سوال: السلام علیکم سر جی امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے آج کا مطالعہ سورہ نساء 104 -60 کیا ہے۔ سوال صرف یہ ہیں کہ آیت 97 میں ہے کہ فرشتے پوچھیں گی کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہیں گے کہ ہم ناتواں اور عاجز کر دیے گئے تھے تو فرشتے کہیں گے کیا اللہ کی زمین وسیع نہیں تھی کہ اس میں ہجرت کر جاتے۔ تو اس کے مطابق فلسطین والوں کو ہجرت نہیں کرنی چاہیے؟ محمد وکیل، کروڑپکہ
جواب: یہاں پر جہاد کا موضوع ہے اور اس وقت بہت سے قبائل کے اندر چند لوگ ایمان لائے تھے۔ اس وقت قبیلے کے لیڈرز، اپنے بدمعاشوں کے ذریعے اپنے ساتھیوں پر تشدد کر رہے تھے۔ اس وقت اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت دی کہ وہ جہاد کریں۔ اس کے لیے کئی طریقے تھے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ اس قبیلے کے سرداروں سے آزادی کا معاہدہ کروا لیں تاکہ جو ایمان لائیں تو ان پر کوئی تشدد نہ کرے۔ اگر وہ معاہدہ نہ کرے تو پھر جنگ کریں۔ اس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سے قبائل میں تشریف لے گئے اور اکثر معاہدے ہو گئے۔
اس وقت مختلف قبائل کے اہل ایمان پر یہ حکم نازل ہوا کہ وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچ جائیں۔ اس کے لیے انصار مدینہ پر ذمہ داری تھی کہ وہ ان کی معاشی مدد کریں تاکہ وہ سیٹل ہو جائیں۔ اس وقت تک جو مہاجرین بھی سیٹل ہو گئے، ان پر بھی ذمہ داری تھی کہ وہ نئے مہاجرین کو بھائی بنا کر ان کی معاشی خدمت کریں۔
ہجرت کی یہ ذمہ داری صرف انہی لوگوں پر ہے، جو وہ ممکن کر سکیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہر ملک میں پاسپورٹ بن گئے اور اس کے لیے ویزا کی ضرورت ہے۔ فلسطین بھائی بالخصوص غذہ کے لوگوں پر پابندیاں بھی پیدا ہو گئی ہیں اور وہ ہجرت نہیں کر سکتے ہیں۔ اس لیے اس آیت میں ان سے متعلق نہیں ہے۔ اس سے کافی عرصے پہلے ان سے متعلق یہ حکم تھا۔ اس وقت بہت سے فلسطینی بھائی ہجرت کر سکتے تھے ۔ بہت سے لوگ اردن، سعودی عرب، مصر، سیریا وغیرہ جا سکتے تھے اور چلے بھی گئے۔ پھر بہت سے لوگ آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ بھی رہ سکے تھے۔ اب ان پر جبر کا ماحول ہو گیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1967 تک غذہ مصر کا حصہ تھا۔ اسی طرح دریائے اردن کا مغربی علاقہ جس میں یروشلم بھی شامل ہے، یہ اردن کا حصہ تھا۔ پھر 1967 کی جنگ ہوئی تو ان سب پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔ اس وقت مغربی حصہ کے بہت سے لوگ پھر اردن ہی میں رہنے لگے۔ ان میں سے بہت سے دوست مجھے سعودی عرب ہی میں ملے ہیں۔ اس جنگ میں سینا کا پورا جزیرہ بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا تھا جس میں طور پہاڑ شامل ہے۔ پھر اسرائیل نے امریکہ کی اجازت کے بغیر ہی 1973 میں مصر میں جنگ کر بیٹھے۔ اس میں مصریوں نے اسرائیل کو بہت مارا ہے۔
پھر اسرائیل نے بڑی معذرت کی تو امریکہ نے مصر اور اسرائیل کے معاہدے کروا دیے۔ سینا مصر کو واپس دے دیا لیکن غذہ مصر کو نہیں دیا۔ جب امن تھا تو 2007 میں میں سینا گیا تھا۔ اس وقت کوہ طور پر بہت سے اسرائیلی اور یورپی لوگ آئے ہوئے تھے۔ مصر کے دیہاتی لوگ انہیں سمجھا رہے تھے کہ یہ پاکیزہ برکت کا علاقہ ہے، اس میں لباس اچھا پہنو۔ اس کے نتیجے میں یورپی اور اسرائیلی لوگوں کو مصری لوگ دھوتی کرائے پر دے رہے تھے۔ آپ تصور کریں کہ یورپی خواتین بھی بڑی عقیدت سے دھوتی کرائے پر پہن کر کوہ طور پر جا رہی تھیَ
