سوال: تعمیر شخصیت کی تعمیر کے لیے سیکولرزم لبرلزم کا حل کیا ہے؟ محمد فیضان، راولپنڈی
جواب: سیکولر ازم کا معنی ہے کہ حکومتی معاملات پر کسی مذہب کا جبر نہ ہو بلکہ آزادانہ طریقے سے لوگ ہی فیصلہ کر سکیں۔ مسلم ممالک میں اس پر تنقید کی جاتی ہے اور غیر مسلم ممالک میں مسلمان اسے پسند کرتے ہیں۔ اس کی مثال آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انڈیا کے مسلمان ہمیشہ کانگرس پر ہی ووٹ دیتے ہیں جس میں سیکولر ازم کا اصول موجود ہے۔ مسلمان اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ ہندومت کا مسلمانوں پر جبر نہ ہو بلکہ مسلمان اپنے دین پر پوری طرح آسانی سے عمل کر سکیں۔
اس کے برعکس موجودہ مودی حکومت میں جبر موجود ہے اور وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو جبراً ہندومت بنانا چاہتے ہیں۔ اس لیے مسلمان اور عیسائی کانگرس ہی کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کی یہ مثال آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب کانگرس کی حکومت تھی تو منموہن سنگھ نے مسلمانوں کو حج پر سبسٹدری دی ہوئی تھی جس میں انڈیا کے مسلمانوں کے اخراجات حج میں اتنے کم تھے جو پاکستان میں زیادہ تھے۔ اس میں آپ یورپ کی تبدیلیاں اور پھر مسلمانوں کے اثرات پر میری کتاب پڑھ سکتے ہیں اور اپنے اسٹوڈنٹس کو پڑھا سکتے ہیں تاکہ وہ اسے سمجھ سکیں۔
لبرل ازم میں دو پہلو ہیں۔ لبرل ازم کا تصور یہ ہے کہ پرانے روایتی لوگوں کے خیالات کو چھوڑ کر جدید خیالات پر عمل پر خود زور کر سکیں۔ اس میں دین کا کوئی معاملہ نہیں ہے لیکن اس میں فقہاء کے نقطہ ہائے نظر میں فرق پیدا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں مدارس میں فقہاء کی پرانی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو اگریکلچر ایج کے زمانے میں لکھی گئی تھیں۔
Agricultural Age 75000BC-1500CE
Industrial Age 1500-2000CE
Information Age 2000-Today
فقہاء نے اس وقت جو قانون سازی کی تھی، اس زمانے میں درست تھی لیکن جب انڈسٹریل ایج اور اب انفارمیشن ایج شروع ہوئی ہے تو فقہاء کے فتاوی بالکل بیکار ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس قرآن مجید اور سنت نبوی میں شریعت کے جو احکامات ہیں، وہ انڈسٹریل ایج، انفارمیشن ایج اور ایگریکلچر ایج سب میں ہی متفق ہیں۔ اسے علامہ اقبال صاحب نے اپنی لیکچرز میں بیان کیا ہے کہ دور جدید میں فقہاء کے قانون سازی کی تبدیلی کی ضرورت ہے جو قرآن و سنت کے ساتھ میچ کر سکتے ہوں۔ ان کی کتاب ہے۔
Reconstruction of Islamic Thought
اس کے لیے میں نے پھر دور جدید میں جو بڑے بڑے ایشوز ہیں ، اس کا قرآن وسنت میں کوئی معاملہ نہیں ہے بلکہ فقہاء کے اجتہاد میں فرق کی ضرورت ہے۔ اس پر میں نے یہ کتابیں لکھی ہیں جو حاضر خدمت ہیں۔ اس میں آپ پہلی کتاب میں قرآن و سنت میں شریعت کے احکامات ہیں جس میں تمام مسلمانوں میں کوئی اختلا ف نہیں ہے۔ اس میں لبرل اسٹوڈنٹس بھی اعتراض نہیں کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد اگلی تمام کتابوں میں فقہاء کے اہم ترین پرانے اجتہاد کے فتاوی اور ان کے دلائل ہیں جس کا دور جدید میں بڑا ایشو ہے۔ لبرل اسٹوڈنٹس اس میں اعتراض کریں گے۔ اس لیے میں نے سب کے دلائل اور دور جدید کے علماء کے دلائل کو اکٹھا کر دیا ہے۔ اس میں لبرل حضرات خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کونسی دلیل مضبوط ہے اور کونسی کمزور ہے۔ آپ اپنے طلباء کو یہ پڑھائیے گا اور اس میں وہ عقل کی بنیاد پر صحیح راستے تک پہنچ سکیں گے۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ وہ اصل قرآن اور اصل سنت تک پہنچ سکیں گے انشاء اللہ۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1AiWnZN0yBq-VGbYeJSZNjCZNB027ZxPd
