علمی اور پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں فرق

تحریریں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو خاص علمی اسلوب پر لکھی جاتی ہیں اور دوسری وہ جن کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پراپیگنڈا کر کے لوگوں کو کسی بات کے لیے تیار کیا جائے۔ یہ تحریر ان دونوں کے موازنے پر مشتمل ہے۔

 علمی تحریریںپراپیگنڈا پر مبنی تحریریں
مقصدعلمی تحریروں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مصنف اپنے خیالات احسن اور ڈیسنٹ انداز میں دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں اس کے قارئین زیر بحث موضوع پر سوچنے لگ جائیں۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر ممکن طریقے سے قارئین مصنف کے نقطہ نظر کو ماننے پر مجبور کر دیے جائیں۔
تحریر کا انداز اور لہجہعلمی تحریروں کا انداز اور لب و لہجہ مثبت ہوتا ہے اور اگر کوئی منفی بات بھی کرنا ہو تو مصنف اسے ہر ممکن طور پر مثبت انداز ہی میں پیش کرتا ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کا انداز اور لب و لہجہ نہایت ہی منفی ہوتا ہے۔  بعض اوقات تو یہ منفی پن اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔
اختلاف کرنے والوں کا تذکرہعلمی تحریروں میں مصنف ، جن لوگوں کے ساتھ اختلاف رکھتا ہو، ان کا ذکر بھی عزت و احترام کے ساتھ کرتا ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں مصنف، اپنے سے مختلف رائے رکھنے والوں کا ذکر نہایت ہی حقارت سے کرتا ہے اور ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
حقائق اور دلائل کو توڑ مروڑ کر پیش کرناعلمی تحریروں کے مصنفین حقائق اور دلائل کو توڑ مروڑ کر اپنے نقطہ نظر کو ثابت نہیں کرتے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا نقطہ نظر ثابت ہو جائے، خواہ اس کے لیے انہیں حقائق دلائل سے کھیلنا ہی کیوں نہ پڑے۔
حقائق اور دلائل کو چھپاناعلمی تحریروں کے مصنفین کسی بھی حقیقت یا دلیل کو نہیں چھپاتے بلکہ ان کی مدد سے اپنا نقطہ نظر بناتے ہیں۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین کے پاس جن دلائل کا جواب نہیں ہوتا، وہ انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں اور جن کا جواب ہوتا ہے، انہیں بڑھ چڑھ کر بیان کرکے ان کی تردید کرتے ہیں۔
قارئین کا جذباتی اور نفسیاتی استحصالعلمی تحریروں کے مصنفین اس بات کو جرم سمجھتے ہیں کہ قارئین کا جذباتی یا نفسیاتی استحصال کیا جائے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین اس بات کو جائز سمجھتے ہیں کہ جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے قارئین کو اپنے نقطہ نظر پر قائل کریں۔
جذباتی اسالیب کا استعمالعلمی تحریروں میں جذباتی الفاظ، جملوں اور اسالیب کا استعمال بہت ہی محدود ہوتا ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں جذباتی الفاظ، جملے اور اسالیب بکثرت ملتے ہیں۔
