سوال: کیا اسلام میں عورت کو خلع لینے کی اجازت ہے؟
اگر اجازت ہے تو کن کن وجوہات پر یا بغیر کسی یا بغیر کسی وجہ جب چاہے لی سکتی ہے؟
کیا جیسا پاکستان کی عدالتوں میں عورت خلع کی ڈگری پر حاصل کر لیتی ہے تو وہ اسلام میں خلع ہو جاتی ہے ؟
اگر عدالتی خلع کی ڈگری ہو چکی ہو اور عورت واپس پہلے خاوند کے پاس واپس جانا چاہے تو کس صورت میں واپس جا سکتی ہے؟
جواب: خلع نام ہی اس کا ہے کہ جو خاتون اپنے شوہر کے ساتھ رہنا نہیں چاہتیں تو وہ مطالبہ کر سکتی ہیں کہ وہ شوہر طلاق دے دے۔ اگر شوہر نہ دے تو پھر عدالت میں وہ خاتون طلاق لے سکتی ہیں۔ دین میں اس کی پوری آزادی ہے کہ خاتون جب چاہے، خلع لے سکتی ہیں۔قرآن مجید میں اس کی اجازت ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ خاتون اپنے شوہر سے نجات لینا چاہتی ہو۔ اس دوران وہ جان چھڑانے کے لیے ،شوہر سے کوئی فائدہ لینا ہو تو وہ بھی چھوڑ سکتی ہے۔ اس کی تفصیل قرآن میں اس طرح آئی ہے۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ. 229
یہ طلاق (ایک رشتۂ نکاح میں) دو مرتبہ (دی جا سکتی ) ہے ۔ اِس کے بعد پھر بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا خوبی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے۔ (رخصت کر دینے کا فیصلہ ہو تو) جو کچھ آپ نے اِن خواتین کو دے دیا ہے ، تو آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ اُس میں سے کچھ بھی اس موقع پر واپس لے سکیں۔ یہ صورت ، البتہ مستثنیٰ ہے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود الہی پر قائم نہ رہ سکیں گے۔
پھر اگر آپ کو بھی اندیشہ ہو کہ وہ حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو (شوہر کی دی ہوئی) اُن چیزوں کے معاملے میں اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیے میں دے کر طلاق حاصل کر لے۔ [یعنی وہ پراپرٹی یا بڑی رقم جو شوہر رومانٹک عرصے میں اپنی بیوی کو پہلے دے چکا تھا اور اب طلاق نہ دے رہا ہو تو اب بیوی اسی رقم کو فدیہ کے طور پر واپس کر کے جان چھڑا سکتی ہے۔]
یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، چنانچہ اِن سے آگے نہ بڑھنا اور (جان لیجیے کہ) جو اللہ تعالی کے حدود سے آگے بڑھتے ہیں ، وہی ظالم ہیں۔ (سورۃ البقرۃ)
سوال: اگر اجازت ہے تو کن کن وجوہات پر یا بغیر کسی یا بغیر کسی وجہ جب چاہے لی سکتی ہے؟
جواب: اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ حدیث میں ایک واقعہ آپ پڑھ سکتے ہیں جس میں آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کن وجوہات پر خلع کروا دی تھی۔ جس میں آپ “کتاب الطلاق” کے اندر خلع والی احادیث کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں پڑھ سکتے ہیں۔ سب سے مشہور واقعہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے جو خلع لیا تھا۔ اس میں صرف اتنی بات تھی کہ دونوں میاں بیوی میں مزاج نہیں میچ کرتا تھا، اس لیے ان صحابیہ رضی اللہ عنہا نے خلع لی تھی اور ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک باغ بیگم کو دیا ہوا تھا تو انہوں نے واپس دے دیا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، ” أَنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَيْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِينٍ ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ الْكُفْرَ فِي الْإِسْلَامِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَرُدِّينَ عَلَيْهِ حَدِيقَتَهُ ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اقْبَلِ الْحَدِيقَةَ ، وَطَلِّقْهَا تَطْلِيقَةً ” .( صحيح البخاري :5273 ، الطلاق – سنن النسائي :3490 ، الطلاق – سنن ابن ماجه :2056 ، الطلاق)