سوال: بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام کا سیاست کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو اس عنوان پہ زیادہ سے زیادہ جو لٹریچر ہے نا وہ ہمیں ضرورت پڑتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین نافذ ہونے بھی ہے اور اپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف سیاسی طور پر اسلام کو غالب کرنا نہیں تھا روحانی تزکیہ تربیت سازی یہ ساری چیزیں ساتھ ساتھ چلی ہیں سیرت میں۔
جواب: سیاست میں اسلام میں صرف چند ارشادات ہیں جو آپ قرآن مجید میں پڑھ سکتے ہیں اور احادیث میں انہی پر عمل کے ارشادات ہیں اور یہ شریعت کے احکامات ہیں۔ فقہاء نے اپنے اجتہادات میں جو قانون سازی کی تھی، اسے جدید ذہن کے لوگ اختلاف کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل آپ وہی میری فقہی سیاست سے متعلق کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
اس میں فرق یہ ہوا ہے کہ مدارس کے علماء نے یہ کوشش کی ہے کہ انہوں نے پرانے ایگریکلچر ایج کے زمانے میں اجتہادات کے فتاوی پر عمل کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے سیاسی تحریکیں ایجاد کی ہیں۔ یہ سلسلہ 1750CE سے لے کر آج تک جاری ہے۔ اس میں سیاسی تحریکیں، عسکری تحریکیں، دعوتی تحریکیں اور علمی تحریکیں پیدا ہوئی ہیں۔ اس میں ہر فرقے کے علماء نے تحریکیں پیدا کی ہیں۔ ان سب کے نقطہ ہائے نظر کو تفصیل سے آپ میری ان کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔
اس کے ذریعے آپ تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے اپنے طلباء کو پڑھا سکتے ہیں اور وہ پھر انشاء اللہ قرآن و سنت کے قریب پہنچ جائیں گے انشاء اللہ۔ ان کے اعتراضات تاریخ اور فرقہ واریت سے متعلق لبرل لوگ کرتے ہیں۔ ان کے لیے بھی تقابلی مطالعہ اور علمی تاریخ کی کتابیں حاضر خدمت ہیں جسے اسٹوڈنٹس کو پڑھا کر آپ انہیں مطمئن کر سکتے ہیں انشاء اللہ۔
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/12ODWBkAskGyloH1KMaU1b_1uPuhM9fW0
https://drive.google.com/drive/u/0/folders/1qBg8D6KnsutiyG16lwLLEePpNqgd_Pbh
اسلامی سیاست سے متعلق لیکچرز بھی آپ کے پاس حاضر ہیں۔
روایتی فقہاء اور دور جدید کے فقہاء کا نقطہ نظر ۔۔۔ سیکولر ازم اور قوم پرستی سے متعلق دین کے احکامات
FQ51-Political Questions – Secularism & Nationalism
آپ قرآن مجید کا مطالعہ کیجیے تو اللہ تعالی نے حکمرانوں پر ذمہ داری عنایت فرمائی ہے ۔ اگر انہی آیات کو دیکھیے تو دور جدید کے اسٹوڈنٹس اس پر کوئی اعتراض نہیں کریں گے ۔ حکمرانوں پر جو احکامات ہیں، یہ آیات آپ کے سامنے ہیں اور یہ اس وقت آیات نازل ہوئی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حکومت شروع ہونے والی تھی۔
وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ. (37)
وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ. (38)
وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ. (39)
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ. (40)
وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ. (41)
وہ (اہل ایمان ہیں) جو کہ
بڑے گناہوں جیسے کھلی ہوئی بے حیائیوں سے بچتے ہیں۔
اور جب کبھی غصہ آجائے تو ایسے لوگ ہیں کہ درگذر کر جاتے ہیں۔وہی لوگ کہ جنہوں نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہی ہے۔ نماز کا اہتمام رکھا ہے۔
اُن کا نظام (ڈیسی ان مشن) اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔اور ہم نے جو رزق اُنہیں عطا فرمایا ہے، اُس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔
وہ لوگ (صحابہ کرام) کہ جو بدلہ اُس وقت لیتے ہیں، جب اُن پر زیادتی کی جائے۔ اِس لیے کہ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔ پھر جس نے معاف کیا اور معاملے کی اصلاح کر لی تو اُس کی جزا اللہ تعالی کے ذمے ہے۔ یقیناً اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
ہاں جن پر ظلم ہوا اور اُس کے بعد اُنہوں نے بدلہ لیا تو یہی ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ (سورۃ الشوری 42)
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا. (58)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا. (59)
(اہل ایمان ! اللہ تعالی نے آپ کو ایک عظیم حکومت عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس موقع پر) اللہ تعالی آپ کو ہدایت کرتا ہے کہ۔۔۔
ذمہ داریاں اُن کے حقداروں کو (میرٹ کے ساتھ) ادا کریں۔جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں تو انصاف کے ساتھ کریں۔
نہایت اچھی بات ہے یہ جس کی اللہ تعالی آپ کو نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ تعالی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
اہل ایمان ! (یہ اللہ تعالی کی حکومت ہے، اِس میں)اللہ تعالی اور اُس کے رسول کی اطاعت کیجیے اور اُن کی بھی جو آپ میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے جائیں۔
پھر اگر کسی معاملے میں آپ میں اختلاف رائے ہو تو (فیصلے کے لیے) اُسے اللہ تعالی اور اُس کے رسول کی طرف لوٹا دیجیے، اگر آپ اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔ (سورۃ النساء4)
آپ کسی بھی اپنے اسٹوڈنٹ کو اسلامی حکومت کی یہ آیات سنا دیجیے تو پھر ان سے پوچھ لیجیے گا کہ کوئی غیر مسلم بھی اس پر اعتراض کر سکتا ہے؟ اب تک صرف اور صرف پینل لاء یعنی مجرموں کی سزا پر اعتراض ہو جاتا ہے۔ سورۃ المائدہ 5 میں آپ پڑھ لیجیے کہ جن مجرموں پر سزا بتائی گئی ہے، وہ اس مجرم پر ہے جو خود کو مسلمان اور اہل ایمان کہتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حکومت کئی ممالک میں پہنچی تو انہوں نے غیر مسلموں پر وہ سزا نہیں دی بلکہ خود انہی کے جج حضرات کو فیصلہ دلوا کر عمل کروایا ہے۔
اس کے بعد دوسرا اعتراض جہاد پر ہے۔ جہاد کے لیے آپ سورۃ الانفال 8 میں جہاد کے لیے احکامات کو پڑھ لیجیے تو یہ واضح ہو گا کہ یہ جہاد صرف اور صرف اس وقت ہے جب انسانوں پر ظلم کیا جا رہا ہو۔ اس جہاد کےد وران جو اعلی اخلاق کے احکامات ہیں تو ابوبکر صدیق ، عمر رضی اللہ عنہما اسی کو ہر کمانڈر کو پڑھا کر اپنی فوج کو سنانے کا حکم دیتے تھے تو تب جہاد کے دوران سورۃ الانفال کو سناتے جاتے تھے۔
