سورۃ النساء 4 اور المائدہ 5 میں بنی اسرائیل کے بیان کردہ گناہ مسلمانوں میں بھی ہو سکتے ہیں؟

سوال: السلام علیکم سر جی امید کرتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہونگے آج کا مطالعہ سورہ المائدہ میں سوال آج زیادہ نہیں آئے زہن میں۔ بس یہ سوالات ہیں۔ آیت 63 میں ہے کہ ان کے علماء اور فقہاء انہیں گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے۔ اس آیت کا اطلاق آج کے دور میں کس طرح ہے۔ کیا اس آیت کے مطابق ہمارے علماء اور فقہا ظلم کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں۔ اگر اٹھا سکتے ہیں تو خاموش کیوں رہتے ییں؟

جواب: آپ نے بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے علماء کی غلطیوں کو واضح کر دیا کیونکہ اللہ تعالی کو معلوم تھا کہ مسلمانوں میں بھی یہی غلطیاں ہونی ہیں۔ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت بھی یہی تھی کہ تورات پر صحیح طرح عمل کریں اور دین کے اصل احکامات پر عمل کریں۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مچھر تو چھانتے ہو لیکن اونٹ کو حلق میں ڈال دیتے ہو۔ 

یہ وہی مثال تھی کہ وہ پودینہ اور ساگ کے حساب سے زکوۃ پر بڑی بحثیں کرتے تھے لیکن تورات کا اہم حکم کہ کسی پر قبضہ کرنا بڑا گناہ ہے۔ وہ بیوہ خواتین کے گھروں پر قبضہ کر لیتے تھے۔ یہی گناہ ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ ہمارے ہاں آپ دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین اور کشمیر کے بھائی بہنوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اس پر بڑا احتجاج کر رہے ہیں لیکن پاکستان کے بھائی بہنوں پر جو ظلم ہو رہا ہے، اس پر کسی تقریر میں بھی بات نہیں کرتے ہیں۔ 

سوال: اہل کتاب کی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے عداوت کس وجہ سے تھی؟

جواب: یہ عداوت کی وجہ قوم پرستی کی محبت تھی۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوۃ والسلام کی نسل سے تھے اور یہ دونوں بھائی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے تھے۔ 

بنی اسرائیل اس پر فخر اور تکبر کرتے تھے کہ ہم اسحاق و یعقوب علیہما الصلوۃ والسلام کی نسل سے ہیں تو ہم  زیادہ اعلی نسل ہے۔ ہم لوگ اللہ تعالی کی محبت ہماری قوم پر ہے، اس لیے دین ہمارے پاس ہے اور ہم ہی کو زمین کی سپر پاور ہونا چاہیے۔ 

مسلسل انبیاء کرام علیہما الصلوۃ والسلام بنی اسرائیل ہی میں مبعوث ہوتے رہے اور آخری نبی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام تھے۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کے اپنے بھائی یعنی کزن بنی اسماعیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہوئے۔ اس میں بنی اسرائیل کو بڑا غصہ آیا اور پھر اللہ تعالی کے دشمن بھی بن گئے۔  اللہ تعالی نے اسی بنیاد پر انہیں مغلوبیت کی سزا بھی دی۔ مغلوبیت کی سزا کو آپ سورۃ التوبہ میں پڑھیں گے اور پہلے ہی سورۃ النساء میں بھی پڑھ چکے ہیں کہ بنی اسرائیل کو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروکاروں کے انڈر ہی رہیں گے۔ 

آپ چونکہ تجزیہ کر رہے ہیں تو ہمارے ہاں بھی وہی قوم پرستی کی بیماری پیدا ہو گئی۔ آپ نے یہ بھی تنقید کی تھی کہ اہل بیت کا فوکس کرتے رہے ہیں۔ اس میں ایک افسوسناک صورت بتا دیتا ہوں۔ ہمارے پڑوسی سید فیملی کے تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں۔ ان کے والدین کا نقطہ نظر یہ تھا کہ صرف سید ہی میں شادی ہو سکتی ہے ورنہ غیر سید کے ساتھ سید بیٹی سے شادی حرام ہے۔ پھر یہ دیکھا کہ ان کی بیٹیوں پر رشتہ نہ کیا اور وہ بیچاریاں 30-35 سال کی عمر تک ہو گئی تھیں اور ان کے والدین نے شادی نہیں کروائی تھی کیونکہ سید لڑکے کا رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ حالانکہ بہت اچھے غیر سید لڑکوں کے والدین نے پیغام بہت کیا تھا لیکن والدین نے بیٹیوں کو بڑھاپے تک جانے دیا۔ یہ لڑکیاں میری والدہ کی اسٹوڈنٹس تھیں۔

