کیا غلام کے بچے بھی غلام ہی ہوں گے؟

حصہ ششم: اسلام اور غلامی سے متعلق جدید ذہن کے شبہات

اس ضمن میں تفصیلی بحث ہم باب 10 میں کر چکے ہیں۔ یہاں ہم اسی تفصیل کو دوبارہ درج کر رہے ہیں۔ اسلام سے پہلے دنیا بھر میں یہ دستور رائج تھا کہ غلاموں کی آئندہ نسلیں بھی غلام ہوں گی۔ دنیا کے تمام خطوں میں غلاموں کو عام طور پر شادی کی اجازت بھی اسی وجہ سے دی جاتی تھی کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے غلاموں کی فوج میں اضافہ کر سکیں گے۔ لونڈیوں سے عصمت فروشی کروانے کا مالکوں کو ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ اس کے نتیجے میں ان کے پاس لونڈیوں کی ناجائز اولاد کی صورت میں مزید غلام میسر آ جاتے۔ ان غلاموں کا کوئی متعین باپ بھی نہ ہوا کرتا جو ان کی آزادی کی کوشش کر سکتا۔

ظہور اسلام کے وقت غلاموں کی اولاد کی جو اقسام دور جاہلیت سے چلی آ رہی تھیں، وہ یہ تھیں۔

۔۔۔۔۔۔ آقاؤں کے اپنی لونڈیوں سے پیدا ہونے والے بچے

۔۔۔۔۔۔ آزاد خواتین کے غلام شوہروں سے پیدا ہونے والے بچے

۔۔۔۔۔۔ لونڈیوں کے اپنے آزاد خاوندوں سے پیدا ہونے والے بچے

۔۔۔۔۔۔ غلام باپ اور کنیز ماں کے بچے

دور جاہلیت میں ان میں سے ہر قسم کے بچوں کو بالعموم غلام ہی سمجھا جاتا تھا۔ ان میں سے ان بچوں کی حالت نسبتاً بہتر تھی جو آقا اور لونڈی کے ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں لیکن یہ بھی اپنے ان سوتیلے بہن بھائیوں کی نسبت کمتر درجے کے حامل ہوا کرتے تھے جو ان کے باپ اور ایک آزاد عورت کے ازدواجی تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہوں۔ ان بچوں کے حقوق وراثت وغیرہ کے معاملات میں اپنے آزاد بہن بھائیوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر تھے۔

          اسلام نے ان بچوں سے متعلق جو اصلاحات کیں، ان کے مطابق آقا اور لونڈی کے تعلق سے پیدا ہونے والے بچوں کو مکمل طور پر آزاد اور اپنے سوتیلے بہن بھائیوں کے ہم پلہ قرار دیا۔ انہیں وراثت میں بھی وہی حقوق دیے گئے جو ان کے بہن بھائیوں کو حاصل تھے۔ نہ صرف اولاد بلکہ اس اولاد کی کنیز ماں کے خود بخود آزاد ہو جانے کا قانون بنا دیا گیا جس کی تفصیل ہم ام ولد کے عنوان کے تحت بیان کر چکے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ ان بچوں کے ساتھ کیا گیا جن کا باپ غلام اور ماں آزاد ہو۔ ان بچوں کو بھی مکمل طور پر آزاد قرار دے دیا گیا۔

          ابن تیمیہ، امام احمد بن حنبل کا یہ نقطہ نظر بیان کرتے ہیں کہ آزاد ماں اور غلام باپ کے بچے بھی آزاد ہی ہوں گے۔

قال أحمد : إذا تزوج العبد حرة عتق نصفه . ومعنى هذا ، أن أولاده يكونون أحراراً وهم فرعه ، فالأصل عبد وفرعه حر والفرع جزء من الأصل .‏ (ابن تیمیہ، السیاسۃ الشرعیۃ فی اصلاح الراعی و الرعیۃ)

احمد بن حنبل کہتے ہیں، جب کوئی غلام کسی آزاد خاتون سے شادی کر لے تو اس کا نصف آزاد ہو گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس غلام کی اولاد آزاد ہو گئی کیونکہ وہ اسی کی ایک شاخ ہے۔ تنا تو غلام ہے لیکن شاخیں آزاد ہیں اور شاخ تو تنے کا ایک حصہ ہی ہے۔

