رویت ہلال کا مسئلہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

چونکہ پوری دنیا کا چاند ایک ہے، مگر وہ طویل فاصلوں اور موسم کی تبدیلیوں کی وجہ سے مختلف ممالک میں مختلف وقت یا دن میں دکھائی دیتا ہے۔ تو اس معاملے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ آیا کیا شریعت کی رو سے پوری دنیا میں عید ایک ہی دن ہوتی ہے، اگر ہاں تو کس جگہ کا اعتبار کیا جائے گا؟ سعودیہ یا پھر انڈونیشیا کا؟ اگر نہیں تو کیا دنیا میں مختلف علاقوں میں الگ الگ دن بھی عید ہو سکتی ہے؟ علاقوں کے فاصلوں اور موسموں کی تبدیلیوں کی بنیاد پر؟ اور اگر ایک ہی علاقے کے لوگ بھی الگ الگ دن عید منا سکتے ہیں؟

عبدالروؤف

دبئی

مئی 2011

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

پہلے تو یہ بات سمجھ لیجیے کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جو کمیونی کیشن کے انقلاب سے پیدا ہوا ہے۔ اس وجہ سے اس میں رائے کا اختلاف ممکن ہے اور قرآن و حدیث کی بنیاد پر حتمی بات کہنا مشکل کام ہے۔

موجودہ دور سے پہلے تیرہ صدیوں تک مسلمانوں کے ہاں رواج یہ رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں چاند دیکھ کر مہینے کا آغاز کرتے تھے۔ نظر آ گیا تو سابق مہینہ 29  دن کا ورنہ 30 دن کا۔ ایک روایت میں یہ ہے کہ ایک صحابی شام گئے ہوئے تھے اور وہاں کی رویت کے اعتبار سے انہوں نے روزے رکھنا شروع کیے اور رمضان کے دوران ہی مدینہ آ گئے۔ یہاں رمضان کا آغاز اگلے دن سے ہوا تھا۔ انہوں نے صحابہ کو یہ بات بتائی۔ سب نے حیرت کا اظہار کیا مگر روزے انہوں نے اپنی رویت کے اعتبار ہی سے رکھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے لیے رویت کی اطلاع پہنچانا ممکن نہ تھا۔

موجودہ دور میں کمیونی کیشن کے انقلاب کے بعد جب اطلاع پہنچانا محض چند سیکنڈ کا کام رہ گیا تو موجودہ دور میں بعض لوگوں کی خواہش ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی دن رمضان اور عید ہوں تاکہ مسلمانوں میں وحدت کا مظاہرہ ہو سکے۔ خواہش تو اچھی ہے لیکن اگر رویت کو بنیاد بنایا جائے تو عملاً ایسا ممکن نہیں ہے۔ چاند عموماً ان ممالک میں پہلے نظر آتا ہے جو ایک خاص زاویے پر واقع ہیں۔ فرض کیجیے کہ امریکہ میں اگر سات بجے شام کو چاند نظر آیا تو آسٹریلیا میں اس وقت اگلے دن دوپہر کا وقت ہو گا۔ ایسی صورت میں نہ تو ایک ساتھ سب روزہ رکھ سکتے ہیں اور نہ عید منا سکتے ہیں۔

ایک دن عید منانے کی اس خواہش کے عملی حل کی ایک صورت ہے اور وہ یہ ہے کہ حقیقی رویت کو معیار بنانے کی بجائے چاند کی حرکت کی کیلکولیشنز کی مدد سے مہینے کا آغاز اور اختتام مان لیا جائے۔ اس میں مسئلہ دراصل ایک حدیث ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔ جو علماء اس حدیث کو حقیقی معنوں میں لیتے ہیں، وہ یہ بات لازم سمجھتے ہیں کہ رویت ہی کی بنیاد پر مہینے کا آغاز ہو۔ علماء کا ایک اقلیتی گروہ اس حدیث کو مجازی معنی میں لیتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ روزے اور عید کا حساب چاند کے اعتبار سے ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ چاند کی کیلکولیشنز کی مدد سے بھی حدیث کا مدعا پورا ہو جاتا ہے اور اس طریقے سے روزہ رکھنے والا یا عید کرنے والا بھی حدیث ہی پر عمل کر رہا ہوتا ہے۔

میرا نقطہ نظر اس ضمن میں وہی ہے جو اکثریت کا نقطہ نظر ہے کہ چاند دیکھ کر ہی مہینے کا آغاز کرنا چاہیے۔ تاہم اقلیتی نقطہ نظر بھی کمزور نہیں ہے۔

والسلام

محمد مبشر نذیر

Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

رویت ہلال کا مسئلہ
Scroll to top