سوال: اسما لرجال اور جرح و تعدیل کیا ہیں ان کیلئے اردو زبان میں بہترین کتابیں کونسی ہیں؟ خضر حمید
جواب: اسماء الرجال کا معنی ہے بہت سے انسانوں کی سیرت۔
Bibliography of Persons
علوم الحدیث میں صرف انہی انسانوں کی زندگی کی جانچ پڑتال موجود ہے جنہوں نے حدیث نبوی کی احادیث کو اگلی جنریشن میں پہنچایا ہے۔ ان کی تفصیل آپ میری کتاب میں آگے پڑھ لیں گے۔ یہ کوشش الحمدللہ پہلی مرتبہ ہی اس عاجز آدمی نے اردو میں پہلی کتاب لکھی ہے جس میں جانچ پڑتال کا طریقہ کار آپ پڑھ رہے ہیں ورنہ کسی نے ابھی تک اردو میں یہ کتاب نہیں لکھی ہے۔
اسماء الرجال کی کی مثال ہے کہ فلاں آدمی کب پیدا ہوا، کس شہر یا گاؤں میں رہا، کہاں سفر کرتا رہا۔ والدین، اولاد، اساتذہ اور شاگرد کون لوگ ہیں ؟ اس آدمی کا کس فرقہ اور کس مذہبی یا سیاسی پارٹی کا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
لفظ جرح کا معنی ہے تنقید اور تعدیل کا معنی ہے قبول کرنا۔ جرح و تعدیل کا مطلب ہے کہ یہ آدمی کیا قابل اعتماد ہے یا نہیں؟ ابھی تک جرح و تعدیل کی تفصیل پر اردو میں کسی نے ترجمہ نہیں کیا ہے۔ ابھی تک یہ سب عربی میں ہے لیکن آپ آسانی سے ہر جملہ یا لفظ کو گوگل ٹرانسلیٹ میں عربی تو انگلش کر کے سمجھ سکتے ہیں۔ ان سب افراد کی کتابیں اس ویب سائٹ میں موجود ہے اور آپ سرچ کر سکتے ہیں۔ اس کی مثال آپ ابھی کر لیجیے۔
https://hadith.islam-db.com/all-narrators
اس میں کلک کیجیے اور اور کسی بھی آدمی پر کلک کر کے اس کی جانچ پڑتال مل جائے گی۔ رزلٹ میں اگر لفظ ’’ثقہ‘‘ ہے تو مطلب ہے کہ قابل اعتماد شخص ہے۔ جس میں ’’ضعیف الحدیث‘‘ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ احادیث میں کمزور آدمی ہے یعنی اس پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ’’مجھول الحال‘‘ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محدثین ان صاحب کی سیرت کو نہیں جان سکے ہیں، اس لیے احتیاط کے طور پر ان کی روایات پر قبول نہ کریں۔ اگر لکھا ہو کہ ’’کذاب‘‘ تو پھر مطلب ہے کہ بالکل ہی جھوٹا آدمی ہے اور ایسے آدمی کی کسی بات پر بھی یقین بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
اب تفصیل میں پڑھنا چاہیں تو اس آدمی کے نام پر کلک کریں تو ہر ریسرچرز کا رزلٹ بھی مل جاتا ہے۔

اگر آپ کو کسی راوی کا نام معلوم ہے اور آپ اس پر ریسرچ کرنا چاہتے ہیں تو پھر عربی کیبورڈ انسٹال کر لیجیے اور لکھ کر سرچ کریں تو ان پر محدثین کی ریسرچ مل جائے گی ۔ اس کی مثال ہے کہ میں نے ’’ابحث‘‘ یعنی سرچ پر نام لکھا ’’اب شہاب الزھری‘‘ تو دو آدمی آ گئے جن کے نام میں شہاب الزھری موجود ہے۔ اب ایک نام پر کلک کیجیے تو پھر معلوم ہو جائے گا کہ وہ شخص قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ مثلاً میں نے ایک شہاب پر کلک کیا تو ان صاحب کا شجرہ نسب سامنے آ گیا کہ محمد بن مسلم بن عبيد الله بن عبد الله بن شهاب بن عبد الله بن الحارث بن زهرة بن كلاب۔

اب آپ کے سامنے عربی میں آیا کہ ان کا مشہور نام ’’محمد بن شہاب الزھری‘‘ تھے، حافظ اور فقیہ تھے یعنی وہ علم الفقہ کے ماہر تھے۔ وہ صاحب مدینہ میں رہے اور شام میں بھی رہے۔ اب آپ نیچے ’’الجرح و التعدیل‘‘ پر کلک کیجیے تو یہ معلوم ہو گا کہ ان محمد بن شہاب صاحب کی جانچ پڑتال ریسرچرز نے کی ہے تو ان کا رزلٹ کیا ہے۔