ترجمہ : عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہتی ہے : اے اللہ کے رسول !میں ثابت بن قیس کے دین و اخلاق پر عیب نہیں لگاتی البتہ میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں ، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا : کیا وہ باغ [ جو اس نے تمہیں بطور مہر کے دیا تھا ] اسے انہیں واپس کرتی ہے ؟ اس عورت نے جواب دیا : جی ہاں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ثابت بن قیس سے ] کہا کہ باغ واپس لے لواور اسے ایک طلاق دے دو ۔{ صحیح بخاری ، سنن نسائی و سنن ابن ماجہ{
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِىَّ صلى الله عليه وسلم جَعَلَ الْخُلْعَ تَطْلِيقَةً بَائِنَةً۔ دار قطني، السنن، 4: 45، رقم: 134، بيروت: دار المعرفة
ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ خلع سے طلاق بائن ہو جاتی ہے۔
سوال : کیا جیسا پاکستان کی عدالتوں میں عورت خلع کی ڈگری عدم پیروی پر حاصل کر لیتی ہے تو وہ اسلام میں خلع ہو جاتی ہے ؟
جواب: یہ بالکل درست ہے۔ اگر شوہر طلاق نہیں دے رہا ہے تو پھر عدالت ہی فیصلہ کرے گی۔ اس حدیث میں یہی واضح ہے کہ عدالت شوہر کو کہے گی کہ وہ طلاق دے۔ اگر وہ پھر بھی نہ دے تو عدالت اسے علیحدگی کی ڈگری کر دے گی۔
ہاں عدالت میں یہ ضرور دیکھ لے گی کہ نکاح کے معاہدے میں شوہر پر کیا ذمہ داریاں تھیں اور وہ شوہر ادا نہیں کر رہا ہے۔ خاتون پر جو معاہدے میں ذمہ داریاں تھیں تو انہوں نے ادا کر دی ہیں یا نہیں؟ اس صورتحال پر پھر عدالت معاشی اعتبار سے جو فیصلہ کرے گی کہ کون کس کو کتنی رقم ادا کرے۔
سوال: اگر عدالتی خلع کی ڈگری ہو چکی ہو اور عورت واپس پہلے خاوند کے پاس واپس جانا چاہے تو کس صورت میں واپس جا سکتی ہے؟
جواب: عدالت کو اس صورتحال میں ایک طلاق ہی کی ڈگری دینی چاہیے۔ اس لیے ایک طلاق ہو گئی ہے تو پھر وہ خاتون دوبارہ نکاح اسی خاوند سے کر سکتی ہے۔
سوال: خلع اور دوبارہ نکاح کے بارے میں اپنے علاقہ میں ایک صورتحال نوٹس میں آئی ہے، اس بارے میں چند سوال عرض ہیں۔ایک عورت پڑھی لکھی اور شادی شدہ تھی اسے ایک اور شناسا مل گیا اور اس نے کورٹ میں خلع کا دعوی کر دیا۔ بعد ازاں اس دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ عورت کے گھر والے اس دوسرے نکاح پہ رضامند اور ساتھ ہیں۔ معاملہ علاقہ کے مولویوں کے نوٹس میں آیا اور انھوں نے فتوی لگایا کہ یہ نکاح پہ نکاح ہے، اگر پہلا خاوند رضامندی سے طلاق نہ دے تو کورٹ میں خلع سے طلاق واقع نہیں ہوئی، اس طرح یہ دوسرا خاوند شریعت کا مجرم ہے اس کا اور اس کے خاندان و سپورٹرز کا بائی کاٹ کرنا چاہئے۔
جواب: خلع ہو جائے تو پھر طلاق ہو جاتی ہے۔ خلع کا معنی صرف یہ ہے کہ خاتون شوہر سے طلاق کی درخواست کرے۔ شوہر طلاق نہیں دے رہا تو پھر عدالت میں معاملہ جاتا ہے اور پھر دونوں اور اولاد کے معاملات کو دیکھ کر فیملی کورٹ فیصلہ کر دیتی ہے۔ جج شوہر ہی کو طلاق کا کہتا ہے۔ اگر وہ شوہر بھی جبر کرے اور طلاق نہ دے تو عدالت طلاق کو اپلائی کر دیتی ہے۔ قرآن مجید میں خواتین کو اس کی اجازت دی گئی ہے۔
سوال: اس معاملے میں مولوی حضرات کا کافی اثر ورسوخ تھا، اہل علاقہ نے بائیکاٹ کیا، حتی کہ اس دوسرے خاوند کی بے چاری بوڑھی دادی کا جب انتقال ہوا تو کوئی جنازہ پڑھنے پڑھانے پہ تیار نہ ہوا۔ معاملہ دو سال سےکورٹ کچہریوں میں ہے اور تازہ ترین یہ کہ یہ دوسرا نکاح کرنے والے شخص کو اس عید پہ عید گاہ سے نکال دیا گیا اور جھگڑا بھی ہوا جس کی اس نے ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ یہ سب اشتعال اسکے خلاف مولویوں کی ایما پہ ہے۔
جواب: یہ سب احمقانہ حرکتیں ہیں جو ان لوگوں نے شدت پسندی اختیار کی ہے۔ انہوں نے دادی صاحبہ کا جنازہ نہیں پڑھا تو اس کا گناہ پورے اہل علاقہ کو ہے، کیونکہ انہوں نے فرض کو چھوڑ دیا ہے۔ اس کے بعد اب دوسرے شوہر اور خاتون پر ہراسمنٹ کا گناہ کر رہے ہیں۔ انہیں حکومت بھی سزا دے سکتی ہے اور اللہ تعالی تو آخرت میں دے گا۔