دلائل پیش کرنے کا اندازعلمی تحریروں میں دلائل پیش کر کے اور سوال اٹھا کر کسی نقطہ نظر پر تنقید کی جاتی ہے اور براہ راست فیصلے نہیں سنائے جاتے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں نہ صرف مخالف نقطہ نظر بلکہ اس کے مصنف کی ذات پر تبصرے عام ہوتے ہیں اور فیصلہ کن انداز میں فتوے صادر کیے جاتے ہیں۔
نیت پر بحثعلمی تحریروں میں نیتیں زیر بحث نہیں لائی جاتیں بلکہ صرف دلیل کی بنیاد پر گفتگو ہوتی ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں دوسروں کی نیت پہلے زیر بحث لائی جاتی ہے اور دلائل بعد میں بیان کیے جاتے ہیں۔ دوسروں کے دلوں کا  آپریشن کر کے انہیں ہر ممکن طریقے سے ننگا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
تحریروں کی اقسامسنجیدہ علمی کتب اور آرٹیکل عام طور پر علمی اسلوب میں لکھے جاتے ہیں۔مخالف فرقوں کا رد کرنے والی کتب، بلاگ اور آرٹیکل پراپیگنڈا پر مبنی ہوتے ہیں۔
تحریر کی گہرائیعلمی تحریریں بالعموم گہرے مشاہدے اور تجزیے پر مشتمل ہوتی ہیں اور ان میں زیر بحث مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کی کوشش نظر آتی ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں مشاہدہ اور تجزیہ سطحی ہوتا ہے کیونکہ مصنف لکھنے اور رد کرنے میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اس کے پاس زیادہ سوچنے اور تجزیہ کرنے کا وقت نہیں ہوتا۔
تنقید کا ہدفعلمی تحریروں میں کوئی خاص شخص یا گروہ تنقید کا ہدف نہیں بنتا۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں کسی خاص شخص، فرقے، گروہ کو تنقید کا ہدف بنا کر اس پر ہر ممکن طریقے سے چڑھائی کی جاتی ہے۔
طنز اور تحقیرعلمی تحریروں میں طنز اور تحقیر کااستعمال نہیں کیا جاتا ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں طنز اور تحقیر کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے ۔
مختلف نقطہ نظر کا بیانعلمی تحریروں کے مصنفین اپنے سے مختلف نقطہ نظر کو بالکل ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین اپنے سے مختلف نقطہ نظر کو اس طرح توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں کہ اس کی بھیانک ترین شکل سامنے آئے۔
“ان” اور “وہ” کا استعمالعلمی تحریروں میں تنقید کرتے وقت “ان” یا “وہ” کی بجائے “ہم” پر فوکس زیادہ ہوتا ہے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں تنقید کرتے وقت “ان” یا “وہ” کا استعمال بہت زیادہ ہوتا ہے۔
کٹر پن اور جمودعلمی تحریروں کے مصنفین اپنے خیالات میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر تیار ہوتے ہیں کہ اگر انہیں کوئی بہتر دلیل مل جائے تو وہ اپنا نظریہ تبدیل کر لیں گے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین کٹر پن اور جمود کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اسے “استقامت” کا نام دیتے ہیں۔ وہ اپنے نظریے پر ہر حال میں جمے رہنے کو خامی  نہیں بلکہ خوبی سمجھتے ہیں۔
دوہرے معیارمختلف نقطہ ہائے نظر کا تجزیہ کرتے وقت علمی تحریروں کے مصنفین یکساں معیار استعمال کرتے ہیں۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین دوہرے معیار کا شکار ہوتے ہیں۔ اپنوں کی تحریر کا تجزیہ کرتے وقت ان کا معیار کچھ اور ہوتا ہے اور دشمنوں کی تحریر کا تجزیہ کرتے وقت ان کا معیار مختلف ہوتا ہے۔