اس پر تاریخ میں یہ ضرور ہوا ہے کہ جب مسلمانوں نے امرھم شوری بینہم پر عمل کو چھوڑ دیا اور بادشاہت اختیار کر لی تو پھر ان کی جنگوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ صرف ڈکٹیٹرشپ ہی ہے اور وہ لوگ فراڈ کے طور پر اسے جہاد کہتے رہے ہیں۔ ان بادشاہوں نے فقہاء کو اپنا ملازم بنا کر قانون سازی کرواتے رہے تو اس میں آپ کو قرآن مجید کے خلاف عمل بھی نظر آئے گا۔
جب ہمارے ہاں “تقلید” کا اصول اختیار کر لیا تو پرانے فقہاء نے جو کچھ فتوی دے دیا تو آنکھیں بند کر کے لوگ اس پر عمل کرتے رہے اور پرانے فقہاء کی غلطیوں کو ٹھیک نہیں کر سکے ہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اسٹوڈنٹس اور غیر مسلم حضرات اسی پر اعتراض کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تقلید ہی کی وجہ سے امت مسلمہ میں زوال پیدا ہوتا رہا ہے۔
تہذیبی جمود اور زوال کے بعد شاندار ریکوری
HS54 – Overall Review of Recovery of Muslims 656-1342H & 1258-1924CE
سلطنت عثمانیہ اور مغلیہ کے زوال کی وجوہات ۔۔ انڈیا میں انگریزوں کی حکومت اور ان کے زوال کی وجوہات
HS59-Reasons of Fall of Muslims & Mughal Indian Empire and British Empire in India 1857-1947CE
امت مسلمہ کے علم و فکر کی تاریخ ۔۔۔جمود اور زوال کی وجوہات
فکری جموداور تخلیقی صلاحیتوں کی حوصلہ شکنی کا رجحان
HS60-History of Knowledge & Thought of Muslims 1258-1947CE
اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم لوگ پرانے فقہاء کے اجتہادات کو چھوڑ دیں اور صرف اور صرف قرآن مجید، سنت نبوی اور قابل اعتماد احادیث پر عمل کریں۔ پھر دور جدید کی اگلی جنریشن میں کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا۔ موجودہ زمانے میں جو معاملات ہوں تو پھر دور جدید فقہاء کو چاہیے کہ وہ اجتہاد کرتے جائیں اور اپنے ملک کی پارلیمنٹ کو مشورہ دیتے رہیں۔
اسلامی حکومت میں کوئی جبر نہیں ہے بلکہ برے اجتماعی اعمال کو روکنے کی کوشش ہوتی ہے اور یہ برے اجتماعی اعمال وہی ہیں جنہیں ساری دنیا میں جرم ہی کہا جاتا ہے۔ اسلامی حکومت پر اتھارٹی صرف اتنی ہے کہ وہ نماز پر عمل کریں اور زکوۃ حاصل کریں۔ پھر اس زکوۃ کو عوام کی خدمت میں پہنچائیں۔ باقی پرانے فقہاء پر زبردستی عمل نہ کروائیں بلکہ ہر انسان کی ذاتی زندگی میں صرف مشورہ ہی دیں اور ان پر جبر نہ کریں۔
پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اسٹوڈنٹس میں کوئی اعتراض باقی نہیں رہے گا۔ صرف وہی لوگ الٹا اعتراض پیدا کرتے رہیں گے جو ایمان نہیں رکھتے ہیں اور الحاد کے پیروکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی انسان پر جبراً ایمان نہیں لا سکتے ہیں بلکہ اس کے معاملے کو اللہ تعالی کے حضور پہنچا دیں۔
آپ کے ذہن میں جو بھی سوالات آئیں تو پلیز ای میل کر لیجیے گا تاکہ وضاحت کر سکوں۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
اسلامی کتب کے مطالعے اور دینی کورسز کے لئے وزٹ کیجئے اور جو سوالات ہوں تو بلاتکلف ای میل کر دیجیے گا۔
www.mubashirnazir.org and mubashirnazir100@gmail.com