سوال یہ ہے کہ کون فریق درست سمت میں ہے؟ آیا اس طرح خلع کا دعوی کرنے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے؟ حالانکہ دیوبند مکتبہ فکر کے اکثر مفتیوں کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی اور یہ جھگڑے عام ہیں کہ نکاح پہ نکاح ہوا۔مولوی حضرات کا عوام کو بائیکاٹ اور سخت مزاحمت پہ اکسانا درست طرز عمل ہے یا غلط؟
جواب: خلع پر شوہر طلاق دے دے تو ہو گئی۔ نہ دی تو پھر مقدمہ کے بعد عدالت نے فیصلہ کر دیا تو طلاق ہو جاتی ہے۔ پھر دوسری شادی بالکل درست ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اتنی رعایت کی ہے کہ خاتون خلع کرے تو وہ شوہر سے کوئی بڑا تحفہ جیسے گھر یا گاڑی وغیرہ دیا ہوا تھا تو وہ واپس دے سکتی ہیں اور شوہر لے سکتا ہے۔ حنفی علماء اور دیگر مکاتب فکر کے فقہا اس بات کوسمجھتے ہیں۔ ان مولوی صاحب نے اپنے حنفی دیوبندی اور بریلوی علماء کا فتوی نہیں پڑھا ہو گا۔ ان کا فتوی اس ویب سائٹ پر ہے؛
https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Silsila-Ta-limat-e-Islam-9-Nikah-awr-Talaq/read/txt/btid/3762/
سوال: اس بوڑھی عورت کا جنازہ نہ ہونے سے اس ڈھوک کے عام افراد زیادہ مجرم ہیں یا وہ مولوی حضرات؟ اگر کسی نے بھی جنازہ نہ پڑھا تو اسکا کفارا کیا ہے؟
جواب: جن لوگوں نے یہ جرم کیا ہے خواہ مولوی حضرات ہوں یا عام آدمی، انہیں چاہیے کہ قرآن مجید اور احادیث کا مطالعہ کرکے توبہ کر لیں۔ پھر دادی صاحبہ کے لیے نماز جنازہ ادا کریں یا کم از کم دعائے مغفرت تو سب کے سامنے کریں تو یہی کفارا ہو گا۔ پھر اپنی غلطی پر توبہ کرتے ہوئے اس فیملی سے معافی بھی مانگ لیں، تو تب ہی کفارہ ادا ہو گا۔ قرآن مجید میں حکم ہے۔ اسے آپ سن کر خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ. 229
یہ طلاق (ایک رشتۂ نکاح میں) دو مرتبہ (دی جا سکتی ) ہے ۔ اِس کے بعد پھر بھلے طریقے سے روک لینا ہے یا خوبی کے ساتھ رخصت کر دینا ہے ۔
•رخصت کر دینے کا فیصلہ ہو جو کچھ آپ نے اِن خواتین کو دے دیا ہے ، تو آپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ اُس میں سے کچھ بھی اِس موقع پر واپس لے سکیں۔
یہ صورت ، البتہ مستثنیٰ ہے کہ دونوں کو اندیشہ ہو کہ وہ حدود الہی پر قائم نہ رہ سکیں گے ۔
پھراگر آپ کو بھی اندیشہ ہو کہ وہ حدود الٰہی پر قائم نہیں رہ سکتے تو (شوہر کی دی ہوئی) اُن چیزوں کے معاملے میں اُن دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے جو عورت فدیے میں دے کر طلاق حاصل کر لے۔ [یعنی وہ پراپرٹی یا بڑی رقم جو شوہر رومانٹک عرصے میں اپنی بیوی کو پہلے دے چکا تھا اور اب طلاق نہ دے رہا ہو تو اب بیوی اسی رقم کو فدیہ کے طور پر واپس کر کے جان چھڑا سکتی ہے۔]
یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ، چنانچہ اِن سے آگے نہ بڑھنا اور (جان لیجیے کہ) جو اللہ تعالی کے حدود سے آگے بڑھتے ہیں ، وہی ظالم ہیں۔ (سورۃ البقرۃ)
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسی آیت کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ کیسے فرمایا تھا۔
إِنَّ امْرَأَةَ ثَابِتِ بْنِ قَیْسٍ أَتَتِ النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللهِ، ثَابِتُ بْنُ قَیْسٍ، مَا أَعْتِبُ عَلَیْهِ فِي خُلُقٍ وَلَا دِینٍ، وَلٰکِنِّي أَکْرَهُ الْکُفْرَ فِي الإِسْلَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: أَتَرُدِّینَ عَلَیْهِ حَدِیقَتَہٗ. قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: اقْبَلِ الْحَدِیقَةَ وَطَلِّقْهَا تَطْلِیقَۃً.بخاری، الصحیح، کتاب الطلاق، باب الخلع و کیف الطلاق فیہ، 5: 2021، رقم: 4971