ایسے بچے جن کی ماں غلام اور باپ آزاد ہو تو ان کے ضمن میں کوئی مرفوع حدیث ہمیں نہیں مل سکی۔ اس کی وجہ بنیادی طور پر یہ رہی ہو گی کہ ایسا کوئی مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں پیش ہی نہ ہوا ہو گا۔ اول تو ایسے جوڑوں کی تعداد ہی بہت کم تھی جن میں سے ایک غلام اور ایک آزاد ہو۔ دوسرے یہ کہ جو ایسے جوڑے ہوں گے بھی، انہوں نے اپنے مالکان کو بچوں کی آزادی پر راضی کر لیا ہو گا اور عدالت میں مقدمے کی نوبت ہی نہ آئی ہو گی۔

          سیدنا عمر یا عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا جس میں ایک لونڈی نے جھوٹ بول کر خود کو آزاد عورت ظاہر کر کے شادی کر لی۔ اس مقدمے میں خلیفہ وقت نے ان بچوں کے آزاد باپ کو حکم دیا کہ وہ فدیہ ادا کر کے اپنے بچوں کو آزاد کروا لے۔ (موطاء مالک، کتاب الاقضیۃ، حدیث 2160)۔ ایک اور مقدمہ سیدنا عبداللہ بن مسعود یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کے پاس پیش کیا گیا تو انہوں نے ایسے بچوں کو غلام بنانے سے منع فرما دیا۔

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ وَسُفْيَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنِ الْمُسْتَوْرِدِ بْنِ الأَحْنَفِ ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إلَى عَبْدِ اللهِ فَقَالَ : إنَّ عَمِّي زَوَّجَنِي وَلِيدَتَهُ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَسْتَرِقَّ وَلَدِي ، قَالَ : لَيْسَ لَهُ ذَلِكَ.  (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 21277)

ایک شخص عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا، میرے چچا نے اپنی لونڈی کی شادی مجھ سے کر دی تھی۔ اب وہ میری اولاد کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا، ایسا نہیں ہو سکتا۔

ابن کثیر نے امام شافعی کا ایک نقطہ نظر یہ درج کیا ہے کہ ماں یا باپ میں سے اگر ایک بھی آزاد ہو تو ان کے بچے بھی آزاد ہی تصور کئے جائیں گے۔ (تفسیر سورۃ نساء 4:25)

رہے وہ بچے جن کے ماں اور باپ دونوں ہی غلام ہوں، ان کے بارے میں بھی ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی کوئی حدیث نہیں مل سکی۔ تفسیر و فقہ کی کتب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے تابع ہی ہوں گے۔ جب تک ان کے والدین غلام رہیں گے، یہ بچے بھی غلام ہی تصور کئے جائیں گے اور جب والدین آزاد ہوں گے یا ان میں سے کوئی مکاتبت کرے گا تو یہ بچے خود بخود ان کے ساتھ ہی آزاد ہو جائیں گے۔ اگر والدین میں سے ایک آزاد اور ایک غلام ہو تو اعتبار ماں کا کیا جائے گا۔

حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنِ الْعُمَرِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : وَلَدُ أُمِّ الْوَلَدِ بِمَنْزِلَتِهَا.  (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 21000)

نافع کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، لونڈی کی (اپنے مالک کے علاوہ اولاد) اپنی ماں کے درجے پر ہے (یعنی وہ ماں کے ساتھ ہی آزاد ہو جائے گی۔)

حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إبْرَاهِيمَ ؛ فِي الرَّجُلِ يُزَوِّجُ أُمَّ وَلَدِهِ عَبْدَهُ فَتَلِدُ لَهُ أَوْلاَدًا ، قَالَ : هُمْ بِمَنْزِلَةِ أُمِّهِمْ ، يَعْتِقُونَ بِعِتْقِهَا وَيُرَقُّونَ بِرِقِّهَا ، فَإِذَا مَاتَ سَيِّدُهُمْ عَتَقُوا.  (مصنف ابن ابی شيبة؛ حديث 20996)

(تابعی عالم) ابراہیم نخعی نے ایسی صورت کے بارے میں فتوی دیا جس میں ایک شخص نے اپنی ام ولد کی شادی اپنے غلام سے کر دی تھی اور پھر اس غلام میں سے اس کی اولاد بھی پیدا ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا، وہ اپنی ماں کے درجے پر ہوں گے۔ جب تک وہ غلامی کی حالت میں رہے گی، یہ بھی غلام رہیں گے اور جب وہ مکمل آزاد ہو جائے گی تو یہ بھی آزاد ہو جائیں گے۔ جب ماں کا آقا فوت ہو گا تو یہ سب کے سب آزاد ہو جائیں گے۔