تحریر کی زبانعلمی تحریروں کی زبان عموماً شائستہ ، خوشگوار اور نرم ہوتی ہے ۔ مصنف یہ کوشش نہیں کرتا کہ قاری ہر صورت میں اس کے نقطہ نظر کو مان لے۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کی زبان عموماً سخت، شدید اور جارحانہ ہوتی ہے۔ مصنف کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ قاری کے ذہن کو ہر ممکن ہتھکنڈے سے مجبور کیا جائے کہ وہ  اس کی بات مان لے۔
الفاظ اور جملوں کی مثالیںعلمی تحریروں میں اس قسم کے جملے اور الفاظ بکثرت ملتے ہیں:پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں اس قسم کے جملے اور الفاظ  بکثرت ملتے ہیں:
دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ۔۔۔یہ بات ثابت ہے کہ ۔۔۔یہ بات ثابت ہے کہ ۔۔۔
وہ نہایت ہی دھوکے باز اور مکار ہیں ۔۔۔۔یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ۔۔۔۔
ہمیں یہ بات درست نہیں لگتی۔۔۔۔یہ بات ہر طرح سے غلط ثابت ہوتی ہے۔۔۔
ہم ان کی دیانت پر شک نہیں کر تے۔۔۔وہ نہایت ہی دھوکے باز اور مکار ہیں ۔۔۔۔
نظریہ ‘الف’ کی نسبت نظریہ ‘ب’ بہتر محسوس ہوتا ہے۔۔۔نظریہ ‘ب’ بالکل ہی غلط ہے اور اس میں تضاد موجود ہے اور نظریہ ‘الف’ ہی درست ہے ۔۔۔
ہم ان کے نقطہ نظر کا احترام کرتے ہوئے عرض کریں گے کہ ۔۔۔۔ان کی بات کے کھلے تضاد سے ظاہر ہے کہ ہماری بات درست ہے ۔۔۔۔
ہمارے خیال میں ان کا نقطہ نظر درست محسوس نہیں ہوتا۔۔۔وہ تو کھلے منافق، مرتد، کافر اور جہنمی ہیں، ان کی بات کا کیا اعتبار ۔۔۔۔
یہ ممکن ہے کہ ۔۔۔۔ہمارا عقیدہ ہے کہ ۔۔۔۔
اس بات پر یقین کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔اس بات پر یقین کیا ہی نہیں جا سکتا ہے، یہ غلط ہے۔۔۔۔
ہم آپ کی خدمت  میں مسئلے کا یہ پہلو بھی رکھنا چاہیں گے۔۔۔ہم انہیں منہ توڑ جواب دینا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
قارئین پر اثراتعلمی تحریروں سے قارئین کے ذہن پر مثبت اثر پڑتا ہے اور مصنف کا مقصد بالعموم پورا ہو جاتا ہے یعنی قارئین اس کے قائم کردہ خطوط پر سوچنے لگ جاتے ہیں۔ مصنف سے مختلف رائے رکھنے والے بھی اکثر اس کی تحریر کو پڑھ کر سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور کبھی قائل بھی ہو جاتے ہیں۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کا قارئین پر برا اثر پڑتا ہے اور قارئین بہت کم ہی ان کی بنیاد پر قائل ہو پاتے ہیں۔ ان تحریروں سے وہی لوگ قائل ہوتے ہیں، جو پہلے ہی مصنف کے نظریے کو مانتے ہوں۔ مختلف رائے رکھنے والے ان تحریروں کو اگر پڑھتے بھی ہیں تو تردید کی نیت سے۔
مصنفین کا طرز عملعلمی تحریریں لکھنے والے عام طور پر علمی انداز میں لکھتے ہیں تاہم کسی وقتی جذبے سے وہ کبھی پراپیگنڈا پر مبنی تحریر بھی لکھ مارتے ہیں۔پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین کا ذہنی سانچہ ایسا ہوتا ہے کہ ان کے قلم سے علمی تحریر کا صدور بہت مشکل ہوتا ہے۔