سوال: سورۃ النساء کی 102 آیت میں جہاد کے دوران نماز کے طریقے کا ذکر ہے اسکی وضاحت کردیں سمجھ نہیں آئی کہ جہاد میں آپا دھاپی کی حالت بن جاتی ہے۔ بڑی جلدی موومنٹ ہوتی ہے اور پھر سکون سے کوئی نہیں رک سکتا ہے۔ اگر کہیں رکے بھی ہوں، تب بھی یہ خطرہ رہتا ہے کہ پہلے زمانے میں تیر مارے جا سکتے تھے اور اب تو بم اور میزائل بھی مارے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے وہی اصول انہیں بتا دیا کہ ہر انسان پر ذمہ داری وہی ہے جس میں اس کی طاقت ہو۔ چنانچہ نماز کو آدھا کر دیا، پھر کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر طرح نماز کی اجازت بھی دے دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وجہ سے اجازت دی ہے کہ آپا دھاپی کی کبھی بھی حالت ہو جیسا کہ سفر میں ہوتی ہے تو وہاں پر بھی یہ آسانی کر دی تھی۔
اب آیت 102 میں ایک خاص صورتحال تھی۔ جہاد ہو رہا تھا اور ابھی جنگ نہیں ہوئی لیکن کسی وقت بھی ہو سکتی ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جماعت کی نماز پڑھا رہے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی خواہش تھی کہ آپ کے ساتھ ہی نماز پڑھیں کیونکہ کوئی معلوم نہیں کہ کتنے سیکنڈ میں ہم شہید ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ محبت تھی کہ زندگی کے آخری سیکنڈ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لیں۔
اللہ تعالی نے اس کی اجازت دے دی کہ آپ آدھا حصہ کر لیں۔ فوج کا آدھا حصہ ایک رکعت پڑھیں اور چلے جائیں۔ پھر فوج کا دوسرا حصہ آ کر ایک رکعت پڑھ لیں۔ اس وقت چار رکعت کو بھی دو رکعت کر دیا تھا۔
یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہی تھا۔ بعد میں اس کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ظاہر ہے کہ اب موجودہ زمانے میں آپ 10-15 دفعہ جماعتیں پڑھ لیں تاکہ باقی لوگ سکیورٹی کے طور پر رہیں۔ ہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے تھے تو اس وقت تو ہر صحابی کی خواہش تھی کہ ہم آپ کے ساتھ ہی نماز پڑھیں۔ اللہ تعالی نے اس محبت کو پسند فرمایا ہے۔
اگلی صدیوں میں فقہاء نے احمقانہ فتوے کیے ہیں اور اسی طرح ایک رکعت پڑھ کر نماز پڑھو اور اسے نماز خوف کہتے ہیں۔ اب تو الگ الگ کئی جماعتیں پڑھ سکتے ہیں، اس لیے اس نماز خوف کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب فوج کا کوئی بھی کمانڈر ہو، تب بھی الگ الگ یونٹ اپنی جماعت کروا سکتے ہیں۔
سوال: میں مختلف گروپس اور سوشل میڈیا پر پڑھ چکا ہوں کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ایسا کرنا چاہئے؟ کیااسرائیلی مظالم کا اصلی حل یہی ہے؟ برائے مہربانی اصلی حل بتائیں۔
جواب: اسرائیل حکومت عوام پر ظلم کر رہی ہے۔ اس لیے اس اسرائیلی حکومت کی مصنوعات پر بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ رہے عوام تو اس میں کسی بائیکاٹ سے اس ظلم کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر اسرائیل حکومت کوئی میزائل بنا رہے ہیں، تو مسلمان حکومتوں کو بالکل خریدنا نہیں چاہیے تاکہ اسرائیلی حکومت پر پریشر رہے کہ وہ عوام پر ظلم نہ کرے۔
عوامی بزنس میں اسرائیل ملک کے مسلمان اور غیر مسلم سب پر ظلم پیدا ہو سکتا ہے۔ مثلاً فلسطینی مسلمان ، عیسائی اور یہودی اپنے باغوں میں پھل پیدا کر کے سعودی عرب، اردن ، کویت، قطر ، امارات وغیرہ ممالک کے لوگوں کو بیچ رہے ہیں۔ اب اس پر بائیکاٹ کیا جائے تو پھر فلسطینی مسلمانوں پر ہی ظلم پیدا ہو جائے گا کہ انہیں آمدنی نہیں ملے گی اور پھر ان کے بچوں پر ظلم پیدا ہو جائے گا۔ یہی ظلم نہ تو کسی مسلمان پر جائز ہے اور نہ ہی یہودیوں پر۔ بائیکاٹ کر کے عوام اور بچوں پر ظلم کبھی بھی دین میں جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔
اس کی نہایت ہی عمدہ مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں ملتی ہے جو اسوہ حسنہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکومت مدینہ منورہ میں بن گئی تھی۔ پھر تین مرتبہ اہل مکہ کی فوج نے حملہ کیا تھا جس میں جنگ بدر، احد اور الاحزاب جنگیں ہو چکی تھیں۔ اس میں کسی وقت اہل مکہ کے عوام کو قحط کی مسئلہ پیدا ہوا۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ سے کھجوروں کے بہت سے بیگ مکہ مکرمہ پہنچا دیے تاکہ عوام پر کھانا ملتا رہے۔
اس کا نتیجہ یہی ہوا کہ عوام کو واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی پر ظلم نہیں کرتے ہیں حالانکہ ہماری حکومتی فوج تین حملے کر چکے ہیں۔جب انہیں واضح ہوا تو خود فوج کے بڑے بڑے کمانڈرز بالخصوص خالد بن ولید اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما مکہ مکرمہ سے نکل آئے او رمدینہ منورہ پہنچ کر ایمان لائے۔ پھر یہی دونوں صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوج کے کمانڈرز بنے اور انہوں نے فلسطین، سیریا، ترکی، اردن اور مصر کو فتح کر دیا۔ ان کے علاوہ اہل مکہ کی اکثریت ایمان لائے۔ اسی اسوہ حسنہ پر ہم نے عمل کرنا ہے کہ ہم مسلمان اور غیر مسلموں کے ساتھ اچھا عمل کریں۔
سوال: کیا جہنم میں نیند بھی ہوگی؟
جواب: جنت اور جہنم میں جو معاملات ہوں گے، یہ مستقبل میں ایسا ہو گا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متشابہات کے ذریعے کچھ مثالیں واضح کر دی ہیں جس میں جنت اور جہنم میں اس طرح کے کچھ معاملات ہوں گے۔ ان متشابہات کا ہمیں صرف اندازہ ہی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے یہ مثالیں اس لیے دی ہیں تاکہ ہم اندازہ ہی کر سکیں کہ ہمیں جنت میں جانا چاہیے یا جہنم میں۔
اب ظاہر ہے کہ مستقبل میں جو کچھ ہو گا، وہ اس وقت ہی ہمارا تجربہ ہو گا تو واضح ہو جائے گا۔ اس وقت تک قرآن مجید میں اللہ تعالی نے جو مثالیں بیان فرمائی ہیں، اس میں نیند کو کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ جہنم میں سزائیں ہی ہو رہی ہوں گی۔ نیند کے بارے میں کچھ بھی ارشاد نہیں فرمایا ہے اور نہ ہی احادیث نبوی میں کوئی جواب دیا گیا ہے۔ اس لیے اس سوال کو ہم آخرت تک انتظار کر لیں۔ ہم جب بھی جنت یا جہنم میں پہنچیں گے تو واضح بھی ہو جائے گا اور سوال کا جواب مل جائے گا۔
جن لوگوں نے اپنے ذہن میں بس خود آئیڈیاز سوچے ہیں تو اس میں اختلافات ہی نظر آئیں گے کیونکہ فلسفہ کے ماہرین نے اپنے آئیڈیاز ہی پیش کیے ہیں۔ مثلاً کسی فلسفی نے کہہ دیا کہ شاید جہنم میں نیند بھی ہو گی کہ سزا مل کر کچھ عرصے کے لیے نیند ہو جائے تاکہ اگلی سزا کے لیے تیار ہو جائے۔ دوسرے فلسفی نے سوچا کہ شاید مسلسل سزائیں ہی ہوتی رہیں گے۔ اس میں احمقانہ بحثیں جاری ہوئیں اور اس میں فلسفہ کے فرقے پیدا ہوتے رہے ہیں اور پھر مناظرے کرتے رہے ہیں۔
اس لیے مستقبل کی صورتحال پر خود فلسفہ سے بچنا چاہیے اور اللہ تعالی پر چھوڑ دینا چاہیے۔جتنی مثالیں واضح کر دی ہیں تو اسی پر صرف اتنا ہی فوکس کرنا چاہیے کہ ہم جنت کا انتخاب کریں یا جہنم کا۔ اس سے زیادہ مزید بحثوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر پھر بھی ذہن میں پریشر ہو تو آپ خود ہی ایسا اندازہ کر سکتے ہیں تو اپنے ذہن کو مطمئن کر کے کسی اور کے ساتھ بحث نہ کیجیے گا۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com