کیا اسلام میں غلام کا فرار ہونا حرام ہے؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

فقہاء کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ایک مسلمان غلام کے لئے فرار ہو کر اپنے مالک سے چھٹکارا پانا جائز نہیں ہے۔ وہ اسے گناہ کبیرہ قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے۔

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة. حدثنا حفص بن غياث، عن داود، عن الشعبي، عن جرير؛ قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:  "أيما عبد أبق فقد برئت منه الذمة". (مسلم، کتاب الايمان، حديث 229)

سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، جو غلام بھی فرار ہو جائے، وہ ذمہ داری سے نکل گیا۔

حدثنا يحيى بن يحيى. أخبرنا جرير عن مغيرة، عن الشعبي؛ قال:  كان جرير بن عبدالله يحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا أبق العبد لم تقبل له صلاة". (مسلم، کتاب الايمان، حديث 230)

سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، جب غلام فرار ہو جائے تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔

یہ صحیح احادیث ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے غلاموں کو آزاد کرنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کرنے کے جو احکام جاری فرمائے تھے، اس کے بعد کسی غلام کو فرار ہونے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جو غلام آزادی کا طالب ہوتا، وہ اپنے آقا سے مکاتبت کر سکتا تھا اور اس کی رقم کی ادائیگی کے لئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے مدد طلب کر سکتا تھا۔ جس غلام کو آزادی کی خواہش نہ ہوتی، اس کے حقوق کی ادائیگی اس کے آقا کے ذمہ تھی۔ حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ غلاموں کو ان کے حقوق دلوائے۔

          ان حالات میں غلام اگر فرار ہوتا تو اس کا اس کے سوا اور کوئی معنی نہ تھا کہ وہ مسلم کمیونٹی میں رہنا نہیں چاہتا۔ ایسی صورت میں مسلم کمیونٹی اس کی ذمہ داریوں کی پابند کس طرح سے ہو سکتی ہے۔ اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو غلام کے لئے فرار ہونے کی یہ ممانعت بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔

          اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی غلام کسی ایسے معاشرے میں موجود ہو، جہاں اس کا آقا اس پر ظلم کے پہاڑ توڑتا ہو اور حکومت اس ضمن میں اس کی کوئی مدد کرنے کو تیار نہ ہو تو کیا اس غلام کے لئے فرار ہونا بھی حرام ہو گا؟ اس کا جواب بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی سیرت سے مل جاتا ہے۔ آپ کے عہد میں اپنے آقاؤں کے ظلم و ستم کے ستائے ہوئے غلام جب فرار ہو کر مدینہ آ جایا کرتے تھے تو انہیں نہ صرف مسلم معاشرے میں قبول کر لیا جاتا تھا بلکہ انہیں فوراً ہی آزادی دے دی جاتی تھی اور ان کی ولاء کا تعلق خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے قائم کیا جاتا تھا۔

حدثنا إبراهيم بن موسى: أخبرنا هشام، عن ابن جريج، وقال عطاء، عن ابن عباس: كان المشركون على منزلتين من النبي صلى الله عليه وسلم والمؤمنين: كانوا مشركي أهل حرب، يقاتلهم ويقاتلونه، ومشركي أهل عهد، لا يقاتلهم ولا يقاتلونه، وكان إذا هاجرت امرأة من أهل الحرب لم تخطب حتى تحيض وتطهر، فإذا طهرت حل لها النكاح، فإن هاجر زوجها قبل أن تنكح ردت إليه، وأن هاجر عبد منهم أو أمة فهما حران ولهما ما للمهاجرين، ثم ذكر من أهل العهد مثل حديث مجاهد: وأن هاجر عبد أو أمة للمشركين أهل عهد لم يردوا، وردت أثمانهم. (بخاری، کتاب النکاح، حديث 5286)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اور مومنین کا مشرکین سے معاملہ دو طرح کا تھا۔ بعض مشرکین اہل حرب تھے۔ وہ مسلمانوں سے جنگ کرتے اور مسلمان ان سے جنگ کرتے۔ دوسری قسم کے مشرکین اہل عہد تھے۔ نہ تو وہ مسلمانوں سے جنگ کرتے اور نہ ہی مسلمان ان سے جنگ کرتے۔ اگر اہل حرب کی کوئی خاتون (مسلمان ہو کر) ہجرت کرتیں تو انہیں حیض آنے اور پھر پاک ہونے تک نکاح کا پیغام نہ بھیجا جاتا تھا۔ جب وہ پاک ہو جاتیں تو ان کے لئے نکاح کرنا جائز ہو جاتا تھا۔ اگر نکاح کرنے سے پہلے ان کا خاوند بھی (مسلمان ہو کر) ہجرت کر کے آ پہنچتا تو ان کا رشتہ برقرار رکھا جاتا۔