اب آپ دیکھیے کہ ہر ریسرچر نے اپنا رزلٹ بیان کیا ہے۔ ان کی عربی آپ نہیں جانتے ہیں تو پھر آپ اسی عربی کو گوگل میں انگلش پر ترجمہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کسی ریسرچر نے انہیں قابل اعتماد سمجھا لیکن بالخصوص ابن الجوزی ریسرچر نے بتا دیا کہ محمد بن شہاب الزھری مشهور بالتدليس یعنی فراڈ کے بارے میں مشہور آدمی ہیں۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ قابل اعتماد نہیں ہے اور باقی سارے ریسرچرز کو ان کی کہانیاں سامنے نہیں آ سکی تھیں، اس لیے انہوں نے قابل اعتماد سمجھ لیا تھا جو ان کی غلط فہمی تھی۔
اس ویب سائٹ میں آپ اردو میں دیکھ سکتے ہیں کہ ہر موجودہ حدیث کے سارے راویوں کے بارے میں کم از کم جانچ پڑتال کا مختصر رزلٹ مل جاتا ہے لیکن وہ تفصیلی ریسرچ نہیں ہوتی ہے۔
https://www.islamicurdubooks.com/hadith/ad.php?bsc_id=8051
اگر ان دونوں ویب سائٹ میں نہ ملے تو پھر بالآخر گوگل ہی میں عربی میں سرچ کر لیجیے گا۔
سوال: کس ہجری میں وضع یعنی جعلی احادیث کا سلسلہ شروع ہوا؟
جواب: پہلی ہجری ہی میں وضع یعنی جعلی باتیں شروع ہوئیں۔ پہلی بغاوت تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حکومت میں ہوئی کہ لوگوں نے اپنے لیڈر مسیلمہ کذاب کو نبی قرار دیا۔ یہ فتنہ زیادہ واضح تب ہوا جب عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جعلی کہانیاں پراپیگنڈا کے طور پر پھیلایا تاکہ اپنے ساتھی لیں اور پھر انہوں نے بغاوت کر دی اور آپ کو شہید کر دیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسی فتنہ کے لوگوں نے علی، طلحہ، زبیر، حسن، حسین اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو شہید بھی کر دیا۔ ان جعلی کہانیوں کے لیے وہی محمد بن شہاب الزھری کا نام ہی سامنے آتا ہے۔
پھر یہ باغی لوگ آپس میں متحد نہیں رہے بلکہ اپنی پارٹیاں بناتے رہے اور آپس میں بھی لڑتے رہے۔ دوسری اور تیسری ہجری میں جا کر یہ پارٹیاں فرقہ کی شکل اختیار کر لیں۔ اس زمانے کے ابھی تک فرقہ موجود ہے جو اثناء عشری شیعہ اور اسماعیلی شیعہ پارٹی ہے۔ اسی زمانے میں خوارج ہی سب سے خطرناک فرقہ تھا جنہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا تھا۔ یہ سب تو دوسری صدی ہجری تک اکثر قتل ہو گئے لیکن جو معقول لوگ تھے، وہ آج تک زندہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باتیں بیان کی ہیں، ان سب کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے کہ کون قابل اعتماد آدمی ہے اور کون نہیں۔
سوال: اسلام میں فتویٰ بازی کس ہجری میں شروع ہوئی؟
جواب: اسی پہلی ہجری صدی میں جب خوارج نے حضرت عثمان، علی، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم پر کفر کا فتوی نافذ کیا تھا۔ انہوں نے عثمان، علی، طلحہ، زبیر، حسن، حسین رضی اللہ عنہم کو شہید کر دیا لیکن معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بچ گئے۔ انہوں نے ہی خوارج پر سخت ایکشن کیا اور قابو کر لیا تھا۔
