سوال: آپ لوگ کسی کلمہ گو مسلمان کی تکفیر سے اجتناب کرتے ہیں، جبکہ بعض اوقات وہ کسی ایسے عقیدے یا عمل کا اظہار کررہا ہوتا ہے جو کہ سراسر شرک پر مبنی ہوتا ہے۔ ایسے شخص کی اگر موت واقع ہوجائے تو کیا ہم اس کے شرکیہ عمل کو جانتے ہوئے بھی اس کا جنازہ پڑھنے کا کوئی جواز رکھتے ہیں جبکہ اللہ نے مشرکین کے لیئے استغفار سے منع فرمایا ہے؟
جواب: کوئی کلمہ گو مسلمان جان بوجھ کر شرک کبھی نہیں کرتا اور بڑے فخر کے ساتھ شرک کو اپنا مذہب نہیں سمجھتا۔ اس وقت جو لوگ مشرکانہ عمل کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں غلط فہمی لگی ہوتی ہے۔ انہیں یہی غلط فہمی ہے کہ وہ اپنے اس عمل کو شرک نہیں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ بیچارے اس طرح کےنفسیاتی بیمار ہو گئے ہیں کہ جنہیں کئی صدیوں سے کنفیوژن کا شکار رکھا گیا ہے جس وجہ سے وہ بیچارے ایسے عمل کر رہے ہیں۔ ایسے مشرکانہ عمل اور ایسی حرکتیں وہ صرف اپنی غلط فہمی کی بنا پرکرتے ہیں کیونکہ ان کو کئی صدیوں کی یہ بیماری نفسیاتی غلامی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا کَفَّرَ الرَّجُلَ أَخَاہُ فَقَدْ بَاءَ بِہَا أَحَدُہُمَا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے کوئی ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے ۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّمَا امْرِیءٍ قَالَ لِاَخِیْہِ یَا کَافِرُ. فَقَدْ بَاءَ بِہَا أَحَدُہُمَا. إِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَإِلَّا رَجَعَتْ عَلَیْہِ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے کوئی ایک اس کا مستحق بن جاتا ہے، اگر اس نے کہا، جیسا کہ وہ تھا اور اگر نہیں تو یہ اسی کی طرف پلٹے گا۔ (بخاری، ۵۷۵۲۔ ۵۷۵۳؛ مسلم، ۶۰)
ہماری ذمہ داری بس یہی ہے کہ اپنے ان بھائیوں بہنوں کے سامنے وضاحت کرنے کی کوشش کریں۔ ان کی غلط فہمی اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے بتانی چاہیے کہ یہ اصل میں مشرکانہ عمل ہے، اور ہمیں خود اس عمل سے بچنا چاہیے۔ جن بھائیوں بہنوں کو سمجھ آ گئی تو وہ خود اس بیماری سے بچ جائیں گے ان شاء اللہ اور وہ جان چھوڑا لیں گے۔
انہیں سمجھ نہیں آیا تو ان کا معاملہ اللہ تعالی کے حضور ہے اور وہی فیصلہ کر سکتا ہے۔ ہم اس میں کسی انسان پر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم انسانوں پر فیصلے کرنے لگیں تو ہم زبردستی جج بن کر آخرت کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ ہمیں ایسی کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ ایسا جعلی جج بن کر ہم خود اس تکبر کی بیماری میں پھنس جاتے ہیں، اس لیے ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔
اس بیماری کا مقصد صرف یہی ہوتا ہے کہ انسان جب لیڈر بننا چاہتا ہے تو دوسروں کو کافر کہہ دیتا ہے۔ پھر اس انسان کو جب فالوورز مل جاتے ہیں تو پھر وہ سب بھی برین واشنگ کے ذریعے دوسروں کو کافر کہتے لگتے ہیں۔ پھر جو پہلا انسان بڑا لیڈر بن جاتا ہے۔ اس کی مثالیں آپ کو مذہبی پارٹیوں میں ملیں گی اور اس کے ساتھ سیاسی پارٹیاں بھی کفر نہیں کہتے لیکن دوسروں کو کرپشن کا مجرم بنا کر پراپیگنڈا کیے رکھتے ہیں۔ اس بیماری سے ہمیں بچنا چاہیے۔
سوال: اگر ایسا شخص زندہ ہو تو کیا اس کی امامت میں ہم نماز پڑھ سکتے ہیں، جبکہ شرک کرنے والے کے تو اپنے اعمال بھی ضائع ہوجاتے ہیں؟اسی طرح کیا اس کے ساتھ قربانی میں حصہ ڈال سکتے ہیں، جب اس کا عقیدہ ہی خراب ہے؟
جواب:ایسے تمام لوگ جو اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہیں، تو ان کے متعلق قرآن و سنت میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ ہم ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے یا قربانی نہیں کر سکتے وغیرہ۔ ہمیں نماز، قربانی اور شریعت کے دیگر احکامات کرنے چاہئیں اور کوشش یہی کرنی چاہیے کہ اپنی اور دیگر بھائیوں بہنوں کو سمجھا کر ان کا علاج کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اس وقت بھی پوری امت میں بہت سے لوگ مشرکانہ عمل کرتے ہیں کیونکہ وہ بیمار ہوتے ہیں، اور وہی بیمار بھائی بہن حج کے لیے مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں۔ ہمیں قرآن و سنت میں کہیں نہیں بتایا گیا کہ ان کے ساتھ حج نہیں کر سکتے۔ یہ پابندی ہی ہم پر عائد نہیں کی گئی ہے ۔ ہم پر تو بس اتنی ذمہ داری ہے کہ اپنے بیمار بھائیوں بہنوں کو نفسیاتی غلامی کی بیماری سے بچانے کی کوشش کریں۔ اسی موضوع پر یہ کتابیں لکھی ہیں اور ان پر لیکچرز بھی حاضر خدمت ہیں۔
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com