے یا نہیں۔ انہوں نے کچھ پوائنٹس پر کم ہی کام کیا تھا، جو آپ کر سکتے ہیں۔
۱۔ راویوں کے قابل اعتماد ہونے پر آپ ان کے متن کی ریسرچ کر سکتے ہیں۔ کون راوی بہت تفصیل سے سیاق و سباق میں متن بیان کرتا رہا ہے اور کون چارڈ کٹ پر کام کرتا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ کس راوی نے متن میں اسماعیلی روایات کے اثرات کتنے تھے؟
۔۔۔۔۔۔ کس راوی میں فرقہ واریت تھی اور وہ اپنے تعصب کی بنیاد پر روایت اور تفسیر میں اضافہ کرتا رہا تھا؟ اس کی مثال تو آپ نے بھی کر دی اور میں نے بھی جو ابن شہاب الزہری کی بات کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں فلسفہ کا عروج تھا۔ کس راوی کے فلسفہ پر اثرات کیسے رہے کہ وہ روایات میں فلسفہ کی بنیاد پر غور کرتے رہے؟
۔۔۔۔۔۔ کونسے راوی ایسے تھے جن کا متن اتنا واضح تھا کہ طویل صدیوں تک اسٹوڈنٹس سمجھتے رہے؟
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com