اس معاملے میں بھی کسی مرفوع حدیث کے نہ پائے جانے کا سبب بنیادی طور پر یہی ہے کہ ایسا کوئی واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں پیش نہیں آیا جس میں کسی غلام یا لونڈی کے مالک نے ان کے بچوں کو آزاد کرنے سے انکار کیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر اس اصول کو مان لیا گیا ہے کہ غلاموں کے نابالغ بچے اپنے والدین کے تابع ہی ہوں گے۔ اگر ان بچوں کے بالغ ہونے سے پہلے ان کے والدین آزاد نہیں ہو پاتے، جس کا امکان عہد رسالت میں بہت ہی کم تھا،  تو ان بچوں کو خود یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ یہ مکاتبت کے ذریعے اپنی آزادی خرید سکیں۔

          غلاموں کے بچوں کو اپنے والدین کی حالت پر برقرار رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اگر انہیں پیدائش کے وقت سے ہی آزاد کر دیا جاتا تو ان کی کفالت کا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ ان بچوں کی کفالت ان کے والدین کی کفالت کے ساتھ ساتھ والدین کے آقاؤں کے ذمہ تھی۔ اگر ان بچوں کو پیدائش کے وقت ہی آزاد قرار دے دیا جاتا تو پھر ان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے والدین کے آقاؤں پر کیسے عائد کی جاتی؟ یہی وجہ ہے کہ انہیں اپنے والدین کے تابع ہی رہنے دیا گیا اور بالغ ہونے پر اپنی آزادی خریدنے کا حق انہیں دے دیا گیا۔

حرف آخر

دین اسلام کی تعلیمات کو اگر تفصیل سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام نے جسمانی و ذہنی غلامی کے خاتمے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جس کے اثرات ہمیں قرون اولی میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ بعد کی صدیوں میں کچھ حادثات کی بنا پر مسلمان غلامی کی دلدل میں اترتے چلے گئے۔ موجودہ دور میں اگرچہ جسمانی غلامی کم از کم قانونی طور پر ختم ہو چکی ہے مگر ذہنی و نفسیاتی غلامی کا انسداد ابھی باقی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر قسم کی غلامی کے خاتمے اور اس کے دوبارہ احیاء کو روکنے کی جدوجہد کر سکیں۔

          اس کتاب کا اختتام ہم قرآن مجید کی اسی آیت سے کرتے ہیں جو ہر قسم کی غلامی اور غلامی کی ماں یعنی غربت کے خاتمے کے وژن پر مبنی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔

فَلا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ (11) وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ (12) فَكُّ رَقَبَةٍ (13) أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ (14) يَتِيماً ذَا مَقْرَبَةٍ (15) أَوْ مِسْكِيناً ذَا مَتْرَبَةٍ (16) (البلد 90)

تو اس نے یہ دشوار گھاٹی پار کرنے کی ہمت نہ کی۔ تمہیں کیا معلوم کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے؟ غلاموں کو آزاد کرنا، یا بھوک کے دن  کسی قریبی یتیم یا خاک نشین مسکین کو کھانا کھلانا۔

جب دنیا میں انسانوں کے لئے کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے مثلاً کہیں قحط کی صورتحال پیدا ہو جائے یا کہیں زلزلہ آ جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ اس موقع پر لوگوں کو اس سے بچانا واجب ہے یا مستحب ہے۔ ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی معاملہ موجودہ دور کی غلامی اور غربت کا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص پر اس کی استطاعت کے مطابق اس غیر انسانی صورتحال سے نمٹنا ضروری ہے۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو اللہ تعالی کے ہاں ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی استطاعت کے مطابق دوسرے لوگوں کو غلامی اور غربت سے نکالنے کے لئے کیا کیا؟ اس وقت کی شرمندگی سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ ہم آج ہی جاگ جائیں اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل ہو جائیں۔

          اس کتاب میں ہم نے اسلام اور غلامی سے متعلق ہر پہلو کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں جو سوال بھی پیدا ہوا اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ اگر ان کے ذہن میں اس معاملے میں کوئی بھی سوال پیدا ہو تو وہ مصنف کو ای میل پر لکھ بھیجیں تاکہ اگلی اشاعت میں مزید سوالات کا اضافہ کیا جا سکے۔ اللہ تعالی ہم سبیل کا حامی و ناصر ہو۔

Send your questions to mubashirnazir100@gmail.com.

تعمیر شخصیت لیکچرز

کیا غلام کے بچے بھی غلام ہی ہوں گے؟
Scroll to top