تحریروں سے متعلق یہ تفصیلات دیگر اصناف سخن جیسے ناول، فلم، ڈرامہ، دستاویزی پروگرام، ٹالک شو وغیرہ سبھی کے لیے درست  ہیں تاہم ان اصناف سخن میں علمی نوعیت کی چیزیں کم ہی ملیں گی اور زیادہ تر پراپیگنڈا پر مبنی ناول، فلمیں، ڈرامے، ٹالک شو اور حتی کہ دستاویزی پروگرام نمایاں ہوں گے۔

ان تفصیلات کی بنیاد پر چند مشورے  آپ کے پیش خدمت ہیں۔

۔۔۔۔۔۔ جب آپ کوئی کتاب یا آرٹیکل پڑھنا چاہیں تو اسے تھوڑا سا پڑھ کر یہ فیصلہ کرنے کی کوشش کیجیے کہ یہ علمی تحریر ہے یا پراپیگنڈا پر مبنی تحریر۔

۔۔۔۔۔۔ کوشش کیجیے کہ زیادہ تر علمی تحریریں پڑھیے اور پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں پر اپنا قیمتی وقت ضائع مت کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ اگر کسی موضوع پر آپ کو علمی تحریریں نہ ملیں اور صرف پراپیگنڈا پر مبنی تحریریں دستیاب ہوں تو پھر کوشش کیجیے کہ مختلف نقطہ نظر رکھنے والی کوئی تحریر بھی تلاش کیجیے اور دونوں جانب کا نقطہ نظر پڑھ کر ہی کوئی رائے قائم کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کا تجزیہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیے کہ انہی دلائل پر توجہ دیجیے جن کے درست ہونے کو آپ پرکھ سکیں۔ پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین عام طور پر بڑے طمطراق سے ایسے دلائل پیش کرتے ہیں جن کے درست ہونے کو پرکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً اخباروں میں سیاسی اور عسکری موضوعات پر آپ کو عینی شاہدین کے بیانات یا انٹیلی جنس رپورٹوں کا ذکر ملتا ہے۔ یہ وہ دلائل ہوتے ہیں، جنہیں پرکھنا ایک عام قاری کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ان پر اپنے نقطہ نظر کی بنیاد نہ رکھیے۔ اپنا نظریہ انہی دلائل کی بنیاد پر بنائیے، جنہیں پرکھنا آپ کے لیے ممکن ہو۔ غلط نظریہ اپنا لینے سے بہتر ہے کہ آپ کوئی نظریہ نہ اپنائیں۔

۔۔۔۔۔۔ جب بھی آپ خود کوئی تحریر لکھنے بیٹھیں تو کوشش کیجیے کہ علمی انداز ہی میں لکھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عقل مند قارئین، پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین کے ناموں کے گرد اپنے ذہن میں سرخ دائرہ لگا لیتے ہیں اور پھر وہ مصنف ہمیشہ کے لیے  اپنی ساکھ کھو بیٹھتا ہے۔

ذاتی طور پر میری کوشش ہوتی ہے کہ علمی انداز میں لکھا جائے تاہم کبھی کبھار قلم سے ایسے جملے نکل جاتے ہیں جو پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ آپ سے میری گزارش ہے کہ اگر میری تحریروں میں آپ کو اس نوعیت کے جملے ملیں تو ضرور توجہ دلائیے تاکہ ان کی اصلاح کی جا سکے۔ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔

(مصنف: محمد مبشر نذیر)

اپنے خیالات اور تجربات شیئر کرنے کے لئے ای میل بھیجیے۔ اگر آپ کو تعمیر شخصیت سے متعلق کوئی مسئلہ درپیش ہو تو بلاتکلف ای میل کیجیے۔ 
mubashirnazir100@gmail.com

غور فرمائیے

۔۔۔۔۔۔ علمی تحریروں اور پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کے مصنفین کا نفسیاتی تجزیہ کیجیے۔ اس بات کا جائزہ لیجیے کہ دونوں قسم کے مصنفین کی سوچ کیسی ہوتی ہے؟

۔۔۔۔۔۔ آپ نے اب تک جو مطالعہ کیا ہے، ان میں سے تین ایسی تحریروں کی نشاندہی کیجیے جو آپ کے خیال میں علمی ہوں۔ اسی طرح تین ایسی تحریروں کی نشاندہی کیجیے جو پراپیگنڈا پر مبنی ہوں۔

۔۔۔۔۔۔ آپ پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کو کیسے پہچان سکتے ہیں؟ کوئی سی تین علامات بیان کیجیے۔

۔۔۔۔۔۔ پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں کو پڑھنے کا آپ کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟

۔۔۔۔۔۔ اردو زبان کی زیادہ تر تحریریں پراپیگنڈا پر مبنی ہیں یا علمی نوعیت کی ہیں؟ اپنے مطالعے کی بنیاد پر جواب دیجیے۔

علوم القرآن کے ذریعے تعمیر شخصیت لیکچرز

علمی اور پراپیگنڈا پر مبنی تحریروں میں فرق
Scroll to top