سوال: کیا اللہ کے سوا ہم کسی اور کی نظر رکھ سکتے ہیں؟ لوگ دربار کی نظر رکھتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے مزید یہ کہ لوگ کہتے ہیں نثر پوری نہ کی تو بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

جواب: یہ نذر کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کے حضور سرنڈر کر دینا۔ اس کے لیے ہم اللہ تعالی کے حضور اپنے جسم کو رکوع و سجدہ کر دیتے ہیں اور روزہ بھی کر لیتے ہیں۔ معاشی طور پر زکوۃ اور صدقات حاضر کر دیتے ہیں۔  نذر بالکل صرف اور صرف اللہ تعالی کے حضور ہے کیونکہ نذر عبادت کا حصہ ہے۔ 

ہندوؤں نے یہ نذر اپنے دیوتاؤں کو کرتے ہیں اور وہ یہ کرتے ہیں کہ کھانا یا رقم اس بت پر رکھ دیتے ہیں کیونکہ یہ ان کی عبادت کا حصہ ہے۔ یہ کھانا اور رقم پھر مندر کے پنڈت کے ہاتھ میں آ جاتا ہے۔ رقم تو وہ اپنے خزانے میں ڈال دیتے ہیں اور  کھانا اپنے اور  مریدوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔ بالکل یہی عمل ہمارے ہاں مزارات پر کر لیتے ہیں۔ وہ بہانہ تو کرتے ہیں کہ ہم اس کھانے اور رقم کو اس بزرگ کے حضور پیش کر رہے ہیں تاکہ وہ ہمارے لیے دعا کریں۔ اب وہ بزرگ اگر مخلص ہیں تو انہیں کسی کھانے یا رقم کے بغیر ہی دعا کر لینی چاہیے۔  اس لیے اصل وہی ہندومت کی عادت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اسے جواز پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 

سوال: حج میں شکار پر پابندی کیوں؟ آج کی زندگی میں کوئی شکار نہیں کرتا پھر منع کیوں؟

جواب: حج ایک پریکٹس ہے جس میں اللہ تعالی کی ملٹری کے ساتھ چل کر ہم شیطان کے خلاف جہاد کرتے ہیں۔ ملٹری کی ساری کاوش میں ڈسپلن کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالی نے یہ ڈسپلن کر لیا کہ احرام کی حالت میں شکار نہیں کر سکتے ہیں۔ احرام کی حالت میں انسان کو بس 5-6 دن کے لیے ڈسپلن پر رہنا پڑتا ہے۔ پھر احرام  اتار کر شکار کر سکتے ہیں لیکن اللہ تعالی نے حرم شریف کی باؤنڈری کے اندر منع کر دیا ہے۔ وہ حج کر کے جب حرم شریف کی باؤنڈری سے باہر جائیں گے تو بیشک ساری زندگی جب تک چاہیں شکار کر سکتے ہیں۔ 

اس ڈسپلن میں دو پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالی کے حرم شریف کی عزت اتنی کر دی ہے کہ اس میں کسی شکار یا پودے کو بھی نقصان نہیں کر سکتے ہیں۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ جہاد کے اندر بھوک کی حالت ہوتی ہے تو اس میں کچھ عرصے کے لیے اس کی پریکٹس بھی ہو جاتی ہے۔  پھر پوری زندگی میں جب بھی جنگی جہاد کرنا ہو تو اس پریکٹس کی عادت صحیح ہو جاتی ہے۔ 

اب آپ موجودہ زمانے میں تو کوئی ایشو نہیں ہے کہ جب بھی دل چاہے تو احرام کی حالت میں کسی بھی ریسٹورنٹ میں کھانا کھا لیتے ہیں۔ لیکن گاڑی، بس، ٹرین، ہوائی جہاز کے ایجاد سے پہلے یہ مشکل پریکٹس ہوتی تھی کہ  احرام باندھنے کے بعد کئی دن کا سفر ہوتا تھا۔  احرام جہاں باندھتے ہیں، اس میں تقریباً 100 کلومیٹر کا سفر ہے۔ اس زمانے میں اونٹ یا گدھا یا گھوڑا کا سفر ہوتا تو تب بھی دو دن تو لگتے تھے۔

