سوال: سر ایک سوال ہے۔ سر اسلام ایک ایسا دین ہے جسکی ابتدا حضرت آدم سے ہوئی۔ اور یہ بتدریج انبیاء کرام کے ذریعے نازل ہوتا رہا۔ بعض مقامات پر شرعی احکام تبدیل بھی ہوئے۔
ڈاکٹر ثوبان انور، فیصل آباد
جواب: ایسا نہیں ہے۔ آپ ابھی بائبل کی پانچویں کتاب استثناء کا مطالعہ کر لیجیے جس میں تورات موجود ہے۔ آپ کو قرآن مجید کی شریعت سے کوئی فرق نہیں نظر آئے گا۔ ہاں آپ کو بہت معمولی سا فرق نظر آئے گا جو وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان پہلے ہنٹنگ ایج، ایگریکلچر ایج، انڈسٹریل ایج اور اب انفارمیشن ایج میں ہیں۔ اس میں انسان کے ماحول تبدیل ہوتے ہیں، تو اس لیے اس میں معمولی سی تبدیلی آپ کو نظر آئے گی۔
اس کی مثال یہ دیکھیے کہ نماز حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے آج تک ایک ہی ہے۔ ہفتے میں کچھ ٹائم کو اللہ تعالی کے لیے خاص رکھا ہے۔ اس میں فرق آپ کو بس یہ نظر آئے گا کہ تورات کے مطابق بنی اسرائیل کو ہفتے (سبت) کے دن میں عبادت کا حکم دیا۔ اس کی وجہ واضح ہے کہ دین سے بھاگی ہوئی قوم کو زیادہ ٹائم اسی پر لگا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اسے جمعہ میں بس ایک گھنٹہ ہی دیا گیا۔ اس میں دیکھیے کہ صورتحال سے معمولی سا فرق نظر آ رہا ہے ورنہ حقیقت ایک ہی ہے۔
سوال: المختصر یہ کہ یہ دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت پر مکمل ہو گیا اب اس میں نہ اضافہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی تخفیف ہو سکتی ہے۔رسول اللہ بھی اسی دین کے امین تھے جسے دین ابراہیمی یا دین حنیف کہا جاتا ہے. رسول اللہ نے دین کے احکام کی تشریح بھی کی اور اس پر عمل کر کے بھی دکھایا۔ یہ عمل سنت کہلاتا ہے یعنی دین کی عملی شکل۔ اور یہ صحابہ کرام تک منتقل ہو گیا۔پھر صحابہ نے اسے تواتر سے آگے منتقل کیا اور یہ اسی طرح نسل در نسل چلتا ہوا ہم تک پہنچ گیا۔
جب اسلام عرب سے باہر پھیلا تو ہر علاقے کے اپنے اثرات اس میں شامل ہوتے گئے جسے آپ بر صغیر ،ایران،عراق وغیرہ میں آج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ تو اب اصل دین جو تواتر سے منتقل ہونا شروع ہوا تھا اُسکی تعیین کیسے کی جائے؟۔کیونکہ اُسکی تفصیل تو ہمیں احادیث سے ملتی ہے یا فقہ سے اور ہم لوگ اصلاً انہیں دین کا حصہ نہیں کہتے بلکہ انسانی عمل کہتے ہیں اور پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ قران کی کسوٹی پر ہر چیز کو پرکھا جائیگا ۔ اب سوال یہ ہے کہ جو چیز ہمیں تواتر کی تفصیل(احادیث اور فقہ) بتا رہی تھی وہ تو ہماری محلِ نظر بن گئی۔اب ہم کس سورس کو استعمال کر کے دین حنیف کو آج کے دور میں صحیح طور پر متعین کر سکتے ہیں۔؟ آیا ہم عربی کے اُس لٹریچر کو دیکھیں گے جو اُس دور میں لکھا گیا جس میں صحابہ کے اعمال درج ہوں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو یہ کونسا سورس ہو سکتا ہے حدیث اور فقہ کے علاوہ؟
جواب: اس میں تبدیلی جو فقہ میں ہوتی ہے، وہ دین نہیں ہوتا بلکہ دین کے اصول کو اپلائی کرنے میں آتا ہے۔ یہ نارمل ہے کیونکہ قرآن مجید کے نزول کے زمانے میں ایگریکلچر ایج تھی اور اب انفارمیشن ایج ہے۔ مثلاً قرآن میں حکم ہے کہ کسی کا مال نہیں چھین سکتے۔ اس زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فراڈ کے جو طریقے تھے، انہیں منع فرما دیا۔ اب ہمارے ہاں فائبر فراڈ کے طریقے ہیں تو ہم اسی اصول پر اپلائی کریں گے اور ضرورت کے مطابق پروسیجر بھی بنا سکیں گے۔
فقہا نے یہی کیا ہے اور اگلی نسل میں بھی فقہا ایسا ہی کرتے رہیں گے۔
