السلام علیکم مبشر صاحب! کیسے ہیں آپ؟ چند سوالات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ آج کل پا کستا ن میں شا رٹ سلیو شر ٹ پہنے کا رواج ہو رہا ہے۔ شارٹ سلیو شرٹ پہن کر نماز پڑ ھنے میں کو ئی حر ج تو نہیں ہے؟
۔۔۔۔۔۔ اسپورٹس جیسے کرکٹ، فٹبا ل دیکھنا کیسا ہے۔ کر کٹ کے با ر ے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ پاکستا نی عو ام بہت شو ق سے دیکھتی ہے، سا ت،آٹھ گھنٹے ٹی وی کے آگے بیٹھے رہتے ہیں کر کٹ، فٹبال وغیرہ کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں اور سعو د ی عر ب کے علما کیا کہتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ تاتاری کون لوگ تھے اور اب کہاں موجود ہیں؟
۔۔۔۔۔۔ یہ کہا جاتا ہے کہ انسان کو بیوی ویسی ہی ملتی ہے جیسا کہ وہ خود ہوتا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
۔۔۔۔۔۔ میں نے دیکھا ہے کہ کسی کو کوئی بات سمجھائی جائے تو وہ بحث پر اتر آتا ہے۔ نصیحت کیسے کی جائے؟
عبداللہ، سیالکوٹ، پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اردو میں میل لکھنے کا شکریہ۔ جوابات یہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ مردوں کے لئے شارٹ سلیو شرٹ پہن کر نماز میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نماز کے لئے اللہ تعالی نے زینت کا حکم دیا ہے جس کا معنی ہے اچھا اور مناسب لباس۔ ٹی شرٹ وغیرہ ہمارے معاشرے میں اب عام ہے اور اسے مناسب لباس ہی سمجھا جاتا ہے، اس وجہ سے اس میں نماز بھی ہو سکتی ہے۔ خواتین کے لئے چونکہ یہ لباس مناسب نہیں ہے، اس وجہ سے انہیں اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔ کرکٹ، فٹبال وغیرہ کے بارے میں سعودی علماء کے نقطہ نظر کا مجھے علم نہیں ہے۔ ان کی کسی ویب سائٹ پر دیکھ لیجیے۔ ویسے سعودی معاشرے میں فٹبال کی وہی اہمیت ہے جو ہمارے ہاں کرکٹ کو حاصل ہے۔ سات آٹھ گھنٹے تک سب کچھ چھوڑ کر میچ دیکھنے رہنے کو تو کوئی بھی عقل مند انسان وقت کا ضیاع ہی کہے گا۔ ہاں دو تین گھنٹے کے میچ کو دیکھنے میں حرج نہیں بشرطیکہ انسان نماز اور دیگر ذمہ داریوں کو نظر انداز نہ کرے اور کسی اخلاقی خرابی جیسے بے حیائی وغیرہ سے بچے۔ فٹبال یا ٹونٹی کرکٹ میں اچھی بات یہ ہے کہ دو تین گھنٹے میں میچ ختم ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔ تاتاری منگولیا کے باشندے تھے جنہوں نے تقریباً پورا وسط ایشیا فتح کر لیا تھا۔ اس کے بعد مسلم اہل علم نے ان سے جنگ کی بجائے دعوت و تبلیغ کی وہ شاندار تاریخ رقم کی جس کے نتیجے میں تاتاریوں کی اکثریت مسلمان ہو گئی۔ روس یا قازقستان میں ایک علاقہ تاتارستان بھی ہے۔ ہمارے ہاں مغل بھی تاتاریوں ہی کی اولاد سے ہیں۔ یہ لوگ اب اچھے مسلمان ہیں۔
۔۔۔۔۔۔ یہ بات نجانے کس نے کہی ہے کہ انسان کو بیوی ویسی ملتی ہے جیسا وہ ہو۔ تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ضروری نہیں ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ انسان کو بیوی ویسی ڈھونڈنی چاہیے جیسا وہ ہے تو پھر بات درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔ بحث برائے بحث نہایت ہی بری عادت ہے۔ اگر انسان کے ذہن میں کوئی جینوئن سوال ہو تو احسن انداز میں افہام و تفہیم کے طریقے پر کرنا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ نصیحت اسی وقت کارآمد ہوتی ہے جب اگلا اسے سننے کی خواہش کا اظہار کرے۔ جب کوئی سننے پر آمادہ نہ ہو تو نصیحت کرنے سے وہ بھڑک اٹھے گا اور بحث شروع کر دے گا۔ اس لئے پہلے کوشش یہ کیجیے کہ وہ سننے پر آمادہ ہو جائے، پھر بحث سے بچا جا سکتا ہے۔
والسلام
محمد مبشر نذیر
Don’t hesitate to share your questions and comments. They will be highly appreciated. I’ll reply ASAP if I know the answer. Send at mubashirnazir100@gmail.com.