اہل مدینہ پر  لمبا سفر تھا کہ ان کے احرام مدینہ منورہ کے پاس ہی شروع کرتے ہیں اور وہاں سے مکہ مکرمہ تک 8 دن کا سفر تھا کیونکہ 415 کلومیٹر کا سفر تھا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زیادہ پریکٹس کی ضرورت تھی کہ انہوں نے بڑے جہاد  آگے کرنے تھے۔   پھر انہی کی عادت کو یاد کرنے کے لیے ہمارے ہاں بھی وہی میقات طے کی گئی ہے۔ 

اب سفر کے دوران یہی کرنا پڑتا تھا کہ وہ کھانا تیار کر کے ساتھ ہی سفر کرتے اور جہاں بھوک ہوتی تو کھا لیتے تھے۔ بیچ میں کوئی ریسٹورنٹ نہیں ہوتا تھا اور  اگر کوئی قبیلہ کے لوگوں کے گاؤں ہوتے تو وہ بھی عزت کے طور پر حاجیوں کو کھانا فری میں دے دیتے تھے۔  شکار پر زیادہ پابندی یہ بھی ہو گئی کہ وہ کسی گاؤں میں لوگوں کے جانوروں پر شکار نہ کر سکیں۔ جہاد کے اندر بھی یہی حکم ہے کہ جہاد کے سفر اور جنگ کے دوران بھی عام لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے پریکٹس کی عادت پیدا کر دی ہے۔ 

سوال: بنی اسرائیل کے نقیب کون تھے؟

جواب: نقیب کو آپ منیجر کہہ لیجیے۔ بنی اسرائیل میں 12 قبیلے بن چکے تھے۔ پھر عام لوگ بھی ایمان لائے تو ان کے بھی قبیلے تھے تو ہر قبیلے کے نیک افراد کو منیجر بنا دیا اور انہی کو سردار بھی بنا دیا تاکہ لوگ ان  سے تربیت حاصل کریں اور  پھر ان کی غلطیوں کو ٹھیک کرتے رہیں۔   

سوال: سال کے لیے موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم بھٹک گئی۔ کیا وہاں موسیٰ ان کے ساتھ بھٹکتے ہوئے تھے؟

جواب: حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام جب مصر سے بنی اسرائیل کو لے کر نکلے تو  ان کے تعاقب میں فرعون اور اس کی پوری فوج  بھی پیچھے بھاگے۔ بائبل کے مطابق بنی اسرائیل افراد کی تعداد  600,000 تھے۔ اللہ تعالی نے سمندر میں سے راستہ بنا دیا اور بنی اسرائیل نکل گئے۔ فرعون اور اس کی پوری فوج بھی اسی راستے میں  چلنے لگے اور جب ان کی پوری فوج اندر آ گئی تو اللہ تعالی نے سزا دی اور ان سب کو غرق کر دیا۔ 

اب بنی اسرائیل کی حالت یہ تھی کہ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت بہت پھیل چکی تھی اور ان کا ٹائم تقریباً 1900قبل مسیح کے زمانے میں تھا۔ پھر مصر میں بہت سے لوگ ایمان لائے تو اب 700 سال گزر چکے تھے اور پھر ان پر صبر کا امتحان بھی آیا کہ فرعون نے انہیں غلام بنا کر ان کے بیٹوں کو قتل کرنے لگا۔ اس دوران حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام  کو رسول بنایا اور پھر حکم دیا کہ فرعون کو دعوت پہنچا کر بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لیں۔ چنانچہ ایسا ہوا اور 1200 قبل مسیح کے زمانے میں مصر سے نکل کر سینا میں پہنچ گئے جبکہ فرعون اور اس کی فوج تباہ ہو گئی۔ 

اب مسئلہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے ایمان کو بھول گئے تھے۔ ایمان، اخلاق اور شریعت کی بہت سی عادتیں چھوڑ چکے تھے۔ اس کی یہی مثال آپ نے سورۃ البقرۃ میں پڑھ لی  کہ راستے میں ایک  قبیلے کے مندر کو دیکھا تو حضرت موسی علیہ الصلوۃ السلام نے درخواست کی کہ ہمارے لیے بھی ایسا خدا بنا دیں۔ انہوں نے سختی سے روکا لیکن جب آپ تورات کے لیے کوہ طور پر تشریف لے گئے تو اس دوران بنی اسرائیل نے ایک بچھڑے کا مجسمہ بنا کر اس کی پوجا کرنے لگے تھے۔ اس لیے اللہ تعالی نے سزا یہ تھی کہ ان کے  پوجا کے ذمہ دار لوگوں کو انہی کے بھائیوں کے ہاتھوں قتل کیا۔ 