سوال: مفاد پرست لوگوں کا کوئ مستقبل کوئی سلوشن نکالا گیا کہ یہ لوگ مذہبی جماعتوں میں سستی شہرت کے حامل لوگوں کی یہ پہچان ہے۔ اس کا حل کیا ہے؟
جواب: ایک ہی حل ہے کہ ان کی اصلاح کی جائے یا پھر انہیں قتل عام کریں لیکن یہ کام حکومت کی پولیس ہی کر سکتی ہے۔ لیکن دونوں سلوشنز کے اپنے سائیڈ افیکٹس پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر ہم ان سے بچ کر ہی رہیں اور اللہ تعالی سے انہیں اصلاح یا پھر ہلاکت کی دعا کریں۔
سائیڈ افیکٹس کی مثالیں آپ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ میں ملیں گی۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا تو علی رضی اللہ عنہ کا حل یہ تھا کہ جوزیادہ شدت پسند نہیں ہیں تو انہیں اصلاح کرنے کی کوشش کریں جبکہ جو لوگ دوسروں پر قتل کریں تو انہیں عدالت میں سزائے موت دی جائے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نے کافی لوگوں کی اصلاح کر دی لیکن شدت پسند لوگ پھر دو صدیوں بعد الگ فرقے پیدا کرنے لگے۔
دیگر صحابہ کرام جیسے طلحہ، زبیر، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم نے پولیس ایکشن والے سلوشن پر کام کیا۔ اسی میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما شہید ہوئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے اصلاح کے لیے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو ذمہ داری دی کہ تعلیم و تربیت سے اصلاح کریں اور ساتھ انہیں اچھی رقم بھی دیں تاکہ وہ دہشت گردی میں شامل نہ ہوں۔ اس سے کافی عرصے تک مسئلہ حل ہوا لیکن اگلی جنریشن نے حسن رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو تب جا کر سانحہ کربلا ہوا اور حسین رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے۔
رزلٹ یہی ہوا کہ دوسری صدی میں انتہائی شدت پسند خوارج تو آپس میں ہی لڑائیاں کر کے آپس میں مارے گئے۔ جو نسبتاً معقول لوگ تھے تو وہ بچ گئے آج تک خوارج کی کچھ آبادی عمان اور لیبیا میں موجود ہے ۔ موجودہ زندگی میں چونکہ نیکی اور برائی کا انتخاب قیامت تک رہے گا تو ایسے لوگ ہوتے رہیں گے۔ ہم یہی کر سکتے ہیں کہ ان سے دور ہی رہیں اور ان کے ساتھی نہ بنیں۔ جن لوگوں میں اصلاح کی خواہش ہو گی تو ہم انہی کی خدمت کر رہے ہیں۔
سوال: سر میں نے تبلیغی پارٹیوں کی کتابیں پڑھی تھی لیکن اس میں بعد میں معلوم ہوا کہ بہت سی جعلی احادیث موجود ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
جواب: آپ جو کچھ فرمایا ہے تو میرا رزلٹ بھی یہی ہے۔ یہ دونوں کتابیں تبلیغ کے لیے لکھی گئیں اور ان کے علماء نے لوگوں کو ماٹیویٹ کرنے کے لیے جو حدیث بھی ملی تو چیک کیے بغیر شامل کرتے رہے۔ ابھی بھی آپ دیکھیں گے کہ تبلیغی ذوق والے لوگ جانچ پڑتال سے اپنی آنکھیں بند کر کے جو روایت بھی ہے، وہ تقریر کیے رکھتے ہیں۔ امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمے میں یہی لکھا ہے کہ سب سے بڑھ کا صالحین یعنی عبادت کرنے والے لوگ بھی جعلی احادیث بیان کرتے ہیں۔
جب بھی آپ کو یہ محسوس ہو کہ یہ مشکوک حدیث ہے تو پھر آپ کا حل یہی ہے کہ آپ احادیث کی ریسرچ کیا کریں تاکہ معلوم ہو کہ کونسی جعلی حدیث ہے اور کونسی قابل اعتماد ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com