اگر اہل حرب کے کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آ جاتے تو انہیں آزاد قرار دے دیا جاتا اور ان کا درجہ مہاجرین کے برابر ہوتا۔۔۔۔اور اگر اہل عہد کے کوئی غلام یا لونڈی ہجرت کر کے آ جاتے تو انہیں واپس لوٹایا نہ جاتا لیکن ان کی قیمت ان کے مالکان کو بھیج دی جاتی۔

اسی اصول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے صلح حدیبیہ کے موقع پر صلح کا معاہدہ طے پا جانے سے پہلے آنے والے دو غلاموں کو آزادی عطا فرمائی۔

حدثنا عبد العزيز بن يحيى الحرَّاني، قال: حدثني محمد يعني ابن سلمة عن محمد بن إسحاق، عن أبان بن صالح، عن منصور بن المعتمر، عن رِبْعيِّ بن حِرَاش، عن عليّ بن أبي طالب قال: خرج عِبْدَانٌ إلى رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم يعني يوم الحديبية قبل الصلح، فكتب إليه مواليهم فقالوا: يامحمد، واللّه ما خرجوا إليك رغبة في دينك، وإنما خرجوا هرباً من الرِّق، فقال ناس: صدقوا يارسول اللّه رُدَّهم إليهم، فغضب رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم وقال: "ما أراكم تنتهون يا معشر قريشٍ حتى يبعث اللّه [عزوجل] عليكم من يضرب رقابكم على هذا" وأبى أن يردَّهم، وقال: "هم عتقاء اللّه عزوجل". (ابو داؤد، کتاب الجهاد، حديث 2700)

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حدیبیہ کے دن صلح سے پہلے (اہل مکہ کے) دو غلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے پاس آ گئے۔ ان کے مالکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو خط لکھا اور کہا، اے محمد! خدا کی قسم یہ آپ کے دین سے رغبت کے باعث آپ کے پاس نہیں آئے۔ یہ تو محض آزادی حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس آئے ہیں۔

لوگ کہنے لگے، یا رسول اللہ! ان کے مالک درست کہہ رہے ہیں۔ آپ انہیں واپس بھجوا دیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم اس بات پر سخت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے، اے گروہ قریش! میں سمجھتا ہوں کہ تم اس کام (یعنی غلامی کو برقرار رکھنے) سے اس وقت تک باز نہ آؤ گے جب تک کہ اللہ عزوجل تمہاری طرف کسی ایسے کو نہ بھیجے جو تمہاری گردنوں پر ضرب لگائے۔ آپ نے انہیں واپس کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا، وہ اللہ عزوجل کی رضا کے لئے آزاد ہیں۔

اسی اصول پر آپ نے طائف کے محاصرے کے وقت اعلان فرما دیا تھا کہ اہل طائف کے غلاموں میں سے جو آزادی کا طالب ہو، وہ ہماری طرف آ جائے۔

حدثنا عبد الله حدثني أبي حدثنا يحيى بن زكريا حدثنا الحجاج عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس قال: لما حاصر رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل الطائف أعتق من رقيقهم. (مسند احمد، باب عبدالله بن عباس، مصنف ابن ابی شيبة، حديث 34283)

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا تو ان کے غلاموں میں سے (ان غلاموں کو جو مسلمانوں کی طرف آ گئے تھے) آزاد فرما دیا۔

مشہور مستشرق ولیم میور اس اعلان کے بارے میں لکھتے ہیں۔

آپ نے محصورین کے پاس ایک اعلان بھیجا جس سے وہ لوگ بہت ناراض ہوئے۔ اس اعلان کا مضمون یہ تھا کہ اگر شہر سے کوئی غلام ہمارے پاس آئے گا تو اسے آزاد کر دیا جائے گا۔ تقریباً بیس غلاموں نے اس اعلان سے فائدہ اٹھایا اور وہ اپنے آزادی دینے والے کے سچے اور بہادر پیرو ثابت ہوئے۔

(ولیم میور، The Life of Mohamet)

اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ غلام کے فرار ہونے کی حرمت صرف اسی صورت میں ہے جب وہ ایسے معاشرے میں موجود ہو جہاں اس کی آزادی کے قانونی راستے کھلے ہوئے ہوں اور اس پر ظلم و ستم نہ کیا جاتا ہو۔

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا اسلام میں غلام کا فرار ہونا حرام ہے؟
Scroll to top