اب باقی پھر بھی چھ لاکھ کے قریب بنی اسرائیل تھے جن کی تربیت کی ضرورت تھی۔ اللہ تعالی نے انہیں بتا دیا تھا کہ آپ کو فلسطین کی فتح ہو گئی۔ لیکن تربیت کے لیے انہیں 40 سال تک سینا کے اندر ہی پھنس گئے۔ وہ جانا بھی چاہتے تو تب بھی راستہ نہیں مل سکتا تھا۔ میں نے سینا دیکھا ہے کہ وہ پہاڑی علاقہ ہے۔ اب تو روڈ بن گئے ہیں ورنہ اس زمانے میں کنفیوژن ہی تھی۔ اس 40 سال میں بنی اسرائیل میں ہدایت آ گئی اور اس دوران من و سلوی کھانا بھی ملا اور پانی بھی ملتا رہا۔  اسی کنفیوژن کو بھٹک فرمایا ہے کہ وہ سینا سے نکل ہی نہیں سکے۔ 

پھر ان کی اکثر تعداد فوت ہو گئے لیکن  ان کے بچے جوان ہو چکے تھے اور ان کی تربیت حضرت موسی اور ہارون علیہما الصلوۃ والسلام کرتے رہے۔ پھر ان کے خلفاء راشدین یوشع اور کالب رضی اللہ عنہما نے انہیں صحیح طرح مینج کر کے فلسطین فتح کر لی۔ شروع میں انہوں نے اردن فتح کیا اور میں نے سفرنامہ میں وہ جگہ دکھائی جس میں حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام کا انتقال ہوا تھا۔ پھر یوشع اور کالب رضی اللہ عنہما نے باقی فلسطین، سیریا، اردن سب بھی فتح کر کے انہیں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور 1000 قبل مسیح میں بن گئے۔ پھر بنی اسرائیل پر ذمہ داری ہو گئی کہ اب  حام اور یافث کے قبائل پر اللہ تعالی کا پیغام دعوت کے ذریعے پہنچائیں۔ 

اس کے بعد 930 قبل مسیح سے لے کر 70بعد مسیحCE تک بنی اسرائیل کے نیک لوگ دعوت پہنچاتے رہے جبکہ ان کے ہاں جو فرقہ واریت اور سیاسی لڑائیاں بھی چلتی رہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں دو مرتبہ پورے قوم کی غلامی کی سزا دی۔ پہلی مرتبہ 600قبل مسیح میں ہوئی اور پھر توبہ کے بعد انہیں نسبتاً آزادی 500 قبل مسیح میں دے دی۔ اس کے بعد پھر گمراہی ہوئی تو آخر میں انہیں مستقل پورے قوم کی غلامی کی سزا 70 بعد مسیح میں دی جو آج تک جاری ہے۔ 

ان کی تاریخ کی کہانی خود بنی اسرائیل کے علماء نے کتابیں لکھیں جو بائبل کا حصہ ہے۔ اس کے بعد اگلی کتابیں خود انہی کے اسکالرز نے جو لکھی ہے تو میں نے انہی کی  کتابوں کی بنیاد پر اپنی پہلی کتاب میں بنی اسرائیل کی تاریخ لکھ دی ہے۔ بنی اسرائیل حضرات نے جو گناہ کئے تھے، ان سب کی مثالیں ہمیں ہم مسلمانوں کے گناہ بھی نظر آئیں گے۔

سوال: سورۃ النساء کی آیت 160 میں ذکر ہے کہ یہودیوں پے حلال چیزیں بھی حرام تھیں یہ تو ذکر ہے کہ کیوں حرام تھیں یہ بتا دیں کونسی حلال چیزیں حرام تھیں۔