سوال: منکرین احادیث نے تو حدیث کا سرے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ ہمارا نقطئہ نظر یہ ہے کے جو حدیث قران کی تشریح کرتی ہو وہ قابل عمل ہے جبکہ باقی احادیث دین کا حصہ نہیں سمجھی جائیں گی بلکہ وہ ایک انسانی فعل ہو گا۔ جبکہ ایک تیسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ جو بھی حدیث صحیح اس اسے قبول کر کے اسے دین کا حصہ سمجھا جائے۔ ان تینوں نقطئہ نظر پر تبصرہ فرمائیں۔
جواب: پہلے گروپ کو بس یہ سمجھ لیجیے کہ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہمیں حسن ظن ہی رکھنا چاہیے کہ ان کی نیت ٹھیک ہو گی۔ اصل میں 1800-1950 کے زمانے میں ایک بڑا ایشو بنا ہوا تھا۔ فقہاء نے تقلید کے اصول کو بنایا تھا اور انہوں نے حدیث کو اپلائی کر کے جو پالیسی پروسیجرز بنائے ہوئے تھے، وہ ایگریکلچر ایج کے تھے۔ سرسید احمد خان صاحب کے کالج سے جو لوگ پڑھ کر انگریزوں کے ملازم بنے تو انہیں یہی نظر آیا کہ جو پروسیجرزبنے ہوئے ہیں، وہ اب نہیں چل سکتے۔ انہیں حل یہی نظر آیا کہ احادیث ہی جعلی ہیں چنانچہ پھر منکرین حدیث کی تحریک بن گئی۔
اب مذہبی علماء کے ہاں دو گروہ بنے۔ تیسرا گروہ اہل حدیث بھائیوں کا ہے جو آپ نے بیان فرمایا۔ اس میں بریلوی دیوبندی حضرات بھی اسی طرح رہے اور انہوں نے پہلے گروہ کے خلاف فتوے اور مناظرے کر کے حل کرنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔
دوسرا گروہ وہ ہے جو آپ نے بیان فرمایا ہے جس میں جاوید صاحب اور دیگر علماء نے کیا ہے۔ میں نے تینوں گروہوں کا تقابلی مطالعہ کر کے دوسرا گروہ صحیح لگا ہے لیکن ابھی جاوید صاحب کا کام میچور نہیں ہو سکا ہے۔ جب ان کا کام مکمل ہو جائے تو تب تجزیہ کر سکیں گے۔ اس کا کچھ حصہ میں خود کرتا ہوں۔ اس کا حل آسان ہے کہ حدیث میں اگر ایمان، اخلاقیات کا کوئی حکم ہے تو قرآن مجید کے ساتھ میچ ہوتا ہے اور اس میں کوئی ایشو ہی نہیں ہے۔
شریعت کو اپلائے کرتے ہوئے پروسیجرز کی بات آتی ہے تو پھر ایشو بن سکتا ہے۔ اس میں آسان طریقہ یہی ہے کہ اسی موضوع پر جتنی احادیث ہیں، ساری پڑھ لیں تو بات واضح ہو جاتی ہے اور پروسیجرز کی تبدیلی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ماحول بن گیا ہے۔ اس کی مثال عرض کرتا ہوں۔
کچھ احادیث میں یہ ملتا ہے کہ خواتین کو تین دن سے زیادہ لمبے سفر کو روکا گیا جب تک ان کی فیملی کے مرد ساتھ نہ ہوں۔ فقہاء نے ان احادیث کو اپلائی کیا کہ محرم کے بغیر سفر نہ کریں۔ ساری احادیث پڑھیں تو واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم اس موقع پر تھا جب خواتین پر ٹارگٹ کیا جا رہا تھا اور ان پر ریپ بھی ہوا۔ ایک حدیث سے یہ بھی ملتا ہے کہ جب حکومت مضبوط ہو گئی تو عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خواتین لمبے سفر میں اپنے زیورات لے کر حج بھی اکیلے ہی کرنے لگیں۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جن فقہاء نے احادیث کی صورتحال کو سمجھے بغیر قیامت تک کا حکم سمجھ لیا تو اب تک چلا رہے ہیں۔ لیکن ساری احادیث کو پڑھیں تو واضح ہو جاتا ہے۔
میرا دلچسپ تجربہ ہوا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ حج عمرہ کے لیے خواتین اکیلی نہ آئیں بلکہ محرم کے ساتھ آئیں۔ پھر یہ دیکھا کہ حج عمرہ کے علاوہ آنے میں کوئی پابندی نہیں کی ہوئی ہے۔ میری فیملی اور بیٹیاں اکیلی بھی آتی رہی ہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں رہی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فقہاء کی غلطیوں سے نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ اب میری یہی ہے کہ اگر حدیث کو شریعت کا قیامت تک کا حکم سمجھا ہے تو یہاں کیوں اپلائی نہیں کر رہے؟ بس صرف حج عمرہ تک انہوں نے بند کیا ہے لیکن باقی سفر میں نہیں۔ اب لگتا ہے کہ انہیں بھی غلطی واضح ہو جائے گی اور وہ پھر اپنا قانون تبدیل کر لیں گے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com