حضرت ثابت بن قیس کی اہلیہ حضورنبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسول اللہ! میں کسی بات کی بنا پر ثابت بن قیس سے ناخوش نہیں ہوں، نہ اُن کے اخلاق سے اور نہ اُن کے دین سے، لیکن میں مسلمان ہو کر احسان فراموش بننا ناپسند کرتی ہوں۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم ان کا باغ واپس دینا چاہتی ہو۔ وہ عرض گزار ہوئیں: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان کا باغ دے دو اور اُن سے ایک طلاق لے لو۔
حدثنا محمد، اخبرنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس،" ان زوج بريرة كان عبدا يقال له: مغيث كاني انظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لعباس: يا عباس، الا تعجب من حب مغيث بريرة ومن بغض بريرة مغيثا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لو راجعته، قالت: يا رسول الله، تامرني؟ قال: إنما انا اشفع، قالت: لا حاجة لي فيه"۔
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، کہا ہم سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور ان کا نام مغیث تھا۔ گویا میں اس وقت اس کو دیکھ رہا ہوں جب وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے پیچھے روتے ہوئے پھر رہے تھے اور آنسوؤں سے ان کی ڈاڑھی تر ہو رہی تھی۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: عباس! کیا تمہیں مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی مغیث سے نفرت پر حیرت نہیں ہوئی؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ کاش! تم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ بدل دیتیں۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ مجھے اس کا حکم فرما رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں صرف سفارش کر رہا ہوں۔ انہوں نے اس پر کہا کہ مجھے مغیث کے پاس رہنے کی خواہش نہیں ہے۔ (بخاری 5283)
سوال: ایک سوال یہ ہے کہ آج کل آن لائن نکاح ہوتا ہے، لیکن رخصتی نہیں ہوتی۔ اب شرعی طور پر لڑکا اور لڑکی رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ ان میاں بیوی کی فون پر باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں اور لڑکا اپنی مرضی سےخرچہ یا تحفے وغیرہ بھی باہر سے بھیجتا رہتا ہے۔ اس دوران بعض باتیں ایسی ہوجاتی ہیں کہ لڑکی بد دل ہو کر رخصتی سے انکاری ہو جا تی ہے اور رشتہ ختم کردینے تک بات پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ رشتہ ختم ہو جاتا ہے ۔اس میں سوال یہ ہے کہ کیا لڑکا اس خرچے کی واپسی کا مطالبہ، جو اس نے لڑکی کو نان و نفقہ/ تحائف کے طور پر بھیجا تھا، اس کا مطالبہ لڑکی کے والدین سے کر سکتا ہے؟ جبکہ اس خرچہ کا والدین کو علم بھی نہ ہو؟قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا جواب ہے؟
جواب: آن لائن نکاح کرنے سے عموماً لڑکے یا لڑکی کے درمیان بڑے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے بھی فرمایا ہے، اس طرح سے کئے گئے نکاح میں قانونی ثبوت نہیں مل سکتے کہ لڑکے لڑکی میں شادی کا ثبوت مل سکے۔ اسی لیے آپس میں اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر عدالت میں بھی فیصلہ نہیں جا سکتا ۔ اس لیے بہترین طریقہ وہی ہے جو سنت میں نکاح کا طریقہ ہے کہ وہ اعلان کے ساتھ نکاح ہو۔ پھر حکومت کی جانب سے شوہراور بیوی کے معاہدے لکھے جاتے ہیں تاکہ کوئی اختلاف نہ ہو اور اگر ہو جائے تو عدالت اس کا فیصلہ کر سکے۔
اس کے لیے بہت سے ایسے کیسز میں اسٹڈیز ہوئی ہیں جس میں فون پر یا آن لائن نکاح کر کے لڑکی کو انگلینڈ یا کینیڈا لے گئے اور پھر اس لڑکی کو ملازمہ بنا دیا ہے اور اب اس لڑکی کے شرعی حقوق بھی نہیں مل سکتے ہیں۔ اس پر لیکچر اور کتاب حاضر خدمت ہے۔
شادی سے متعلق دین کے احکامات
FQ25-The Law of Marriage in Islamic Jurisprudence
شادی سے متعلق دین کے احکامات ۔۔۔ فقہاء میں اجتہاد اور اختلافات
FQ26-The Law of Marriage in Islamic Jurisprudence – Social Implications
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com