جواب: آپ نے پہلے جو ڈسکشن کی تھی کہ ہمارے مولویوں نے اپنی طرف سے کسی معاملے کو حلال کہہ دیا اور کسی نے حرام کہہ دیا جس پر فرقے پیدا ہوتے رہے۔  بالکل یہی صورتحال بنی اسرائیل کی تھی۔ یہودیوں، عیسائیوں  اور ان سب کے آپس کے فرقوں کے ہاں بھی اسی طرح ان حلال اشیاء کو حرام کہہ دیا  جس پر بحثیں جاری رہیں۔ اس کی تفصیلات آپ کو جب دلچسپی ہوئی تو آپ علم الفقہ کی میری کتابیں پڑھ لیجیے گا۔ پھر آپ یہودیوں کی بڑی کتاب  بائبل اور تالمود کو پڑھ لیجیے گا کہ کیسی بحثیں ان کے اس زمانے میں تھیں۔ 

اس کی مثال عرض کر لیتا ہوں۔ بنی اسرائیل کے والد حضرت یعقوب علیہ الصلوۃ والسلام اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے تھے کیونکہ انہیں پسند نہیں تھا۔ اب ان کے بیٹے بالخصوص حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام تو کھا لیتے تھے کہ یہ حلال گوشت ہے۔ تورات میں ہر جانور کے  گوشت پر کوئی بحث نہیں ہے بلکہ صرف اتنی بات ہے کہ شکار کرنے والے جانوروں کا گوشت حرام ہے جبکہ مویشیوں کا گوشت حلال ہے۔ 

کئی صدیوں کے بعد بنی اسرائیل کے فقہاء میں بحث پیدا ہوئی تو انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اونٹ کا گوشت حرام ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں  دیکھا کہ سب مسلمان اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں تو ان پر اپنے فتوی پر بحث کر بیٹھے کہ یہ حرام ہے۔ اللہ تعالی نے پھر اس کا جواب قرآن مجید میں کر دیا کہ یہ حلال ہے۔ بالکل یہی احکامات تورات میں تھے جو اب قرآن مجید میں ہے۔ 

دوسری مثال آپ دیکھ لیجیے کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے فتووں پر فرمایا کہ یہ یہودی فقہاء تو مچھروں کو چھانتے ہیں لیکن اونٹ کا خیال نہیں کرتے ہیں۔ زکوۃ کے لیے وہ پودینہ پر فتوے کرتے ہیں لیکن بیوہ خواتین کے گھروں پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ آپ کو بالکل یہی بحثیں مسلمانوں کے فقہ میں بھی ہوں گی۔

تورات کے بڑے ایشوز 10 کمانڈمنٹس میں ہیں۔ بنی اسرائیل اسے بھول کر معمولی ایشوز پر بحثیں کرتے رہے ہیں۔ آپ یہ پڑھیے گا جسے اللہ تعالی نے سورۃ بنی اسرائیل میں فرمائے ہیں۔  یہی آپ تورات میں پڑھ لیجیے گا تو آپ کو قرآن مجید اور تورات میں اللہ تعالی کے احکامات بالکل برابر نظر آئیں گے۔  

(Ten Commandments) آیات 22-39: تورات میں ٹین کمانڈمنٹس

بہت بڑے بڑے ایشوز پر خیال نہیں کرتے ہیں اور معمولی اشیاء پر لمبی لمبی کتابیں لکھتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی جو بیماری تھی، وہ ہمارے ہاں بھی ہو گئی ہے۔ اس کی مثال یہ آپ دیکھیے کہ مسجد پر لاؤڈ اسپیکر پر بحثیں موجود ہیں لیکن مسجد کی زمین پر قبضہ کرنے پر بحثیں نظر نہیں آئیں گی بلکہ  غریب لوگوں کی زمین پر قبضہ کر کے مسجدیں بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک فرقہ کے لوگ دوسروں کی  مسجد پر قبضہ کر لیتے ہیں۔  

سوال: ہمارے ملک میں بہت زیادہ اسلام کی تبلیغ کی جاتی ہے، مدارس اور مساجد بھی بہت دیکھنے کو ملتے ہیں پھر بھی ہمارے ملک میں جھوٹ، چوری، ملاوٹ عام ہے۔ پبلک جگہوں پے پانی کے کولر سے گلاس کو باندھا ہوا ہوتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرامایا تھا کہ صفائ نصف ایمان ہے۔ پھر جو مساجد اور عام جگہوں پے جو واش روم کی حالت ہوتی ہے وہ سب کو پتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے پاس دین ہونے کے بوجود ہم میں یہ سب پایا جاتا ہے۔ اور اسکا حل کیا ہو؟

جواب: آپ نے بہت عمدہ مثال ارشاد فرمائی ہے۔ دین میں صفائی کے احکامات دو حصے ہیں۔ اپنے جسم کو پاک رکھنا اور نفسیاتی طور پر اپنے ذہن کو پاک رکھنا۔ آپ فقہاء کے ہاں واش روم پر بڑی بحثیں نظر آئیں گی لیکن اپنے ذہن کو پاک کرنے پر بہت کم اسکالرز کی گفتگو نظر آئے گی۔ آپ نے واش روم کو گندا رکھنے پر یہ نفسیاتی پاکیزگی کی  کمی کی وجہ سے واش روم اور لباس بھی گندے ہو جاتے ہیں۔ 

ہمارے ہاں اور بنی اسرائیل کے ہاں بھی وہی ایشو ہے کہ بڑے ایشوز کو بھول کر چھوٹے ایشوز پر بحث کرتے ہیں۔ یہ آپ دیکھیے کہ بنی اسرائیل کی حکومت ، دہشت گردوں پر حملہ کرنے کی بجائے عوام مسلمانوں غزہ پر حملے کر رہے ہیں۔ اسی طرح مسلمان پارٹی  اسرائیلی فوج کے کمانڈرز ، جنرل اور وزیر اعظم پر حملہ نہیں کر رہے ہیں لیکن  تل ابیب اور  دیگر شہروں میں یہودی عوام پر حملے کر رہے ہیں۔ صرف وہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی ایسی بحث لگی ہوئی ہے کہ بائیکاٹ کریں یا نہ کریں۔ اس پر ابھی ایک بھائی کے سوال کا جواب کیا ہے، وہی ای میل آپ کو بھی دے دیتا ہوں۔ حقیقت یہی ہے کہ بنی اسرائیل اور مسلمان سب پر وہی مغلوبیت کی سزا ہو رہی ہے اور سب ہی امریکہ اور یورپ کے قبضے میں ہیں۔ 

والسلام

محمد مبشر نذیر

 اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔

www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com

تعلیمی و تربیتی کورسز کے ویب لنکس

 اسلامک اسٹڈیز کی کتابیں اور لیکچرز

Islamic Studies – English

Quranic Studies – English Books

علوم القرآن ۔ کتابیں

علوم القرآن اردو لیکچرز

Quranic Studies – English Lectures

Quranic Arabic Language 

Quranic Arabic Language Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice English

Methodology of Hadith Research English

علوم الحدیث سے متعلق کتابیں

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات

علوم الحدیث اردو لیکچرز

علوم الفقہ پروگرام

Islamic Jurisprudence علم الفقہ

مسلم تاریخ ۔ سیاسی، تہذیبی، علمی، فکری اور دعوتی تاریخ

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ لیکچرز

اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات

تعمیر شخصیت کتابیں، آرٹیکلز اور لیکچرز

تعمیر شخصیت کا طریقہ کار

Personality Development

Books https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1ntT5apJmrVq89xvZa7Euy0P8H7yGUHKN

علوم الحدیث: ایک تعارف

مذاہب عالم  پروگرام

Impartial Research امت مسلمہ کے گروہوں کے نقطہ ہائے نظر کا غیر جانب درانہ تقابلی مطالعہ

تقابلی مطالعہ پروگرام کی تفصیلی مضامین کی فہرست

کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی

Quranic Studies – English Lectures

Islamic Studies – Al-Fatihah 1st Verse & Al-Baqarah 2nd Verse
Islamic Studies – Al-Imran – 3rd Verse
Islamic Studies – Al-Nisaa – 4rd Verse
Islamic Studies – Al-Maidah – 5th Verse Quran – Covenant – Agreement between Allah & Us
Islamic Studies – The Solution of Crisis in Madinah during Prophet Muhammad صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم – Quran Verses 24 & 33
Islamic Studies – The Forecast of Victory of Prophet Muhammad – Quran 47-114
Islamic Studies – Al-Anfaal – 8 Quranic Verse – Policies of War
Islamic Studies – Al-Taubah – 9 Quran Verse – The Result of Victory
Quranic Studies
Comments on “Quranic Studies Program”
Quranic Arabic Program – Lectures

علوم القرآن اردو لیکچرز

علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ الفاتحہ اور سورۃ البقرۃ 1-2
علوم اسلام کا مطالعہ ۔ سورۃ آل عمران ۔۔۔ قدیم امت مسلمہ اہل کتاب عیسائی امت  کی اصلاح اور نئی امت مسلمہ کا تزکیہ نفس 3
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ النساء ۔۔۔تعمیر شخصیت کے لیے شریعت سے متعلق احکامات اور سوالات کا جواب 4 
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ سورۃ المائدہ ۔۔۔ امت مسلمہ کا اللہ تعالی سے  آخری معاہدہ  5
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت اور عہد رسالت میں جزا و سزا کا پریکٹیکل تجربہ   6-9
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب   10-24
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت، تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین کی سازش، تشدد اور پراپیگنڈا کا جواب 25-33
علوم القرآن کا مطالعہ ۔  مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت ، تعمیر شخصیت  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی پیش گوئی   34-49
علوم القرآن کا مطالعہ ۔   مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب 50-66
علوم القرآن کا مطالعہ ۔ مکی اور مدنی سورتوں میں توحید، آخرت  اور  تعمیر شخصیت جبکہ منکرین اور منافقین   کی سازش اور پراپیگنڈا کا جواب  + رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فتح کی بشارت 67-114

Hadith Research English Lectures

Hadith – Prophet’s Knowledge & Practice
Methodology of Hadith Research

علوم الحدیث اردو لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی سے متعلق عملی احکامات
اصول الحدیث لیکچرز
علوم الحدیث: ایک تعارف

Personality Development

تعمیر شخصیت لیکچرز

تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  مثبت  شخصیت  کی  وابستگی
تعمیر  شخصیت  کا  طریقہ  کار  ۔۔۔  منفی  شخصیت  سے  نجات
اللہ  تعالی  اور  اس  کے  رسول  کے  ساتھ  تعلق اور انسانوں  کے  ساتھ  رویہ
Leadership, Decision Making & Management Skills لیڈرشپ، فیصلے کرنا اور مینجمنٹ کی صلاحیتیں
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیسے کی جائے؟
قرآن اور بائبل کے دیس میں
 ۔۔۔۔۔۔ قرآن اور بائبل کے دیس میں انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی مخصوص علاقے سعودی عرب، اردن، فلسطین اور مصر
سفرنامہ ترکی
اسلام اور دور حاضر کی تبدیلیاں
Strategic Planning in Religious Research حکمت عملی سے متعلق دینی احکامات
Social Sciences سماجی علوم
مذہبی برین واشنگ اور ذہنی، فکری اور نفسیاتی غلامی
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ

دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب لیکچرز

قرآن مجید اور سنت نبوی میں عبادت سے متعلق عملی احکامات
Economics & Finance دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ اکنامکس اور فائنانس
Finance & Social Sciences دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ معاشرت اور سوشل سائنسز 
 (Political Science) دور جدید میں فقہ سے متعلق سوالات کا جواب  ۔۔۔ سیاست 
(Schools of Thought) علم الفقہ کی تاریخ اور فقہی مکاتب فکر

امت مسلمہ کی علمی، فکری، دعوتی اور سیاسی تاریخ

BC 250,000 to 610CE نبوت محمدی سے پہلے کا دور ۔۔۔ حضرت آدم سے لے کر محمد رسول اللہ کی نبوت تک
571CE-632CE عہد رسالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذہبی، علمی، دعوتی، سیاسی  اور تہذیبی تاریخ
عہد صحابہ اور جدید ذہن کے شبہات
عہد صحابہ اور تابعین کی سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 632-750
 امت مسلمہ کی تہذیبی عروج کا دور : سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ750-1258
 تہذیبی جمود اور زوال کا دور اور پھر  ریکوری: سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1258-1924
 امت مسلمہ  کی  ریکوری  کا دور  ۔۔۔  سیاسی، مذہبی، علمی، دعوتی اور تہذیبی تاریخ 1924سے آج تک
اسلام میں جسمانی اور ذہنی غلامی کے انسداد کی تاریخ
مسلم دنیا اور ذہنی، نفسیاتی اور فکری غلامی
نفسیاتی، فکری اور ذہنی غلامی کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟
Comments on “The History of Abolition of Physical & Intellectual Slavery in Islam”
سورۃ النساء 4 اور المائدہ 5 میں بنی اسرائیل کے بیان کردہ گناہ مسلمانوں میں بھی ہو سکتے ہیں؟
Scroll to top